عدلیہ آزاد نہیں ہے، عمران خان کے کیسز میں جو ہورہا ہے سب پلان کے مطابق ہے، گنڈاپور
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
وزیراعلیٰ کے پی کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے سپریم کورٹ کا ایک فورم باقی ہے، ہماری گزارش ہے 25 کروڑ عوام انصاف کے لیے آپ کی طرف دیکھتے ہیں، آپ کو انصاف دینا ہے آپ کے اوپر کیسز کا دباؤ ہے، آپ اپنی پوزیشن پر بیٹھ کر فیصلے کیوں نہیں کر پارہے؟ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ملک میں عدلیہ آزاد نہیں ہے عمران خان کے کیسز کے ساتھ جو ہورہا ہے یہ سب پلان کے مطابق ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ سب کو علم ہے ایک ڈرامہ چل رہا ہے، عمران خان کے ساتھ کیسز کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے یہ سب پری پلان منصوبے کے مطابق کیا جارہا ہے، جب تک ایک کیس میں سزا نہیں ہوتی دوسرا کیس بنا دیتے ہیں ایک کے بعد ایک کیس بنایا جارہا ہے، ملک میں عدلیہ آزاد نہیں ہے عدلیہ آزادی سے اپنے فیصلے نہیں کرپا رہی۔ انہوں ںے کہا کہ ہمیں امید ہے سپریم کورٹ کا ایک فورم باقی ہے، ہماری گزارش ہے 25 کروڑ عوام انصاف کے لیے آپ کی طرف دیکھتے ہیں، آپ کو انصاف دینا ہے آپ کے اوپر کیسز کا دباؤ ہے، آپ اپنی پوزیشن پر بیٹھ کر فیصلے کیوں نہیں کر پارہے؟ آپ کو ایک دن مرنا بھی ہے اور اللہ پاک کو بھی جواب دینا ہے، قرآن کی تفسیر پڑھیں اور جواب دیں، آپ کھل کر دلائل کی بنیاد پر فیصلے کریں۔
وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ کیا پاکستان میں مستقبل میں انسانی حقوق ملیں گے؟ حقیقی آزادی اور انصاف ہوگا؟ آپ انصاف دینے میں ناکام ہورہے ہیں، اس طرح نظام نہیں چل سکتا، عمران خان کی ایک برداشت ہے، آپ نے تمام ادارے مفلوج کردیے ہیں۔ علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان قوم اور ہمارے بچوں کی جنگ لڑ رہا ہے، بانی پی ٹی آئی کی خواہش پر جلسہ ہوگا اور بھرپور جلسہ ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
بی جے پی کی حکومت نہ بنانے کیوجہ سے ریاست کا درجہ بحال نہیں ہورہا ہے، عمر عبداللہ
وزیراعلٰی نے کہا کہ یہ کبھی نہیں کہا گیا تھا کہ ریاستی درجہ صرف تب دیا جائے گا جب بی جے پی جیتے، اگر بی جے پی ریاستی درجہ کی مخالفت کرتی ہے تو وہ جموں و کشمیر کے عوام کی مخالفت کررہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کو اس لئے سزا نہیں دی جا سکتی کہ بی جے پی حالیہ انتخابات میں ناکام رہی۔ انہوں نے زور دیا کہ ریاستی درجہ ایک آئینی حق ہے اور اسے کسی پارٹی کی جیت یا ہار سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ ان کی حکومت کا بنیادی مقصد عوامی مسائل کو ایک "معمول کے طریقے" سے براہِ راست رائے لے کر حل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا "لوگ ترقی، تبادلوں، سماجی فلاحی اسکیموں اور دیگر مسائل کے ساتھ آتے ہیں, ان کے حل کے لuے ہمارا اقدام کافی کامیاب رہا ہے اور ہم اسے مزید مضبوط بنا رہے ہیں"۔
تفصیلات کے مطابق عمر عبداللہ نے کہا "سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ تین مرحلوں کا عمل ہوگا، حد بندی، انتخابات اور پھر ریاستی درجہ۔ حد بندی مکمل ہوچکی، انتخابات ہوئے اور عوام نے بھرپور حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بی جے پی نہیں جیت سکی، لیکن یہ ریاستی درجہ بحال نہ کرنے کی وجہ نہیں بن سکتا ہے، یہ سراسر ناانصافی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی ریاستی درجہ کی بحالی کی مخالفت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کبھی نہیں کہا گیا تھا کہ ریاستی درجہ صرف تب دیا جائے گا جب بی جے پی جیتے، اگر بی جے پی ریاستی درجہ کی مخالفت کرتی ہے تو وہ جموں و کشمیر کے عوام کی مخالفت کر رہی ہے۔
حالیہ تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بعض گرفتاریوں کی بنیاد پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ "میں سمجھ نہیں پاتا کہ صرف تین الفاظ لکھنے کو گرفتاری کی وجہ کیسے بنایا جا سکتا ہے، اگر دیگر مذاہب اپنے رہنماؤں کے بارے میں لکھ سکتے ہیں تو ہمارے لئے یہ غیرقانونی کیوں ہے"۔ اسمبلی میں بی جے پی کی تنقید پر عمر عبداللہ نے بھی جوابی وار کیا، اپوزیشن کا کام ہی مخالفت کرنا ہے، اگر بی جے پی کا لیڈر آف اپوزیشن نیشنل کانفرنس حکومت کی تعریف کرے تو یہ غیر معمولی ہوگا، ان کی تنقید صرف یہ ثابت کرتی ہے کہ ہم ایمانداری سے کام کر رہے ہیں۔