اسلام ٹائمز: امریکہ اور اسرائیل کی سب سے بڑی غلطی اس وقت انجام پائے گی جب وہ غلط اندازوں کی بنیاد پر کوئی نئی جنگ شروع کریں گے۔ ایسی اسٹریٹیجک غلطی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو تل ابیب اور حیفا کو مکمل طور پر زمین بوس کرنے پر مبنی اپنی طویل عرصے سے طے شدہ حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کا سنہری موقع میسر کر دے گی۔ شاید وہ خطے میں امریکہ کے تمام تر فوجی اور اقتصادی مفادات کے ساتھ بھی یہی کام کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ تحریر: مہدی جہان تیغی
 
ان دنوں موساد اور اسرائیلی فوجی سے وابستہ عناصر ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ کے دوران صیہونی رژیم کے اقدامات سے متعلق مختلف کہانیاں سنا رہے ہیں اور کئی مہینوں پر مبنی پیچیدہ منصوبہ بندی اور فوجی اقدامات  کے گن گانے میں مصروف ہیں۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ حالیہ مسلط کردہ جنگ میں امریکہ کی جانب سے وسیع پیمانے پر اسرائیل کی فوجی، انٹیلی جنس اور تکنیکی مدد اور حمایت کے مقابلے میں رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کی فوجی ڈاکٹرائن اور جنگی حکمت عملی ہی تھی جس نے ان پر غلبہ پایا اور اس مرحلے پر جنگ کا حتمی نتیجہ ایران کے حق میں طے کیا۔ اس تشکیل پانے والی فوجی ڈاکٹرائن اور جنگی حکمت عملی کی بالترتیب 35 سالہ اور 12 سالہ تاریخ ہے۔ اس کے بارے میں مزید وضاحت کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں:
 
1 یہ جاننے کے لیے کہ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی فوجی ڈاکٹرائن کس طرح تشکیل پائی ہے، ابتدائی دنوں میں انجام پانے والی ان کی ایک تقریر پر توجہ ضروری ہے۔ اس تقریر میں کچھ جملے ایسے ہیں جن سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف رہبر معظم انقلاب کی فوجی ڈاکٹرائن کی بنیاد واضح ہوتی ہے۔ 1990ء میں قیادت سنبھالنے کے بعد صیہونی رژیم کے خلاف براہ راست اپنے اہم ترین موقف کا اظہار کرتے ہوئے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا: "یہ صیہونی، طاقت کی زبان کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے۔ یہ بگڑ چکے ہیں! اسرائیل طاقت، ہتھیاروں اور مکے کے زور پر پیچھے ہٹے گا۔"
2)۔ 2013ء میں ایران اور اسرائیل کے درمیان حالات نے ایسی کروٹ لی کہ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس ڈاکٹرائن کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف ممکنہ جنگی حکمت عملی زیادہ واضح طور پر بیان کی۔
 
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: "اگر صیہونی حکمرانوں  سے کوئی غلط حرکت سرزد ہوئی تو اسلامی جمہوریہ تل ابیب اور حیفا کو زمین بوس کر دے گا۔" شاید کچھ لوگوں نے اس بیان کو اس وقت ایک قسم کی رجز خوانی یا زیادہ سے زیادہ قیادت کی طرف سے اس وقت جنگ کو روکنے کے لیے ایک بڑی دھمکی سے تعبیر کیا ہو گا لیکن درحقیقت ہمیں آج یہ سمجھ آئی ہے کہ یہ بیان بنیادی جنگی حکمت عملیوں میں سے ایک ہے اور ایک بھرپور جنگ کو ختم کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔
3)۔ اس فوجی حکمت عملی کے کچھ مراحل 12 روزہ جنگ میں انجام پائے اور امریکی اور اسرائیلی سیاسی اور عسکری حکام کے لیے اس کے وقوع پذیر اور موثر ہونے کی اچھی تصویر بھی پیش کی گئی ہے۔ بڑے فوجی اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اسرائیل نے ایران میں اپنے لڑاکا جنگی طیاروں کے ذریعے میزائل حملوں اور زمین پر انٹیلی جنس اقدامات کی صورت میں ٹارگٹڈ حملے شروع کیے۔ البتہ وہ اچھا خاصا نقصان پہنچانے میں کامیاب بھی رہا۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں ایران نے اسرائیل کے فوجی، اقتصادی، انٹیلی جنس، سائبر اور دیگر تکنیکی مراکز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
 
مزید برآں، ایران نے اسرائیلی چھاونیوں میں اس قدر غیر معمولی تباہی پھیلائی کہ صیہونی رژیم کے عسکری تجزیہ کار "تل ابیب کی غزہ سازی" کی اصطلاح استعمال کرنے لگے۔ جنگ کی ابتدا میں ایران نے ایک اور اہم پیغام بھی دیا جو یہ تھا کہ وہ دو سے چھ ماہ کی جنگ اور بتدریج اور بڑھتے ہوئے بڑے آپریشنز کے لیے بھی تیار ہے۔ جو دکھائی دے رہا تھا اور اور اس کی تصدیق جنگ کے واقعات بھی کر رہے تھے، وہ یہ حقیقت تھی کہ ایران مرحلہ با مرحلہ لیکن تیزی سے تل ابیب اور حیفا کو مکمل طور پر نابود کرنے میں مصروف ہے۔ نیتن یاہو نے ایران کی وسیع فوجی حکمت عملی موثر ہوتے دیکھ کر فوری طور پر کہا کہ وہ طویل اور تھکا دینے والی جنگ کا شکار نہیں ہو گا۔ لہذا وہ اگلے مرحلے میں امریکہ کو جنگ میں گھسیٹ لایا اور یوں ایران کی حکمت عملی کو پوری طرح کامیاب ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔
 
رہبر معظم انقلاب کی وسیع عسکری حکمت عملی میدان جنگ میں عمل کے مرحلے میں بھی نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور نہ صرف دشمن کی جانب سے ایران پر امن مسلط نہیں ہوسکا بلکہ اسرائیل کی جانب سے پہلے جنگ روکنے پر مشتمل ایران کا ہدف بھی حاصل کرلیا گیا۔
4)۔ اب ایران نے رہبر معظم انقلاب کی فوجی ڈاکٹرائن اور اسرائیل کے خلاف جنگی حکمت عملی کی برکت سے نیز وسیع عوامی حمایت کی بدولت، امریکہ کے سب سے اہم سیاسی ہدف یعنی ایرانی قوم کے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دینے کے مقابلے میں بھی ایک اسٹریٹجک جواب دیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ حالیہ مسلط کردہ جنگ میں ایران کی فوجی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ جدید میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی پر مبنی تھا اور اس نے امریکہ اور اسرائیل کی جدید دفاعی ٹیکنالوجی کو مات دی تھی۔
 
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جنگ کی وسیع حکمت عملی کے درست انتخاب کی وجہ سے (اسرائیل پر بڑی تباہی مسلط کرنے سے تل ابیب اور حیفا کو مٹی میں ملا دینے تک)، جنگ اور سیکورٹی کے دیگر شعبوں میں کچھ تکنیکی کمزوریوں کا بھی کسی نہ کسی طرح ازالہ ہو گیا۔ یا کم از کم اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس سے صیہونی دشمن کی کچھ تکنیکی برتری کو کم موثر بنایا جا سکتا ہے۔
5)۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل کی سب سے بڑی غلطی اس وقت انجام پائے گی جب وہ غلط اندازوں کی بنیاد پر کوئی نئی جنگ شروع کریں گے۔ ایسی اسٹریٹیجک غلطی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو تل ابیب اور حیفا کو مکمل طور پر زمین بوس کرنے پر مبنی اپنی طویل عرصے سے طے شدہ حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کا سنہری موقع میسر کر دے گی۔ شاید وہ خطے میں امریکہ کے تمام تر فوجی اور اقتصادی مفادات کے ساتھ بھی یہی کام کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب کی کی فوجی ڈاکٹرائن جنگی حکمت عملی صیہونی رژیم کے ڈاکٹرائن اور اور اسرائیل اسرائیل کے میں امریکہ اسرائیل کی میں ایران کی بنیاد ایران نے کے خلاف کے لیے اور اس

پڑھیں:

ایران کی طاقت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نئی عالمی جنگ القدس کے گرد گھوم رہی ہے، جسے بعض تیسری یا آخری عالمی جنگ کی ابتدا بھی کہتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی یہ جنگ اسلام اور شہادت کے جذبے سے سرشار انتفاضہ اور فلسطینی نوجوانوں کے غلیل سے شروع ہوئی۔ ان نوجوانوں کو حماس جیسی تنظیم مل گئی، جس نے غزہ پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ سیکولر اور لبرل فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کمزور پڑ گئی، لیکن حماس جہاد، فتح، عزت، اور ہمت کا استعارہ بن گئی۔ایران کے اسلامی انقلاب کو محدود کرنے کے لیے، امریکا، مغرب، اور مشرق وسطیٰ کی سنی ریاستیں اسے ’’شیعہ انقلاب‘‘ کہہ کر شیعہ، سنی منافرت کو ہوا دینے کی کوشش کرتی رہیں۔ اس کے باوجود، ایران نے فلسطین کی سنی جہادی قوت حماس کی مدد کی اور مصر میں سنی اخوان المسلمون کی حمایت کی۔

اسرائیل نے حماس کی قوت کو کچلنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دی۔ اس نے حماس کے اہم رہنماؤں کو شہید کیا، جن میں شیخ احمد یاسین (2004)، عبد العزیز رنتیسی (2004)، صلاح شحادہ (2002)، یحییٰ عیاش (1996)، اسماعیل ہنیہ (2024)، یحییٰ السنوار (2024)، صالح العاروری (2024)، مروان عیسیٰ (2025)، احمد الجعبری (2012)، روحی مشتہیٰ (2024)، عدنان الغول (2004)، نزار ریان (2009)، جمیلہ الشنطی (2023)، رافع سلامہ (2024)، زکریا ابو معمر (2023)، جواد ابو شمالہ (2023)، اسماعیل برہوم (2025)، باسم نوفل، اور عماد عقل (1993) شامل ہیں۔

7 اکتوبر 2023 کو حماس نے ایرانی میزائلوں کی مدد سے اسرائیل پر حملہ کر کے ثابت کیا کہ وہ ابھی زندہ، متحرک، اور شوقِ شہادت سے سرشار ہے۔ حماس نے اسرائیل کی غلامی قبول نہیں کی اور نہ کبھی کرے گی۔ وہ آخری سانس تک لڑے گی۔ حماس کی اس نئی طاقت کا اصل سہرا ایران کو جاتا ہے۔ ایران نے فلسطینیوں کی مدد کے لیے حماس کے ساتھ ساتھ لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثیوں، اور شام کی حکومت کے ذریعے عسکری امداد فراہم کی۔ تاہم اسرائیل اور امریکا نے ان قوتوں کو ایک ایک کر کے کمزور کیا۔ حزب اللہ کی پوری قیادت شہید کر دی گئی، اور شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم کر کے ابو محمد الجولانی (حقیقی نام: احمد حسین الشعرہ)، جو مبینہ طور پر مغربی ایجنسیوں کی حمایت یافتہ ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کا سابق رکن ہے، کو اقتدار دیا گیا۔ الجولانی کی حکومت نے شام کے ایک بڑے علاقے پر اسرائیلی قبضے کی کوئی مزاحمت نہیں کی۔

اکتوبر 2023 سے جون 2025 تک اسرائیلی حملوں سے فلسطین میں 57,800 سے زائد ہلاکتیں، 130,000 سے زائد زخمی، 360,000 عمارتوں کی تباہی، 100 سے زائد اسکولوں اور متعدد اسپتالوں کو نقصان، اور بنیادی ڈھانچے کی وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔ غزہ میں 10,000 سے زائد بچے ہلاک ہوئے، جبکہ مغربی کنارے میں 195 بچوں کی ہلاکت رپورٹ ہوئی۔ 10,000 سے زائد افراد مفقود ہیں، جن میں 21,000 بچے شامل ہیں (17,000 غیر ہمراہ اور 4,000 ملبے تلے دبے ہوئے)۔ اسرائیل غزہ پر مسلسل حملے کر رہا ہے، جہاں بھوکے اور پیاسے بچے ریلیف ٹرکوں کے پاس خوراک لینے جاتے ہیں تو ان پر حملے ہوتے ہیں۔ بچوں اور عورتوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود، فلسطینی مجاہدین ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں، اور اسرائیل اپنے ایک بھی قیدی کو طاقت سے چھڑانے میں ناکام رہا ہے۔

قدیم مصر میں فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتا تھا، لیکن آج بنی اسرائیل فلسطینی بچوں کے قتل میں فرعون سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ وہ ظلم کی نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کی حمایت کی وجہ سے اسرائیل نے ایران کو مستقل نشانہ بنایا۔ امام خمینی کے فتوے کی وجہ سے کہ ایران ایٹم بم نہیں بنائے گا، اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے تھا۔ لیکن ایران کی فوجی ترقی اور اسلحہ سازی کی صلاحیت اسرائیل کے لیے ناقابل ِ برداشت تھی۔ گزشتہ بیس سال سے خبریں تھیں کہ اسرائیل ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا۔ بالآخر، 13 جون 2025 کو اسرائیل نے تہران، اصفہان، نطنز، اور دیگر علاقوں میں فوجی تنصیبات، جوہری سہولتوں، سویلین آبادی، عمارتوں، میڈیا ہاؤسز، اور بنیادی ڈھانچے پر وسیع پیمانے پر فضائی حملے کیے۔ ان حملوں میں ایران کی اعلیٰ فوجی اور جوہری قیادت شہید ہوئی، جن میں 20 سینئر فوجی کمانڈرز اور 14 جوہری سائنسدان شامل ہیں۔ ایرانی ذرائع کے مطابق، 657 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 70 خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ سیکڑوں عمارتیں (فوجی، جوہری، توانائی، اور رہائشی) تباہ یا متاثر ہوئیں، اور 1,100 اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

لیکن ایران نے 24 گھنٹوں میں اپنی فوجی قیادت کو ازسرنو منظم کیا اور اسرائیل پر جوابی حملہ کیا۔ ان حملوں میں اسلامی جنگی اخلاقیات کا خیال رکھا گیا، یعنی کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا۔ نتیجتاً، اسرائیل میں صرف 28 افراد ہلاک اور 3,238 زخمی ہوئے (اسرائیلی ذرائع کے مطابق)۔ ایرانی حملوں سے تل ابیب، رامات گان، پیٹح تکوا، بات یام، اور رشون لیزیون میں 100 سے 200 عمارتیں، بشمول آئل ریفائنری اور ٹیکنالوجی پارکس، تباہ یا متاثر ہوئیں۔ اسرائیل نے اپنے دفاعی نظام کی ناکامی اور نقصانات کو چھپانے کی کوشش کی تاکہ اس کی طاقت کا بھرم برقرار رہے۔ ایک ہفتے بعد ہی اسرائیل نے امریکا سے مدد مانگنی شروع کر دی۔ آخر کار، ڈونلڈ ٹرمپ نے دھوکے سے B-2 طیاروں سے بنکر بسٹر بموں کے ذریعے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملہ کیا۔ ٹرمپ کی غیر سنجیدگی، مسلسل بدلتے بیانات، اور اسرائیل کی حمایت نے ان کی ساکھ کو ناقابل ِ اعتماد بنا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آتی ہے، تو اس کے لیڈر عقل سے عاری ہو جاتے ہیں۔ ٹرمپ کا غیر سنجیدہ رویہ اور اسرائیل کی غلامی امریکا کو تباہی کی طرف لے جائے گی۔

اصل نکتہ نقصانات کی مقدار نہیں، بلکہ طاقت کا توازن ہے۔ ایران نے اپنے جدید ڈرونز اور میزائل ٹیکنالوجی سے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف اسرائیل، بلکہ مشرق وسطیٰ میں موجود تمام امریکی فوجی اڈوں کو تباہ کر سکتا ہے۔ ایران کے پاس طاقت، ایمانی جوش، جدید ٹیکنالوجی، معیشت، جرأت، اور صبر موجود ہے۔ اس نے اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کی دہشت گردی کو بھرپور طریقے سے چیلنج کیا اور مشرق وسطیٰ میں ایک عظیم قوت کے طور پر ابھرا، جس نے طاقت کا توازن بدل دیا۔ اگلے کالم میں ہم ایران کی قائدانہ صلاحیت اور اس کی بناؤ کی طاقت پر بات کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کا فیصلہ کن وار
  • کراچی سے دیگر شہروں کی پروازوں کو بارشوں سے بچانے کیلئے نئی حکمتِ عملی پر عمل
  • روایتی جنگی حکمتِ عملی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا وقت کی ضرورت ہے: ایڈمرل نوید اشرف
  • گروسی جواب دو!
  • ڈیرہ اسماعیل خان کی سول سوسائٹی ایران کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئی
  • قوم کے نام رہبر انقلاب اسلامی کا اہم پیغام
  • ایران کی کامیاب مزاحمتی حکمت عملی پر میرواعظ عمر فاروق کی مبارکباد
  •  منشیات کے  خاتمے کیلئے مربوط حکمت عملی اور اجتماعی عزم وقت کی اہم ضرورت ہے: وزیراعظم
  • ایران کی طاقت