Jang News:
2025-09-27@22:38:56 GMT

کچھ لوگ ادھر اور کچھ خدا کے سامنے حساب دیں گے: شبلی فراز

اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT

کچھ لوگ ادھر اور کچھ خدا کے سامنے حساب دیں گے: شبلی فراز

شبلی فراز—فائل فوٹو

پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ایج میں ہر ایک چیز ریکارڈ ہو رہی ہے، کچھ لوگ ادھر حساب دیں گے اور کچھ آگے خدا کے سامنے حساب دیں گے۔

یہ بھی پڑھیے 52 پی ٹی آئی ارکان کو نااہل قرار دینے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے: شبلی فراز

ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملکی، معاشی، امن و امان کی صورتِ حال سب کے سامنے ہے، ملک میں ترقی کا پلان ہے اور نہ قرضوں سے چھٹکارا پانے کا کوئی پلان ہے، قوتِ خرید 58 فیصد کم ہوگئی ہے۔

شبلی فراز نے کہا کہ ہمارے وزیرِ خزانہ ایک بینکر ہیں جو صرف اس پر کام کرتے ہیں کہ قرضہ کیسے لیا جا سکتا ہے، قرض لینے والوں کی خود مختاری اور آزاد خارجہ پالیسی نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت جو ملکی صورتِ حال ہے اس میں واحد امید کی کرن ایک ہی شخص ہے جس کو قید کیا ہوا ہے، ابھی تک لوگوں کو توڑنے والی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے، جو وزیر بنے ہوئے ہیں وہ لوگوں میں جا نہیں سکتے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: شبلی فراز

پڑھیں:

صدر ججز صاحبان کو ان کی مرضی کیساتھ ایک سے دوسری ہائیکورٹ منتقل کر سکتے ہیں: اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر ٹرانسفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں ہائی کورٹ کے ججوں کا ٹرانسفر آئین اور قانون کے مطابق قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی سنیارٹی اور تبادلے کے کیس کا 55 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ اصل نکتہ یا بنیادی شرط یہ ہے کہ جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے سے پہلے صدر مملکت کو متعلقہ جج کی رضامندی لینا ضروری ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سب سے اہم دوسرا پہلو مشاورت کا عمل ہے۔ مشاورت کے عمل میں صدر مملکت چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کے پابند ہیں۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت کو آئین کے تحت ججوں کے ٹرانسفر کا اختیار حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 175 اے اور 200 میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ دونوں آرٹیکلز کے مطابق مختلف مواقع سے نمٹنے کے لیے موقف مختلف تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جج کی منتقلی جج کی رضامندی اور مشاورت کے بغیر ممکن نہیں۔ ججوں کی منتقلی کا فیصلہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے۔ منتقلی کے عمل میں عدلیہ کی رائے کو اولیت حاصل ہے۔ عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ ججوں کی منتقلی سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔ ججوں کی منتقلی میں بدنیتی یا انتقامی کارروائی ثابت نہیں ہوئی۔ ججوں کی منتقلی آئین اور قانون کے مطابق ہوئی ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 منتقلی پر قدغن نہیں لگاتا اور صوبائی نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ معاملہ سنیارٹی کے تعین کے لیے صدر کو واپس بھجوایا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
  • ایشیا کپ فائنل میں بھارت کو کیسے شکست دینی ہے؟ ٹیم نے پلان بنالیا
  • حکومت چینی بحران کا حساب لے، پیکا ایکٹ کے ڈر سے نہیں بولتا: ندیم افضل چن
  • فوت یا شدید بیمار عازمین کے حوالے سے وزارت مذہبی امور کی پالیسی سامنے آگئی
  • صدر ججز صاحبان کو ان کی مرضی کیساتھ ایک سے دوسری ہائیکورٹ منتقل کر سکتے ہیں: اسلام آباد ہائیکورٹ
  • عدلیہ آزاد نہیں‘ عمران خان کے کیسز میں جو ہورہا ہے سب پلان کے مطابق ہے‘ گنڈاپور
  • کمشنر فیصل احمد عقیلی کے اعزاز میں گرین پاکستان فائونڈیشن کے تحت تقریب
  • عدلیہ آزاد نہیں ہے، عمران خان کے کیسز میں جو ہورہا ہے سب پلان کے مطابق ہے، گنڈاپور
  • عدلیہ آزاد نہیں ہے عمران خان کے کیسز میں جو ہورہا ہے سب پلان کے مطابق ہے، گنڈاپور
  • فوت یا بیمار عازمین حج کے حوالے سے وزارت مذہبی امور کی پالیسی سامنے آگئی