Express News:
2025-11-10@15:40:17 GMT

ایران پر امریکی حملے کے اثرات

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

بالآخر اسرائیل اور ایران کے درمیان سیز فائر ہوگیا ہے، لیکن اس جنگ بندی سے دو روز قبل اسرائیل کے اکسانے اور بہکانے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر حملہ کرکے براہ راست اس جنگ میں شامل ہوگئے تھے۔ ایران کی زیر زمین ایٹمی تنصیبات جو نطنز، فردو اور اصفہان میں واقع ہیں پر اپنے B-2 طیاروں سے بنکر بسٹر بم گرائے۔

صدر ٹرمپ کے بقول دنیا کی کوئی اور فوج ایسا نہیں کر سکتی جو ہم نے کیا۔ انھوں نے فوجی کارروائی کو کامیاب قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کے مذکورہ جوہری مقامات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب امن ہوگا یا ایران کے لیے سانحہ ہوگا۔ ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ایران نے امریکی حملے سے ایک روز قبل ہی یورینیم کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا، اس لیے امریکی حملے کو پوری طرح کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری جانب ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے امریکی حملوں کے ردعمل میں کہا تھا کہ امریکا ہمارے جواب کا انتظار کرے اسے سزا بھگتنا پڑے گی۔

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو دن پہلے کہا تھا کہ ہم دو ہفتوں کے اندر فیصلہ کریں گے کہ آیا اپنے اتحادی اسرائیل کا ساتھ دیتے ہوئے ایران پر حملہ کریں یا نہ کریں لیکن انھوں نے جلد بازی میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے مشتعل کرنے پر ایران پر حملہ کرکے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا آغاز کر دیا جس کے تباہ کن نتائج و اثرات سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔ جیساکہ ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آبنائے ہرمز کی ناکہ بندی سے دنیا کو تیل اور گیس کی سپلائی رک جائے گی اور عالمی معیشتیں غیر مستحکم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ تیل و گیس کی عالمی قیمتوں میں نہ صرف اضافہ ہو جائے گا بلکہ توانائی کا بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکا نے نتائج و اثرات کی پروا کیے بغیر ایران پر حملہ کرکے ایک نئے بحران اور کشیدگی کو جنم دے دیا ہے۔ چین، روس، پاکستان، عرب ممالک، او آئی سی اور اقوام متحدہ نے امریکی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بحران کے حل کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ عالمی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ امریکا نے اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے، لیکن امریکا و اسرائیل جنگ سے مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔

ایران پر امریکی حملے سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی امریکا کو جنگ میں ملوث کرنے کی دلی خواہش پوری ہو گئی اسی باعث انھوں نے ٹرمپ کو مبارک باد دیتے ہوئے ان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ 13 جون کو جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اسے یقین تھا کہ ایران اسرائیلی حملوں کی تاب نہیں لا سکے گا اور جلد ہی ڈھیر ہو جائے گا لیکن ایران کے بزرگ رہنما علی خامنہ ای کے حکم پر ایرانی فوج نے اسرائیل پر ایسے خطرناک جوابی حملے کیے کہ اسے اپنی شکست نظر آنے لگی۔ خفت سے بچنے کے لیے نیتن یاہو نے ٹرمپ کو ایران پر حملے کے لیے بھڑکایا۔ ایران پر امریکی حملہ درحقیقت اسرائیل کی شکست ہے اب نیتن یاہو کو ایران کی جنگی برتری اور اپنی شکست کا اعتراف کر لینا چاہیے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران پر حملے کے خلاف امریکا میں مخالفت کی جا رہی ہے اور اسے ٹرمپ کی سیاسی غلطی قرار دیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک بھی پیش کی گئی، لیکن فی الحال بچنے میںکامیاب ہوگئے۔ عوامی اور سیاسی سطح پر ٹرمپ کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جیساکہ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران جاری جنگوں کے خاتمے، امن کے قیام اور کسی نئی جنگ کا آغاز نہ کرنے کے وعدے کیے تھے۔ اب ایران پر حملہ کرکے انھوں نے وعدہ خلافی کی اور اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ امریکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ نے عراق پر امریکی حملے کی مذمت کی تھی اور صدر بش کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ٹرمپ کہتے تھے کہ وہ امریکی وسائل کو جنگوں میں نہیں جھونک سکتے اور اب خود ایران پر حملہ کرکے امریکا کو نئی جنگ کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ ویت نام سے لے کر افغانستان تک امریکا کو کسی جنگ میں من چاہی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ہر جنگ کا خاتمہ مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے خاتمے میں صدر ٹرمپ ہی نے مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے خطے کو امکانی ایٹمی جنگ سے بچایا۔ دنیا بھر میں صدر ٹرمپ کے کردارکی تحسین کی گئی اور پاکستان نے سرکاری سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے امن کے نوبیل پرائز کی سفارش کا حیران کن فیصلہ کیا ۔ ٹرمپ فلسطینیوں پر اسرائیلی بربریت رکوانے میں ناکام رہے، یوکرین جنگ اب بھی جاری ہے، تنازعہ کشمیر حل نہیں کروا سکے اور اب ایران پر حملہ کر کے اس کی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ مبصرین و تجزیہ نگار سوال اٹھا رہے ہیں کہ محض پاک بھارت جنگ رکوانے پر صدر ٹرمپ امن کے نوبیل پرائز کے حق دار قرار دیے جاسکتے ہیں؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایران پر حملہ کرکے ایران پر حملہ کر امریکی حملے ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو پر امریکی انھوں نے کہ ایران ایران کے ٹرمپ کے تھا کہ کر دیا کے لیے

پڑھیں:

بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ

امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں یہ بات تو کسی تردد کے بغیر کہی جا سکتی ہے کہ امریکا کی تاریخ میں ان جیسا صدر نہیں گزرا۔ امریکا کے اندر اور دنیا بھر میں سیاسی تجزیہ نگار اور مبصرین ان کے رویے اور بیانات پر حیران ہیں۔

امریکا میں تاثر عام ہے کہ صدر جھوٹ بولنے میں بلا کی مہارت رکھتے ہیں اور اس پر نادم بھی نہیں ہوتے۔ امریکا کے ایک مقبول اور ممتاز صدر آئزن ہاور کہا کرتے تھے کہ امریکا کے صدر کے پاس جو سب سے موثر ہتھیار ہے، وہ لوگوں کا اس کے منہ سے نکلی ہر بات پر اعتبار ہے۔ یہاں ٹرمپ کے معاملے میں صورت یہ ہے کہ ان کے منہ سے نکلے الفاظ کا اعتبار یہ بات طے کرتی ہے کہ وہ الفاظ کس کے بارے میں کہے گئے ہیں۔

آیا وہ دوست ہے یا دشمن‘ اپنی جماعت کا ہے کہ مخالف پارٹی کا۔ گو کہ صدر ٹرمپ کی اس طرح کی باتیں ایک عالمی طاقت کے سربراہ کو زیب نہیں دیتیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ان کی کہی ہوئی اکثر باتیں مزاحیہ پن کا شاہکار ہوتی ہیں اور سننے والا ان سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر اپنے عرصہ صدارت کے آغاز میں انھوں نے امریکا کے ایک مقبول ٹیلی ویژن ہوسٹ ’جو ساربروہ‘ کو قاتل قرار دے دیا۔

انتخابات ابھی ہوئے نہیں تھے لیکن ٹرمپ انھیں ’’عنقریب ہونے والے دھاندلی زدہ الیکشن‘‘ کہا کرتے تھے۔ پھر انھوں نے الزام لگا دیا کہ صدر اوباما ان کی انتخابی مہم کی جاسوسی کروا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے شاید امریکی تاریخ میں پیش آنے والے واٹر گیٹ اسکینڈل‘ کا تصور ہو جب امریکی صدر نکسن کو مخالف جماعت کی جاسوسی پر اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ ایک ایسے وقت پر جب دنیا کورونا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں تھی اور امریکا میں ہزاروں لوگ اس وباء کا شکار ہو کر ہلاک ہو رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا ’’صرف وہی ڈیموکریٹ ایک اچھا ڈیموکریٹ ہے جو وفات پا چکا ہو‘‘۔ڈیمو کریٹ سے مراد مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا بندہ۔

"The only good democrat is a dead democrat" یہ بلاشبہ ایک سفاکانہ تبصرہ ہے۔

صدر ٹرمپ کا ایک اور ’’امتیاز‘‘ یہ ہے کہ آپ ان کی اگلی بات یا عمل کی پیشگوئی نہیں کر سکتے۔ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے ہی قائم کردہ کسی تاثر کے بالکل الٹ حرکت یا فیصلہ کر دیں۔ ابھی حال ہی میں جب فلسطین کے معاملے پر اہم مسلم ممالک کے سربراہان صدر ٹرمپ سے ملاقاتیں کر رہے تھے تو ترکی کے صدر اردوان سے ون ٹو ون ملاقات کے موقع پر دونوں صدور ساتھ ساتھ بیٹھ کر پریس سے مخاطب تھے۔

صدر ٹرمپ نے بات شروع کرتے ہوئے کہا ’’صدر اردوان میرے قریبی دوست ہیں۔ گزشتہ چار برس سے ہم ایک دوسرے کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ جب مجھے ایک دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے سیاست سے دیس نکالا دے دیا گیا‘‘ … یہاں ٹرمپ ڈرامائی انداز میں رکتے ہیں اور صدر اردوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’دھاندلی زدہ الیکشن کے بارے میں آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔‘‘حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت بھی صدر ٹرمپ کی گفتگو کا خاص موضوع رہے‘ بالخصوص دونوں ملکوں میں ہونے والی 4 روزہ جنگ پر صدر ٹرمپ نے بہت دلچسپ تبصرے کیے۔ پہلے تو انھوں نے جنگ رکوانے کو اپنا کارنامہ قرار دیا اور ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو دنیا بڑے خطرے سے دوچار ہو جاتی۔

دو روز قبل میامی میں امریکن بزنس فورم سے خطاب میں انھوں نے کہا ’’گزشتہ آٹھ مہینوں میں‘ میں نے آٹھ جنگیں ختم کروائی ہیں‘‘۔ ان میں سے آخری جنگ پاکستان اور بھارت کی تھی۔ پھر فرمایا ’’میں دونوں ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدے کے قریب تھا کہ ایک اخبار کی شہہ سرخی میں دونوں ملکوں کی جنگ کی خبر تھی‘ اخبار کا نام نہیں لوں گا کیونکہ یہ اکثر جھوٹی خبریں چھاپتا ہے‘ پھر پتہ چلا کہ واقعی جنگ ہو رہی ہے۔ آٹھ طیارے…سات طیارے تو گرا دیے گئے۔ آٹھواں شدید زخمی تھا … یہی کہنا بنتا کہ آٹھ طیارے گرے۔‘‘ اور پھر انھوں نے وہی بات دھرائی کہ میں نے دونوں ملکوں سے کہا کہ جنگ کرو گے تو تجارتی معاہدہ نہیں ہو گا۔

ان دنوں انھوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کی سُبکی کا کوئی موقع نہیں جانے دیا اور پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ حتی کہ اس تاثر کے زیر اثر نریندر مودی نے ٹرمپ کے سامنے نہ آنے کی شعوری کوشش شروع کر دی۔ لیکن کہانی میں اب ایک اور ڈرامائی موڑ آ چکا ہے۔ امریکا اور بھارت کے درمیان عسکری تعاون کا دس سالہ معاہدہ ہو گیا ہے۔

دونوں ملکوں کے وزراء دفاع نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ ایسے وقت ہوا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملات کو طے کرنے کے لیے بات چیت آخری مراحل میں ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکا کی طرف سے بھارت پر بھاری محصولات عائد کرنے کا معاملہ بھی بھارت کی سہولت کے مطابق طے پا جائے گا۔

صدر ٹرمپ کی ان ڈرامائی حرکتوں سے ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکا سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کی دوڑ شروع کرانا چاہتے ہیں۔ طیارے گرنے کے بار بار ذکر کے بعد اب امریکا بھارت معاہدے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ بھارت کو امریکی اسلحے تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے اور اس کے لیے جدید ترین امریکی طیارے F-35 ملنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔

اسی طرح امریکا کی کوشش ہو گی کہ اسلحہ کے لیے بھارت کے روس پر انحصار کو ختم کرا دے۔ نئی صورتحال میں پاکستان اور چین کے لیے پیغام ہے کہ خطے میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے بھارت پر امریکی انحصار کا تصور برقرار ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ امریکی مفاد میں کسی نئی جنگ یا محاذ آرائی کا حصہ نہ بنے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: پولیو ورکر پر حملے کا واقعہ، خاتون اور اس کے بیٹوں کے خلاف ایف آئی آر درج
  • ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملے میں ملوث دوسرا ملزم افغان دہشت گرد نکلا
  • جو بائیڈن بدترین صدر، کرپٹ انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئے: ٹرمپ
  • کوئٹہ ایف سی حملہ، خودکش بمبار افغان دہشت گرد نکلا
  • ایف سی ہیڈکوارٹر کوئٹہ پردوسرے خودکش حملہ آور کی شناخت ہوگئی
  • فرنٹیئر کور ہیڈکوارٹر کوئٹہ پر ہونے والے خودکش حملے میں ملوث دوسرے حملہ آور کی شناخت ہوگئی
  • غزہ پر حملے کی قانونی حیثیت کیا ہے، اسرائیلی فوج کے وکلا سر پکڑ کے بیٹھ گئے
  • میں ایران پر اسرائیلی حملے کا انچارج تھا،ٹرمپ
  • بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ
  • بھارت اور اسرائیل کا پاکستان کے ایٹمی مرکز پر حملے کا خفیہ منصوبہ کیا تھا؟ سابق سی آئی اے افسر کا انکشاف