جسٹس طارق محمود جہانگیری کی اپیل سماعت کیلئے مقرر
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اسلام آباد ہائیکورٹ ڈویژن بینچ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جعلی ڈگری کیس میں کام سے روک دیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت کیلئے مقرر ہو گئی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ 29 ستمبر کو اپیل پر سماعت کرے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بنچ میں شامل ہیں۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اسلام آباد ہائیکورٹ ڈویژن بینچ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جعلی ڈگری کیس میں کام سے روک دیا تھا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جسٹس طارق محمود جہانگیری اسلام آباد ہائیکورٹ
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کی خاتون جج جسٹس ثمن رفعت کیخلاف توہین عدالت درخواست خارج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251109-08-22
اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ کی خاتون جج جسٹس ثمن رفعت کے خلاف توہین عدالت درخواست خارج کر دی گئی ہے اور اسلام آبادہائیکورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ آئینی عہدے پر فائز شخص یا شخصیات کو فریق نہیں بنایا جا سکتا جب تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو، اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج اسی عدالت کے کسی دوسرے حاضر سروس جج کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا مجاز نہیں۔جسٹس خادم حسین سومرو نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کر دی ۔عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاتون وکیل پر بھاری جرمانہ عاید کرنے سے گریزکیا اور کلثوم خالق ایڈووکیٹ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرنے کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہے، جس میں اسلام آبادہائیکورٹ نے کہا ہے کہ جج کے خلاف کارروائی کا درست فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے، پٹیشنر کی جانب سے آفس اعتراضات پر مطمئن نا کرنے کے باعث کیس داخل دفتر کرنے کا حکم دیا گیا۔ تحریری حکمنامہ کے مطابق جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے صرف آبزرویشنز دیں، کوئی حکم جاری نہیں کیا، جس پر عمل درآمد ہوتا، پٹیشنر نے توہین عدالت کی درخواست میں بہت سے ایسے افراد کو فریق بنایا جو آئینی عہدوں پر بیٹھے ہیں، آئینی عہدے پر فائز شخص یا شخصیات کو فریق نہیں بنایا جا سکتا جب تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو۔