امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کا بابرکت دور خلافت
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
محرم الحرام ان چار محترم مہینوں میں شامل ہے جن کو قرآن کریم نے قابل احترام قرار دیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں محرم الحرام کی مناسبت سے دو ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن سے ہمیں معاشرتی زندگی گزارنے کا عملی درس ملتا ہے۔
پہلا واقعہ خلیفۂ دوم سیّدنا عمر فاروقؓ کی شہادت جب کہ دوسرا واقعہ نواسہ رسول کریمؐ سیّدنا حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی زندگی کے چند ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے جن کا ہماری عملی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے، یہ تذکرہ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔
٭ قیام امن کی عملی کاوشیں:
اسلام میں امن کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ آپؓ کے دور خلافت میں جو علاقے اسلامی سلطنت کے زیر نگیں آئے یا جو پہلے سے موجود تھے، ان میں عدالتی نظام کو فعال کیا۔ مفتوحہ علاقوں میں بنیادی طور پر دو کام کیے جاتے، وہاں کے باسیوں کو دین اسلام کی تعلیم سے آشنا کیا جاتا اور دوسرا وہاں عدالتیں قائم کرکے قیام امن اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا۔ آپؓ نے قانون کے علمی ماخذ کے طور پر قرآن و سنّت کے بعد قضائے صالحین کو درجہ دیا۔
اس سے ہمیں قرآن و سنّت کے بعد صالحین یعنی دین کے ماہرین کے فیصلوں پر عمل کرنے کا درس ملتا ہے۔ اسلام، باہمی مشاورت پر زور دیتا ہے تاکہ خیر کے پہلو سامنے آئیں اور نقصان دہ پہلو سے بچا جا سکے۔ حضرت عمرؓ کی زندگی اس کی عملی نمونہ تھی، خلیفہ وقت میں عدالت، دیانت، تقویٰ، علم دین سے واقفیت، انتظامی امور میں اہلیت اور احکام شریعت کے نفاذ کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جو اسے عوام ممتاز کر دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپؓ اپنے مشیروں کی بات کو اہمیت دیتے تھے۔
٭ سربراہ کا سادہ معیار زندگی:
سربراہ کے طرز زندگی کے اثرات رعایا پر پڑتے ہیں، اگر حکم ران انصاف پسند، قناعت پسند اور سادگی پسند ہو تو عوام میں ظلم و تشدد، خواہش پرستی اور فیشن پرستی جنم نہیں لیتی جس کی وجہ سے معاشرہ سکون و راحت کی زندگی بسر کرتا ہے۔ حضرت عمرؓ باوجود اس کے کہ بہت بڑی سلطنت کے فرماں روا تھے لیکن مزاجاً سادگی اور قناعت پسندی کے خُوگر تھے۔ تاریخ ایسے کئی واقعات کی شہادت دیتی ہے۔
ہرمزان سلطنت اہواز کا حکم ران جب قید ہوکر آیا تو اس نے دیکھا کہ آپؓ مسجد کے فرش پر لیٹے ہوئے آرام فرما رہے ہیں۔ بیت المقدس کی فتح کا مشہور واقعہ تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے۔ سن 46 ھ میں جب حضرت عمرو بن عاصؓ نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا تو وہاں کے اہل کتاب علماء نے کہا: ’’تم بلا وجہ تکلیف اٹھاتے ہو، بیت المقدس کو فتح کرنے والے کا حلیہ اور علامات ہماری کتابوں میں موجود ہیں، اگر تمہارے امام میں وہ سب باتیں موجود ہیں تو ہم آپؓ کو بیت المقدس حوالے کر دیں گے۔‘‘
چناں چہ آپؓ کو اس بارے اطلاع کی گئی، آپؓ اپنے ایک غلام کے ہم راہ ایک اونٹ پر سوار ہو کر عازم سفر ہوئے، زادراہ میں چھوہارے اور جو کے سوا کچھ نہ تھا، اونٹ پر سوار ہونے کی باری مقرر کی، کبھی آپؓ خود سوار ہوتے اور غلام پیدل چلتا اور کبھی غلام سواری پر سوار ہوتا اور آپؓ پیدل چلتے، آپؓ نے جو کرتا زیب تن کیا ہوا تھا اس میں پیوند لگے ہوئے تھے، جب بیت المقدس کے قریب پہنچے تو مسلمانوں نے آپؓ کے لیے ایک عمدہ جوڑے اور گھوڑے کا انتظام کیا.
آپؓ نے نیا لباس پہنا، گھوڑے پر سوار ہوئے چند قدم کے بعد فرمانے لگے کہ میرے نفس پر اس کا بُرا اثر پڑ رہا ہے لہذا مجھے میرے وہی کپڑے اور اونٹ واپس کرو، چناں چہ اسی پر سوار ہوئے اور بیت المقدس پہنچے۔ اہل کتاب علماء نے آپؓ کا حلیہ مبارک اور علامات دیکھیں تو برملا کہہ اٹھے کہ ہاں فاتح بیت المقدس یہی ہیں اور آپؓ کے لیے اس کے دروازے کھول دیے۔ اس سے ہمیں سربراہ کے عام معیار زندگی، عوام میں گھل میں کر رہنے اور صبر و شُکر کا درس ملتا ہے۔
٭ انسانی حقوق میں مساوات:
آپؓ نے اسلام کی نافذ شدہ تعلیم مساوات کو مزید آگے بڑھایا، چناں چہ کسی علاقے کے حاکم، گورنر بل کہ خود خلیفۃ المسلمین کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں پر ترجیح دے، جو وظیفہ بدریوں کو ملتا وہی آپؓ لیتے تھے۔ اس سے ہمیں مساوات کا درس ملتا ہے۔
٭ حقوق نسواں کا حقیقی تصور:
اسلام میں خواتین کو بہت بلند مقام حاصل ہے اور خواتین میں سب سے اہم عنصر حیا اور تقدس کا ہے۔ آپؓ نے ان کے عزت اور حقوق کو محفوظ کرنے کے لیے حجاب کو لازمی سمجھا تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کی رائے کی موافقت میں قرآن کریم نازل فرما کر حجاب کو ضروری قرار دیا۔ خواتین کے لیے رائے کی آزادی بھی حقوق نسواں کے ذیل میں آتی ہے، چناںچہ ایک مرتبہ جب آپؓ نے دوران خطبہ خواتین کے مہنگے حق مہر کے بارے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا تو ایک عورت نے کہا: ’’اے عمرؓ! آپ ہمارے مہروں کو کس طرح کم کرسکتے ہیں حالاں کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سونے کے ڈھیر تک مہر لینے کا حق دیا ہے۔‘‘ اور قرآن کریم سورۃ النساء کی آیت نمبر 20 بھی تلاوت کی۔ حضرت عمرؓ اس پر بہت خوش ہوئے اور خاتون کو عزت بخشتے ہوئے فرمایا: ’’مدینہ کی خواتین عمر سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتی ہیں۔‘‘
اس سے ہمیں حجاب، آزادی اظہار رائے اور خواتین کی سماجی عزت و احترام کا درس ملتا ہے۔
٭ مفتوحہ علاقوں کا نظم و نسق:
آپؓ 22 لاکھ 51 ہزار 30 مربع میل زمین پر حکم رانی کرنے والے انصاف پرور حکم ران تھے۔ اس کے باوجود آپؓ مفتوحہ علاقوں کی کثرت پر زور دینے کے بہ جائے ان کے باسیوں کی تربیت کو ترجیح دیتے۔ آپؓ نے دمشق، بصرہ، بعلبک، شرق، اُردن، یرموک، قادسیہ، اہواز، مدائن، ایران، عراق، تکیت، انطاکیہ، حلب، بیت المقدس، نیشاپور، الجزیرہ، قیساریہ، مصر، اسکندریہ، نہاوند اور دیگر علاقوں کو فتح کیا۔ ان میں تربیتی اور تعلیمی مراکز قائم کیے، کھلی کچہریاں لگوائیں، فوری انصاف کو یقینی بنایا، عوام الناس کی شکایات کو دور کرنے کے لیے احکامات جاری کیے۔ روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضرورتوں کو عوام کی دہلیز تک پہنچایا۔ اس سے ہمیں اپنے نظام زندگی میں انصاف، تعلیم اور نظم و نسق کا درس ملتا ہے۔
٭ اقلیتوں سے حسن سلوک:
اسلام ایسے کفار جو مسلمانوں سے نہ لڑیں ان سے حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے، حضرت عمرؓ نے حمص کو حاصل کرنے کے لیے بہ طور سپہ سالار حضرت ابوعبیدہؓ کو مقرر فرمایا، انہوں نے اسے فتح کیا اور غیر مسلموں سے جزیہ وصول کیا لیکن جب انہیں جنگ یرموک کے لیے حمص چھوڑنا پڑا تو انہوں نے یہ کہہ کر جزیہ واپس کردیا کہ اب جب ہم آپ کے جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری پوری نہیں کر سکتے تو ہمیں جزیہ لینے کا بھی حق نہیں۔ جب مسلمان حمص سے لوٹنے لگے تو وہاں کے غیر مسلم بھی اس عادلانہ نظام سے محروم ہونے پر رونے لگے۔
بیت المقدس کی فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے اہل کتاب کے مذہبی پیشوا کے ساتھ شہر کی متعدد عبادت گاہوں کو دیکھا، آپؓ معائنہ فرما رہے تھے کہ اتفاق سے نماز کا وقت ہوگیا، انہوں نے آپؓ اور آپ کے رفقاء کے لیے صفیں بھی بچھا دیں کہ آپ یہاں نماز ادا کرلیں۔ لیکن آپؓ نے یہ کہہ کر انکار فرما دیا کہ اگر ہم نے یہاں نماز پڑھ لی تو کل کو کوئی یہاں مسجد بنانا نہ شروع کردے، میں نہیں چاہتا کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں ہم کسی طرح کا حق قائم کریں۔
اسی طرح اہل ایلیا کے غیر مسلموں سے آپؓ نے معاہدہ امن کیا کہ یہ امن جو ان کو دیا جاتا ہے، ان کی جان، مال، ان کے گرجاؤں اور ان کی صلیبوں، ان کے بیماروں، تن درستوں اور ان کے جملہ اہل مذاہب کے لیے ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے گرجا گھروں میں رہائش نہ رکھی جائے، ان کو گرایا نہ جائے، انہیں اور ان کے احاطوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور نہ ہی ان پر دین کے بارے جبر کیا جائے۔ اس سے ہمیں اقلیتوں سے حسن سلوک کا درس ملتا ہے۔
٭ سماجی و رفاہی خدمات:
قرآن کریم کی تعلیم کے لیے مکاتب و مدارس قائم کیے، مدرسین صاحبان اور ائمہ مساجد کی تن خواہیں مقرر فرمائیں۔ اسلامی تقویم کا آغاز ہجرت نبویؐ سے شروع فرمایا۔ مسجد حرام اور مسجد نبویؐ کی توسیع فرمائی۔ عرب و عجم کے سنگم پر مرکز علم کوفہ کو آباد فرمایا۔ دریائے نیل کو بحیرہ قلزم سے ملانے کے لیے نہر سویز کھدوائی، جس کی وجہ سے نفع بخش تجارت نے فروغ پایا۔ محکمہ ڈاک قائم کیا۔ شہر کے اندرونی حالات کو درست رکھنے کے لیے محکمہ پولیس قائم کیا اور فوج کو سرحدیں اور محاذ سپرد کیے۔
بیت المال تعمیر کرائے۔ معذور اور ضعیف لوگوں کے وظائف بیت المال سے مقرر فرمائے۔ مسافروں کے لیے شاہ راہوں پر مسافر خانے تعمیر کرائے۔ لاوارث بچوں کے تربیتی مراکز قائم کیے۔ دریائے نیل کے نام خط جاری فرمایا اور قیصر و کسری جیسی سپر پاور طاقتیں پاش پاش ہوئیں۔ مورخین کے محتاط اندازے کے مطابق آپؓ کے زمانۂ خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے۔900 جامع مساجد اور4000 عام مساجد تعمیر ہوئیں۔ اس سے ہمیں تعمیر وطن، خوش حالی اور ترقی، اہل علم کی قدر، مستحق افراد کی معاونت اور یتیموں کی کفالت کا درس ملتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ عصرِ حاضر کے مسائل کا حل سیرت عمرؓ میں مضمر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکم ران اسے اپنی عملی زندگی میں بہ رُوئے کار لائیں۔ ایسا کیا گیا تو ہماری دنیا سنور جائے گی، ہم ترقی کریں گے، ضرورت مندوں کی معاونت ہوگی اور معاشرے میں انصاف بھی عام ہوگا۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں مزاج فاروقیؓ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو انصاف پسند معاشرہ بنائے۔ آمین
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کا درس ملتا ہے بیت المقدس پر سوار کے لیے
پڑھیں:
مُراد ِرسول ﷺسیدنا عمر فاروقؓ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سیدنا عمر فاروقؓ تاریخ ِ انسانی میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آپؓ کو صحابہ کرام کے درمیان مرادِ رسولؐ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ یعنی آپ کے لیے نبی پاکؐ نے خصوصی دعائیں کیں اور آپ کا نام لے کر کہا: یا اللہ! عمر کے ذریعے اسلام کو تقویت پہنچا۔ اس وقت تک عمر بن خطاب اسلام کے بدترین دشمنوں میں شمار ہوتے تھے مگر اللہ کے نبیؐ کی دعا کیسے رد ہوسکتی ہے؟ آپؐ کے ہر ہر لفظ کو تائیدِ ربانی حاصل تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’وہ اپنی خواہشِ نفس سے کچھ نہیں بولتے۔ یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے‘‘ (النجم: 3-4)۔
یہ وہ دور تھا جس میں کفار کی طرف سے صحابہ کرامؓ بلکہ بعض اوقات خود نبی محترمؐ کو جسمانی اذیتیں پہنچانا معمول بن چکا تھا۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات، غلام اور کنیزیں اسلام کی طرف راغب تھے مگر قبولِ اسلام کے بعد ان پر جو قیامت ڈھائی جاتی، اس کا حال پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سیدنا بلال، خبّاب، عمار، یاسر، سمیّہ، زنیرہ رضی اللہ عنہم اور اسی طرح بے شمار صحابہ وصحابیات بدترین مظالم کا نشانہ بنائے گئے۔ سیدہ سمیہؓ تو مکہ میں ظلم وستم سے شہید کردی گئیں۔ سیدنا یاسرؓ بھی مظالم برداشت کرتے کرتے دنیا سے کوچ کرگئے۔ باقی مستضعفین صحابہ کرامؓ کو بھی مار ڈالنے کی کوششیں ہوئیں، مگر اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی۔
قریش کی مخالفت حد سے گزری تو ان بدبختوں نے نبی اکرمؐ کو شہید کرنے کے منصوبے بنائے۔ دارالندوہ میں مشورہ ہوا کہ کوئی شیردل نوجوان جائے اور جاکر رسول اللہ کا کام تمام کردے۔ کون یہ کام کرسکتا ہے؟ یہ سوال بڑا اہم تھا۔ کئی نوجوانوں نے خود کو اس خدمت کے لیے پیش کیا مگر سردارانِ قریش نے ہر ایک سے کہا کہ یہ کام اس کے بس میں نہیں ہے۔ آخر بنوعدی کا سجیلا جوان عمربن خطاب کھڑا ہوگیا۔ اس نے کہا: سردارانِ قریش! میں ابھی یہ کام کرکے تم لوگوں کو خوش خبری سناتا ہوں۔ ابوجہل نے کہا: ’’ہاں یہ نوجوان یقینا اس قابل ہے کہ اس کٹھن کام کو سرانجام دے سکے‘‘۔ فیصلہ ہوجانے کے بعد عمربن خطاب دارالندوہ سے نکلے۔ ان کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی، چہرے پر عجیب غصے کی کیفیت کے ساتھ خود کلامی کے انداز میں کچھ کہتے ہوئے وہ چلے جارہے تھے۔
اچانک راستے میں نعیم بن عبداللہ سے آمنا سامنا ہوگیا۔ نعیمؓ کا تعلق بھی بنوعدی سے تھا۔ وہ اسلام لاچکے تھے، مگر ابھی تک اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ابن حجرعسقلانیؒ کے مطابق‘ قبولِ اسلام میں ان کا دسواں نمبر ہے۔ نعیمؓ نے پوچھا: ’’عمر! کیا بات ہے؟ بڑے غصے میں نظر آرہے ہو؟‘‘۔ عمر نے کہا: ’’ہاں میں آج اس شخص کو قتل کرنے جارہا ہوں جس نے ہمارے باپ دادا کا دین بگاڑ دیا ہے‘‘۔ نعیمؓ بن عبداللہ نے بڑی حکمت کے ساتھ کہا: ’’اچھا اگر یہ بات ہے تو پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری بہن فاطمہؓ بنت خطاب اور تمہارا بہنوئی سعیدؓ بن زید بھی آبائی دین کو چھوڑ کر ’’صابی‘‘ بن چکے ہیں‘‘۔ (الاصابہ)
اس خبر نے عمر کے غصے کو سہ آتشہ کردیا۔ اب دارِ ارقم جانے کے بجائے بہن کے گھر کی راہ لی۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے اور اندر سے کسی چیز کے پڑھنے کی آواز آرہی ہے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو بہن نے دروازہ کھولا۔ نبی اکرمؐ پر انہی دنوں سورۂ طٰہٰ نازل ہوئی تھی۔ اسی کی تلاوت اور حفظ کی مشق کی جارہی تھی۔ سیدنا خبابؓ بن ارت جو آنحضورؐ سے قرآنِ مجید سن کر یاد کرلیا کرتے تھے، بھی گھر میں موجود تھے۔ عمر ابن خطاب کی آہٹ اور آواز سنتے ہی انہیں گھر میں چھپا دیا گیا۔ عمر نے بہن اور بہنوئی سے پوچھا: تم کیا پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے کہا: کچھ بھی نہیں۔ اس پر ان کا غصہ بھڑک اٹھا۔ بہنوئی کو زدوکوب کرنا شروع کیا، بہن بچانے کے لیے آئیں تو انہیں بھی خوب مارا پیٹا یہاں تک کہ وہ لہولہان ہوگئیں۔ اس موقع پر فاطمہؓ بنت خطاب نے اپنے بلند جذبۂ ایمانی سے بڑی جرأت اور استقامت سے کہا: ’’عمر! سن لو ہم مسلمان ہوچکے ہیں، ہم نے شرک اور بت پرستی سے برأت کا اظہار کردیا ہے۔ تم جو کچھ کرنا چاہو کرلو، ہماری ہڈیاں توڑ سکتے ہو، مگر اسلام سے برگشتہ ہرگز نہیں کرسکتے‘‘ (ایضاً)۔
صاحبِ استقامت بہن کی زبان سے یہ سننا تھا کہ عمر کے دل پر چوٹ لگی اور وہ زمین پر بیٹھ گئے۔ پھر کہا: مجھے وہ صحیفہ سناؤ جو تم پڑھتے ہو۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم اس صحیفے کی توہین برداشت نہیں کرسکتے، نہ ہی کسی مشرک کو دے سکتے ہیں کیونکہ اسے صرف پاکیزہ لوگ ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا: اچھا مجھے خود سناؤ، تو میں اس کی کوئی توہین نہیں کروں گا۔ اس وعدے کے بعد سیدنا خبابؓ کو اندر سے باہر بلایا گیا اور انہوں نے سورۂ طٰہٰ کی آیات کی تلاوت کی۔ چھوٹی چھوٹی آیات میں اتنا مؤثر پیغام سمودیا گیا ہے کہ اعجازِ قرآنی پر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اہلِ ایمان کے ایمان میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ قرآنِ حکیم پورے سوز کے ساتھ پڑھا جارہا تھا اور عمر کے دل کی دنیا میں عظیم الشان انقلاب برپا ہو رہا تھا۔
قرآنِ مجید تو ہے ہی کتابِ انقلاب، فرد سے لے کر معاشرے تک اس کے پیدا کردہ انقلاب کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ سیدنا عمرؓ نے آیات ِقرآنی سنیں اور پھر خاموشی سے گھر کا دروازہ کھول کر نکل گئے۔ اب بھی منزل دارِ ارقم ہی تھی، مگر ارادہ بدل چکا تھا۔ یہ وہ عمر نہیں تھا جو دارالندوۃ سے نکلا تھا، یہ وہ عمرؓ تھا جس کے حق میں نبی مہربانؐ کی دعائیں دربارِ ربانی میں قبول ہوچکی تھیں۔ قرآنِ مجید کی اثرآفرینی کے ساتھ بہن کی استقامت نے بھی کفر کو مات دی تھی۔
جب عمرؓبن خطاب دارِ ارقم پہنچے اور دروازے پر دستک دی تو ایک صحابی نے دروازے کے سوراخ میں سے ان کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر دروازہ کھولنے کے بجائے واپس آنحضورؐ کے پاس آکر سرگوشی کے انداز میں کہا: ’’یارسول اللہ! عمربن خطاب دروازے پر کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں تلوار ہے‘‘۔ سیدنا حمزہؓ‘ جو صرف تین دن پہلے مسلمان ہوئے تھے‘ نے بھی یہ بات سن لی اور فرمایا: اللہ کے بندے دروازہ کھول دو۔ اگر وہ نیک ارادے سے آیا ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر اس کا کوئی اور ارادہ ہے تو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں اس کا سر اُسی کی تلوار سے قلم کردوں گا۔ دروازہ کھلا، عمر اندر آئے، سیدھے آنحضورؐ کے پاس پہنچے۔ آپؐ نے ان کی چادر پکڑ کر کھینچا اور کہا عمر! کیسے آئے ہو؟ عرض کیا اسلام قبول کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ پھر کلمۂ شہادت پڑھا اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ آنحضورؐ کی زبانِ مبارک سے تکبیر کا نعرہ بلند ہوا۔ سبھی صحابہؓ نے بھی آپ کی تقلید میں اللہ کی کبریائی کا اعلان کیا اور دارِارقم تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھا۔ (سیرۃ ابن ہشام، جلد دوم)
کئی مہینوں سے نبی اکرمؐ مسلسل دعا کرتے رہے تھے: اَللّٰہُمَّ انْصُرِالْاِسْلَام بِاحَدِ عُمَرَیْنِ۔ یعنی اے اللہ (مکہ کے) دو عمروں میں سے کسی ایک عمر کو اسلام کا مددگار بنادے۔ یعنی عمربن خطاب کو اسلام کی آغوش میں لے آ، یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) کو ایمان کی توفیق بخش دے۔ آپؐ کی دعا کے یہ الفاظ بھی نقل کیے گئے ہیں۔ اَللّٰہُمَّ اعِزَّ الْاِسْلَامَ بِاَحَبِّ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ اِلَیْکَ بِاَبِیْ جَہْلٍ اَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابٍ۔ (صحیح بخاری، جامع ترمذی) ’’اے اللہ! ان دو مردانِ کار، ابوجہل اور عمربن خطاب میں سے جو بھی تجھے زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو عزت وقوت عطا فرما‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عمرؓبن خطاب کے بارے میں دعائے نبوی کو شرفِ قبولیت بخشا۔ آپؐ کی اس دعا میں یقینا بڑی حکمت ہے۔
آپؐ کا ارشاد ہے: خِیَارُکُمْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ خِیَارُکُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقِہُوا۔ یعنی تم میں سے جو لوگ جاہلیت میں اگلی صفوں میں کام کرتے ہیں، قبولیتِ اسلام کی توفیق مل جائے تو خدمتِ اسلام میں بھی وہ اگلی صفوں ہی میں ہوں گے اگر دین کا صحیح فہم حاصل کر لیں۔ (متفق علیہ، روایت: عبدالرحمن بن صخر)۔ ابوجہل اور عمرؓبن الخطاب آپس میں ماموں بھانجا تھے۔ یہ دونوں شخصیات اپنی بہادری اور جرأت نیز فہم وفراست اور اوصافِ قیادت میں نمایاں تھیں۔ ابوجہل بدبخت وبدنصیب ہے، مگر اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے کفر پر اتنا مضبوط تھا کہ دنیا کا کوئی فرعون ونمرود مشکل ہی سے اس کی مثال پیش کرسکتا ہے۔
قبولِ اسلام کے بعد سیدنا عمرؓ نے آنحضورؐ سے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: یقینا ہم حق پر ہیں۔ اس پر عرض کیا: پھر ہمیں دارِ ارقم کے بجائے بیت اللہ شریف میں جا کر نماز پڑھنی چاہیے؛ چنانچہ اس روز مسلمان دارِ ارقم سے دو صفیں بنا کر نکلے۔ ایک صف کے آگے آگے حمزہؓ بن عبدالمطلب اور دوسری صف کے آگے عمرؓبن خطاب تھے۔ مسلمان اس شان کے ساتھ حرم شریف میں آئے اور وہاں نماز پڑھی اور سیدنا عمرؓ نے سردارانِ قریش کو متنبہ کردیا کہ وہ اسلام میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس خبر سے قریش کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ یوں اہلِ علم کے نزدیک سیدنا عمربن خطابؓ مرادِ رسولؐ ہیں۔