ایران: اسرائیل تنازع کے تناظر میں گرفتاریوں اور پھانسیوں کا سلسلہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جون 2025ء) گرفتاریوں اور پھانسیوں کا یہ سلسلہ ان واقعات کے بعد شروع ہوا ہے جسے ایرانی حکام نے اسرائیلی ایجنٹوں کی جانب سے ایرانی سکیورٹی سروسز میں غیر معمولی دراندازی قرار دیا ہے۔
حکام کو شبہ ہے کہ اسرائیل کو فراہم کی گئی معلومات نے تنازع کے دوران انتہائی اہم شخصیات کے قتل کے سلسلے میں بڑا کردار ادا کیا۔
ان میں سپاه پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) کے اعلیٰ کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی شامل تھی، جسے ایران ملک کے اندر سرگرم اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کے کارندوں سے منسوب کرتا ہے۔اسرائیل کے لیے جاسوسی، ایران میں ایک اور شخص کو سزائے موت دے دی گئی
ان ہلاکتوں نے ایران کو متزلزل کر دیا اور حکام ہر ایسے شخص کو نشانہ بنا رہے ہیں جس پر غیر ملکی انٹیلیجنس کے ساتھ کام کرنے کا شبہ ہے۔
(جاری ہے)
ان کی دلیل ہے کی یہ قومی سلامتی کی خاطر کیا جا رہا ہے۔جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ایرانی ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تنازع کے آغاز کے ساتھ ہی ایران میں جاسوسی کے الزامات کے سلسلے میں پھانسیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
ایران میں گزشتہ برس 975 افراد کو سزائے موت دی گئی
ڈی پی اے نے ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم کے حوالے سے کہا، ’’فوجی کارروائیوں کے خاتمے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ (اسرائیل کی) دشمنانہ اور بدنیتی پر مبنی سرگرمیاں بھی ختم ہو گئی ہیں۔
‘‘خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بتایا کہ ایک ایرانی انسانی حقوق گروپ ایچ آر این اے کے مطابق تنازع شروع ہونے کے بعد سے پیر کے روز تک سیاسی یا سکیورٹی الزامات میں 705 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
ایچ آر این اے نے کہا کہ گرفتار ہونے والوں میں سے کئی پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام ہے۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ منگل کو ترک سرحد کے قریب ارمیا میں تین افراد کو پھانسی دے دی گئی ایرانی-کرد حقوق گروپ ہینگاو نے بتایا کہ وہ سب کرد تھے۔
ایران کی وزارت خارجہ اور داخلہ نے تبصرہ کی درخواستوں کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کا الزامبہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ اختلاف رائے کو خاموش کرنے اور عوام پر گرفت سخت کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے۔
بارہ روزہ تنازعے کے دوران، ایرانی حکام نے اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں تین افراد کو پھانسی دے دی۔
بدھ کو فائر بندی کے صرف ایک دن بعد مزید تین افراد کو اسی طرح کے الزامات پر پھانسی دی گئی۔ایران: رواں سال اب تک چار سو سے زائد افراد کو پھانسی دے دی گئی
اس کے بعد حکام نے جاسوسی کے الزام میں ملک بھر میں سینکڑوں مشتبہ افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے۔ سرکاری ٹیلی ویژن نے متعدد زیر حراست افراد کے مبینہ اعترافات نشر کیے ہیں، جس میں مبینہ طور پر اسرائیلی انٹیلیجنس کے ساتھ تعاون کا اعتراف کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں اور کارکنوں نے تازہ ترین پیش رفت پر خدشات کا اظہار کیا ہے، ایران کے جبری اعترافات لینے اور غیر منصفانہ ٹرائل کی دیرینہ روایت کا حوالہ دیتے ہوئے خدشات ہیں کہ مزید سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
ایران کی وزارت انٹیلیجنس کا دعویٰ ہے کہ وہ مغربی اور اسرائیلی انٹیلی جنس نیٹ ورکس کے خلاف ’’انتھک جنگ‘‘ میں مصروف ہے۔
اسّی کی دہائی سے مماثلتجنگ کے دوران ایرانی حکومت نے انٹرنیٹ تک رسائی کو سختی سے روک دیا تھا اور فائر بندی کے بعد بھی مکمل رسائی ابھی تک بحال نہیں ہو سکی ہے۔
بحران کے دوران انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کرنا، خاص طور پر حکومت کے خلاف ملک گیر مظاہروں کے دوران، ایران کا ایک عام رویہ بن گیا ہے۔ مزید برآں، زیادہ تر سوشل نیٹ ورکس جیسے انسٹاگرام، ٹیلیگرام، ایکس اور یوٹیوب کے ساتھ ساتھ بعض غیر ملکی نیوز ویب سائٹس کو ایران میں طویل عرصے سے بلاک کر دیا گیا ہے۔
ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) استعمال کیے بغیر ان تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔حالیہ گرفتاریوں اور پھانسی دینے کے واقعات کو انسانی حقوق کے حامی اور سیاسی مبصرین 1980 کی دہائی سے مماثل قرار دے رہے ہیں، جب ایران عراق جنگ کے دوران ایرانی حکام نے سیاسی مخالفت کو بے دردی سے کچل دیا تھا۔
بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تنازعہ کے بعد، ایرانی حکام ایک بار پھر بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، پھانسیوں اور جبر کا سہارا لے سکتے ہیں۔
ناقدین 1988 کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جب، انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق، ہزاروں سیاسی قیدیوں کو، جن میں سے بہت سے پہلے ہی سزا کاٹ رہے تھے، کو نام نہاد ’’ڈیتھ کمیشن‘‘ کے ذریعے سرسری اور خفیہ ٹرائلز کے بعد پھانسی دے دی گئی۔ ان میں سے بیشتر کو بے نشان اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پھانسی دے دی ایرانی حکام اسرائیل کے ایران میں افراد کو کے دوران کے الزام حکام نے کے ساتھ کے بعد
پڑھیں:
بھارت میں خود ساختہ مذہبی رہنماؤں کے جرائم اور اندھی عقیدت کا سلسلہ جاری
بھارت میں ایک چونکا دینے والے واقعے میں رواں برس میں بھی ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جب ریاست گجرات کے شہر سورت کے نیو سول اسپتال میں چند ملازمین نے کم عمر لڑکی سے زیادتی کے الزام میں سزا یافتہ خود ساختہ مذہبی رہنما آسا رام باپو کی تصاویر کے سامنے پوجا کی۔
یہ مناظر ویڈیو کی صورت میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے، جس کے بعد انتظامیہ نے ایک سیکورٹی گارڈ اور گریڈ ون افسر کو معطل کردیا۔
یہ واقعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ عدالت سے مجرم قرار دیے جانے کے باوجود آسا رام جیسے افراد کے لیے اندھی عقیدت ختم نہیں ہوئی۔ آسا رام کو 2013 میں 16 سالہ اسکول کی طالبہ سے ریپ کے الزام میں جیل بھیجا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی، سوامی بابا پر جنسی ہراسانی کا الزام، جعلی سفارتی نمبر پلیٹ والی کار بھی برآمد
بعدازاں آسا رام اور ان کے بیٹے نرائن سائی پر مزید مقدمات قائم ہوئے، ان کے خلاف برسوں طویل قانونی جنگ کے بعد سزا سنائی گئی، تاہم اس عرصے میں کئی گواہوں کو نشانہ بنایا گیا یا وہ پراسرار طور پر لاپتا ہوگئے۔
اسی طرح ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ گرمیت رام رحیم سنگھ، جو اپنی 2 مرید خواتین سے زیادتی کے الزام میں 20 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، بار بار پیرو ل پر رہائی حاصل کرتے رہے ہیں۔
دہلی میں پولیس ایک اور خود ساختہ ’گرو‘ چیتنیا نند سرسوتی کی تلاش میں ہے، جس پر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی طالبات کو ہراساں کرنے کا الزام ہے، متاثرہ خواتین کی شکایات اور ایئرفورس کی ایک چٹھی کے بعد یہ معاملہ سامنے آیا جس کے بعد مذکورہ گرو روپوش ہوگیا۔
مزید پڑھیں: ’بھارت میں ہر 17 منٹ میں جنسی زیادتی کا واقعہ، کیا ہم ہر 17 منٹ میں شرمندہ ہوں؟‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعات اس بڑے سوال کو جنم دیتے ہیں کہ جب سرکاری اداروں کے افراد بھی ایسے مجرموں کی اندھی عقیدت میں مبتلا ہوں تو قانون کی بالادستی اور انصاف پر عوام کا اعتماد کیسے قائم رہ سکتا ہے؟
ریاست گجرات کے سورت اسپتال کے ریزیڈنٹ میڈیکل آفیسر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صرف پھل تقسیم کرنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اسپتال میں تصویر اور پوجا کی اجازت نہیں لی گئی۔ تاہم واقعے پر کوئی باقاعدہ انکوائری شروع نہیں کی گئی۔
مزید پڑھیں:سابق بھارتی وزیراعظم کا پوتا گھریلو ملازمہ سے زیادتی کے مقدمے میں مجرم قرار
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اسپتال کے عملے نے کسی دہشت گرد یا عام قاتل کو خراج عقیدت پیش کیا ہوتا تو ردِعمل یکسر مختلف ہوتا، سوال یہ ہے کہ مذہب کے نام پر جرائم کرنے والوں کے لیے اتنی نرم گوشہ کیوں دکھایا جاتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنان نے زور دیا ہے کہ ایسے واقعات صرف انفرادی فیصلے نہیں بلکہ ادارہ جاتی اخلاقیات کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں۔ خاموشی یا معمولی کارروائی ایسے واقعات کو مزید معمول بنا سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آسا رام باپو اندھی عقیدت انسانی حقوق بھارت ریاست گجرات ریزیڈنٹ میڈیکل آفیسر سورت سوشل میڈیا