اقوام متحدہ کے جوہری نگرانی کے ادارے (آئی اے ای اے) کے سربراہ رائفیل گروسی کا کہنا ہے کہ امریکا کے ایران پر حملے ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں ناکام رہے ہیں اور تہران چند مہینوں میں یورینیم افزودگی دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔

یہ بیان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان دعوؤں کے برعکس ہے جن میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکا نے تہران کے ایٹمی پروگرام کو مکمل تباہ کرکے اس کے جوہری عزائم کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ایرانی جوہری تنصیبات تباہ ہوگئی ہیں، میڈیا شکوک پھیلا رہا ہے، امریکی وزیر دفاع

رائفیل گروسی کا یہ بیان امریکی انٹیلجنس کے ان ابتدائی اندازوں کے مطابق ہیں جن میں عندیہ دیا گیا تھا کہ امریکا کے پچھلے ہفتے ایران کے اہم جوہری مقامات پر حملوں نے اس کے جوہری پروگرام کے بنیادی اجزا کو تباہ نہیں کیا اور ممکنہ طور پر اسے صرف چند مہینوں کے لیے پیچھے دھکیل دیا ہے۔

حال ہی میں امریکی فوجی حکام نے حملوں کی منصوبہ بندی کے بارے میں کچھ نئی معلومات فراہم کی ہیں، لیکن انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں کوئی نئی شہادت پیش نہیں کی ہے۔ البتہٰ وہ بضد ہیں کہ ان کے حملوں سے ایرانی جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔

ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ایران کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ وہ چند مہینوں میں یورینیم افزودگی کی طرف جاسکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، حقیقت میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سب کچھ غائب ہو گیا ہے اور کچھ بھی باقی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے: امریکی حملے ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے میں ناکام، ’انٹیلیجنس رپورٹ‘

انہوں نے زور دیا کہ نقصان شدید ہوا ہے، مگر یہ مکمل تباہی نہیں ہے، ایران کے پاس صنعتی اور تکنیکی صلاحیتیں موجود ہیں، اگر وہ چاہیں، تو یہ دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔

گروسی نے یہ بھی بتایا کہ آئی اے ای اے یہ یہ کہنے کے لیے دباؤ کے خلاف مزاحمت کی ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور یا وہ ہتھیار بنانے کے قریب ہیں۔ ایران اس سے قبل اسرائیلی اور امریکی حملوں سے پہلے ایجنسی کو معلومات فراہم کر رہا تھا، مگر کچھ امور ایسے تھے جنہیں وہ واضح کرنے سے گریز کر رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: ایرانی جوہری تنصیبات کو سب سے بڑا نقصان سطح زمین سے بہت گہرائی میں ہوا، ٹرمپ

گروسی نے ایران پر زور دیا کہ وہ ان کے ادارے کو اپنی جوہری سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے رسائی فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے حالیہ اسرائیلی اور امریکی حملوں سے پہلے معلومات فراہم کی تھیں، مگر ہمارے لیے کچھ چیزیں واضح نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایران میں دوسری ایسی جگہوں پر یورینیم ملے جنہیں ایران نے جوہری تنصیب قرار نہیں دیا تھا۔ ہم اس کا جواب مانگ رہے تھے مگر کئی سالوں سے ہمیں اس کا جواب نہیں مل رہا تھا۔

اس سوال کے جواب پر کہ کیا ایران نے حملوں سے قبل یورینیم جوہری تنصیبات سے منتقل کردیا تھا، آئی اے ای اے کے سربراہ نے کہا کہ یہ ہوسکتا ہے مگر ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کہاں لے جایا جاسکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جوہری تنصیبات جوہری پروگرام ایرانی جوہری انہوں نے کہا آئی اے ای اے نے کہا کہ ایران کے کے جوہری جوہری پر حملوں سے کے لیے یہ بھی

پڑھیں:

باجوڑ،آپریشن سربکف‘ دوبارہ شروع، گن شپ ہیلی کاپٹرز سے بمباری

باجوڑ(نیوز ڈیسک) باجوڑ کی تحصیل لوئی ماموند میں شدت پسندوں کو ختم کرنے کے لیے ٹارگٹڈ ملٹری آپریشن (آپریشن سربکف) پیر کے روز دوبارہ شروع کر دیا گیا، جب کہ صوبائی حکومت نے شورش زدہ تحصیل کے متعدد علاقوں میں 3 ماہ کے لیے کرفیو نافذ کر دیا، جسے مقامی آبادی کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس آپریشن کا نام ’آپریشن سربکف‘ رکھا گیا تھا، جو ابتدا میں 29 جولائی کو شروع کیا گیا تھا، لیکن اگلے ہی دن اس وقت روک دیا گیا جب باجوڑ امن جرگہ اور مقامی شدت پسند کمانڈروں کے درمیان امن مذاکرات میں کچھ پیش رفت ہوئی، تاہم، شدت پسندوں کی افغانستان منتقلی کے لیے ہونے والے مذاکرات جمعہ کی شام بعض معاملات پر تعطل آنے کے باعث ناکام ہو گئے۔

پیر کو سیکیورٹی فورسز نے مبینہ طور پر ہیلی کاپٹر گن شپ اور توپ خانے کی مدد سے لوئی ماموند اور وار ماموند تحصیلوں میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، ضلعی ہیڈکوارٹر خار سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں، تاہم آپریشن کے پہلے روز کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی، یہ آپریشن غروب آفتاب تک جاری رہا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اعلان کردہ کرفیو کے باعث کئی اہم سڑکیں اور تجارتی مراکز بند رہے، تحصیل لوئی ماموند اور وار ماموند کے 2 درجن سے زائد دیہات میں پابندیاں 14 اگست تک نافذ رہیں گی۔

یہ نوٹیفکیشن ڈپٹی کمشنر کے آفیشل فیس بک پیج پر پیر کی رات تقریباً 2 بجے پوسٹ کیا گیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی منظوری سے ضلع کی کئی اہم سڑکوں پر 12 گھنٹے کا کرفیو نافذ کر دیا، جن میں خار-مندا روڈ، خار-نواگئی روڈ، خار-پشات سلرزئی روڈ، اور خار-صادق آباد، عنایت کلی روڈ شامل ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان سڑکوں پر پابندیاں پیر کی صبح 11 بجے شروع ہوئیں اور اسی رات 11 بجے تک نافذ رہیں گی۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ 3 روزہ کرفیو لوئی ماموند اور وار ماموند تحصیلوں کے تقریباً 27 علاقوں میں مذکورہ سڑکوں کے علاوہ، عوامی حفاظت اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ’ٹارگٹڈ آپریشن‘ کے دوران نافذ کیا گیا ہے۔

کرفیو زدہ علاقوں میں لغاری، گوہٹی، غنم شاہ، بدِ سیاہ، گٹ، کٹ کوٹ، ریگئی، ڈاگ، گھُنڈی، اماناتو، زگئی، گریگل، نیعگ، دامادولہ، سلطان بیگ، چوترہ، گانگ، جواڑ، انعام کھورو چنگائی، آنگہ، سفاری، بار گٹکی، کھڑکی، شاکرو، شنکوٹ، اور بکارو شامل ہیں۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پابندیوں پر عمل کریں اور پیر کی صبح 10:30 بجے تک تمام سرگرمیاں معطل رکھتے ہوئے گھروں کے اندر رہیں، بصورت دیگر کسی ناخوشگوار نتیجے کی صورت میں وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔

صبح کرفیو کے نفاذ کے ساتھ ہی پولیس نے سائرن بجائے اور تاجروں کو اپنی دکانیں بند کرنے کی ہدایت کی، اس کے بعد ضلع بھر میں، بشمول خار، عنایت کلی، صادق آباد، نواگئی، راغگان، پشات، لغاری، یوسف آباد، اور لوئے سم، مرکزی سڑکیں اور بازار بند ہو گئے۔

رہائشیوں کو مشکلات
ضلع میں پابندیوں، بالخصوص تحصیل خار کے شہری علاقوں میں، رہائشیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور باجوڑ امن جرگہ کے سربراہ صاحبزادہ ہارون رشید سمیت سیاسی شخصیات نے اس پر تنقید کی۔

خار میں باجوڑ پریس کلب میں ہنگامی نیوز کانفرنس کے دوران ہارون رشید نے ضلعی انتظامیہ پر تنقید کی کہ انہوں نے پابندیاں نافذ کرنے سے پہلے مقامی عوام کو اعتماد میں نہیں لیا۔
انہوں نے جرگہ ارکان کے ساتھصوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انہوں نے عسکری کارروائی سے متاثرہ بے گھر افراد کے لیے مناسب ٹرانسپورٹ اور رہائش کا بندوبست نہیں کیا۔ انہوں نے بے گھر افراد کے رہائشی مسائل فوری حل کرنے کا مطالبہ کیا۔

نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری
اندازوں کے مطابق ہفتے کے روز سے اب تک تقریباً 2 ہزار خاندان (جن میں سے صرف پیر کو 300 خاندان شامل ہیں) لوئی ماموند اور وار ماموند تحصیلوں میں جاری فوجی آپریشن کے پیشِ نظر اپنے گھروں کو چھوڑ چکے ہیں، بے گھر ہونے والے خاندانوں کی کوئی سرکاری تعداد جاری نہیں کی گئی، اور یہ اندازے مقامی این جی اوز اور رہائشیوں کے انٹرویوز پر مبنی ہیں۔

سراج الدین خان فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر خالد خان نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ پیر کی صبح کرفیو نافذ ہونے سے قبل مزید تقریباً 300 خاندان اپنے گھروں کو چھوڑ گئے تھے، کچھ لوگ ان کے ادارے کے قائم کردہ شیلٹرز میں منتقل ہو گئے، جب کہ دیگر اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے پاس رہنے چلے گئے۔

محکمہ تعلیم کے حکام اور خار کے اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر صادق علی کے درمیان اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ گھر ہونے والے افراد کی رہائش کے لیے ضلع کے 449 سرکاری اسکولوں میں سہولت فراہم کی جائے گی۔

اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ 309 لڑکوں کے اسکول اور 140 لڑکیوں کے اسکول بے گھر افراد کو رہائش فراہم کریں گے، اس کے علاوہ 113 نجی اسکول بھی متاثرہ افراد کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • فرانس، جرمنی اور برطانیہ ایران پر دوبارہ پابندیاں لگانے کے لیے تیار
  • ایران کے ایٹمی پروگرام پر یورپی ممالک کا سخت انتباہ، دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا عندیہ
  • ایرانی سفیر کا یومِ آزادی پر پُرجوش پیغام اور مبارکباد
  • ایرانی کرنسی سے 4 صفر ختم کرنے کی منظوری
  • امریکی پابندیوں کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دینے کا وقت آ گیا ہے، عراقچی
  • اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران 21 ہزار مشتبہ افراد گرفتار کیے، ایران کا دعویٰ
  • ایران،  اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ کشیدگی کے دوران 21 ہزار مشتبہ افراد گرفتار
  • باجوڑ،آپریشن سربکف‘ دوبارہ شروع، گن شپ ہیلی کاپٹرز سے بمباری
  • بھارت نے شروع کی ہم نے عبرتناک شکست دیکر جنگ مکمل کی : بلاول
  • امریکا نے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیدیا