Daily Ausaf:
2025-11-11@05:45:47 GMT

حضرت عمر فاروقؓ، عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

حضرت عمر فاروقؓ، اسلام کے دوسرے خلیفہ، انسانی تاریخ کی سب سے بااثر اور قابلِ تقلید شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آپ کی زندگی بہادری، عدل، انکساری اور اسلام کے لئے غیر متزلزل وابستگی کا ایک خوبصورت امتزاج تھی۔ حضرت عمرؓ اپنے بے خوف مزاج، تیز فہم و فراست اور احساسِ ذمہ داری کے سبب مشہور تھے، اور آپ نے نہ صرف ایک عظیم حکمران بلکہ ایک مدبر ریاست دان کے طور پر بھی مقام حاصل کیا جن کی میراث آج بھی اقتدار اور ایمان کے ایوانوں میں گونجتی ہے۔ آپ صرف خلافت کے وارث نہ تھے بلکہ ان اقدار کا مجسم پیکر تھے جن کی تعلیمات ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ٰ ﷺ نے دی تھیں، اور جن کی صحبت اور اعتماد آپؓ کو بے حد عزیز تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو وہ عمرؓ ہوتا۔‘‘ (ترمذی، حدیث 3686)
یہ اس بلند مرتبے کی گواہی ہے جو حضرت عمرؓ کو ابتدائی مسلم معاشرے میں حاصل تھی۔ آپؓ ان دس جلیل القدر صحابہؓ میں بھی شامل تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی، جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ، رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابیوں میں سے تھے، جن کا اسلام قبول کرنا مکہ میں مظلوم مسلمانوں کے لئے تقویت اور حوصلے کا باعث بنا۔ آپؓ کا ایمان لانا ایک ایسا فیصلہ کن موڑ تھا کہ مسلمان پہلی بار بیت اللہ میں علانیہ نماز ادا کرنے کے قابل ہوئے۔ آپؓ کا ایمان مضبوط، غیر متزلزل اور خالص تھا—جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت پر مبنی تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ محبت اور عقیدت مزید گہری ہوتی چلی گئی، اور یہی جذبہ آپؓ کے ہر فیصلے اور ہر عمل کی رہنمائی کرتا رہا۔ آپؓ کا دورِ حکومت اگرچہ عظیم فتوحات اور اسلامی سلطنت کی وسعت کے حوالے سے جانا جاتا ہے، مگر یہ محض زمینوں کی ہوس سے نہیں بلکہ عدل، مساوات اور عوامی فلاح پر مبنی تھا۔ فارس سے لے کر روم تک، آپؓ کی عسکری قیادت نے بڑے بڑے سلطنتوں کو شکست دی، لیکن آپؓ کی انفرادیت تلوار سے زیادہ اُن اصولوں میں تھی جنہیں آپؓ نے تھاما ہوا تھا۔ فتح کے بعد بھی انکساری اور اقتدار میں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا گہرا احساس آپؓ کے کردار کا نمایاں وصف تھا۔ آپؓ کی انتظامی بصیرت نے ایسی حکمرانی کی بنیاد رکھی جو آنے والی نسلوں کے لئے ایک مثال بن گئی۔ آپؓ نے ہجری تقویم کا آغاز کیا، دیوان (سرکاری رجسٹر) قائم کیا، پنشن کا نظام متعارف کرایا، سڑکیں اور نہریں تعمیر کروائیں، مختلف علاقوں میں قاضی مقرر کئے اور بیت المال (عوامی خزانہ) کی بنیاد رکھی۔ آپؓ نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف کا برتاؤ یقینی بنایا، انہیں تحفظ دیا اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی عطا کی۔اپنے بلند مرتبے اور عظیم کارناموں کے باوجود حضرت عمر فاروقؓ نے زاہدانہ زندگی گزاری۔ آپؓ موٹے کپڑے پہنتے، سادہ کھانا کھاتے اور کبھی عام لوگوں سے فاصلے پر نہ رہے۔ ایک موقع پر جب ایک شخص نے آپؓ سے آپ کی قمیص کی لمبائی کے بارے میں سوال کیا تو آپؓ نے اس معاملے کو عوام کے سامنے کھول کر بیان کیا، جو آپؓ کی شفاف اور جوابدہ حکمرانی کا روشن ثبوت ہے۔ آپؓ صرف حکمران نہ تھے بلکہ عوام کے خادم تھے، اور ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہتے کہ کہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ یہ نہ پوچھ لے کہ تمہاری رعایا میں سے کوئی ایک شخص بھی بھوکا کیوں سویا۔آپؓ نے قرآن مجید کی اس ہدایت کے عین مطابق حکمرانی کی:بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے حقداروں تک پہنچاؤ، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔(سورۃ النساء، 4:58)
جب ہم تاریخ کی روشنی میں حضرت عمرؓ کی زندگی کو دیکھتے ہیں، تو آج کے مسلم دنیا کے حالات خود بخود ہمارے ذہن میں اُبھر آتے ہیں۔ اندرونی خلفشار، بیرونی دباؤ، معاشی بحرانوں اور سیاسی انتشار میں گھری ہوئی مسلم اُمت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ ایسے حالات میں اسلامی دنیا کے رہنماؤں کو حضرت عمر فاروقؓ کو صرف ایک تاریخی شخصیت نہیں بلکہ الٰہی رہنمائی پر مبنی قیادت کے نمونے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اُنہیں حضرت عمرؓ کی فراست، بصیرت، جرات اور سب سے بڑھ کر اللہ پر غیر متزلزل توکل کو اپنانا چاہیے۔ یہ اوصاف محض نظریاتی تصورات نہیں، بلکہ آج کی مسلم اقوام کو تقسیم، انحصار اور شکست خوردگی کے شکنجوں سے نکالنے کے لئے ناگزیر ہتھیار ہیں۔
اگر آج کے مسلم رہنما حضرت عمرؓ کی صفات کا صرف ایک حصہ بھی اپنا لیں، تو وہ نئی طاقت اور مقصد سے سرشار ہو سکتے ہیں۔ ان کا اللہ پر توکل کوئی ساکت جذبہ نہ تھا،بلکہ متحرک، جری اور عمل، مشاورت (شوریٰ) اور عدل سے جُڑا ہوا تھا۔ ان کی جرات غرور نہیں تھی بلکہ اصولوں پر مبنی اور احتساب کے دائرے میں محدود تھی۔ ان کی دوراندیشی چالاکی نہیں تھی بلکہ اخلاص اور ایثار پر مبنی تھی۔ صرف ایسے کردار کے ذریعے ہی آج کے رہنما اس دور کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اسلامی دنیا کی وہ عظمت دوبارہ حاصل کرنے کی امید رکھ سکتے ہیں، جو کبھی اس کا شعار تھی۔
حضرت عمرؓ کی شہادت یکم محرم کو اس وقت ہوئی جب وہ مسجدِ نبوی میں فجر کی نماز کی امامت کر رہے تھے، اور ایک فارسی غلام ابو لولوہ فیروز نے حملہ کر کے آپؓ کو زخمی کیا۔ ان آخری لمحات میں بھی آپؓ کے دل میں انتقام یا غصے کا کوئی جذبہ نہ تھا، بلکہ صرف عدل اور خلافت کی پرامن منتقلی کی فکر تھی۔ آپؓ کا مدفن رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں مسجدِ نبوی کے مقدس حجرے میں ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ آپؓ کو زندگی اور موت دونوں میں نبی کریم ﷺ سے قرب حاصل تھا۔
حضرت عمرؓ نہ صرف ایک عظیم اور عادل اسلامی ریاست کے معمار تھے، بلکہ وہ ان تمام اصولوں کا عملی پیکر تھے جنہیں اسلام نے ہمیشہ بلند مقام دیا ہے،عدل، انکساری، تقویٰ، نظم و ضبط اور خدمت خلق۔ جیسے جیسے دنیا پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے، اُن کے اصولوں کو قیادت میں یاد رکھنا اور زندہ کرنا محض تعظیم کا تقاضا نہیں بلکہ وقت کی شدید ضرورت ہے۔ ان کی زندگی اور شہادت حکمرانوں اور عوام دونوں کے لئے ایک لازوال سبق ہے کہ حقیقی طاقت زمینوں پر قبضے میں نہیں، بلکہ اللہ کی نگرانی میں انسانیت کی خدمت میں ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حضرت عمر فاروق رسول اللہ ﷺ کی زندگی صرف ایک کے لئے بلکہ ا

پڑھیں:

جے ایس او محض ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک تحریک اور مشن کے طور پر کام کرے، علامہ ساجد نقوی

جے ایس او کنونشن سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے ایس یو سی سربراہ نے کہا کہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جے ایس او ایک امتیازی اور معتبر طلبہ تنظیم کے طور پر سامنے آئے، جو نوجوانوں کی اصلاح و فلاح کے لیے سرگرم ہو۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے جے ایس او پاکستان کے کنونشن سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے مجلسِ نظارت، مرکزی کابینہ اور تمام شرکاء کو خراجِ تحسین پیش کیا اور تنظیمی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ جے ایس او ایک با مقصد طلبہ تنظیم ہے جس کے دستور میں واضح اہداف و مقاصد موجود ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ جے ایس او محض ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک تحریک اور مشن کے طور پر کام کرے، تاکہ طلبہ برادری میں فکری، اخلاقی اور تعلیمی بیداری پیدا ہو۔ علامہ ساجد نقوی نے زور دیا کہ جے ایس او کے کارکنان اپنے مشن کو وسعت دیں، طلبہ کے مسائل کو سمجھیں اور ان کے حل کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جے ایس او ایک امتیازی اور معتبر طلبہ تنظیم کے طور پر سامنے آئے، جو نوجوانوں کی اصلاح و فلاح کے لیے سرگرم ہو۔ علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ ماضی میں جے ایس او کی کارکردگی اطمینان بخش رہی ہے، تاہم اب وقت آگیا ہے کہ اس معیار کو مزید بلند کیا جائے، آئندہ کنونشن میں تنظیمی جدوجہد کو ایک نئے مرحلے میں داخل ہونا چاہیئے تاکہ جے ایس او کو ایک نمایاں مقام حاصل ہو جسے طلبہ برادری فخر سے تسلیم کرے۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو اس مشن کو خلوصِ نیت، نظم و ضبط اور جذبۂ خدمت کے ساتھ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان، دہشت گردوں سے فاصلہ اختیارکرے
  • پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ انصاف ہائوس میںپریس کانفرنس کررہے ہیں‘دیگر عہدیداران بھی موجود ہیں
  • 27ویں ترمیم دراصل آئین کی تدفین ہے‘حلیم عادل
  • رضوان نے خود کپتانی چھوڑی، ان کے ہی مشورے سے ٹیم کی قیادت سنبھالی: شاہین آفریدی
  • 27 ویں ترمیم مکمل مسترد، کسی بھی شخص کو عدالتی استثنیٰ غیر شرعی ہے: حافظ نعیم
  • جے ایس او محض ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک تحریک اور مشن کے طور پر کام کرے، علامہ ساجد نقوی
  • خطے پر تسلط کیلئے صیہونیوں کا صدی پرانا خاکہ
  • علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ
  • پی ٹی آئی کی جے یو آئی کو امن جرگے میں شرکت کی دعوت
  • حکیم مشرق اقبال اور علامہ ہروی کی ابتدائی ملاقاتیں