ابراہم اکارڈ، امن کی دستک یا مفادات کا نیا جال؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: حقیقی سوال یہی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام کب تک ان کاغذی معاہدوں کا بوجھ اٹھائیں گے؟ فلسطینی عوام کی آزادی اور عزتِ نفس کی بحالی کے بغیر خطے میں کوئی پائیدار امن ممکن نہیں۔ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ریاستی حیثیت دلوانا ہو یا عرب ممالک کو اسرائیل کا اتحادی بنوانا، یہ سب کچھ جب تک انصاف کی بنیاد پر نہیں ہوگا، یہ خطہ کبھی بھی استحکام نہیں دیکھ سکے گا۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)
ابراہم اکارڈ دراصل محض ایک معاہدہ نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کی نئی سیاسی تشکیل کی ایک گہری کوشش ہے جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے نہایت چالاکی سے عرب اور اسرائیلی قیادت کے سامنے رکھا، اس کا بنیادی فلسفہ کچھ یوں پیش کیا گیا کہ چونکہ عرب اور یہودی، دونوں قومیں نسلی اعتبار سے ایک ہی آسمانی سلسلے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے جڑی ہیں، لہٰذا اس تاریخی نسبت کو بنیاد بنا کر مذہبی ہم آہنگی اور باہمی مفاد کا خواب بیچا گیا۔ یہودی اپنے تئیں حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل کو اپنی شناخت قرار دیتے ہیں جبکہ عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہونے پر فخر کرتے ہیں۔
یہی نسلی و مذہبی تعلق ابراہم اکارڈ کا بنیاد ی جواز بنا۔ بظاہر تو یہ معاہدہ عرب دنیا کے لیے سیاسی مفاہمت اور معاشی مواقع کا پیغام تھا لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے سب سے بڑا مقصد اسرائیل کو خطے میں مکمل ریاستی جواز دینا اور عرب اقوام کو اس حقیقت پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ فلسطینی کاز، جس پر عربوں کی سیاست کی بنیاد رکھی گئی تھی، اسے اس معاہدے کی چمک دمک میں پسِ پشت ڈال دیا گیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس معاہدے کو مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن اور خوشحالی کی کنجی بنا کر پیش کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ظلم اور ناانصافی کی بنیاد پر امن کی کوئی دیوار تعمیر کی جا سکتی ہے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ مصنوعی اتحاد اور مفاد پر مبنی معاہدے وقتی طور پر طاقتوروں کو تحفظ تو دے سکتے ہیں مگر عوامی مزاحمت اور حریت کی روح کو دبا نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ سات اکتوبر کی حماس اسرائیل جنگ نے اس معاہدے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ فلسطینی مزاحمت نے واضح کر دیا کہ بندوق کی گولی سے حقِ خود ارادیت کو خاموش نہیں کرایا جا سکتا۔
اب جب حالیہ کشیدگی میں ایران نے امریکہ، اسرائیل اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو اپنی جوابی حکمت عملی سے چونکا دیا ہے، تو سابق صدر ٹرمپ ایک بار پھر اس معاہدے کی لاش کو کندھا دینے میدان میں آگئے ہیں۔ خبریں ہیں کہ کچھ نئے عرب ممالک کو اس بار اس معاہدے کا حصہ بنایا جائے گا تاکہ سیاسی کریڈٹ سمیٹا جا سکے اور خطے میں امریکی ساکھ کو سہارا دیا جا سکے۔ مگر کیا یہ سب کچھ خطے میں حقیقی امن لا سکے گا؟
یہ بات طے ہے کہ ابراہم اکارڈ جیسے اتحاد فطری نہیں ہوتے۔ ان کی بنیاد اقتدار، معاشی مفادات اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی پر رکھی جاتی ہے، نہ کہ عوامی خواہشات اور اصولی انصاف پر۔ فلسطینی عوام کی جدوجہد، ایران کا ڈٹ جانا اور خطے کے کئی ممالک کی واضح مخالفت اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام ایسے معاہدوں کو ایک سازش سمجھتے ہیں جس کے ذریعے ان کے حقیقی مسائل کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان اور ایران جیسے ممالک اس پورے منظرنامے کو نہایت گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
دونوں ممالک جانتے ہیں کہ خطے میں کسی بھی مصنوعی اتحاد کا اصل مقصد خطے کی مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنا اور اسرائیل کو وہ اسٹریٹجک برتری دینا ہے جس کا خواب صیہونی لابی دہائیوں سے دیکھ رہی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی حامی رہی ہے جبکہ ایران نے عملی میدان میں بھی فلسطینی مزاحمت کو ہر سطح پر مدد دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابراہم اکارڈ جیسے معاہدے ان دونوں ممالک کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو سکتے۔
حقیقی سوال یہی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام کب تک ان کاغذی معاہدوں کا بوجھ اٹھائیں گے؟ فلسطینی عوام کی آزادی اور عزتِ نفس کی بحالی کے بغیر خطے میں کوئی پائیدار امن ممکن نہیں۔ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ریاستی حیثیت دلوانا ہو یا عرب ممالک کو اسرائیل کا اتحادی بنوانا، یہ سب کچھ جب تک انصاف کی بنیاد پر نہیں ہوگا، یہ خطہ کبھی بھی استحکام نہیں دیکھ سکے گا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور ایران جیسے ذمہ دار ممالک اس معاہدے کی حقیقت کو دنیا پر آشکار کریں، حریت پسند تحریکوں کی اخلاقی و سفارتی مدد جاری رکھیں اور اس خطے کے مظلوموں کی آواز عالمی ایوانوں تک پہنچائیں۔ دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ابراہم اکارڈ ہو یا کوئی اور مصنوعی معاہدہ، جب تک فلسطین اور مظلوم اقوام کو ان کا حق نہیں ملتا، امن کی کوئی بھی دستک ایک دھوکہ ہے۔ ایک جال ہے جسے کبھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔
حرف آخر:
ابراہم اکارڈ کی حقیقت ایک آزمائش ہے۔ ایک چمکدار نعرہ جس کے پردے میں خطے کی مزاحمت کو کچلنے اور اسرائیل کی بالادستی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سازش کو سمجھنا اور اس کا توڑ تلاش کرنا ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ مشرق وسطیٰ کی بیدار قومیں اس بار بھی تاریخ کو خود پر مسلط نہیں ہونے دیں گی بلکہ اپنی تقدیر خود لکھیں گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ہے کہ مشرق وسطی فلسطینی عوام ابراہم اکارڈ اس معاہدے کی اسرائیل کو کی بنیاد نہیں ہو اور اس
پڑھیں:
2 سو سال کی جنگوں سے زیادہ صحافی غزہ میں مارے گئے، جیکسن ہنکل
روسی نشریاتی ادارے رشیا ٹوڈے کے پروگرام ’سانچیز ایفیکٹ‘ کے حالیہ پروگرام میں سیاسی مبصر جیکسن ہنکل نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں پیش آنے والے ہولناک واقعات نے امریکی عوامی رائے عامہ کو اسرائیل کے حق میں قائم موقف سے دور کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:الجزیرہ کے معروف صحافی انس الشریف 5 ساتھیوں سمیت اسرائیلی حملے میں شہید
جیکسن ہنکل کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں اتنے صحافی مارے گئے ہیں جتنے پچھلے 2 سو سال کی تمام جنگوں میں بھی نہیں مارے گئے۔ انہوں نے ان عالمی رہنماؤں کی کھلی منافقت کی بھی نشاندہی کی جو بظاہر فلسطینی کاز کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اسرائیل کو تیل اوراسلحہ فراہم کرتے رہتے ہیں۔
پروگرام کے میزبان رک سانچیزاورمہمان جیکسن ہنکل نے اس اہم موضوع پر بھی گفتگو کی جو اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے، صدر پیوٹن اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان متوقع مذاکرات۔ ان کے مطابق، امریکی قیادت کی ’دھمکی اور فریب‘ پر مبنی حکمتِ عملی روسیوں کو پسند نہیں آتی، اس لیے اس ملاقات سے زیادہ امید وابستہ نہیں کی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں:پریانکا گاندھی نے الجزیرہ کے 5 صحافیوں کا قتل اسرائیل کا سفاک جرم قرار دیدیا
رک سانچیز نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ امریکی سیاسی اشرافیہ بدستورعسکری و صنعتی لابی کے زیرِ اثر ہے، حکمران چہرے بدلتے رہتے ہیں مگر پالیسیاں وہی رہتی ہیں، جس سے یہ تاثر مزید مضبوط ہو رہا ہے کہ دراصل ’ڈیپ اسٹیٹ‘ ہی سب کچھ کنٹرول کررہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی عوامی رائے عامہ جیکسن ہنکل ڈیپ اسٹیٹ رشیاٹوڈے سانچیز ایفیکٹ سیاسی مبصر غزہ