مرادِرسولؐ ۔۔۔۔ شہنشاہِ عدل وانصاف
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللّہ عنہ کا اسم مبارک عمر اور لقب فاروق ہے۔ آپ رضی اللّہ عنہ کا خاندانی شجرہ آٹھویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے ملتا ہے۔ آپ ؓکے والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام عتمہ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بعد پوری امت میں آپ کا مرتبہ سب سے افضل اور اعلٰی ہے۔ آپ ؓواقعہ فیل کے تیرہ برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ عمر میں تقریباً گیارہ سال حضوراکرم ﷺ سے چھوٹے ہیں۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ ؓقریش کے باعزت قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اعلان نبوت کے چھے سال بعد آپ نے اسلام قبول کیا۔ آپؓ مراد رسول ہیں یعنی حضور اکرم ﷺ نے اللّہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعا کی اے پروردگار! عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام (ابوجہل) میں جو تجھے پیارا ہو اس سے اسلام کو عزت وطاقت عطا فرما۔ دعا بارگاہ خداوندی میں قبول ہوئی اور آپ ؓمشرف با اسلام ہوگئے۔ آپؓ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے 39 مرد اسلام قبول کر چکے تھے۔
آپ 40 ویں مسلمان مرد تھے۔ آپ ؓکے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی اور انہیں حوصلہ ملا۔ اسلام کی قوت میں اضافہ ہوا۔ حضرت علی ؓفرماتے ہیں کہ جس کسی نے ہجرت کی چھپ کر کی مگر حضرت عمر ؓمسلح ہوکر خانہ کعبہ میں آئے اور کفار کے سرداوں کو للکارا اور فرمایا کہ جو اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے۔ وہ مجھے روک لے۔
حضرت عمر کی زبان سے نکلنے والے الفاظ سے کفار مکہ پر لرزہ طاری ہوگیا اور کوئی مدمقابل نہ آیا۔ ہجرت کے بعد آپ ؓنے جان و مال سے اسلام کی خوب خدمت کی۔ آپ نے اپنی تمام زندگی اسلام کی خدمت کرنے میں گزار دی۔ آپؓ نے تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ کردار ادا کیا اور اسلام کے فروغ اور اس کی تحریکات میں حضور اکرم ﷺ کے رفیق رہے۔
فضائل ومناقب
سیدنافاروق اعظم ؓ کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ آپ کی فضیلت میں بہت سی احادیث موجود ہیں۔ سرکار دو عالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
لو کان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب۔
ترجمہ: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتے تو عمر ہوتے۔ (مشکوۃ شریف ص558)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہوا کہ حضور اکرم ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپ پر نبوت و رسالت ختم ہوچکی۔ اب قیامت تک کوئی بھی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ جو اس واضح حقیقت کے باوجود دعویٰ نبوت کرے یا جو کوئی اس کو نبی یا رسول مانے وہ ملعون کذاب کافر و مرتد ہے۔ مذکورہ حدیث سے حضرت عمر فاروق کے مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر حضور پر نبوت ختم نہ ہوتی تو آپ کے بعد حضرت عمر فاروق نبی ہوتے۔ حضور اکرم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:
بے شک میں نگاہ نبوت سے دیکھ رہا ہوں کہ جن کے شیطان اور انسان کے شیطان دونوں میرے عمر کے خوف سے بھاگتے ہیں۔ (مشکو ۃشریف ص558 )
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد ﷺنے ارشاد فرمایا اللّہ تعالی نے عمر کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرما دیا۔ (بحوالہ مشکوۃ شریف صفحہ557)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق اسلام لائے تو حضرت جبرائیل حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللّہ! آسمان والے عمر کے اسلام پر خوش ہوئے ہیں۔ ( ابن ماجہ بحوالہ برکات آل رسول صفحہ 291 )
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں آپ کی خواہش کے مطابق نازل ہوئیں۔ سیدنا حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے رائیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔
تاریخ خلفا میں ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کسی معاملے میں کوئی مشورہ دیتے تو قرآن مجید کی آیتیں آپ کے مشورے کے مطابق نازل ہوتیں۔ (تاریخ الخلفاء)
ایک مرتبہ سرور کونین ﷺجبل احد پر تشریف لے گئے۔ اس موقع پر پہاڑ میں کچھ حرکت سی پیدا ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے احد! ٹھہر جا اس وقت تیرے اوپر ایک نبی ﷺ،ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔
سیدنا فاروق اعظمؓ کو اسلام میں اعلٰی مقام حاصل ہے۔ آپ ؓکے سنہری کارناموں سے تاریخ اسلام کا چہرہ دمک رہا ہے۔ عدل و انصاف کے باب میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ آپ ؓکے عالی اطوار، شان دار کردار اور قابل رشک اخلاق سے غیرمسلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ آپؓ کی شان اقدس میں چالیس سے زائد احادیث رسول ﷺ موجود ہیں۔ آپؓ کو سسر رسول ﷺ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللّہ عنہ کے دسترخوان پر کبھی دو سالن نہیں ہوتے تھے۔ سفر کے دوران نیند کے وقت زمین پر اینٹ کا تکیہ بنا کر سو جایا کرتے تھے۔ آپ ؓکے کرتے پر کئی پیوند رہا کرتے تھے۔ آپؓ موٹا کھردرا کپڑا پہنا کرتے تھے اور آپ کو باریک ملائم کپڑے سے نفرت تھی۔ آپ ؓجب بھی کسی کو گورنر مقرر فرماتے تو تاکید کرتے تھے کہ کبھی ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا، باریک کپڑا نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دربان نہ رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند نہ کرنا۔ آپ ؓفرماتے تھے کہ عادل حکم راں بے خوف ہوکر سوتا ہے۔ آپ کی سرکاری مہر پر لکھا تھا عمر! نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے۔
آپؓ فرماتے ظالم کو معاف کرنا مظلوم پر ظلم کرنے کے برابر ہے اور آپ کا یہ فقرہ آج دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے چارٹر کا درجہ رکھتا ہے کہ ’’مائیں اپنے بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں، تم نے کب سے انھیں غلام بنا لیا؟‘‘ آپ ؓکے عدل کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے آپ کو ’’فاروق‘‘ کا لقب دیا اور آج دنیا میں عدل فاروقی ایک مثال بن گیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہادت کے وقت مقروض تھے۔ چناںچہ وصیت کے مطابق آپ کا مکان بیچ کر آپ کا قرض ادا کیا گیا۔
آپ ؓ راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرا دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر سے اس بارے میں پوچھ ہو گی
؎محمد (ﷺ)کے صحابی کاوہ شانہ یاد آتا ہے
بدل کے بھیس گلیوں میں وہ جانا یادآتا ہے
نجف اس عہد کی مائیں جب آٹے کو ترستی ہیں
عمرؓ تیری خلافت کازمانہ یاد آتا ہے
حضرت عمر فاروقؓ کے سنہری کارنامے
حضرت عمر فاروق رضی اللّہ عنہ نے دنیا کو ایسے ایسے نظام دیے جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں پوری دنیا میں رائج ہیں۔ دینی فیصلوں میں آپ نے فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کا اضافہ فرمایا، آپ کے عہد میں با قاعدہ تراویح کا سلسلہ شروع ہوا، شراب نوشی کی سزا مقرر ہوئی اور آپ نے سنہ ہجری کا آغاز کروایا، مؤذنوں کی تنخواہ مقرر کی اور تمام مسجدوں میں روشنی کا بندوبست فرمایا۔ دنیاوی فیصلوں میں آپ نے ایک مکمل عدالتی نظام تشکیل دیا اور جیل کا تصور دیا، آب پاشی کا نظام بنایا، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں اور فوج کا با قاعدہ محکمہ قائم کیا۔ آپؓ نے دنیا بھر میں پہلی مرتبہ دودھ پیتے بچوں، بیواں اور معذوروں کے لیے وظائف مقرر کیے ۔
حضرت عمر فاروق ؓ کا جنت میں محل
رسالت مآب ﷺ ایک اور موقع پر ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جنت میں داخل ہوا اور وہاں ایک محل دیکھا۔ اس محل کی خوب صورتی کے پیش نظر پوچھا کہ یہ عالی شان محل کس کا ہے تو جواب ملا کہ عمر بن خطاب کا۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہا کہ اس محل کے اندر داخل ہوجاؤں مگر اے عمر! مجھے تیری غیرت یاد آ گئی، اس لیے میں اس کے اندر داخل نہیں ہوا۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق رو پڑ ے اور عرض کیا کہ، یارسول اللہﷺ! آپﷺ پر میرے ماں باپ قربان کیا میں آپ پر بھی غیرت کروں گا۔
پردے کی آیات کا نزول
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کی یارسول اللّہ آپ کی خدمت میں ہر طرح کے لوگ آتے جاتے ہیں اور اس وقت آپ کی خدمت میں آپ کی ازواج بھی ہوتی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ آپ ان کو پردہ کرنے کا حکم دیں۔ چناںچہ حضرت عمر ؓکے اس طرح عرض کرنے پر ازواجِ مطہراتؓ کے پردے کے بارے میں قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی۔ ارشاد خداوندی ہے۔
ترجمہ: اور جب تم امہات المومنین سے استعمال کرنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔
حضرت عمرؓ کا یہودی کو جواب
ایک مرتبہ ایک یہودی حضرت عمرفاروقؓ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ تمہارے نبی جس جبرائیل فرشتہ کا تذکرہ کرتے ہیں وہ ہمارا سخت دشمن ہے۔ حضرت عمر فاروق نے اس کو جواب دیا۔
’’جو کوئی دشمن ہو اللّہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا تو اللّہ دشمن ہے کافروں کا۔‘‘
جن الفاظ کے ساتھ سیدنا حضرت عمرفاروقؓ نے یہودی کو جواب دیا بالکل انہی الفاظ کے ساتھ اللّہ تعالی نے قرآن مجید میں آیت کریمہ نازل فرمائی۔ (پ1 ع12 )
ان واقعات سے حضرت عمرفاروقؓ کی شان و عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ اللّہ تعالٰی کی بارگاہ میں اس قدر محبوب تھے کہ آپ کے خیال کے مطابق قرآن مجید کی کئی آیتیں نازل ہوئیں۔
میں نے تم سے زیادتی کی مجھے بھی ویسی سزا دو!
ایک دفعہ آپؓ خلافتی امور کا وقت ختم ہونے کے بعد گھر آئے اور کسی کام میں لگ گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا، امیر المومنین! آپ فلاں شخص سے میرا حق دلوا دیجیے۔ آپ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص کو ایک درا پیٹھ پر مارا اور کہا، جب میں دفتر لگاتا ہوں تو اس وقت تم اپنے معاملات لے کر آتے نہیں اور جب میں گھر کے کام کاج میں مصروف ہوتا ہو ں تو تم اپنی ضرورتوں کو لے کر آ جاتے ہو۔
بعد میں آپ کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور اس شخص کو (جسے درا مارا تھا) بلوایا اور اس کے ہاتھ میں درا دیا اور اپنی پیٹھ آگے کی کہ مجھے درا مارو، میں نے تم سے زیادتی کی ہے۔ وقت کا بادشاہ ایک عام آدمی سے کہہ رہا ہے کہ میں نے تم سے زیادتی کی مجھے ویسی ہی سزا دو۔ اس شخص نے کہا میں نے آپ کو معاف کیا۔ آپ رضی اللّہ عنہ نے کہا نہیں نہیں کل قیامت کو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا۔ تم مجھے ایک درا مارو تا کہ تمہارا بدلہ پورا ہو جائے۔
آپؓ روتے جاتے تھے اور فرماتے اے عمر! تو کافر تھا، ظالم تھا، بکریاں چراتا تھا، خدا نے تجھے اسلام کی دولت سے مالا مال کیا اور تجھے مسلمانوں کا خلیفہ بنایا، کیا تو اپنے رب کے احسانوں کو بھول گیا۔ آج ایک آدمی تجھ سے کہتا ہے کہ مجھے میرا حق دلاؤ تو اسے درا مارتا ہے۔ اے عمر! کیا تو سمجھ بیٹھا ہے کہ مرے گا نہیں، کل قیامت کے دن تجھے اللّہ کو ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللّہ عنہ اسی بات کو دہراتے رہے اور بڑی دیر روتے رہے۔
اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہوچکا ہوتا
حضرت عمرؓ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا میری شادی کو آج چھٹا مہینہ ہے، لیکن اسی مہینے میری عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا عورت کو سنگسار کردو!
حضرت علی ؓ بھی اس مجلس میں موجود تھے۔ کہا یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہے۔ اللّہ تعالٰی فرماتا ہے: بچے کا حمل اور اس کے دودھ پینے کا زمانہ تیس مہینے ہوتا ہے، ممکن ہے دو سال دودھ پینے کا زمانہ ہو اور چھ مہینے حمل کا۔ امیرالمومنین عمر ؓنے یہ سن کر اپنا حکم واپس لیا اور فرمایا، اگر علی یہاں موجود نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوچکا تھا۔
اسی طرح ایک عورت حاضر ہوئی، جس کے پیٹ میں ولدالزنا تھا۔ امیرالمومنین حضرت عمر ؓنے عورت کی سنگساری کا حکم دیا۔ حضرت علیؓ پھر نہ رہ سکے، فرمایا اگر گناہ کیا ہے تو اس عورت نے کیا، مگر اس بچہ نے کیا قصور کیا ہے جو ابھی پیٹ ہی میں ہے۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا بہت بہتر، سزا وضع حمل تک ملتوی رکھی جائے۔ اس موقعہ پر بھی حضرت عمرؓ نے فرمایا: اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو چکا ہوتا۔
خلافت فاروق اعظم پر ایک نظر
حضرت عمر فاروق ؓنے حضرت ابوبکرؓ کے بعد دس سال چھے ماہ دس دن تک بائیس لاکھ مربع میل زمین پر اسلامی خلافت قائم کی۔
آپ کے دور میں 3600علاقے فتح ہوئے ۔
قیصر و کسری دنیا کی دو بڑی سلطنتوں کا خاتمہ آپ کے دور میں ہوا۔
آپ کے عہد میں عدالت کے ایسے بے مثال فیصلے چشم فلک نے دیکھے جن کا چرچا چار وانگ عالم میں پھیل گیا۔
فتوحات عراق، ایران، روم، ترکستان اور دیگر بلادعجم پر اسلامی عدل کا پرچم لہرانا سیدنا فاروق اعظم ؓکا بے مثال کارنامہ ہے۔
حضرت عمرفاروقؓ کے زریں اور درخشندہ عہد پر کئی غیرمسلم بھی آپ کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
حقیقت میں آنحضرت ﷺ کے آفاقی دین کو تعمیر ترقی کے اوج ثریا پر پہنچانے اور دنیا بھر میں اسلام کی سطوت و شوکت کا سکہ بٹھانے کا سہرا حضرت فاروق اعظم ؓکے سر ہے ۔
ارشادات فاروقِ اعظمؓ
جو شخص راز چھپاتا ہے اس کا راز اس کے ہاتھ میں ہے۔
لوگوں کی فکر میں اپنے آپ کو نہ بھول جا۔
مجھے سائل کے سوال سے اس کی عقل کا اندازہ ہوجاتا ہے۔
آدمی کے نماز روزہ پر نہ جاؤ بلکہ اس کے معاملات اور عقل کو دیکھو۔
توبہ کی تکلیف سے گنا ہ کا ترک کردینا زیادہ سہل ہے۔
دولت سر اونچا کیے بغیر نہیں رہتی۔
جو شخص برائی سے آگاہ نہیں وہ ضرور ا س میں گرفتار ہوگا۔
کسی کی شہرت کا آوازہ سن کر دھوکا نہ کھا۔
اگر صبروشکر دو سواریاں ہوتیں تو میں پرواہ نہ کرتا کہ کس پر سوار ہوں۔
حقیر سے حقیر پیشہ بھی ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے۔
شہادتِ حضرت عمرفاروقؓ
صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا ایک غلام تھا جو مجوسی تھا۔ اس کا نام ابولولو تھا۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓکے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کے مالک اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجیے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لیے زیادہ نہیں ہیں۔
یہ جواب سن کر وہ غصے میں آگ بگولہ ہوگیا اور آپ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کرلیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔ 26 ذی الحجہ 23ھ بروز بدھ آپ نماز فجر کی ادائی کے لیے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ جب آپ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہوگیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بری طرح زخمی ہوگئے اور یکم محرم الحرام کودس سال چھے ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد جامِ شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی تدفین حضرت عائشہ ؓکی اجازت سے حضور ﷺ کے پہلو میں ہوئی۔ آپ کی نمازجنازہ حضرت صُہیب ؓ نے پڑھائی۔ (اناللہ واناالیہ راجعون)
امام عدل و حریت، خلیفہ راشد، امیرالمومنین، فاتح عرب وعجم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ روضہ رسول میں آنحضرت ﷺ کے پہلو مبارک میں مدفون ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حضرت عمر فاروق رضی الل حضرت عمرفاروق فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کر رضی الل ہ عنہ قرآن مجید کی حضور اکرم ﷺ ہوتے تو عمر فاروق اعظم ایک مرتبہ نے فرمایا کا اندازہ اور اس کے اسلام کی حضرت علی کرتے تھے کے مطابق کی خدمت میں ہے اور آپ کے لیے عرض کی کے بعد
پڑھیں:
عملی اصلاح کی بابت چند احادیث
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251118-03-7
دہم
توازن واعتدال: اللہ تعالیٰ کو بندے کی طرف سے ہر معاملے میں اِفراط وتفریط اور حد سے تجاوز اور غْلْوّ پسند نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو توسط واعتدال پسند ہے‘ حتیٰ کہ نمازِ باجماعت جو افضل العبادات ہے‘ اْس میں بھی توسّط کو پسند فرمایا گیا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا جابرؓ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: مْعاذؓ بن جبل نبیؐ کے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں نماز پڑھاتے اور اس میں سورۂ البقرہ کی تلاوت کرتے تو ایک شخص نے (جماعت کو چھوڑ کر) اختصار کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس کی خبر سیدنا مْعاذؓ کو پہنچی تو انہوں نے کہا: یہ منافق ہے۔ ان کی یہ بات اس شخص تک پہنچی تو وہ نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ہم کام کاج والے لوگ ہیں‘ ہم اونٹوں پر پانی ڈھوتے ہیں اور مْعاذ نے گزشتہ شب نماز (عشاء) پڑھائی اور اس میں سورۂ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی‘ اس پر میں نے (جماعت چھوڑ کر) مختصر تلاوت کے ساتھ نماز پڑھ لی۔ انہوں نے گمان کیا کہ میں منافق ہو گیا ہوں‘ تو نبیؐ نے تین بار فرمایا: مْعاذ! کیا تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالنے والے ہو (باجماعت نمازِ عشاء میں) سورۂ الشمس‘ سورۂ الضحیٰ اور سورۂ الاعلیٰ وغیرہ کی تلاوت کیا کرو‘‘۔ (بخاری) اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ رسول اللہؐ کی اقتدا کی سعادت حاصل کرنے کے لیے نفل کی نیت سے آپؐ کی اقتدا کرتے اور پھر اپنے قبیلے میں جاکر لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے تھے اور اس میں طویل قرآت کیا کرتے تھے۔ رسول اللہؐ نے لوگوں کی آسانی کی خاطر اْن کے اس شِعار کو پسند نہیں فرمایا۔
سیدنا ابوقتادہ انصاریؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: میں نماز پڑھانے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا جی چاہتا ہے: لمبی نماز پڑھوں کہ میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کہ کہیں اس بچے کی ماں پر گراں نہ گزرے (اور اپنے بچے کے رونے کے سبب اس کی توجہ نماز سے بٹ نہ جائے)‘‘۔ (بخاری) (2) سیدنا ابومسعودؓ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبی کریمؐ کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہؐ! فلاں شخص کے لمبی نماز پڑھانے کی وجہ سے میں فجر کی جماعت سے رہ جاتا ہوں‘ تو میں نے رسول اللہؐ کو اپنے وعظ میں اْس دن سے زیادہ غضبناک (کبھی) نہیں دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا: تم لوگوں کو دین سے متنفّر کرنے والے ہو‘ تم میں سے جو لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ اختصار سے کام لے‘ کیونکہ ان میں ضعیف‘ بڑی عمر والے اور کام کاج پر جانے والے لوگ ہوتے ہیں‘‘۔ (بخاری) دوسری حدیث میں فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو جتنی چاہے لمبی نماز پڑھے‘‘۔ (بخاری) الغرض نماز میں بھی لوگوں کے احوال کی رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس جب عبادت میں لوگوں کے احوال کی رعایت اتنی اہم ہے تو عام حالات میں اْن کی اہمیت کا عالَم کیا ہوگا۔ مزدور کو اس کی مزدوری بروقت دینی چاہیے: نبیؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تین قسم کے اشخاص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں خود اْن سے جھگڑا کروں گا: ایک وہ جس نے میرے نام کی قسم کھائی اور پھر وہ قسم توڑ ڈالی (یعنی حانِث ہوگیا)‘ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو پکڑ کر فروخت کر دیا اور پھر اس کی قیمت کھا گیا اور تیسرا وہ جس نے کسی کو مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا‘ مگر اس کو مزدوری نہ دی‘‘۔ (بخاری) نیز آپؐ نے فرمایا: ’’مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دو‘‘۔ (ابن ماجہ)
پانچ چیزوں کوغنیمت جانو: عَمروؓ بن میمون بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے ایک شخص سے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: (1) موت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جو فرصت ِ حیات عطا کر رکھی ہے‘ (اْسے اللہ کی بندگی میں استعمال کرو) (2) مصروف ہونے سے پہلے جو فراغت کے لمحات ہیں‘ (انہیں خیر کے کاموں میں استعمال کرو) (3) خدا نخواستہ فَقر لاحق ہونے سے پہلے جو اللہ تعالیٰ نے نعمت ِ مال دے رکھی ہے‘ (اسے اللہ کی رضا کے کاموں میں استعمال کرو) (4) بڑھاپے سے پہلے عالَمِ شباب کو (خیر کے کاموں اور اللہ کی بندگی میں استعمال کرو) اور (5) مرض لاحق ہونے سے پہلے جو اللہ نے صحت عطا کر رکھی ہے‘ (اْسے اللہ کی بندگی میں استعمال کرو)‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
ہر نیکی کو معمولی اور ہر گناہ کو بڑا سمجھو۔ حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا ابوبردہؓ بن ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں: مجھ سے سیدنا عبداللہؓ بن عمر نے کہا: کیا تجھے معلوم ہے کہ میرے باپ نے تمہارے باپ سے کیا کہا تھا‘ ابوبردہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے کہا: ’’نہیں!‘‘ عبداللہؓ بن عمر نے کہا: میرے باپ (سیدنا عمرؓ بن خطاب) نے تمہارے باپ (ابوموسیٰ اشعریؓ) سے کہا تھا: اے ابوموسیٰ! کیا تمہارے لیے یہ بات باعث ِ مسرّت ہے کہ ہمارا رسول اللہؐ کے ساتھ ایمان لانا اور آپؐ کے ساتھ ہجرت اور جہاد میں شریک ہونا اور دیگر سارے کے سارے نیک اعمال (جو ہم نے آپؐ کی معیت میں انجام دیے) ہمارے لیے (اْخروی) راحت کا سبب بن جائیں اور آپؐ کے بعد ہم نے جو سارے نیک کام کیے‘ اْن کے بارے میں ہم (اللہ کی عدالت میں) برابر سرابر چھوٹ جائیں اور نجات پا لیں تو تمہارے باپ (ابوموسیٰ اشعریؓ) نے کہا: نہیں بخدا! ہم نے رسول اللہؐ کے بعد جہاد کیا‘ نمازیں پڑھیں‘ روزے رکھے اور بڑی تعداد میں نیک اعمال انجام دیے اور بڑی تعداد میں غیر مسلموں نے ہمارے ہاتھ پر اسلام قبول کیا‘ پس ہم ان سب پر اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتے ہیں تو میرے باپ (عمرؓ بن خطاب) نے کہا: ابوموسیٰ! اْس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے‘ میں تو چاہتا ہوں: رسول اللہؐ کے ساتھ ہم نے جو نیک کام کیے‘ وہ ہمارے لیے اْخروی نجات کا باعث بن
جائیں اور وہ تمام اعمالِ خیر جو ہم نے آپؐ کے بعد انجام دیے‘ اْن میں برابر سرابر چھوٹ جائیں‘ تو ابوبردہؓ کہتے ہیں: اے عبداللہ! یقینا تمہارے والد (عمرؓ بن خطاب) میرے والد (ابوموسیٰ اشعریؓ) سے بہتر تھے‘‘۔ (بخاری) اس سے اندازہ لگائیے کہ اس اْمت کو سیدنا عمر ِ فاروقؓ جیسا کوئی دوسرا حاکم یا خلیفہ اْن کے بعد نہیں ملا‘ انہیں اپنی عاقبت اور اْخروی محاسبے کی کتنی فکر تھی۔ ہر مومن کو آخرت کی جوابدہی کے بارے میں ایسی ہی فکر لاحق رہنی چاہیے۔
بدترین بندے: سیدہ اسماء بنتِ عْمیس خثعمیہ بیان کرتی ہیں: میں نے رسول اللہؐ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: بدترین بندہ وہ ہے جو تکبر کرے اور اترائے اور خداوند بزرگ وبرتر کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو دوسروں پر ظلم ڈھائے اور حد سے تجاوز کرے اور خداوندِ بزرگ وبرتر اور قہّار کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو (حقوق اللہ اور حقوق العباد کو) بھول جائے اور ایسے مشاغل میں مصروف ہو جائے (جو اللہ سے غافل کر دیں) اور قبر (کی ظلمتوں) اور اپنے گل سڑ جانے کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو سرکشی کرے اور حد سے تجاوز کرے اور اپنی ابتدا اور انتہا کو بھول جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو دین کے عوض دنیا کو حاصل کرے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو دین (کے قطعی امور) میں شبہات پیدا کرے‘ بدترین بندہ وہ ہے جو لالچ کا اسیر ہو جائے‘ بدترین بندہ وہ ہے کہ خواہشاتِ نفس اْسے گمراہ کر دیں اور بدترین بندہ وہ ہے کہ جو دنیا کی ایسی مرغوبات اور لذتوں میں مبتلا ہو جائے جو اس کی ذلت کا باعث بنیں‘‘۔ (ترمذی) ہر بندے کو جائزہ لینا چاہیے کہ مندرجہ بالا بدترین خصلتوں میں سے وہ کن کن میں مبتلا ہے اور آیا وہ ان بدترین خصلتوں سے نکل کر خیر وہدایت کے راستے کو پانے کے لیے آمادہ ہے یا نہیں۔
خیرخواہی: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے‘ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: کس کی خیر خواہی‘ آپؐ نے فرمایا: اللہ‘ اْس کی کتاب‘ اْس کے رسول‘ مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی (دین ہے)‘‘۔ (صحیح مسلم)