ایک خاندان کے 18 افراد بہہ گئے، پختونخوا حکومت سوتی رہی، عظمیٰ بخاری
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے خیبر پختونخوا میں دریائے سوات میں ایک ہی خاندان کے 18 افراد کے ڈوبنے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی خاندان کے 18 افراد پانی میں بہہ گئے اور خیبر پختونخوا صوبائی حکومت سوتی رہ گئی۔
دریائے سوات میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے پر اپنے رد عمل میں صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے وسائل، مشینری اور ریسکیو ٹیمیں صرف وفاق اور پنجاب پر چڑھائی کرنے کے لیے ہیں۔
عظمیٰ بخاری نے خیبرپختونخوا حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پانی میں بہنے والے سیاح ڈیڑھ سے 2 گھنٹے تک امداد کے منتظر رہے لیکن خیبر پختونخوا حکومت سیاحوں کی مدد کو نہیں پہنچی اور نہ ہی علی امین گنڈا پور کا ہیلی کاپٹر موقع پر پہنچ سکا۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوا میں موسلادھار بارش کے باعث دریائے سوات بپھر گیا جس کے نتیجے میں 7 مقامات پر خواتین اور بچوں سمیت 75 سے زائد افراد دریا میں بہہ گئے۔
بعد ازاں، 8 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں اور 55 سے زاید افراد کو ریسکیو کرلیا گیا ہے جبکہ دیگر افراد کی تلاش جاری ہے۔
تفصیلات کے مطابق سیالکوٹ اور مردان سے تعلق رکھنے والے 3 خاندان دریا کے کنارے بجری کے ایک ٹیلے پر ناشتہ کر رہی تھیں، جو غیر قانونی طور بنایا گیا تھا۔
عینی شاہیند نے بتایا کہ اچانک دریا میں پانی کی سطح بلند ہوئی اور وہ ٹیلہ چاروں طرف سے پانی میں گھِر گیا، وہ لوگ دریا کے کنارے تک نہیں پہنچ سکے کیونکہ درمیان میں گہرے گڑھے تھے اور پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کو توسیع دینے کے بجائے انتخابات کرانے کا فیصلہ
پشاور:خیبرپختونخوا حکومت نے بلدیاتی حکومتوں کو توسیع دینے کے بجائے نئے بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم نئے بلدیاتی انتخابات دیگر صوبوں سے مشروط کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب بلدیاتی نمائندوں کی تنظیم لوکل کونسل ایسوسی ایشن نے بھی مقررہ وقت میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات 2 مرحلوں میں کرائے گئے تھے۔ پہلے مرحلے کے انتخابات 19 دسمبر 2021ء کو ہوئے تھے لیکن بلدیاتی حکومتوں کی تشکیل 31 مارچ 2022ء کو ہوئی جب کہ دوسرے مرحلے کے انتخابات پہاڑی علاقوں میں جون 2022ء کو ہوئے اس طرح میدانی علاقوں میں بلدیاتی حکومتیں 31 مارچ 2026ء اور پہاڑی علاقوں میں جون 2026ء کو تحلیل ہوجائیں گی۔
بلدیاتی نمائندوں کا مؤقف ہے کہ اس عرصے کے دوران بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کیے گئے اور ان کے اختیارات کا بھی تعین نہیں ہوسکا، اس لیے ان کی مدت میں توسیع کی جائے، تاہم خیبرپختونخوا حکومت کا بلدیاتی حکومتوں کی مدت میں توسیع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کے مطابق بلدیاتی حکومتوں کی مدت میں توسیع کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ اگر پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے تو صوبائی حکومت بھی بلدیاتی انتخابات کرائے گی۔ ابھی تک پنجاب میں بلدیاتی ادارے فعال نہیں ہیں۔
دوسری جانب لوکل کونسل ایسوسی ایشن نے بلدیاتی انتخابات بروقت نہ ہونے پر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے چیئرمین حمایت اللہ مایار نے کہا ہے کہ آئین کے مطابق جس تاریخ کو بلدیاتی نمائندوں نے حلف اٹھایا ہے اسی روز بلدیاتی حکومتوں کی مدت شروع ہوجاتی ہے۔ اگر بلدیاتی حکومتیں تحلیل ہونے کے بعد بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جاتے تو عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔
لوکل کونسل ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر انتظار خلیل کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کو ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کیے گئے، نہ ہی انہیں قانون کے مطابق کام کرنے دیا گیا ہے۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کی مدت میں توسیع کی جائے۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے مذاکرات بھی جاری ہیں۔