فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی،ڈی جی آئی ایس پی آر
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کا کہنا ہے کہ فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی،ہم ہمیشہ اس معاملے پر بالکل واضح رہے ہیں،یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ آپس میں بات کریں،پاکستان کی فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے،ریاست آئین پاکستان کے تحت سیاسی جماعتوں سے مل کر بنی ہے،جو بھی حکومت ہوتی ہے وہی اس وقت کی ریاست ہوتی ہے،افواج پاکستان اس ریاست کے تحت کام کرتی ہیں۔
ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ اپنی سیاست اپنے تک رکھیں ،درخواست ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو سیاست سے دور رکھیں،سیاسی مقاصد کیلئے فوج کیخلاف بہت سی افواہیں اور مفروضے پھیلائے جاتے ہیں،ایک افواہ یہ بھی تھی کہ فوج اپنا کام نہیں کرتی اور سیاست میں ملوث ہے۔
جب معرکہ حق آیا تو کیا فوج نے اپنا کام نہیں کیا ؟کیا قوم کو کسی پہلو میں فوج کی کمی محسوس ہوئی؟ نہیں، بالکل نہیں،ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں،ہماری وابستگی علاقائی سالمیت،خودمختاری اور پاکستانیوں کے تحفظ سے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جائے،ہم صرف اندرونی طور پر ہی چٹان کی طرح متحد نہیں بلکہ بحیثیت قوم بھی متحد ہیں۔
ملک میں جب پولیو ٹیمیں ویکسین کیلئے نکلتی ہیں تو فوج ہی ان کیساتھ ہوتی ہے،واپڈا بجلی کے میٹر چیک کرنا چاہتی ہے تو فوج کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی جاتی ہے۔اس ملک میں اپنی سروس کے دوران میں نے نہریں بھی صاف کی ہیں،ہم عوام کی فوج ہیں، حکومت جب کہے مدد کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سیاسی جماعتوں سے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کی تضاد پر مبنی سیاست
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں حکومت کا حصہ بھی ہے اور حزب اختلاف کی سیاست بھی وہ خود سے کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری بطور صدر اور بلاول زرداری پارٹی کی سربراہی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری کے کھیل کا بھی حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یعنی پیپلز پارٹی ایک ہی ٹکٹ میں حکومت، حزب اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرکے اقتدار کی بندر بانٹ میں اپنے پتے کھیلنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ حکومت کے بیش تر معاملات پر سخت تنقید بھی کرتے ہیں مگر جب ان کی حمایت یا ووٹ دینے کی باری آتی ہے تو پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آکر ان کو مکمل سہولت کاری کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ کھیل کا منصوبہ ہے جہاں پیپلز پارٹی کے ہر صورت میں حکومت کا ساتھ دینا ہے اور اسی شرط کی بنیاد پر موجودہ حکومت کا سیاسی بندوبست کیا گیا تھا اور پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف لاکھ شور کرے اسے کرنا وہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت یا پیپلز پارٹی کے درمیان طے شدہ کھیل کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک بار پہلے بجٹ پر خوب تنقید کی اور کہا کہ حکومت نے ہمیں اتحادی جماعت ہونے کے ناتے کہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا مگر بعد میں اپنی جماعت کے حق میں ترقیاتی فنڈ کے نام پر سیاسی بارگینگ کرکے بجٹ پر حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی پہلے اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث اکڑ جاتی ہے اور بعد میں حکومت کے سامنے لیٹ کر وہی کچھ کرتی ہے جو ان کے حصہ کا کھیل ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی رومانس یا سیاسی آنکھ مچولی کا کھیل 2008 کی سیاست سے ہی جاری ہے اور یہ دونوں جماعتیں نہ چاہتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ایک دوسرے کی اتحادی ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے اہم راہنمائوں کا گلہ ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کی سیاست نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاست کو سیاسی طور پر دفن کردیا ہے اور خود مسلم لیگ ن سے سمجھوتا کرکے پارٹی کو پنجاب میں غیر اہم کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے خود کو سندھ کی سیاست تک محدود کرلیا ہے اور آصف علی زرداری سمیت بلاول زرداری کی سیاسی تقریریں بھی سندھ کی سیاست تک محدود ہوگئی ہیں۔ اگرچہ اس وقت بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی ہی حکومت ہے مگر سب جانتے ہیں کہ وہاں کس کی حکومت ہے اور وزیر اعلیٰ کس کی حمایت سے بنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حیثیت بلوچستان میں محض نمائشی ہے اور اصل اختیارات کسی اور کے پاس ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پیپلز پارٹی اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے اور چاروں صوبوں کی پیپلز پارٹی آج صوبائی سیاست تک محدود نظر آتی ہے۔ اصل میں آصف علی زرداری نے ایک بات اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا اصل محور اسٹیبلشمنٹ ہے اور عوامی سیاست کی کوئی حیثیت نہیں اور اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی اب ماضی کی پارٹی سے باہر نکل کر ایک نئی جماعت یعنی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ جماعت بن گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو سیاسی طور پر بلیک میل کرتی ہے اور حکومت کے مشکل وقت میں یا حکومت پر ہونے والی تنقید کا سیاسی بوجھ کسی بھی صورت میں اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے مسلم لیگ ن کے اندر سے بھی یہ آوازیں اٹھتی ہیں کہ ہمیں پیپلز پارٹی کی سیاسی سطح کی بلیک میلنگ سے باہر نکلنا چاہیے۔ لیکن ان کی مجبوری بھی یہ ہے کہ ان کی جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان باہمی اتفاق رائے اسٹیبلشمنٹ کا پیدا کردہ ہے۔ اس وقت بلاول زرداری خود کو ایک متبادل وزیراعظم کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے پیش کررہا ہے اور اس کے بقول وہ اسٹیبلشمنٹ کی خدمت شہباز شریف سے زیادہ بہتر کرسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاک بھارت کشیدگی میں غیر ممالک کی سطح پر پارلیمانی گروپ کی قیادت بھی بلاول زرداری کو اسٹیبلشمنٹ کی خاص ہدایت پر دی گئی تھی تاکہ ان کا سیاسی قدکاٹھ بڑھ سکے۔ بلاول زرداری کی کوشش ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے خود کو وزیراعظم کے طور پر اپنی قبولیت کو ممکن بناسکے۔ اسٹیبلشمنٹ کو پی ٹی آئی اور عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حمایت درکار ہے جو وہ ہر صورت میں پیش کرکے خود کو عملاً زیادہ وفادار کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی بھی سیاسی دشمن پی ٹی آئی ہے اور اسی بنیاد پر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کا جو جمہوری تشخص تھا اب وہ ختم ہوگیا ہے اور اب پارٹی کے اہم راہنما رضا ربانی او ردیگر سرکردہ نظریاتی ساتھیوں کو بھی پارٹی قیادت نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت دیوار سے لگادیا ہے۔ اس لیے اب پیپلز پارٹی کی سیاست کو محض طاقت اور اقتدار کی سیاست کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر بھی دیکھا جائے تو پارٹی کا اصل چہرہ سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔ آصف زرداری نے بھی بلاول زرداری کو سمجھادیا ہے کہ نظریاتی سیاست ختم اور اقتدار کی سیاست کا کھیل عروج پر ہے اور اسی کھیل میں ہم کو اپنے اقتدار کا حصہ طاقت ور طبقہ سے حاصل کرنا ہے۔ ان کے نزدیک جمہوریت کا اصل درس ہی اقتدار کا ہی حصول ہوتا ہے اور چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز۔ پیپلز پارٹی سندھ اس لحاظ سے خوش ہے کہ آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کے باعث ہم اب اقتدار کے لازمی کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف سندھ اور بلوچستان کی وزارت اعلیٰ تو دوسری طرف چیرمین سینیٹ سمیت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں گورنر شپ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سمیت کئی حصوں میں پیپلز پارٹی اقتدار کے کھیل میں حصہ دار بن کر مسلم لیگ ن کے مقابلے میں بہتر کھیل کھیل رہی ہے اور یہ ہی اس کے مستقبل کی سیاست کی جھلک بھی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی یقینی طور پر اقتدار کے کھیل میں انجوائے کررہی ہے مگر اپنا سیاسی اور جمہوری مقدمہ وہ ہار گئی ہے اور اگر سندھ میں شفاف انتخابات ہوں تو پیپلزپارٹی کی سیاسی پوزیشن یہ نہ ہوگی جو اس وقت پارٹی کو حاصل ہے۔ آج اسٹیبلشمنٹ کو پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے اور کل یہ ضرورت اسے نہیں رہے گی کیونکہ اس کے کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں اور اس وقت پیپلز پارٹی کو احساس ہوگا کہ وہ سیاسی طور پر تنہا ہوگئے ہیں۔پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں کو سوچنا ہوگا کہ پارٹی سیاست کس طرف جا رہی ہے اور کیا پارٹی اپنا عوامی تشخص خراب کرنے کی سیاست کا تو حصہ نہیں بن گئی۔ اگر پیپلز پارٹی کو اپنا سیاسی اور جمہوری تشخص بحال کرنا ہے تو انہیں موجودہ اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے باہر نکل کر کسی نئے کردار کو تلاش کرنا ہوگا وگرنہ پیپلز پارٹی بھی ایک گم نام سیاست کا شکار ہو سکتی ہے۔