خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے نمائندوں کی اسلام آباد میں محفوظ اور پرسکون رہائش کے لیے پہلے سے موجود خیبر پختونخوا ہاؤس کے باوجود خیبر پختونخوا ہاؤس 2 تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے نئے مالی سال کے بجٹ میں فنڈ بھی مختص کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کے پی ہاؤس پر چھاپہ، آئی جی اسلام آباد سمیت 600 پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمے کی استدعا

صوبائی حکومت نے بجٹ میں 500 ملین روپے پختونخوا ہاؤس 2 کی تعمیر کے لیے مختص کیے ہیں جو اسلام آباد کے قریب خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں تعمیر کیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے مطابق خیبر پختونخوا ہاؤس 2 صوبے کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے تاکہ اسلام آباد جانے والے افراد کو محفوظ اور پرسکون رہائش میسر ہو۔

انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا ہاؤس 2 کے لیے ہری پور کے علاقے مکھنیال میں جگہ انہوں نے خود پسند کی ہے جس پر متعلقہ ڈپٹی کمشنر سیکشن 4 نافذ کرے گا۔

پختونخوا ہاؤس 2 کی تعمیر کی وجہ کیا ہے؟

خیبر پختونخوا کے حکام کے لیے اسلام آباد میں پہلے سے خیبر پختونخوا ہاؤس موجود ہے جو وزیر اعلیٰ اور دیگر اسلام آباد کے دورے کے دوران استعمال کرتے ہیں اور اس کا خرچ بھی صوبائی حکومت اٹھاتی ہے۔

مزید پڑھیے: یہ نہ ہو پی ٹی آئی رہنما ایک بار پھر پتلی گلی سے کے پی ہاؤس پہنچ جائیں، مصدق ملک

اسلام آباد میں تمام صوبوں کے لیے الگ الگ ہاؤسز موجود ہیں۔ تاہم اسلام آباد میں خیبر پختونخوا ہاؤس کو وفاق میں سیاسی مخالف حکومت کی موجودگی کے باعث علی امین گنڈاپور غیر محفوظ قرار دے رہے ہیں۔

بجٹ اجلاس کے دوران خیبر پختونخوا ہاؤس سے متعلق اراکین کے سوالات پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اسمبلی کو بتایا کہ ان کی حکومت اسلام آباد کے قریب خیبر پختونخوا ہاؤس 2 تعمیر کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: کے پی ہاؤس پر چھاپے کے دوران علی امین گنڈاپور کہاں چھپے رہے؟

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت بننے کے بعد خیبر پختونخوا ہاؤس میں جو حالات ان کے ساتھ پیش آئے وہ مستقبل میں دوبارہ رونما ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد آنا جانا لگا رہتا ہے جس کے لیے انہیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’کبھی ہمارے لیے خندق کھود کر راستہ روکا جاتا ہے تو کبھی کسی اور طریقے سے روکتے ہیں۔ ان حالات سے بچنے کے لیے خیبر پختونخوا ہاؤس 2 کا منصوبہ بنایا ہے جو سب کے لیے ہو گا‘۔

’پہاڑی سے اسلام آباد پر بھی نظر رکھیں گے‘

انہوں نے بتایا کہ مارگلہ ہلز کے قریب سروے کروایا ہے اور اوپر ایک پہاڑی پر جگہ دیکھی گئی ہے جو خیبر پختونخوا کا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معلوم نہیں وہ جگہ کس کی ملکیت ہے تاہم اس پر سیکشن 4 نافذ کیا جائے گا۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ یہ پختونخوا ہاؤس 2 تمام اراکین کے لیے بن رہا ہے اور آتے جاتے لوگوں کو نظر آئے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہاڑی کے اوپر سے اسلام آباد پر بھی نظر رکھیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ وفاق نے اگر خیبر پختونخوا کے عوام کے آئینی حقوق نہیں دیے تو پہاڑ سے کبھی بھی اسلام آباد کا رخ کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: رینجرز کی جانب سے کے پی ہاؤس کے حصار کی خبریں من گھڑت قرار

حکومتی ذرائع کے مطابق گزشتہ سال پی ٹی آئی کے ڈی چوک مارچ کے دوران وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں خیبر پختونخوا ہاؤس پر چھاپہ مارا گیا تھا اور وزیر اعلیٰ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ گرفتاری سے بچنے کے لیے کئی گھنٹے سیکیورٹی پوسٹ میں چھپے رہے تھے جبکہ بعد ازاں وہ مارگلہ ہلز کے راستے خیبر پختونخوا میں داخل ہوئے۔

’صوبائی حدود میں وفاقی ادارے کارروائی نہیں کرسکیں گے‘

وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مطابق خیبر پختونخوا ہاؤس 2 وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قریب ہے اور وہاں سے آسانی سے اسلام آباد جایا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کہیں تو اسی وقت اسمبلی تحلیل کردوں گا، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور

حکومتی ذرائع کے مطابق حکومت نے وفاق سے اختلافات کے دوران اسلام آباد کے قریب محفوظ رہائش کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیا ہے جو صوبے کی حدود میں ہے اور وفاقی ادارے وہاں کارروائی نہیں کر سکتے۔

انہوں نے بتایا کہ مکھنیال ایک خوبصورت سیاحتی علاقہ ہے اور اس مقام سے اسلام آباد کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خیبرپختونخوا ہاؤس 2 کے پی ہاؤس 2 وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا ہاؤس 2 کے پی ہاؤس 2 وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا ہاؤس 2 اسلام آباد کے قریب علی امین گنڈاپور اسلام آباد میں نے بتایا کہ کے پی ہاؤس وزیر اعلی نے کہا کہ سے اسلام کے مطابق انہوں نے کے دوران ہے اور کے لیے

پڑھیں:

خیبر پختونخوا میں قیامِ امن کے لیے فوجی آپریشن کیا جائے یا نہیں؟

خیبرپختونخوا میں شدید بے امنی کے دوران رائے اس بات پر واضح طور پر منقسم ہے کہ قیامِ امن کے لیے فوجی آپریشن کیا جائے یا نہیں۔

ایک رائے یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کے سوا کوئی اور حل موجود نہیں، اور آپریشن ہی آخری راستہ ہے۔ ان کے مطابق، طاقت کا استعمال ہی وہ ذریعہ ہے جو دہشت گرد نیٹ ورکس کو توڑ سکتا ہے اور عوام کو فوری ریلیف دے سکتا ہے۔ لیکن دوسری جانب، فوجی آپریشنز کے خلاف مقامی سطح پر کیے جانے والے مظاہروں (امن مارچ) میں یہ مطالبہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ اگر آپریشن ہی آخری حل ہے تو یہ وضاحت دی جائے کہ اب تک کیے گئے بائیس بڑے فوجی آپریشنز کے باوجود امن کیوں قائم نہیں ہو سکا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ طاقت کے استعمال کے باوجود اگر پائیدار امن حاصل نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ حکمتِ عملی میں بنیادی خامی موجود ہے۔ خیبر پختونخوا کے بندوبستی اور قبائلی اضلاع میں موجودہ صورتحال کے تناظر میں اگر 7نکات پر عمل درآمد کیا جائے تو امن و امان کے قیام کی تمام کوششوں پر کافی حد تک اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتا ہے۔

ملک کی سطح پر ایک جامع گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے، جس میں تمام سیاسی جماعتوں، تمام فریقین اور جملہ شعبہ ہائے زندگی کے نمائندوں کی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے ایک نیا نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جائے۔ اس ڈائیلاگ میں صرف دہشت گردی کے خاتمے کی پالیسی نہیں بلکہ اس کے اسباب، خطے کی سماجی و معاشی صورتحال، اور پڑوسی ممالک سے تعلقات کے اثرات پر بھی کھل کر بحث کی جائے۔ فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ فوجی آپریشن کسی اور مقصد یا کسی کے ایما پر نہیں بلکہ خالصتاً دہشت گردوں کے خلاف ہورہا ہے، اور اس بار اس میں کسی بھی ’اچھے‘ یا ’بُرے‘ طالبان کی تمیز نہیں کی جائے گی۔ ماضی میں ’اچھے‘ اور ’برے‘ طالبان کی پالیسی نے عوام کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا، اس لیے اس بار شفافیت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ جامع فوجی کارروائی (کائنیٹک ایکشن) کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں غیر فوجی اقدامات (نان کائنیٹک ایکشن) بھی ضروری ہیں۔ تمام قبائلی اضلاع میں 2008ء کے بعد فوجی آپریشنز تو باقاعدگی سے ہوئے، لیکن بحالی، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، بہتر طرزِ حکومت کے نفاذ اور مقامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے، جس کے باعث مسائل حل ہونے کے بجائے مزید سنگین ہوگئے۔ مثال کے طور پر، بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندان آج بھی مستقل رہائش اور روزگار کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جس سے مقامی ناراضگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ سیکورٹی فورسز کسی بھی طور اندرونی سلامتی کی براہِ راست ذمہ دار نہیں، لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کیا پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس قابل ہیں کہ داخلی سلامتی کے مسائل مؤثر طریقے سے حل کرسکیں؟ فی الحال، پولیس فورس کی تربیت، وسائل اور ٹیکنالوجی کے معیار میں نمایاں کمی ہے، جو دہشت گردوں کے جدید نیٹ ورک سے نمٹنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ داخلی سلامتی بہتر بنانے کے لیے پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں سرمایہ کاری اور ان کی استعدادِ کار میں اضافہ ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اب مکمل طور پر سامنے آنا ہوگا۔ خاص طور پر 3 بڑی جماعتوں، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی، کو باہمی اختلافات ختم کرکے اسٹریٹیجک نکات پر اتفاق کرنا ہوگا۔ انہیں سیکیورٹی فورسز کے پیچھے نہیں بلکہ فرنٹ پر آ کر، پالیسی کے مطابق، قیادت سنبھالنی ہوگی۔ اگر یہ سیاسی قوتیں سیکیورٹی ایجنڈے پر یکساں موقف اپنائیں تو نہ صرف عوام کا اعتماد بڑھے گا بلکہ دہشت گرد گروپوں کو بھی واضح پیغام ملے گا کہ ریاست ایک پیج پرہے۔ پچھلی 2دہائیوں سے جاری فوجی آپریشنز میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان عوام نے اٹھایا ہے۔ اگر فوجی کارروائی کے دوران صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جائے تو عوام ان آپریشنز کی باقاعدہ حمایت کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے شہری علاقوں میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کو ترجیح دی جائے اور بے گناہ شہریوں کے نقصان کو ہرممکن حد تک روکا جائے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قیامِ امن کے لیے ریاستی کوششوں میں مقامی لوگوں کی رائے کو مقدم رکھا جائے، اور ریاستی فیصلوں میں ان دونوں صوبوں کے آئینی حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ گیس، بجلی اور دیگر قدرتی وسائل سے متعلق فیصلوں میں مقامی آبادی کو لازماً شامل کیا جائے۔ اس شمولیت سے نہ صرف عوامی اعتماد بڑھے گا بلکہ وسائل کے منصفانہ استعمال سے احساسِ محرومی میں بھی کمی آئے گی۔

آخر میں، یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ محض بندوق اور گولی سے امن قائم نہیں ہوتا۔ امن اس وقت پائیدار بنتا ہے جب طاقت کے ساتھ انصاف، معاشی ترقی اور عوامی شمولیت کا امتزاج پیش کیا جائے۔ اگر ریاست یہ جامع حکمتِ عملی اپنائے تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایک نئے دور کے آغاز کی امید کی جا سکتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

لحاظ علی، پشاور

خیبرپختونخوا سیاسی جماعتیں فوجی آپریشن قیام امن

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا میں قیامِ امن کے لیے فوجی آپریشن کیا جائے یا نہیں؟
  • خیبر پختونخوا، بلدیاتی حکومتوں کو توسیع دینے کی بجائے انتخابات کرانے کا فیصلہ
  • عمران خان اپنا طبی معائنہ کہاں سے کروانا چاہتے ہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر
  • مون سون بارشیں کہاں اور کب تک؟ محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کر دی
  • خیبر پختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کو توسیع دینے کے بجائے انتخابات کرانے کا فیصلہ
  • خیبر پختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم، نئے انتخابات کا فیصلہ
  • خیبر پختونخوا حکومت کا محکمہ بلدیات کے تمام مالی امور ڈیجیٹل نظام پر لانے کا فیصلہ
  • خیبر پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی خارج از امکان نہیں،مناسب وقت پر اکثریت ثابت کرینگے، امیر مقام
  •  خیبر پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی ممکن ہے، امیر مقام کا دعویٰ 
  • خیبر پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی خارج از امکان نہیں، امیر مقام