روایتی جنگی حکمتِ عملی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا وقت کی ضرورت ہے: ایڈمرل نوید اشرف
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
تصویر بشکریہ سوشل میڈیا
چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف نے جمعے کو پاکستان نیوی وار کالج لاہور کا دورہ کیا۔
مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک بحریہ کے سربراہ نے اس موقع پر 54 ویں اسٹاف کورس کے شرکاء سے خطاب کیا۔
نیول چیف نے خطے میں بدلتی صورتِ حال کے تناظر میں درپیش میری ٹائم سیکیورٹی چیلنجز پر اظہارِ خیال کیا۔
ایڈمرل نوید اشرف نے کہا کہ بحرِ ہند کے خطے میں طاقت کی عالمی کشمکش کے سبب مسلسل تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ روایتی جنگی حکمتِ عملی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
نیول چیف نے کہا کہ مستقبل کی جنگیں جیتنے کے لیے ذہین اور ٹیکنالوجی سے لیس افرادی قوت کی تیاری نہایت اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاک بحریہ ہر طرح کے روایتی و غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے، نیول چیف نے کورس کے شرکاء کی پیشہ وارانہ محنت اور لگن کو سراہا۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
اسلام آباد زمین قبضہ کیس، جے آئی ٹی میں بحریہ کا نمائندہ تاحل شامل نہ ہوا
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزیرِاعظم شہباز شریف کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں زمین کے ایک بڑے حصے پر قبضے کے کیس کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کے احکامات جاری ہونے کے کئی روز بعد بھی پاک بحریہ نے اب تک اس تحقیقات کیلئے اپنا نمائندہ نامزد نہیں کیا۔ کیس یہ ہے کہ ایک ممتاز سابق سرکاری افسر کی 136؍ کنال سے زائد زمین مبینہ طور پر فراڈ کے ذریعے منتقل کی گئی ہے۔ اس دوران شکایت کنندہ نے پاک بحریہ کے سربراہ (نیول چیف) سے ذاتی حیثیت میں ملاقات کی درخواست کی جس کے جواب میں انہیں ڈپٹی نیول چیف سے ملاقات کی دعوت دی گئی ہے۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے سابق اعلیٰ افسر اور 1990ء کے سی ایس ایس امتحان میں ریکارڈ 1084؍ نمبروں کے ساتھ ٹاپ کرنے والے ڈاکٹر مشرف رسول سیان نے چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف کو خط لکھا۔ انہوں نے اس خط میں مبینہ فراڈ کی معلومات سے آگاہ کرنے کیلئے ذاتی حیثیت میں ملاقات کی درخواست کی ہے۔ الزام یہ ہے کہ اُن کے خاندان کی ملکیتی زمین ان کی رضامندی کے بغیر پاکستان نیوی بینیوولنٹ ایسوسی ایشن (پی این بی اے) کو منتقل کی جا چکی ہے۔ اس پیشرفت سے قبل، حکومت نے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی، جس میں اسلام آباد انتظامیہ، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور پاک بحریہ کے نمائندوں کو شامل کیا گیا۔ ٹیم کو معاملے کی تحقیقات کر کے ’’ذمہ داروں کا تعین کرنے‘‘ کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق، دیگر اداروں نے اپنے نمائندے نامزد کر دیے ہیں، تاہم پاک بحریہ نے تاحال اپنے کسی عہدیدار کو جے آئی ٹی کا حصہ نہیں بنایا۔ نیول چیف کو 18؍ ستمبر 2025ء کو لکھے گئے خط میں ڈاکٹر سیان نے کہا کہ یہ معاملہ ان کی آبائی جائیداد ’’سیان فارمز‘‘ کا ہے، جو موضع میرا بیگوال میں واقع ہے اور پی این بی اے کے زیر انتظام نیول فارمز ہائوسنگ پروجیکٹ کے قریب ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’پاکستان نیوی ہمارے مقدس ریاستی اداروں میں سے ایک ہے جو ہماری قومی اثاثوں میں شامل ہے۔ لینڈ مافیا کی ایسی کوئی بھی جعلسازی پر مشتمل کارروائی جو پاکستان نیوی اور بہادر مسلح افواج کی ساکھ کو نقصان پہنچائے، میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے، اور میں اپنی بھرپور کوشش کروں گا کہ ایسے عزائم کو ناکام بنایا جائے۔‘‘ انہوں نے ایڈمرل نوید اشرف سے ذاتی ملاقات کی درخواست کی تاکہ معاملے کی حقیقت بیان کی جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ زمین پر قبضہ کرنے والوں کی حرکتوں سے مسلح افواج کی ساکھ متاثر نہ ہو۔ ڈاکٹر سیان اس معاملے پر وزیرِاعظم کو بھی ایک تفصیلی درخواست جمع کرا چکے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ جب وہ اقوامِ متحدہ کے ایک اسائنمنٹ پر بیرون ملک تھے، تو ان کے ایک فارم ورکر کے نام پر ایک جعلی پاور آف اٹارنی بنا کر اور اسے استعمال کر کے اُن کی زمین پی این بی اے کو فروخت کر دی گئی۔ اس فروخت کی قیمت نہایت کم ظاہر کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی زمین کی فروخت کیلئے رضامندی نہیں دی، اور نہ اس ضمن میں کوئی رقم وصول کی۔ مزید یہ کہ منتقلی کے عمل میں سنگین بے ضابطگیاں ہوئیں، جن میں بایومیٹرک تصدیق کو نظر انداز کرنا، جعلی دستاویزات قبول کرنا اور عوامی انتقالِ اراضی کی قانونی کارروائی کو نظرانداز کرنا شامل ہے۔ درخواست میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ خود پی این بی اے بھی فراڈ کا شکار ہوا۔ ڈاکٹر سیان کے مطابق ریونیو ریکارڈ میں زمین کی فروخت کی قیمت 218؍ ملین روپے درج ہے، جبکہ رپورٹ شدہ ادائیگی 383؍ ملین روپے بتائی گئی۔ یہ دونوں رقوم مارکیٹ ویلیو سے بہت کم ہیں اور مارکیٹ ویلیو 900؍ ملین روپے سے زائد ہے۔ پاک بحریہ کے میڈیا ونگ سے بدھ کے روز رابطہ کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ تاحال ادارے کا نمائندہ جے آئی ٹی میں شامل کیوں نہیں ہوا۔ بحریہ کی جانب سے بتایا گیا کہ اس سلسلے میں دی نیوز کو بتایا گیا کہ جج ایڈووکیٹ جنرل (JAG) برانچ سے مشاورت کے بعد آگاہ کریں گے۔ تاہم، جمعرات کی شام کو رپورٹ فائل ہونے کے وقت تک متعلقہ عہدیدار کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ انہیں جمعرات کو بھی واٹس ایپ پیغام کے ذریعے یاد دہانی کرائی گئی تھی۔
انصار عباسی