سابق بھارتی کرکٹر وریندر سہواگ کا امپائرز کو رشوت دینے کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
سابق بھارتی کرکٹر وریندر سہواگ نے امپائر فکسنگ کا پنڈورا باکس کھول دیا۔
سابق بھارتی اوپننگ بیٹر وریندر سہواگ کا ایک انٹرویو سامنے آیا ہے جس میں وہ مبینہ طور پر امپائرز کو رشوت دیکر اپنے حق میں فیصلے کرانے کا اعتراف کررہے ہیں، انہوں نے اس گفتگو کے دوران 2 امپائرز کا نام لیا جو دونوں ہی اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے ایک کلپ میں سہواگ نے کہا کہ جنوبی افریقہ کے ایک امپائر روڈی کوئٹزن ہوا کرتے تھے، ایک میچ کے دوران میں نے اور سچن ٹنڈولکر نے ایک ہی کمپنی کے پیڈز باندھے تھے، کوئٹزن نے مجھ سے پوچھا کہ یہ پیڈز میں کہاں سے خرید سکتا ہوں، جس پر میں نے پوچھا کہ آپ کو کیوں چاہئیں توانہوں نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کیلئے لینا چاہتا ہوں۔
سہواگ نے کہا کہ میچ کے بعد میں نے اپنے پیڈز انہیں دے دیے، امپائر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ میں کیسے لے سکتا ہوں، میں نے کہا کہ آپ کے بیٹے کیلئے گفٹ ہے، جس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں آپ کیلئے کیا کرسکتا ہوں، میں نے کہا کہ بس آپ مجھے ایک بار آؤٹ نہیں دینا، انہوں نے مجھے 2، 3 بار آؤٹ نہیں دیا۔
سہواگ نے مزید کہا کہ اس طرح ایک امپائر ڈیوڈ شیفرڈ تھے، بھارت میں امپائرنگ کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو ہماری مہمان نوازی کیسی لگ رہی ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے آئس کریم نہیں ملی، کیٹررز منع کررہے ہیں، کھیل کے دوران میں نے وقفہ لیا اور کیٹرر سے کہا کہ اگر وقفے میں امپائر کو ونیلا، چاکلیٹ اور اسٹرابری آئس کریم نہ ملی تو تمہاری نوکری گئی۔
سابق بھارتی کھلاڑی نے بتایا کہ وقفے میں امپائر اندر گئے اور جب واپس آئے تو میں نے پوچھا کہ آئس کریم کیسی تھی، انہوں نے کہا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا، میں نے کہا کہ میں نے ہی انتظام کیا تھا، اس پر انہوں نے پوچھا کہ میں آپ کیلئے کیا کرسکتا ہوں، میں نے کہا کہ بس ایک بار مجھے آؤٹ نہیں دینا۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: میں نے کہا کہ سابق بھارتی کے دوران انہوں نے سہواگ نے کہا کہ ا کہ میں
پڑھیں:
رشوت کے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں،اے سی سی اے کی نئی رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(کامرس رپورٹر)ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس( اے سی سی اے) کی جانب سے ایک نئی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق، ایشیا پیسیفک بھر کی تنظیمیں ایک مختلف اور تیزی سے بدلتی ہوئی دھوکہ دہی کی صورتِ حال سے نمٹ رہی ہیں، جس میں خریداری کے فراڈ (÷34)، رشوت اور بدعنوانی (÷20) اور کرپٹو فراڈ و ای ایس جی کی غلط بیانی جیسے مسائل شامل ہیں۔ ڈیجیٹل ادائیگیوں اور سپر ایپ پلیٹ فارمز میں تیز جدت نے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے، جبکہ اے آئی پر مبنی فریب کاری خطے میں دھوکہ دہی کی رفتار اور تکنیکی مہارت دونوں کو بڑھا رہی ہے۔ ایشیا پیسیفک کی کئی مارکیٹوں میں دھوکہ دہی سے متعلق کھل کر گفتگو کو بے وفائی سمجھا جاتا ہے، جب کہ روایتی درجہ بندی پر مبنی ماحول میں خفیہ طور پررپورٹنگ کی اب بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس لیے تفتیش کاروں کی آزادی اور انتقامی کارروائی سے بچاؤ کے واضح تحفظات نہایت اہم ہیںخصوصاً جونیئر عملے کے لیے، جنہوں نے سب سے زیادہ تشویش کا اظہار کیا جبکہ ثقافتی عوامل اب بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔دنیا بھر سے 2,000 سے زائد پیشہ ور افراد اور 31 گول میزکانفرنسزکے نتائج پر مبنی یہ مطالعہ جو انٹرنیشنل فراڈ اویئرنیس ویک کے دوران جاری کیا گیااس بات پر زور دیتا ہے کہ رویّہ جاتی خطرات کے جائزے اداروں کے اندر شامل کیے جائیں اور دھوکہ دہی کی روک تھام کو مقامی ثقافتی حقائق کے مطابق مربوط کیا جائے۔ صرف روایتی کنٹرول ایسے ماحول میں کافی نہیں جہاں تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی مالی، تجارتی اور صارفین کے نظام کو تبدیل کر رہی ہو۔علاقائی سروے میں رپورٹنگ کے عمل کی آسانی کا اوسط اسکور 3.82/5رہا، جبکہ جونیئر عملہ بدلے کی کارروائی کے خطرے پر سب سے زیادہ فکرمند نظر آیا، جو طاقت کے عدم توازن اور نیچے سے اوپر رپورٹنگ میں رکاوٹوں کو واضح کرتا ہے۔ جواب دہندگان نے ثقافتی طور پر حساس حکمرانی، عمل کی شفافیت اور قیادت کی سطح پر جوابدہی کی اہمیت پر زور دیا۔ACFE، IIA، CISI، ISC2، Airmic اور ACi کے ساتھ تعاون میں تیار کردہ اس رپورٹ میں ایک نیا Prevalence vs Materiality Matrix پیش کیا گیا ہے جو اداروں کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد دیتا ہے کہ وسائل کو کہاں ترجیحی بنیادوں پر لگایا جائے اس سے پہلے کہ دھوکہ دہی نقصانات کا باعث بنے۔ رپورٹ کا ساتھی حصہ ”Calls to Action” اور ”Thematic Typology” اداروں کو اس بات پر نئی رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ کون سے طریقے مؤثر ہیں، کون سے نہیںاور سب سے بڑھ کر یہ کہ رویّہ جاتی عوامل کے خطرات سے کیسے نمٹا جائے تاکہ دھوکہ دہی کی روک تھام محض کاغذی کارروائی نہ رہے بلکہ عملی حقیقت بن سکے۔اہم علاقائی نتائج میںخریداری میں دھوکہ دہی (÷34) اور رشوت و بدعنوانی (÷20) ایشیا پیسیفک کے بڑے خطرات میں شامل ہیں۔کرپٹو فراڈ اور ای ایس جی کی غلط بیانی تیزی سے ڈیجیٹل ہوتی مارکیٹوں میں نئے ابھرتے ہوئے چیلنجز ہیں۔اے آئی پر مبنی فریب کاری دھوکہ دہی کی رفتار بڑھا رہی ہے اور روایتی کنٹرولز کو چیلنج کر رہی ہے۔رپورٹنگ کی آسانی کا اوسط اسکور 3.82/5ہے، جبکہ جونیئر عملہ بدلے کے خوف کا سب سے زیادہ شکار ہے۔تفتیش کاروں کی آزادی، رپورٹنگ پالیسیوں کی وضاحت اور ثقافتی طور پر حساس فریم ورک اعتماد پر مبنی رپورٹنگ کے اہم عوامل ہیں۔دھوکہ دہی کی روک تھام کے لیے خطے کی درجہ بندی پر مبنی ثقافت، سماجی رویّوں اور بڑھتے ہوئے ڈیجیٹل ماحول کے مطابق حکمتِ عملی اپنانا ضروری ہے۔ اے سی سی اے کی پالیسی و انسائٹس ٹیم میں رسک مینجمنٹ اور کارپوریٹ گورننس کی سربراہ ریچل جانسن نے کہا” ایشیا پیسیفک میں دھوکہ دہی کے خطرات اتنے ہی ثقافت کی پیداوار ہیں جتنے ٹیکنالوجی کی۔ڈیجیٹل جدت بے پناہ مواقع فراہم کرتی ہے، لیکن یہ غلط معلومات اور فریب کاری کو بھی تیزی سے بڑھاتی ہے۔ اداروں کو سمجھنا ہوگا کہ کس طرح درجہ بندی پر مبنی ماحول اور بدلے کا خوف شفافیت کو محدود کرتا ہے، اور محفوظ، قابلِ اعتماد رپورٹنگ کے راستے میں ثقافتی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔”ڈائریکٹر ایشیا پیسیفک اے سی سی اے پلکت اَبرول نے کہا” اے سی سی اے ایشیا پیسیفک میں دھوکہ دہی سے نمٹنے کے لیے ثقافتی طور پر ہم آہنگ حل درکار ہیں۔تفتیش میں آزادی، رویّہ جاتی خطرات کا جائزہ، اور واضح رپورٹنگ فریم ورک ضروری ہیں تاکہ ادارے تیزی سے بدلتے ہوئے ڈیجیٹل اور عملی خطرات کا مقابلہ کر سکیں۔”رپورٹ اجتماعی سطح پر نئے سرے سے سوچنے کی درخواست کرتی ہے، تاکہ ادارے پیشگی نشاندہی کو مضبوط کریں، جوابدہی کو فروغ دیں اور حکمرانی کے ڈھانچے کو خطے کے رویّہ جاتی حقائق کے مطابق ڈھالیں۔ رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ جدید دور کی دھوکہ دہی کی روک تھام کے لیے کراس-فنکشنل تعاون، ثقافتی طور پر حساس نگرانی، اور دیانت داری کو ڈیجیٹل، تنظیمی اور سپلائی چین کے نظام میں بھرپور طریقے سے شامل کرنا ناگزیر ہے۔