27ویں آئینی ترمیم : چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ آرمی چیف کے پاس ہی رہے گا، وزیر دفاع خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آئینی عدالت بااختیار ہوگی اور آئینی عدالت کے ججز عام نوعیت کے کیسز نہیں سن سکیں گے۔ ججز کے تبادلوں سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہوگا، یہ عدالت کا اپنا معاملہ ہوگا۔ فوج میں چیف آف ڈیفنس کا عہدہ آرمی چیف کے پاس ہی رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: 27ویں ترمیم قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے، عطاتارڑ
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ میں تقریباً 55 ہزار کے قریب کیسز پینڈنگ ہیں، جن میں سے تقریباً 16 فیصد آئینی کیسز ہیں۔ یہ کیسز لٹکے رہتے ہیں اور ان کے حل نہ ہونے سے ملکی معاملات پر بھی اثر پڑتا ہے۔ آئینی بینچ کے قیام سے عام کیسز علیحدہ ہوئے، ورک لوڈ کم ہوا اور فیصلے کم وقت میں ہونے لگے، حالانکہ ابھی بھی آئینی کیسز پر 50 فیصد وقت صرف ہوتا ہے جسے حل ہونا چاہیے۔
ججز کے تبادلوں کا عمل شفاف اور میرٹ پر مبنی ہوگاخواجہ آصف نے واضح کیا کہ چاہے فوج ہو یا سول بیوروکریسی، تعیناتیاں اور تبادلے منظم نظام کے تحت ہوتے ہیں، اسی طرح ججز کے معاملے میں بھی ایسا ہونا چاہیے۔ حکومت عدلیہ کو بیوروکریسی کی طرز پر ڈیل نہیں کرے گی؛ جوڈیشل کمیشن کا اپنا نظام ہوگا اور تبادلوں کے لیے بیوروکریٹ، وزیراعظم یا کوئی سیکریٹری عدلیہ میں تبادلوں کا اختیار نہیں رکھے گا۔ تبادلوں کا عمل میرٹ اور قانون کے مطابق ہوگا، روزانہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ ضرورت کے تحت ہوگا۔
چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا عہدہ اور فوجی کمانڈ کا ڈھانچہجب پوچھا گیا کہ آیا چیف آف ڈیفینس فورسز کا عہدہ صرف آرمی چیف کے پاس ہی رہے گا یا سینیارٹی لسٹ سے کسی کو نامزد کیا جاسکتا ہے، تو خواجہ آصف نے کہا کہ ترمیم سے قبل اس بارے میں حتمی بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔ پاکستان کی روایات کے مطابق فوج میں اختیار عمومًا آرمی چیف کے پاس ہوتا ہے اور آپریشنل کمانڈ ایئرچیف اور نیول چیف کے تحت اپنے ڈومین میں خودمختار ہوں گے جبکہ جنگ یا اسٹریٹجک فیصلوں میں مشترکہ فیصلہ سازی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: 27ویں ترمیم میں دہری شہریت کے خاتمے سمیت کیا کیا تجاویز دی گئی ہیں؟ رانا ثنااللہ نے بتا دیا
افغانستان، مہاجرین اور سیکیورٹی خدشاتافغان حکومت سے مذاکرات ختم ہوچکے ہیں مگر جنگ بندی جاری رہے گی؛ اگر خلاف ورزی ہوئی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ 40 سے 45 سال افغان مہاجرین کی میزبانی کی، مگر بعض عناصر نے یہاں رہ کر بھی پاکستان دشمن سرگرمیاں جاری رکھیں۔ طالبان کے اقتدار کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، لہٰذا افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ ملکی معاشی حالات دوسرے ملکوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔
مضبوط ادارے، مضبوط ملکانہوں نے کہا کہ یہ اصلاحات سیاسی غرض کے لیے نہیں بلکہ ملک کے مفاد میں ہیں۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے قیام اور عدالتی اصلاحات سے دفاع، حکمرانی اور قانون کی حکمرانی میں بہتری آئے گی اور یہ عمل ایک مضبوط، مستحکم اور جدید پاکستان کی بنیاد رکھ رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خواجہ آصف نے چیف کے پاس نے کہا کہ کا عہدہ چیف آف کے لیے
پڑھیں:
افغانستان کی زبانی یقین دہانیاں تحریری معاہدہ بن جائیں تو بہتر ہوگا: وزیرِ دفاع
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغان طالبان زبانی یقین دہانیاں کروانے کے بجائے کسی تحریری معاہدے کا حصہ بن جائیں تو یہ دونوں ممالک اور پورے خطے کے لیے بہت اچھا ہوگا۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کو کابل سے بات چیت کے لیے اقوام متحدہ سمیت کسی فریق کی ضرورت نہیں۔ پائیدار امن پاکستان، افغانستان اور پورے خطے کی اہم ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ افغان طالبان زبانی یقین دہانیاں کروا رہے ہیں۔ اگر یہی یقین دہانیاں کسی تحریری معاہدے کا حصہ بن جائیں تو یہ دونوں ممالک اور پورے خطے کے لیے بہت اچھا ہوگا۔وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ خطے میں تجارت بڑھے، خوشحالی آئے اور تعلقات میں بہتری ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقائی استحکام ہی ترقی اور امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔
دوسری جانب استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان رجیم کےدرمیان مذاکرات شروع ہوگئے ہیں، پاکستان افغانستان کی سرزمین سے دہشت گردی کی روک تھام کے مطالبے پر قائم ہے۔مذاکرات میں دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے کے قابلِ تصدیق اور مؤثر میکانزم کی تشکیل پر تفصیلی گفتگو جاری ہے۔