جرمن چانسلر کا امریکہ۔ یورپی یونین تجارتی معاہدے کو’فوری اور آسان‘ بنانے پر زور
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جون 2025ء) جرمنی کے وفاقی چانسلر فریڈرش میرس نے برسلز میں یورپی یونین کے رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر یہ بات کہی، جہاں یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے کہا کہ یورپی یونین کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے ان کے ٹرانس اٹلانٹک تجارتی تنازعہ میں ایک نئی تجویز موصول ہوئی ہے۔
ٹرمپ کی تجارتی جنگ، عالمی معیشت کی تباہی کا سبب؟
ٹیرف کی مہلت 9 جولائی کو ختم ہونے والی ہے۔ اس صورت حال کے مدنظر میرس نے کہا کہ وقت کی بہت اہمیت ہے۔
میرس نے نامہ نگاروں کو بتایا،''ہمارے پاس 9 جولائی تک دو ہفتے سے بھی کم وقت ہے اور آپ اس وقت میں کسی جدید قسم کے تجارتی معاہدے پر اتفاق نہیں کر سکتے۔
(جاری ہے)
‘‘
میرس کا کہنا تھا کہ کیمیکلز، فارماسیوٹیکل، مکینیکل انجینئرنگ، اسٹیل، ایلومینیم اور کاروں جیسی جرمن صنعتوں پر پہلے ہی زیادہ ٹیرف کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے جس سے کاروبار خطرے میں ہیں۔
ٹرمپ نے یورپی یونین پر مجوزہ 50 فیصد محصولات فی الحال معطل کر دیے
میرس نے مزید کہا کہ فان ڈیئر لائن نے تجویز دی تھی کہ یورپی ممالک ایک نئی تجارتی تنظیم بنائیں جو بتدریج ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کی جگہ لے سکے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آئیڈیا ابتدائی مراحل میں ہے لیکن اس میں تنازعات کو حل کرنے کے طریقہ کار کو شامل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ ڈبلیو ٹی او کو کرنا تھا۔
انہوں نے کہا، ''آپ سب جانتے ہیں کہ ڈبلیو ٹی او مزید کام نہیں کرے گا۔‘‘
تجارت کے معاملے پر یورپی یونین کے رہنما ’متحد‘وفاقی جرمن چانسلر نے کہا کہ تجارت کے بارے میں یورپی یونین کے رہنما "بنیادی طور پر متحد" ہیں اور لاطینی امریکہ کے مرکوسور بلاک کے ساتھ جلد از جلد تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے پر یورپی یونین کے ارکان کے درمیان صرف ''معمولی اختلافات‘‘ ہیں۔موجودہ تجویز پر فرانس کی طرف سے اعتراضات کے بارے میں پوچھے جانے پر، میرس نے کہا کہ انہوں نے سربراہی اجلاس کے دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے اس موضوع کے بارے میں دو بار بات کی تھی اور محسوس کیا کہ اس معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے ان میں ''خاصی رضامندی‘‘ ہے۔
تاہم، ماکروں نے ایک مختلف بیان دیا۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فرانس اس معاہدے کو اس کی موجودہ شکل میں قبول نہیں کرسکتا۔
ماکروں نے کیا کہا؟فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے یورپی یونین کے امریکہ کے ساتھ فوری تجارتی معاہدہ پر زور دیا۔
ماکروں نے سربراہی اجلاس کے بعد کہا، ''فرانس فوری معاہدے تک پہنچنے کے حق میں ہے، ہم نہیں چاہتے کہ یہ ہمیشہ کے لیے ٹلتا رہے۔
‘‘ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ یورپی ممالک یہ نہیں چاہیں گے کہ ’’ معاہدہ کسی بھی قیمت پر ہو جائے۔‘‘ماکروں نے کہا کہ ایک منصفانہ معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور کسی بھی ''فراخ دلی کو کمزوری کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکی بیس لائن ٹیرف 10 فیصد برقرار رہتی ہے، تو یورپ کو بھی اس پر غور کرنا پڑے گا۔
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یورپی یونین کے معاہدے کو ماکروں نے نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
سلامتی کونسل: ایران کے جوہری پروگرام پر سفارتکاری کی اہمیت پر اصرار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 جون 2025ء) اقوام متحدہ نے ایران کے جوہری مسئلے کا سفارتی حل نکالنے کے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مشترکہ جامعہ لائحہ عمل (جے سی پی او اے) اور اس کی مںظوری دینے والی قرارداد کے مقاصد حاصل نہیں ہو سکے۔
سیاسی امور کے لیے اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے کہا ہے کہ امریکہ کے صدر کی جانب سے اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بندی کا اعلان تباہ کن کشیدگی کو روکنے اور ایران کے جوہری مسئلے کا پرامن حل نکالنے کا موقع ہے۔
حالیہ تنازع نے اس مسئلے کے سفارتی حل کی کوششوں کو کمزور کیا ہے اور ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملوں نے سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 پر مکمل عملدرآمد کے امکانات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے یہ بات ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے 2015 میں طے پانے والے معاہدے کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
یہ معاہدہ ایران اور امریکہ، چین، یورپی یونین، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور روس کے مابین طے پایا تھا۔
اس کے تحت ایران کو یورینیم کی افزودگی سختی سے محدود کرنے، جوہری مواد کی مقدار میں کمی لانے، سینٹری فیوج کے مخصوص حد سے زیادہ استعمال کو روکنے اور جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کو اپنی تنصیبات کی موثر نگرانی کی اجازت دینے کا پابند کیا گیا اور اس کے عوض اس پر اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران 2018 میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے بعد ایران نے بھی جوہری سرگرمیوں کو محدود رکھنے کا وعدہ پورا کرنے سے انکار کر دیا۔
اس معاہدے کے تحت ایران پر جوہری سرگرمیوں سے متعلق پابندیاں 18 اکتوبر کو ختم ہو جائیں گی۔ روزمیری ڈی کارلو نے خبردار کیا ہے کہ کونسل کی جانب سے اس مدت میں توسیع نہ کی گئی تو معاہدے کے اہم مقاصد حاصل نہیں ہو پائیں گے۔
سفارت کاری عزمانڈر سیکرٹری جنرل نے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ حالیہ مہینوں کے دوران اومان میں ایران اور امریکہ کے مابین جوہری مسئلے پر دوطرفہ بات چیت کے پانچ ادوار کے نتیجے میں معاہدے پر مکمل عملدرآمد بحال نہیں ہو سکا اور اس دوران ایران پر اسرائیل کے حملوں نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
روزمیری ڈی کارلو نے کہا کہ 'جے سی پی او اے' میں شامل چین، فرانس، جرمنی، ایران، روس اور برطانیہ نے اس مسئلے کا سفارتی حل نکالنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ مارچ میں چین، ایران اور روس نے سیکرٹری جنرل کو قرارداد 2231 کی شرائط اور اس پر عملدرآمد کے مراحل سے آگاہ کیا تھا۔ علاوہ ازیں، چین نے ایران کے جوہری مسئلے کو حل کرنے کے لیے مرحلہ وار اور دوطرفہ طریقہ کار بھی تجویز کیا۔
انہوں نے کہا کہ سفارت کاری اور تصدیق ہی ایران کے جوہری پروگرام کو یقینی طور پر پُرامن رکھنے کا بہترین طریقہ ہیں۔
یورپی یونین نے اس مسئلے پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی اپیل کو دہراتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عسکری کارروائی کے بجائے مذاکراتی معاہدہ ہی ایران کے جوہری مسئلے کے پائیدار حل کا ضامن ہو سکتا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کے سابق نائب صدر سٹیوروس لیمبرینیڈز نے یونین کی اعلیٰ سطحی نمائندہ کاجا کیلس کی جانب سے سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے اس مسئلے کے سفارتی حل کی جانب فوری واپسی کی ضرورت کو واضح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول یا تیاری سے روکنا یورپی یونین کے لیے سلامتی کی ایک اہم ترجیح ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی بڑھتی ہوئی جوہری سرگرمیوں اور 'آئی اے ای اے' کو ان کی نگرانی کے لیے رسائی نہ ملنے کے مسئلے نے 'جے سی پی او اے' کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے جبکہ یورپی یونین سفارت کاری کے ذریعے معاہدہ برقرار رکھنے کے لیے متواتر کوششیں کرتی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سفارت کاری جاری رہنی چاہیے اور اس معاملے میں آگے بڑھنے میں 'آئی اے ای اے' کی جانب سے نگرانی اور تصدیق کی کوششوں کو مرکزی اہمیت حاصل ہونا ضروری ہے۔