پاکستان اور چین میں 3.7 ارب ڈالر قرض کے معاہدے، زرمبادلہ ذخائر 12.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
پاکستان اور چین میں 3.7 ارب ڈالر قرض کے معاہدے، زرمبادلہ ذخائر 12.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئے WhatsAppFacebookTwitter 0 29 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس)
پاکستان اور چین نے اس ہفتے 3.7 ارب ڈالر کے مساوی کمرشل قرضوں کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جس سے زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ ہفتے 8.9 بلین ڈالرکی نازک سطح سے دوبارہ دہرے ہندسوں تک پہنچ گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یہ معاہدے آئی ایم ایف کے ساتھ رواں مالی سال کے اختتام پر مجموعی زرمبادلہ ذخائر14 بلین ڈالر تک پہنچانے کے وعدے کو پورا کرنے میں بھی مدد دیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا اور بینک آف چائنا نے جمعے کو مجموعی طور پر 1.
ایک موقع پر ایسا لگا کہ چین اس ہفتے 1.6 بلین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط نہیں کرے گا جس کے نتیجے میں پس پردہ اکنامک ڈپلومیسی کی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے وزارت خزانہ کی درخواست پر ان معاہدوں کو حتمی شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈار نے 19 مئی سے چینی حکام کے ساتھ رابطے شروع کیے جس کے نتیجے میں اس ہفتے تین چینی کمرشل بینکوں کے ایک کنسورشیم سے 2.1 بلین ڈالر کے کمرشل قرض پر دستخط اور اس کی ادائیگی ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق، تین چینی کمرشل بینکوں کے کنسورشیم سے 2.1 بلین ڈالر یا 15 بلین آر ایم بی کا قرض چند دن پہلے میچورہوا جس سے زرمبادلہ ذخائر 8.9 بلین ڈالر تک گر گئے۔ چائنیز کیش ڈپازٹس کے 4 بلین ڈالر کے رول اوور کے برعکس، چینی کمرشل قرضوں کو نئے شرائط و ضوابط پر ری فنانس کرنے سے پہلے ادا کرنا ہوتا ہے۔
چین نے یہ 2.1 بلین ڈالر آر ایم بی کرنسی میں دیے جو مرکزی بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جمعہ کو زرمبادلہ ذخائر 12.4 بلین ڈالر تک پہنچ گئے، چائنا ڈیولپمنٹ بینک نے 9 بلین آر ایم بی، بینک آف چائنا نے 3 بلین آر ایم بی اور آئی سی بی سی نے 3 بلین آر ایم بی دیے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق یہ قرض تین سال کی مدت کے لیے دیا جا رہا ہے۔ 1.6 بلین ڈالر کی رقم اب بھی زیرالتوا تھیں جو اگلے مالی سال میں منتقل ہو رہی تھیں۔ ذرائع نے مزید کہا کہ اسحٰق ڈار کو جمعہ کو چینی حکام نے تصدیق کی کہ باقی دو کمرشل قرضوں کو بھی حتمی شکل دے دی گئی ہے اور رقم جلد جاری کی جائے گی۔ مجموعی طور پر پاکستان اور چین نے گزشتہ چند دنوں میں 3.7 بلین ڈالر مالیت کے کمرشل قرضوں کے معاہدوں کو حتمی شکل دی ہے۔
جمعہ کے معاہدے میں انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا کا 1.3 بلین ڈالر کا قرض شامل تھا۔ آئی سی بی سی نے دو سال پہلے یہ قرض کسی مستقل شرح سود پر نہیںدیا تھا تاہم یہ تقریباً 7.5 فیصد بنتا ہے۔ بینک آف چائنا کے 300 ملین ڈالر کے قرض کو بھی حتمی شکل دی گئی اور یہ چینی کرنسی میں جاری کیا جائے گا۔
قرضوں کو امریکی ڈالر سے الگ کرنے کا اقدام صرف پاکستان سے مخصوص نہیں بلکہ یہ چین کی مجموعی پالیسی کا حصہ ہے کہ وہ اپنی معیشت کو امریکی کرنسی سے الگ کرے گا۔ پاکستان بیجنگ پر انحصار کرتا ہے تاکہ معاشی استحکام برقرار رہے، چین مسلسل 4 بلین ڈالر کے کیش ڈپازٹس، 5.4 بلین ڈالر کے کمرشل قرضوں اور 4.3 بلین ڈالر کی ٹریڈ فنانسنگ سہولت کو رول اوور کرتا آیا ہے۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی جانب سے ایک بلین ڈالر کا غیر چینی کمرشل قرض بھی گزشتہ ہفتے جاری کیا گیا۔ مرکزی بینک کے جاری کردہ بیان کے مطابق 20 جون کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران مرکزی بینک کے ذخائر 2.7 بلین ڈالر کم ہوکر 9.1 بلین ڈالر رہ گئے جس کی بنیادی وجہ کمرشل قرضوں کی ادائیگی ہے جبکہ موجودہ ہفتے کے دوران، مرکزی بینک نے 3.1 بلین ڈالر کے مساوی کمرشل قرضوں اور 500 ملین ڈالر سے زائد کے کثیر الجہتی قرضوں کی وصولی کی۔
زرمبادلہ ذخائر کا 9 بلین ڈالر سے نیچے گرنا بیرونی شعبے کے استحکام کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ غیر ملکی قرضوں پر بھاری انحصار حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ ذرائع نے بتایا کہ مرکزی بینک کے بھاری خریداری کے رجحان کے بعد روپے اور ڈالر کی شرح تبادلہ پر دوبارہ دباؤ بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔
مارکیٹ میں غیر ملکی کرنسی کی کمی سے بھی روپے کی قدر میں کمی ہو رہی تھی اور کمرشل بینکوں کو لیٹر آف کریڈٹ کھولنے سے روکا جا رہا تھا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کہہ چکے ہیں کہ مالی سال کے اختتام تک زرمبادلہ ذخائر 14 بلین ڈالر سے زیادہ ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد نے چین کے ایکزم بینک سے سرکاری رعایت یافتہ قرضوں، ترجیحی بائیر کریڈٹ کی ری شیڈولنگ کی بھی درخواست کی ہے تاہم چین نے کریڈٹ قرضوں کی ری شیڈولنگ پر اتفاق نہیں کیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبر‘فلسطین کو آزاد کرو’ برطانیہ میں کنسرٹ کے دوران گلوکاروں نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل مخالف نعرے لگادیے ہائبرڈ نظام نے ملک کی پاسپورٹ اور کریڈٹ رینکنگ بہتر کی: خواجہ آصف نیتن یاہو کو جانے دیں، انہیں بڑے کام کرنے ہیں کرپشن اسکینڈل پر ٹرمپ ایک بار پھر اسرائیلی وزیراعظم کے حق میں بول پڑے بجلی صارفین کے لیے بڑی خوشخبری ،بجلی کے بلوں میں پی ٹی وی فیس کے ختم ہونے کا امکان شہریوں کو موبائل فون پر موسمی صورتحال کی پیشگی اطلاع دی جائے، وزیراعظم کی ہدایت فیلڈ مارشل کا کور ہیڈ کوارٹرز پشاور کا دورہ، شہدا کی نمازجنازہ میں شرکت اور زخمیوں کی عیادت امریکہ نے ویزا کے لیے سوشل میڈیا کی نئی شرط عائد کردی،امیدواروں کی آن لائن سرگرمیوں کی بھی چھان بین کی جائے گیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پاکستان اور چین زرمبادلہ ذخائر بلین ا ر ایم بی بینک ا ف چائنا مرکزی بینک کے ڈالر تک پہنچ بلین ڈالر کے تک پہنچ گئے چینی کمرشل کے معاہدوں کے مطابق مالی سال ارب ڈالر حتمی شکل ڈالر سے جاری کی چین نے کے لیے
پڑھیں:
12 دن کی جنگ، 20 ارب ڈالر کا جھٹکا! اسرائیل دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا
ایران کے خلاف حالیہ 12 روزہ جنگ میں اسرائیل کو بھاری معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایرانی میڈیا اور اسرائیلی ذرائع کے مطابق، اس جنگ میں اسرائیل کو براہِ راست 12 ارب ڈالر اور مجموعی طور پر 20 ارب ڈالر تک کا معاشی نقصان پہنچا ہے۔
یہ نقصان فوجی اخراجات، انفراسٹرکچر کی تباہی، میزائل حملوں، متاثرین کو معاوضے، اور کاروباری نقصانات پر مشتمل ہے۔ اسرائیلی معیشت پر دباؤ اتنا شدید ہے کہ ملک کا مالیاتی خسارہ 6 فیصد تک پہنچنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی اخبارات کے مطابق، جنگ کے دوران صرف فوجی اخراجات 5 ارب ڈالر تک جا پہنچے، جبکہ 15 ہزار سے زائد شہریوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان متاثرین کے لیے حکومت کو ہوٹل اخراجات اور دوبارہ تعمیر کے اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔
اسرائیلی وزارت خزانہ اب امریکا سے مالی امداد یا قرض کی ضمانت حاصل کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ فوجی بجٹ کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ جنگ کے بعد اب تک 41 ہزار سے زائد معاوضے کے دعوے حکومتی فنڈ میں جمع ہو چکے ہیں۔
ایران کے جوابی میزائل حملوں میں اسرائیلی حکومت کے مطابق 29 افراد ہلاک اور 3200 سے زائد زخمی ہوئے، لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ بعض رپورٹس میں ان حملوں کو "قیامت خیز تباہی" قرار دیا جا رہا ہے۔