Daily Ausaf:
2025-11-11@23:22:35 GMT

صدر ٹرمپ کا مضحکہ خیز بھاشن

اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’سوشلٹروتھ‘‘پر لکھا ہے کہ’’چین اب ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھ سکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ چین امریکہ سے بھی بڑی مقدار میں تیل خریدے گا‘‘ بین الاقوامی سیاست میں توانائی خاص طور پر خام تیل ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کے توازن اور غلبے کا ایک بنیادی ستون رہی ہے ۔بیسویں صدی کا بیشتر حصہ امریکی اثرو رسوخ کے سائبان تلے گزرا ۔جہاں تیل کی پیداوار، تقسیم اور نرخوں کا تعین عام طور پر واشنگٹن کے اشاروں کے تابع رہا ہے۔امریکی ڈالر کے ساتھ تیل کی عالمی تجارت امریکہ کو اقتصادی اجارہ داری، سفارتی دبائو اور اسٹریٹجک فیصلوں میں برتری دینے میں اہم کردار ادا کیا۔تاہم اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں طاقت کے مراکز تنوع سے ہمکنار ہوئے۔روس اور چین کی شمولیت آور مشرق وسطیٰ کی خود مختار پالیسیز اور ایران جیسے ممالک کی مزاحمتی معیشت نے تیل کی سیاست کا پانسہ پلٹنا شروع کردیا۔
حالیہ دنوں میں جب امریکہ چین کو ایران سے تیل خریدنے پر تنبیہ کرتا ہے یا روس پر ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے تو یہ سوال شدت سے سر اٹھاتا ہے کہ ’’کیا امریکہ اب بھی تیل کی عالمی منڈی میں اپنے کر دار کو اعلیٰ و ارفع تصور کرتا ہے ،یا ایک موثر کھلاڑی کی حیثیت تک محدود ہے ؟ آج یہی سوال دور حاضر کی بین الاقوامی حرکیات کو سمجھنے کی اصل کلید ہے ۔اس پر سوچ بچار ہمیں ناصرف توانائی کی منڈی کے تغیر پذیر ہوتے رجحانات کی آگہی سے ہمکنار کرتی ہے بلکہ یہ عقدہ بھی کشا کرتی ہے کہ اب عالمی طاقت فقط عسکری یا مالی دبائو کی محتاجی کے تابع نہیں بلکہ کثیر الجہتی حکمت عملی، باہمی تعاون و مفادات کے توازن کے تابع ہوکر رہ گئی ہے ۔اسی احساس کے پیش نظر امریکہ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ ’’چین ایران سے تیل خرید سکتا ہے اور امید ہے امریکہ سے بھی خریدے گا‘‘ شپنگ ڈیٹا فراہم کرنے والی کمپنی vortexaکے مطابق ’’ایران کے تیل کی تقریباً 90فیصد برآمدات چین کو جاتی ہے جو ماہانہ اوسطا ً45 ملین بیرل بنتی ہے جو کہ چین کی مجموعی خام تیل کی درآمدات کا لگ بھگ 13.

6 فیصد ہے۔
ایران کے قریب واقع آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تمام خام تیل اور کنڈینسیٹ میں سے تقریباً 65 فیصد منرل بھی چین ہی کی ہوتی ہے جوکہ خطے میں چین کے اسٹریٹجک مفادات کو اجاگر کرتی ہے ۔ تاہم اب بھی امریکہ دنیا کے بڑے تیل و گیس پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے اور برآمدکنندہ اور کنٹرولر بھی رہا۔اوپیک کی سیاست میں بھی امریکہ کا غیر رسمی طور پر موثر رہا ہے اس کے علاوہ تیل کے بدلے ڈالرنے امریکہ کو عالمی مالیاتی نظام کا کنٹرول بھی دیا۔تاہم موجودہ صورت حال طاقت میں کمی آئی اور اثر باقی ہے ۔اب بین الاقوامی بنکنگ اور پابندیوں کے ذریعے امریکہ کے تیل کے خریداروں اور بیچنے والوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں ہے۔پھر یہ ہوا کہ روس اورسعودی عرب جیسے ممالک نے امریکہ سے مغائرت برتی اور اس کے فیصلوں کے خلاف فیصلوں پر صاد کرنا شروع کیا ،یہاں تک کہ چین ،بھارت ،ترکی اور کئی دوسرے ممالک نے بھی امریکی پابندیوں کو نظر کرکے ایران ،روس اور وینزویلا سے تیل خریدنے لگے۔
معروضی حقیقت یہ ہے کہ اب طاقت صرف امریکہ کے ہاتھ میں نہیں رہی،روس ،چین ،یورپ خلیجی ممالک سے الگ ایجنڈا رکھتے ہیں ۔جبکہ چین اور روس جیسے ممالک اب ڈالر میں تیل کی تجارت سے گریزگی پر مائل ہیں اور روبل اور یوان جیسی کرنسیاں مارکیٹ میں جگہ بنارہی ہیں۔اسی طرح امریکہ کی پابندیوں کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے ایران بلیک مارکیٹ کے تحت تیل بیچ رہا ہے اور امریکہ کی کسی تنبیہ یا اجازت کے بغیر چین ایران کا سب سے بڑا ایرانی تیل کا بائیر ہے ۔یوکرائن جنگ کے بعد روس بھی انڈیا اور چین کو تیل بیچ رہا ہے۔اور اب صورت حال یہ ہےکہ امریکہ با اختیار ہونے کے باوجود تنہا دنیا کا چوہدری نہیں رہا۔برآمدات پر اس کے کنٹرول میں کمی ہو گئی ہے اور سعودی عرب ،ایران اور روس آزادانہ فیصلوں پر انحصار کرنے لگے ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ مالیاتی قوت یا مرکزی کرنسی کی حیثیت اب بھی امریکی ڈالر کو ہے مگر متبادل کا اثر بڑھنے لگا ہے ، پابندیاں متنازع اور غیر موثر ہو رہی ہیں۔طاقت کے کھیل کا میدان اب رفتہ رفتہ امریکہ کے ہاتھ سے نکلتا اور پھسلتا جارہا ہے ۔اور امریکہ کے سفارتی اتحاد اورمعاشی چالاکیاں تک ماندپڑتی جارہی ہیں ۔ان حالات میں صدرڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کے لئے یہ بھاشن جاری کرنا کہ ’’میں ایران کو چین کے ہاتھ تیل فروخت کرنے کی اجازت دیتاہوں‘‘ بھیگی بلی کھمبہ نوچے کے مترادف ہے اور انتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے ۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: امریکہ کے رہا ہے کہ چین ہے اور سے تیل تیل کی

پڑھیں:

قاتل کا اعتراف

اسلام ٹائمز: ایران پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اگلے ہی دن ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران اس میں امریکہ کے کردار کی نفی کی تھی اور کہا تھا کہ اسے بس اس حملے کا پتہ تھا۔ ابھی امریکی صدر نے جس حقیقت کا اعتراف کیا ہے وہ کسی کے لیے نئی بات نہیں ہے لیکن سرکاری سطح پر اس حملے میں پوری طرح ملوث ہونے کا اعلان دراصل ٹرمپ کے اناڑی پن کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی گذشتہ مدت صدارت میں بھی اور ابھی صدر بننے کے بعد بھی ایران سے متعلق ایسے بہت سے موقف اپنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عالمی سیاست کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہے۔ شاید ٹرمپ یہ سمجھتا ہے کہ ایک خودمختار ملک پر غیرقانونی حملے کی ذمہ داری قبول کر کے وہ طاقت کا اظہار کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں یہ ایک واضح اعتراف جرم ہے اور دنیا کی نظر میں یہ اقدام تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے مترادف ہے۔ تحریر: علی رضا حقیقت

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر حملے کا اعتراف ایک بار پھر ایران کی سرزمین پر غیرقانونی جارحیت میں امریکہ کا کردار واضح کر دیتا ہے۔ ٹرمپ نے یہ اعتراف میڈیا کیمروں کے سامنے کسی پردہ پوشی کے بغیر کیا ہے اور اب مزید کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ امریکی صدر نے چند دن پہلے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 13 جون کے دن ایران پر انجام پانے والے اسرائیلی حملے میں امریکہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ بات اس نے ایسے وقت کہی جب وائٹ ہاوس میں وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان اس کے دیے گئے عشائیے میں موجود تھے۔ ٹرمپ نے اسی طرح یہ دعوی بھی کیا کہ ایران نے امریکہ کی شدید پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور وہ اس موضوع پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے اوول آفس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا: "جب اسرائیل ایران پر حملہ کر رہا تھا تو اس کا مکمل کنٹرول میرے ہاتھ میں تھا۔" ٹرمپ نے ایران پر اسرائیل کے حملے کو "انتہائی طاقتور" قرار دیا اور دعوی کیا کہ پہلے حملے میں پہنچنے والا نقصان بعد والے حملوں کی نسبت سب سے زیادہ تھا۔ امریکی صدر نے مزید دعوے کرتے ہوئے کہا: "سچی بات کروں، ایران نے پابندیاں ختم کرنے کی درخواست کی ہے۔ ایران امریکہ کی جانب سے شدید پابندیوں سے روبرو ہے جن کے باعث اسے بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔" ٹرمپ نے مزید کہا: "میں دوبارہ اس موضوع پر گفت و شنود کے لیے تیار ہوں اور دیکھوں گا کہ کیا کر سکتا ہوں۔ گفتگو کا دروازہ کھلا ہے۔" اس کا یہ موقف کچھ عرصہ قبل ایران پر اسرائیل کی فوجی جارحیت سے متعلق موقف سے مختلف ہے۔
 
ایران پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اگلے ہی دن ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران اس میں امریکہ کے کردار کی نفی کی تھی اور کہا تھا کہ اسے بس اس حملے کا پتہ تھا۔ ابھی امریکی صدر نے جس حقیقت کا اعتراف کیا ہے وہ کسی کے لیے نئی بات نہیں ہے لیکن سرکاری سطح پر اس حملے میں پوری طرح ملوث ہونے کا اعلان دراصل ٹرمپ کے اناڑی پن کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی گذشتہ مدت صدارت میں بھی اور ابھی صدر بننے کے بعد بھی ایران سے متعلق ایسے بہت سے موقف اپنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عالمی سیاست کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہے۔ شاید ٹرمپ یہ سمجھتا ہے کہ ایک خودمختار ملک پر غیرقانونی حملے کی ذمہ داری قبول کر کے وہ طاقت کا اظہار کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں یہ ایک واضح اعتراف جرم ہے اور دنیا کی نظر میں یہ اقدام تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے مترادف ہے۔
 
البتہ ٹرمپ اب تک بارہا اعلانیہ طور پر اس بات کا اظہار کر چکا ہے کہ اسے بین الاقوامی قوانین کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ دوسری طرف جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ 13 جون کی فوجی جارحیت کا نتیجہ اسرائیل اور امریکہ کے لیے سوائے شکست اور ناکامی کے کچھ ظاہر نہیں ہوا۔ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ اس جنگ میں ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں اور اس کی میزائل طاقت کو بھی شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ لیکن اب تقریباً 5 ماہ گزر جانے کے بعد بہت سے حقائق منظرعام پر آ رہے ہیں۔ ٹرمپ کے سوا کوئی بھی اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ حتی غاصب صیہونی رژیم کا وزیراعظم بھی بارہا اس تشویش کا اظہار کر چکا ہے کہ ایران اب بھی جوہری طاقت ہے اور ایٹم بم بنانے کی صلاحیت محض چند ماہ موخر ہو گئی ہے۔
 
مزید برآں، ایران پر اسرائیلی امریکی جارحیت کا دوسرا مقصد اس ملک کو شدید سیاسی اور سماجی بحران سے روبرو کرنا تھا۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی اپنے شیطانی وسوسوں کے ذریعے ٹرمپ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ جنگ کی صورت میں ایران کا سیاسی نظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حملے کے وقت ٹرمپ نے کینیڈا میں جی 7 سربراہی اجلاس ادھورا چھوڑ کر جلد ہی واشنگٹن واپسی اختیار کی تھی۔ اسی دوران ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر یہ پیغام بھی دیا تھا کہ تہران خالی ہو گیا ہے اور ایرانیوں کو مخاطب قرار دے کر لکھا تھا: "غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دو۔" یہ پیغام تاریخ میں امریکہ کے ایران دشمن صدر کی شکست کے ثبوت کے طور پر محفوظ رہے گا۔ اگر ٹرمپ سیاست کی پیچیدگیوں سے ذرہ برابر آشنائی رکھتا تو وہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سیکرٹری جنرل کے روزانہ انٹرویوز کا مطالعہ کرتا۔
 
رافائل گروسی چونکہ ایک ماہر سفارتکار ہے لہذا اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران کی جانب سے اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں ابہام پر مبنی پالیسی اختیار کرنے نے مغرب کو کس مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ ایران کے پاس 60 فیصد افزودہ یورینیم کا 400 کلو کا ذخیرہ پایا جاتا تھا جس کے بارے میں اب تک کچھ معلوم نہیں کہ وہ امریکی حملے میں ختم ہوا ہے یا نہیں۔ دوسری طرف خود امریکی ماہرین اور تھنک ٹینکس اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ایران نے جنگ کے دوران پہنچنے والے نقصان کا تیزی سے ازالہ کیا ہے اور اب وہ دن رات میزائل تیار کرنے میں مصروف ہے۔ اسی طرح ایران نے چین اور روس کی مدد سے اپنا فضائی دفاعی نظام بھی پہلے سے کئی گنا زیادہ طاقتور بنا ڈالا ہے۔ اسرائیلی تھنک ٹینکس کے مطابق چین سے حاصل ہونے والے میزائل ڈیفنس سسٹم کی بدولت اس وقت ایران کا فضائی دفاعی نظام گذشتہ سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جنگ یوکرین سے امریکہ کو پہنچنے والے نقصان پر ٹرمپ کا واویلا
  • نئے تجارتی معاہدے کے بعد بھارت جلد ہی امریکا کو دوبارہ پسند کرے گا، صدر ٹرمپ
  • امریکہ، ترکیہ اور شام کے وزرائے خارجہ کے درمیان سہ فریقی اجلاس
  • امریکی انتخابی ہیٹ ٹرک ۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
  • ایران اور امریکا کے درمیان مصالحت کیوں ممکن نہیں؟
  • قاتل کا اعتراف
  • دنیا ایک نئے عالمی موڑ پر، خود مختاری کا اُبھرتا ہوا بیانیہ
  • ایران کی پاکستان اور افغانستان کے درمیاں ثالثی کی پیشکش
  • امریکہ بھارت دفاعی معاہدہ: پاکستان اور چین کیلئے نیا چیلنج
  • پیوٹن نے جوہری تجربے کی تیاری کا حکم دے دیا، روسی وزارتِ خارجہ کی تصدیق