حالیہ جنگ میں رہبر معظم انقلاب کی عسکری ڈاکٹرائن اور حکمت عملی
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امریکہ اور اسرائیل کی سب سے بڑی غلطی اس وقت انجام پائے گی جب وہ غلط اندازوں کی بنیاد پر کوئی نئی جنگ شروع کریں گے۔ ایسی اسٹریٹیجک غلطی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو تل ابیب اور حیفا کو مکمل طور پر زمین بوس کرنے پر مبنی اپنی طویل عرصے سے طے شدہ حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کا سنہری موقع میسر کر دے گی۔ شاید وہ خطے میں امریکہ کے تمام تر فوجی اور اقتصادی مفادات کے ساتھ بھی یہی کام کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ تحریر: مہدی جہان تیغی
ان دنوں موساد اور اسرائیلی فوجی سے وابستہ عناصر ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ کے دوران صیہونی رژیم کے اقدامات سے متعلق مختلف کہانیاں سنا رہے ہیں اور کئی مہینوں پر مبنی پیچیدہ منصوبہ بندی اور فوجی اقدامات کے گن گانے میں مصروف ہیں۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ حالیہ مسلط کردہ جنگ میں امریکہ کی جانب سے وسیع پیمانے پر اسرائیل کی فوجی، انٹیلی جنس اور تکنیکی مدد اور حمایت کے مقابلے میں رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کی فوجی ڈاکٹرائن اور جنگی حکمت عملی ہی تھی جس نے ان پر غلبہ پایا اور اس مرحلے پر جنگ کا حتمی نتیجہ ایران کے حق میں طے کیا۔ اس تشکیل پانے والی فوجی ڈاکٹرائن اور جنگی حکمت عملی کی بالترتیب 35 سالہ اور 12 سالہ تاریخ ہے۔ اس کے بارے میں مزید وضاحت کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں:
1)۔ یہ جاننے کے لیے کہ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی فوجی ڈاکٹرائن کس طرح تشکیل پائی ہے، ابتدائی دنوں میں انجام پانے والی ان کی ایک تقریر پر توجہ ضروری ہے۔ اس تقریر میں کچھ جملے ایسے ہیں جن سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف رہبر معظم انقلاب کی فوجی ڈاکٹرائن کی بنیاد واضح ہوتی ہے۔ 1990ء میں قیادت سنبھالنے کے بعد صیہونی رژیم کے خلاف براہ راست اپنے اہم ترین موقف کا اظہار کرتے ہوئے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا: "یہ صیہونی، طاقت کی زبان کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے۔ یہ بگڑ چکے ہیں! اسرائیل طاقت، ہتھیاروں اور مکے کے زور پر پیچھے ہٹے گا۔"
2)۔ 2013ء میں ایران اور اسرائیل کے درمیان حالات نے ایسی کروٹ لی کہ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ڈاکٹرائن کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف ممکنہ جنگی حکمت عملی زیادہ واضح طور پر بیان کی۔
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: "اگر صیہونی حکمرانوں سے کوئی غلط حرکت سرزد ہوئی تو اسلامی جمہوریہ تل ابیب اور حیفا کو زمین بوس کر دے گا۔" شاید کچھ لوگوں نے اس بیان کو اس وقت ایک قسم کی رجز خوانی یا زیادہ سے زیادہ قیادت کی طرف سے اس وقت جنگ کو روکنے کے لیے ایک بڑی دھمکی سے تعبیر کیا ہو گا لیکن درحقیقت ہمیں آج یہ سمجھ آئی ہے کہ یہ بیان بنیادی جنگی حکمت عملیوں میں سے ایک ہے اور ایک بھرپور جنگ کو ختم کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔
3)۔ اس فوجی حکمت عملی کے کچھ مراحل 12 روزہ جنگ میں انجام پائے اور امریکی اور اسرائیلی سیاسی اور عسکری حکام کے لیے اس کے وقوع پذیر اور موثر ہونے کی اچھی تصویر بھی پیش کی گئی ہے۔ بڑے فوجی اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اسرائیل نے ایران میں اپنے لڑاکا جنگی طیاروں کے ذریعے میزائل حملوں اور زمین پر انٹیلی جنس اقدامات کی صورت میں ٹارگٹڈ حملے شروع کیے۔ البتہ وہ اچھا خاصا نقصان پہنچانے میں کامیاب بھی رہا۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں ایران نے اسرائیل کے فوجی، اقتصادی، انٹیلی جنس، سائبر اور دیگر تکنیکی مراکز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
مزید برآں، ایران نے اسرائیلی چھاونیوں میں اس قدر غیر معمولی تباہی پھیلائی کہ صیہونی رژیم کے عسکری تجزیہ کار "تل ابیب کی غزہ سازی" کی اصطلاح استعمال کرنے لگے۔ جنگ کی ابتدا میں ایران نے ایک اور اہم پیغام بھی دیا جو یہ تھا کہ وہ دو سے چھ ماہ کی جنگ اور بتدریج اور بڑھتے ہوئے بڑے آپریشنز کے لیے بھی تیار ہے۔ جو دکھائی دے رہا تھا اور اور اس کی تصدیق جنگ کے واقعات بھی کر رہے تھے، وہ یہ حقیقت تھی کہ ایران مرحلہ با مرحلہ لیکن تیزی سے تل ابیب اور حیفا کو مکمل طور پر نابود کرنے میں مصروف ہے۔ نیتن یاہو نے ایران کی وسیع فوجی حکمت عملی موثر ہوتے دیکھ کر فوری طور پر کہا کہ وہ طویل اور تھکا دینے والی جنگ کا شکار نہیں ہو گا۔ لہذا وہ اگلے مرحلے میں امریکہ کو جنگ میں گھسیٹ لایا اور یوں ایران کی حکمت عملی کو پوری طرح کامیاب ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔
رہبر معظم انقلاب کی وسیع عسکری حکمت عملی میدان جنگ میں عمل کے مرحلے میں بھی نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور نہ صرف دشمن کی جانب سے ایران پر امن مسلط نہیں ہوسکا بلکہ اسرائیل کی جانب سے پہلے جنگ روکنے پر مشتمل ایران کا ہدف بھی حاصل کرلیا گیا۔
4)۔ اب ایران نے رہبر معظم انقلاب کی فوجی ڈاکٹرائن اور اسرائیل کے خلاف جنگی حکمت عملی کی برکت سے نیز وسیع عوامی حمایت کی بدولت، امریکہ کے سب سے اہم سیاسی ہدف یعنی ایرانی قوم کے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دینے کے مقابلے میں بھی ایک اسٹریٹجک جواب دیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ حالیہ مسلط کردہ جنگ میں ایران کی فوجی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ جدید میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی پر مبنی تھا اور اس نے امریکہ اور اسرائیل کی جدید دفاعی ٹیکنالوجی کو مات دی تھی۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جنگ کی وسیع حکمت عملی کے درست انتخاب کی وجہ سے (اسرائیل پر بڑی تباہی مسلط کرنے سے تل ابیب اور حیفا کو مٹی میں ملا دینے تک)، جنگ اور سیکورٹی کے دیگر شعبوں میں کچھ تکنیکی کمزوریوں کا بھی کسی نہ کسی طرح ازالہ ہو گیا۔ یا کم از کم اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس سے صیہونی دشمن کی کچھ تکنیکی برتری کو کم موثر بنایا جا سکتا ہے۔
5)۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل کی سب سے بڑی غلطی اس وقت انجام پائے گی جب وہ غلط اندازوں کی بنیاد پر کوئی نئی جنگ شروع کریں گے۔ ایسی اسٹریٹیجک غلطی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو تل ابیب اور حیفا کو مکمل طور پر زمین بوس کرنے پر مبنی اپنی طویل عرصے سے طے شدہ حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کا سنہری موقع میسر کر دے گی۔ شاید وہ خطے میں امریکہ کے تمام تر فوجی اور اقتصادی مفادات کے ساتھ بھی یہی کام کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب کی کی فوجی ڈاکٹرائن جنگی حکمت عملی صیہونی رژیم کے ڈاکٹرائن اور اور اسرائیل اسرائیل کے میں امریکہ اسرائیل کی میں ایران کی بنیاد ایران نے کے خلاف کے لیے اور اس
پڑھیں:
عملی اتحاد کا پہلا قدم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250927-03-4
غزالہ عزیز
پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کا ایک اہم معاہدہ ہے اور انوکھا بھی۔ اس معاہدے کے تحت ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت کو دونوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ دوحا میں اسرائیل کی جانب سے ہونے والے حملے کے بعد کیا گیا۔ اس معاہدے کے بعد سعودی وزیر دفاع نے اپنے ایکس پروگرام میں پیغام دیا ’’سعودیہ اور پاکستان… جارح کے مقابل ایک ہی صف میں ہمیشہ اور ابد تک‘‘۔ یہ جامع اور مختصر اظہار ہے۔ دوحا پر حملہ سارے مشرق وسطیٰ کے لیے قابل تشویش تھا۔ اسرائیل اس سے پہلے فلسطین، قطر، ایران، لبنان، شام اور یمن پر حملے کرچکا ہے۔ ہر حملے کے بعد اس نے اس طرح کے مزید حملوں کی دھمکی بھی دی۔ ڈھٹائی کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے اسرائیل کا حق دفاع قرار دیا۔ دوحا پر حملے کے بعد مشرق وسطیٰ کے حکمران اپنی سلامتی کے لیے کسی دوسرے کی طرف دیکھنے کے لیے مجبور ہوئے ایسے میں پاکستان انہیں قابل اعتماد اور مضبوط محسوس ہوا جس کا ثبوت مئی 2025ء کی پاک بھارت جنگ میں وہ دیکھ چکے تھے۔ چین کی پشت پناہی اور بھی زیادہ اطمینان بخش تھی۔ یہ معاہدہ ان حالات میں ایک اسٹرٹیجک شفٹ ہے جس سے سعودی عرب کی سیکورٹی تو مضبوط ہوگئی ہے ساتھ پاکستان بھی مضبوط ہوگا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون کی تشکیل 1960ء میں ہوئی جب شاہ فیصل سعودی عرب اور صدر ایوب خان پاکستان کی قیادت کررہے تھے، اس وقت سعودی فضائیہ کی تربیت میں مدد فراہم کی گئی۔ پھر 1967ء میں دفاعی تعاون کا معاہدہ ہوا جس میں پاکستانی افسران نے ٹرینر اور مشاورت کی خدمات انجام دیں، ہزاروں سعودی فوجی پاکستان میں تربیت پاتے رہے۔ 2017ء میں پاکستان کے سابق جنرل راحیل شریف نے اسلامی عسکری قیادت برائے انسداد دہشت گردی کی کمان سنبھالی۔ اب یہ معاہدہ بدلتے ہوئے علاقائی ماحول میں سعودی کے لیے قابل اعتماد دفاع کو یقینی بنانے میں کردار ادا کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت 2030ء تک سعودی عرب اپنی خود انحصاری کے لیے پاکستان کی آزمودہ فوجی مہارت سے فائدہ اٹھائے گا۔ اس معاہدے نے ساری دنیا کو حیران کیا ہے اور حیرانی اس بات پر زیادہ ہے کہ کیا مشرق وسطیٰ کے تحفظ کے ضامن کے طور پر مغرب کا کردار سائیڈ لائن کردیا گیا ہے۔ دراصل عرب ممالک کی اس سوچ کو یہ زاویہ دینے میں خود اسرائیل اور امریکا ہی کا کردار ہے۔ کنگ فیصل ریسرچ سینٹر کے تجزیہ کار عمر کریم کہتے ہیں کہ ’’یہ واضح ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد پہلے سے طے سیکورٹی انتظامات جس کے تحت امریکا کچھ خلیجی ممالک کی سیکورٹی کا ضامن ہے وہ اب موثر طریقے سے کام نہیں کررہا۔ وہ سیکورٹی کے ضامن کے طور پر کام نہیں کرپایا اور کہا گیا کہ اسرائیلی حملے میں امریکا ملوث ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کو اپنے آپ کو اس حملے سے علٰیحدگی جتانے کے لیے بار بار بیان دینے پڑے جن پر یقینا یقین مشکل تھا۔ لہٰذا ایسے میں اسرائیلی حملوں سے بچائو کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کا راستہ چنا۔ پاکستان کی جوہری صلاحیت اور دفاعی قابلیت کے باعث یہ معاہدہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اہمیت کو بڑھائے گا۔ اگرچہ دفاعی سہولتوں کی فراہمی کی تفصیل نہیں دی گئی، لیکن سعودی عرب کے لیے جوہری تحفظ کا ابہام بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار بھی ہیں اور ان کی ترسیل کا نظام بھی ہے۔ خاص طور سے ایسا نظام جو اسرائیل تک مار کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے علاقے میں اسرائیل کے جارحانہ حملوں کے باعث یہ بہت اہم ہے۔ قطر سے پہلے اسرائیل نے کئی ممالک کو نشانہ بنایا لیکن قطر پر حملہ اس لیے ان سب سے مختلف تھا کہ قطر امریکی اتحادی ہے اور قطر میں امریکی ائربیس موجود ہے جہاں دفاعی نظام ہے۔ اسرائیلی حملے کے بعد ظاہر ہے امریکا کی جانب سے دی گئی سیکورٹی کی ضمانتوں کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ لہٰذا یہ اسرائیل کے اس اقدام کے بعد بھی سمجھا جارہا ہے کہ دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی امریکا پر اعتماد کے لیے تذبذب کا شکار ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں کچھ اور ریاستیں پاکستان کی طرف متوجہ ہوں۔ مشرق وسطیٰ کی ریاستیں دفاعی نظام اور ہتھیار تو رکھتی ہیں لیکن وہ سب امریکا کے تیار کردہ ہیں اور انہیں آپریشنل رکھنے کے لیے امریکی سرپرستی ضروری ہے۔ یہ سارے نظام اسرائیل کے حملے کے وقت خاموش تھے، آگے بھی وہ کس وقت خاموش رہیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا دنیا پاکستان اور سعودی عرب کے دفاع معاہدے کو کچھ اس نظر سے دیکھ رہی ہے کہ ریاض کے مالی وسائل کو پاکستان جیسی ایٹمی قوت رکھنے والی فوج سے جوڑ دیا گیا ہے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادی انڈیا کے لیے یہ اچھی خبر نہیں بلکہ پریشانی کی بات ہے کہ یہ اسلامی اتحاد کا پہلا مظاہرہ اور پہلا قدم ہے۔