حضرت عمر فاروقؓ، عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
حضرت عمر فاروقؓ، اسلام کے دوسرے خلیفہ، انسانی تاریخ کی سب سے بااثر اور قابلِ تقلید شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آپ کی زندگی بہادری، عدل، انکساری اور اسلام کے لئے غیر متزلزل وابستگی کا ایک خوبصورت امتزاج تھی۔ حضرت عمرؓ اپنے بے خوف مزاج، تیز فہم و فراست اور احساسِ ذمہ داری کے سبب مشہور تھے، اور آپ نے نہ صرف ایک عظیم حکمران بلکہ ایک مدبر ریاست دان کے طور پر بھی مقام حاصل کیا جن کی میراث آج بھی اقتدار اور ایمان کے ایوانوں میں گونجتی ہے۔ آپ صرف خلافت کے وارث نہ تھے بلکہ ان اقدار کا مجسم پیکر تھے جن کی تعلیمات ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ٰ ﷺ نے دی تھیں، اور جن کی صحبت اور اعتماد آپؓ کو بے حد عزیز تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو وہ عمرؓ ہوتا۔‘‘ (ترمذی، حدیث 3686)
یہ اس بلند مرتبے کی گواہی ہے جو حضرت عمرؓ کو ابتدائی مسلم معاشرے میں حاصل تھی۔ آپؓ ان دس جلیل القدر صحابہؓ میں بھی شامل تھے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی، جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ، رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابیوں میں سے تھے، جن کا اسلام قبول کرنا مکہ میں مظلوم مسلمانوں کے لئے تقویت اور حوصلے کا باعث بنا۔ آپؓ کا ایمان لانا ایک ایسا فیصلہ کن موڑ تھا کہ مسلمان پہلی بار بیت اللہ میں علانیہ نماز ادا کرنے کے قابل ہوئے۔ آپؓ کا ایمان مضبوط، غیر متزلزل اور خالص تھا—جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت پر مبنی تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ محبت اور عقیدت مزید گہری ہوتی چلی گئی، اور یہی جذبہ آپؓ کے ہر فیصلے اور ہر عمل کی رہنمائی کرتا رہا۔ آپؓ کا دورِ حکومت اگرچہ عظیم فتوحات اور اسلامی سلطنت کی وسعت کے حوالے سے جانا جاتا ہے، مگر یہ محض زمینوں کی ہوس سے نہیں بلکہ عدل، مساوات اور عوامی فلاح پر مبنی تھا۔ فارس سے لے کر روم تک، آپؓ کی عسکری قیادت نے بڑے بڑے سلطنتوں کو شکست دی، لیکن آپؓ کی انفرادیت تلوار سے زیادہ اُن اصولوں میں تھی جنہیں آپؓ نے تھاما ہوا تھا۔ فتح کے بعد بھی انکساری اور اقتدار میں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا گہرا احساس آپؓ کے کردار کا نمایاں وصف تھا۔ آپؓ کی انتظامی بصیرت نے ایسی حکمرانی کی بنیاد رکھی جو آنے والی نسلوں کے لئے ایک مثال بن گئی۔ آپؓ نے ہجری تقویم کا آغاز کیا، دیوان (سرکاری رجسٹر) قائم کیا، پنشن کا نظام متعارف کرایا، سڑکیں اور نہریں تعمیر کروائیں، مختلف علاقوں میں قاضی مقرر کئے اور بیت المال (عوامی خزانہ) کی بنیاد رکھی۔ آپؓ نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف کا برتاؤ یقینی بنایا، انہیں تحفظ دیا اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی عطا کی۔اپنے بلند مرتبے اور عظیم کارناموں کے باوجود حضرت عمر فاروقؓ نے زاہدانہ زندگی گزاری۔ آپؓ موٹے کپڑے پہنتے، سادہ کھانا کھاتے اور کبھی عام لوگوں سے فاصلے پر نہ رہے۔ ایک موقع پر جب ایک شخص نے آپؓ سے آپ کی قمیص کی لمبائی کے بارے میں سوال کیا تو آپؓ نے اس معاملے کو عوام کے سامنے کھول کر بیان کیا، جو آپؓ کی شفاف اور جوابدہ حکمرانی کا روشن ثبوت ہے۔ آپؓ صرف حکمران نہ تھے بلکہ عوام کے خادم تھے، اور ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہتے کہ کہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ یہ نہ پوچھ لے کہ تمہاری رعایا میں سے کوئی ایک شخص بھی بھوکا کیوں سویا۔آپؓ نے قرآن مجید کی اس ہدایت کے عین مطابق حکمرانی کی:بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُن کے حقداروں تک پہنچاؤ، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔(سورۃ النساء، 4:58)
جب ہم تاریخ کی روشنی میں حضرت عمرؓ کی زندگی کو دیکھتے ہیں، تو آج کے مسلم دنیا کے حالات خود بخود ہمارے ذہن میں اُبھر آتے ہیں۔ اندرونی خلفشار، بیرونی دباؤ، معاشی بحرانوں اور سیاسی انتشار میں گھری ہوئی مسلم اُمت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ ایسے حالات میں اسلامی دنیا کے رہنماؤں کو حضرت عمر فاروقؓ کو صرف ایک تاریخی شخصیت نہیں بلکہ الٰہی رہنمائی پر مبنی قیادت کے نمونے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اُنہیں حضرت عمرؓ کی فراست، بصیرت، جرات اور سب سے بڑھ کر اللہ پر غیر متزلزل توکل کو اپنانا چاہیے۔ یہ اوصاف محض نظریاتی تصورات نہیں، بلکہ آج کی مسلم اقوام کو تقسیم، انحصار اور شکست خوردگی کے شکنجوں سے نکالنے کے لئے ناگزیر ہتھیار ہیں۔
اگر آج کے مسلم رہنما حضرت عمرؓ کی صفات کا صرف ایک حصہ بھی اپنا لیں، تو وہ نئی طاقت اور مقصد سے سرشار ہو سکتے ہیں۔ ان کا اللہ پر توکل کوئی ساکت جذبہ نہ تھا،بلکہ متحرک، جری اور عمل، مشاورت (شوریٰ) اور عدل سے جُڑا ہوا تھا۔ ان کی جرات غرور نہیں تھی بلکہ اصولوں پر مبنی اور احتساب کے دائرے میں محدود تھی۔ ان کی دوراندیشی چالاکی نہیں تھی بلکہ اخلاص اور ایثار پر مبنی تھی۔ صرف ایسے کردار کے ذریعے ہی آج کے رہنما اس دور کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اسلامی دنیا کی وہ عظمت دوبارہ حاصل کرنے کی امید رکھ سکتے ہیں، جو کبھی اس کا شعار تھی۔
حضرت عمرؓ کی شہادت یکم محرم کو اس وقت ہوئی جب وہ مسجدِ نبوی میں فجر کی نماز کی امامت کر رہے تھے، اور ایک فارسی غلام ابو لولوہ فیروز نے حملہ کر کے آپؓ کو زخمی کیا۔ ان آخری لمحات میں بھی آپؓ کے دل میں انتقام یا غصے کا کوئی جذبہ نہ تھا، بلکہ صرف عدل اور خلافت کی پرامن منتقلی کی فکر تھی۔ آپؓ کا مدفن رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں مسجدِ نبوی کے مقدس حجرے میں ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ آپؓ کو زندگی اور موت دونوں میں نبی کریم ﷺ سے قرب حاصل تھا۔
حضرت عمرؓ نہ صرف ایک عظیم اور عادل اسلامی ریاست کے معمار تھے، بلکہ وہ ان تمام اصولوں کا عملی پیکر تھے جنہیں اسلام نے ہمیشہ بلند مقام دیا ہے،عدل، انکساری، تقویٰ، نظم و ضبط اور خدمت خلق۔ جیسے جیسے دنیا پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے، اُن کے اصولوں کو قیادت میں یاد رکھنا اور زندہ کرنا محض تعظیم کا تقاضا نہیں بلکہ وقت کی شدید ضرورت ہے۔ ان کی زندگی اور شہادت حکمرانوں اور عوام دونوں کے لئے ایک لازوال سبق ہے کہ حقیقی طاقت زمینوں پر قبضے میں نہیں، بلکہ اللہ کی نگرانی میں انسانیت کی خدمت میں ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حضرت عمر فاروق رسول اللہ ﷺ کی زندگی صرف ایک کے لئے بلکہ ا
پڑھیں:
دو المیے ایک حقیقت، بوسنیا سے غزہ تک انسانیت کی شکست
اسلام ٹائمز: سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو نے اسرائیلی جارحیت کو لوہے کی ڈھال فراہم کی ہوئی ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک، جن کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر، طاقتور افواج اور سیاسی اثر و رسوخ ہے، ایک متفقہ عملی لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں۔ کچھ نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر کر لیے، کچھ نے مغربی طاقتوں کے دباؤ اور تجارتی مفادات کے بدلے خاموشی اختیار کرلی۔ او آئی سی اجلاس بلاتی ہے، قراردادیں پاس کرتی ہے، لیکن نہ کوئی معاشی دباؤ، نہ سفارتی مزاحمت۔ یہ خاموشی کمزوری نہیں بلکہ مفاد پرستی کا اعلان ہے۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی
دنیا کی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے ہیں جو صرف ماضی کا حصہ نہیں بنتے بلکہ آنے والے ہر دور میں ضمیر کو جھنجھوڑتے رہتے ہیں۔ بوسنیا کی نسل کشی اور آج کا غزہ۔ یہ دونوں سانحات وقت اور جغرافیہ کے فاصلے کے باوجود ایک دوسرے کے آئینے ہیں۔ دونوں میں بے بس مظلوم، طاقت کے نشے میں چور جارح، اقوامِ متحدہ کی بے عملی، مغربی دنیا کی منافقت، اور مسلم دنیا کی خوابیدہ خاموشی ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ صہیونی ریاست اسرائیل، جس کی بنیاد ہی فلسطینی زمین پر غاصبانہ قبضے پر رکھی گئی، گزشتہ پونے دو سال سے غزہ کے محصور عوام کو نہ صرف بمباری، بھوک اور بیماری کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ اب کھلے عام اس کی بقاء اور آزادی کو مکمل طور پر مٹانے کے منصوبے پر عمل کر رہی ہے۔
اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے وزیرِاعظم نیتن یاہو کے اُس منصوبے کو منظور کیا ہے جس کے مطابق غزہ شہر کا مکمل عسکری کنٹرول اسرائیل کے ہاتھ میں ہوگا۔ یہ محض "سلامتی" کا ڈھونگ نہیں بلکہ قبضے کو دائمی شکل دینے کا اعلان ہے۔ نیتن یاہو کا یہ کہنا کہ یہ قبضہ نہیں بلکہ عسکری کنٹرول ہے، ایک ایسا لغوی فریب ہے جو حقیقت کی لاش کو الفاظ کے کفن میں لپیٹنے کے مترادف ہے۔ مغربی دنیا کے اخلاقی معیار کی دوغلی حقیقت اس وقت ننگی ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ساحل پر بھٹکی ہوئی وہیل یا کسی سرکس میں ہاتھی پر ظلم پوری دنیا میں احتجاج اور آنسوؤں کا سیلاب لے آتا ہے، مگر جب غزہ میں معصوم بچوں کے جسم بارود سے بکھر جاتے ہیں، مائیں اپنے لختِ جگر کے کٹے پھٹے اعضا گود میں اٹھائے بین کرتی ہیں، اور پورے شہر ملبے میں دفن ہو جاتے ہیں، تو یہ نام نہاد مہذب معاشرے اور انسانی حقوق کے علمبردار اچانک گونگے بہرے ہو جاتے ہیں۔
یہ چنیدہ ہمدردی اب کسی فرد کا ذاتی نقص نہیں بلکہ ریاستی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔ بوسنیا کی سرزمین پر 1992ء سے 1995ء تک برپا ہونے والا قیامت خیز دور آج بھی یورپ کے ماتھے پر سیاہ داغ ہے۔ سریبرینیتسا میں 8,000 سے زائد مسلمان مرد اور لڑکے اُس وقت ذبح کر دیے گئے جب وہ اقوامِ متحدہ کی ’’تحفظ یافتہ‘‘ پناہ گاہ میں موجود تھے۔ پچاس ہزار سے زائد خواتین کو ریپ اور جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔ عالمی طاقتیں بیان بازی تک محدود رہیں، قراردادیں محض کاغذی ثابت ہوئیں، اور بالآخر ایک ایسا امن معاہدہ مسلط کیا گیا جس نے قاتل کو انعام اور مقتول کو مستقل زخم دے دیا۔ اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی بمباری نے اب تک 38,000 سے زیادہ فلسطینی جانیں نگل لی ہیں، جن میں 70 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔
اسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا گیا، اسکول اور مساجد خاکستر ہوئیں، رفح کراسنگ پر امدادی قافلے روک دیے گئے یا بمباری میں تباہ کر دیئے گئے۔ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو نے اسرائیلی جارحیت کو لوہے کی ڈھال فراہم کی ہوئی ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک، جن کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر، طاقتور افواج اور سیاسی اثر و رسوخ ہے، ایک متفقہ عملی لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں۔ کچھ نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر کر لیے، کچھ نے مغربی طاقتوں کے دباؤ اور تجارتی مفادات کے بدلے خاموشی اختیار کرلی۔ او آئی سی اجلاس بلاتی ہے، قراردادیں پاس کرتی ہے، لیکن نہ کوئی معاشی دباؤ، نہ سفارتی مزاحمت۔ یہ خاموشی کمزوری نہیں بلکہ مفاد پرستی کا اعلان ہے۔
بوسنیا میں قاتلوں کو ’’نسلی تطہیر‘‘ کے نام پر وقتی امن کا تحفہ دیا گیا۔ غزہ میں بھی خطرہ یہی ہے کہ تعمیرِ نو کے نام پر اربوں ڈالر آئیں گے مگر اس کے بدلے میں فلسطینی عوام کی سیاسی آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔ دنیا اپنے راستے پر چل دے گی، یتیم بچے کھنڈرات میں کھیلیں گے، اور قاتل کسی خفیہ معاہدے کے سائے میں محفوظ رہیں گے۔ یہ المیے صرف تاریخ کی کتابوں کا حصہ نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کی جیتی جاگتی مہر ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کب رکے گا، بلکہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کب جاگے گی؟ جب آنے والی نسلیں یہ پڑھیں گی کہ بوسنیا اور غزہ میں انسانیت کو ذبح کیا گیا اور ہم خاموش تماشائی تھے، تو کیا ہم اس شرمندگی اور تاریخی ندامت کا بوجھ اٹھا سکیں گے؟