سانحہ سوات اور حکمرانوں کی بے حسی
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پروفیسر عنایت علی خان کا یہ صرف ایک شعر نہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی بے حسی کا نوحہ ہے۔ اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا پندرہ سے زائد لوگ دریا کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے مگر نہ کوئی شرمندگی، نہ کسی نے استعفا دیا، نہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے کوئی ذمے داری قبول کی، نہ کسی وزیر نے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھا، نہ کسی نے عوام سے معافی مانگی، نہ کسی نے دکھی خاندانوں کا درد محسوس کیا۔ یہ واقعہ پہلا نہیں، ایسے سانحے ماضی قریب میں بھی ہو چکے ہیں اور افسوس، ہم نے پہلے بھی کسی سے سبق نہیں سیکھا اگر سیکھا ہوتا تو آج یہ ماں، یہ بچیاں، یہ بچے، شاید ہمارے درمیان زندہ ہوتے۔ دلخراش واقعے کے عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ انہوں نے ریسکیو ٹیموں کو بار بار پکارا گیا، لوگ دہائی دیتے رہے مگر کوئی بھی اْن کی مدد کو نہ پہنچا۔ کیونکہ وہ عام لوگ تھے۔ نہ عمران خان کی بہن علیمہ خان جسے پچھلی بار ایسے ہی حالات میں ہیلی کاپٹر بھیج کربچا لیا گیا تھا، نہ گنڈاپور کے بچے تھے جن کے لیے ہیلی کاپٹر اترتے وہ تو فقط عام پاکستانی تھے!
پے درپے رونما ہونے والے حادثات کی وجہ سے اب لوگ کہتے ہیں کہ الخدمت کے پاس ہیلی کاپٹر ہونا چاہیے تو اس کے جواب میں کسی نے خوب کہا کہ ’’اگرآپ الخدمت کو ووٹ دیں گے تو حکومت کے سارے ہیلی کاپٹر عوام کے ہوں گے‘‘۔
ذرا سوچیے! ان بچوں کو کس چاہت، کس تڑپ، کس دعا سے ماں باپ نے پالا ہوگا؟ کتنی نیندیں قربان کی ہوں گی، کتنے خواب سنوارے ہوں گے، کس خوشی سے ان کے ننھے ہاتھ تھام کر سیاحت کے لیے نکلے ہوں گے۔ کون جانتا تھا وہ سفر زندگی سے موت کا سفر بن جائے گا۔ اور افسوس جن حکمرانوں کی نظر میں شہریوں کی قیمت ایک چیونٹی سے بھی کم ہو چکی ہے، جہاں سیاست انسانی جانوں سے مہنگی ہے، وہاں ایسے سوال نہ اٹھتے ہیں، نہ برداشت کیے جاتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں اگر صرف ایک جان بھی حکومتی غفلت سے ضائع ہو تو عدالتیں ہل جاتی ہیں، پارلیمنٹ تھرتھرا اٹھتی ہے، سیاست دان استعفا دیتے ہیں، اور عوام سوال کرتے ہیں اور آئندہ ایسے سانحے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ مگر کے پی کے کی نااہل مگر وہاں کی عوام کی اکثریت کے پسندیدہ حکمران اور کپتان کے سپاہی خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور تو سانحے کے وقت، شاید شہد پی کر نیند فرما رہے تھے۔ ان کی انتظامیہ کی ترجیحات تو صرف اڈیالہ جیل میں قید قیدی نمبر 804 کی خدمت ہے۔ کیا یہ ہے وہ ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ جس کا نعرہ گزشتہ 13 سال سے لگایا جا رہا ہے؟ اگر بطورِ قوم ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو سچ یہی ہے کہ ہم میں سے اکثر خود ہی قاتل ہیں، خود ہی مقتول، خود ہی ظالم، خود ہی مظلوم۔ یہ حکومتیں آخر بنتی کس کے ووٹ سے ہیں؟ جب انتخابات آتے ہیں، تو ہمارا حافظہ کیوں ساتھ چھوڑ دیتا ہے؟ ہم نااہلیاں بھول جاتے ہیں، جرائم کو نظر انداز کرتے ہیں، اور کسی کو کلٹ، کسی کو برادری، کسی کو زبان، اور کسی کو چند سکوں کے عوض ووٹ دے کر خود کو پھر اسی عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ سید مودودیؒ نے فرمایا: ’’دنیا میں اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ نہیں کہ کسی قوم کی تقدیر زبردستی بدلے، بلکہ وہ خود بدلنا چاہے تو اللہ اس کی مدد فرماتا ہے‘‘۔ یاد کیجیے! سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا: ’’اگر دریا کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا، تو قیامت کے دن عمر سے اس کا حساب لیا جائے گا‘‘۔ وہ ایسے لوگوں کے حکمران تھے جن کے دل قرآن کے نور سے منور تھے، جن کی زندگیاں سنت ِ رسولؐ کی خوشبو سے معطر تھیں۔ تب اللہ نے انہیں عمر بن خطابؓ اور عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے حکمران دیے۔ مگر آج؟ ہماری پسند کا معیار بدل گیا ہے، علم و عمل کے شاہکاروں کی جگہ ہم نے خوبصورت پلے بوائے، دولت مند، مشہور کھلاڑی اور چکنی چپڑی تقریروں سے بے وقوف بنانے والے سبز باغ دکھانے والے چنے۔ نتیجہ؟ ہمیں وہ حکمران ملے جنہوں نے زبان سے ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ کا نعرہ لگایا مگر عمل رئیس المنافقین جیسا کیا۔ ہم اپنے ہاتھوں بوئے گئے زہریلے بیج کی کڑوی فصل آج ملک بھر، بالخصوص کے پی کے اور سندھ کے حکمرانوں کی شکل میں کاٹ رہے ہیں۔ ہم دنیا کی وہ عجیب قوم ہیں جو کیکر کا بیج زمین میں بوتی ہے اور توقع آم اُگنے کی رکھتی ہے! ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ’’جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا‘‘۔ (سورۂ المائدہ: 32)
اگر ہمارے ووٹ ان قاتل حکمرانوں کے لیے تھے تو پھر ہم بھی حکمرانوں کے گناہوں میں شریک ہیں۔ ہمیں بطور قوم یاد رکھنا چاہیے کہ: صرف آنسو بہانے سے تقدیر نہیں بدلتی، صرف فریاد سے حالات نہیں سدھرتے۔ اگر ہمارا شعور بیدار نہ ہوا تو کبھی سوات کی موجیں، کبھی کراچی کا سمندر، کبھی مہنگائی کی بھوک، کبھی ڈاکو کی گولی، اور کبھی پولیس کا ظلم عوام کو نگلتا رہے گا۔ کاش! قوم جاگ جائے۔ کاش! اندر کا انسان مرنے سے پہلے بیدار ہو جائے۔کاش! سانحے صرف اخبار کی سرخی نہ بنیں، بیداری کا سبب بنیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہیلی کاپٹر کسی کو خود ہی کے لیے
پڑھیں:
ہمارے بھاجی… جج صاحب
اُس روز نومبر کی آٹھ تاریخ تھی،9 نومبر کو ہونے والی یومِ اقبال کی تقریبات کے سلسلے میں کچھ نوٹس تحریر کررہا تھا کہ گاؤں سے ہمارے مینیجر شبّیر احمد کی کال آئی، جب اس نے یہ کہاکہ ’’جج صاحب کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی ہے‘‘ تو ہاتھ لرز گیا اور ایک انجانے خوف نے دل ودماغ کو جکڑ لیا، فون پر کچھ ہدایات دیں۔
جب ایمبولینس گھر پہنچ گئی تو تھوڑی سی تسلّی ہوئی کہ ضرورت پڑنے پر آکسیجن فراہم ہوجائے گی۔ مگر دل مسلسل دھڑکتا رہا کہ کوئی بری خبر نہ مل جائے۔ ڈرائیور کو بار بار تاکید کرتا رہا کہ جاتے ہی ڈاکٹر سے میری بات کرانا۔ امراضِ قلب کے اسپتال پہنچنے کے چند منٹ بعد ہی ڈاکٹر صاحب نے بتادیا کہ ’’حرکتِ قلب بند ہوجانے (Cardiac arrest) کی وجہ سے جج صاحب اب ہم میں نہیں رہے‘‘۔
اس کے چند منٹ بعد گاؤں سے کئی کالیں آتی رہیں، سب ایک ہی بات کررہے تھے ’’پِنڈ یتیم ہوگیا جے‘‘ ’’ساڈی چَھت ٹُٹ گئی اے‘‘۔ حالت ایسی نہیں تھی کہ جواب دے سکتا، صرف آخری کالر کو اتنا کہا کہ ’’ہم تو خود آج دوسری بار یتیم ہوگئے ہیں‘‘۔ فون پر ایسے فقرے بار بار کانوں میں پڑتے رہے ’’جج صاحب نے بڑی مثالی زندگی گزاری ہے ، وہ ایک غیر معمولی شخصیّت تھے، جج صاحب ولی اللہ تھے‘‘۔
کچھ دیر بعد ذہن نے کام کرنا شروع کیا تو یوں لگا جیسے کوہ ہمالیہ سر پر آگرا ہو۔ پھر سوچنے لگا کہ کیا واقعی ہم اپنے اس عظیم بھائی کے سائے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے ہیں جو ہمارے لیے ایسے تھا جیسے تیزدھوپ میں سایہ دار درخت اور سائبان۔ کیا اب ہم اس پاکیزہ کردار اور شفیق ہستی کی رفاقت اور راہنمائی سے محروم ہوگئے ہیں جس سے ہم پچھلی چھ دہائیوں تک مستفیض ہوتے رہے ہیں؟ یہ سوچ کر اپنے آپ کا ہوش نہ رہا۔ کچھ حواس بحال ہوئے تو دماغ کی اسکرین پر نصف صدی کی فلم چلنے لگی۔
بھائی جان (ر)جسٹس افتخار احمد چیمہ صاحب ہم سے پندرہ سولہ سال بڑے تھے، اس لیے وہ ہمارے (میرے اور بھائی نثار احمد کے) کے گائیڈ بھی تھے، استاد بھی تھے، ٹرینر بھی تھے اور mentor بھی تھے۔ ہمیں قلم پکڑنا اور لکھنا بھی انھوںنے سکھایا اور بولنا بھی انھوں نے ہی سکھایا تھا۔ گاؤں کے پاس بہت بڑا شیشم کا درخت ہمارا اسکول بھی تھا اور ہماری تربیّت گاہ بھی تھی۔ ٹاہلی کی چھاؤں میں ہی ہمیں مضمون لکھنے اور تقریر کرنے کی پریکٹس کرائی جاتی تھی۔
بھائی جان ہمیں کشتی بھی کراتے ، کبڈّی بھی کھلاتے، دوڑ بھی لگواتے اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی لکھواتے تھے۔ اُس وقت ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں پختہ سڑک بھی نہیں جاتی تھی، بجلی آنے کا دو ر دور تک امکان نہیں تھا مگر اس وقت بھی وہ گاؤں میں اسٹیج ڈرامے اور تقریری مقابلے منعقد کرایا کرتے تھے۔ پڑھائی کے معاملے میں وہ ہمارے ساتھ سختی بھی بہت کرتے تھے مگر پیار بھی بے تحاشا کرتے تھے۔ میری خاص طور پر ان کے ساتھ بے تحاشا محبّت تھی۔
والد صاحب بڑے بااصول اور سخت گیر منتظم تھے، بچپن کے دنوں میں ایک دو بار والد صاحب سے کسی بات پر اختلاف کے باعث بھائی جان احتجاجاً گھر سے چلے گئے تو میں نے بھی والدہ صاحبہ سے کہا میں بھی بھائی جان کے ساتھ ہی جاؤں گا اور واپس نہیں آؤں گا، اس پر والد صاحب کچھ نرم ہوجاتے اور والدہ صاحبہ کے کہنے پر بھائی خوشی محمد کو بھیجتے جو بھائی جان کو منا کر واپس گھر لے آتا۔ میں چھٹی جماعت میں تھا جب انھوں نے گوجرانوالہ کے سب سے بڑے ٹیلر سے میرا نیوی بلو کلر کا سوٹ سلوایا تھا او ر پھر اس سوٹ میں وزیرآباد کے اکلوتے فوٹو گرافر کے اسٹوڈیو سے میرا فوٹو بنوایا تھا۔ وہ فریم شدہ فوٹو اور بھائی جان کی اپنی لاء کالج کی گروپ فوٹو بڑی مدت تک ہمارے گھر میں لٹکی رہیں، دیکھنے والے یہ کمنٹس ضرور کیا کرتے تھے کہ ’’جج صاحب نوجوانی میں بڑے ہینڈسم تھے‘‘۔
وہ واقعی بہت خوبرو تھے۔ ہم اُس وقت پرائمری اسکول میں تھے جب بھائی جان نے ہم دونوں چھوٹے بھائیوں کی کاپیوں پر لکھ دیا تھا کہ بھائی نثار احمد ڈاکٹر بنے گا اور میں سول سروس میں جاؤں گا۔ وہ چاہتے تھے میں بہترین درسگاہوں سے تعلیم حاصل کروں، جب ان کی خواہش اور محنت کے نتیجے میں مجھے کیڈٹ کالج حسن ابدال میں داخلہ ملا تو ان کی خوشی دیدنی تھی، وہ خود مجھے کیڈٹ کالج چھوڑنے گئے تھے۔
ان کی پرکشش شخصیّت میں ایک غیر معمولی جاذبیّت اور مقناطیسیت تھی، مقامی زبان میں بات کریں تو ان کا ستارہ بہت بلند تھا، جب وہ صرف طالب علم اور یا جونئیر وکیل تھے اُس وقت بھی ہر جگہ اور ہر ادارے کے لوگ انھیں بے حد اہمیّت دیتے اور بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔
ہمارے بلند کردار والد ِمحترم غیر محسوس طریقے سے ہماری تربیت کیا کرتے تھے۔چار چیزوں پر بہت زور تھا۔پہلی یہ کہ چاہے فاقے کرنے پڑیں مگر ہر حال میں رزقِ حلال کھانا ہے، دوسرا یہ کہ ایک فریق کتنا بھی بااثر یا طاقتور کیوں نہ ہو مگر پھر بھی انصاف ، چاہے طاقتور لوگ ناراض ہی کیوں نہ ہو جائیں مگر آپ انصاف کے مطابق فیصلہ کریں۔ تیسرا یہ کہ ْسب انسان برابر ہیں، چوہدری اور کمّیں یا امیر اور مزدور سب برابر ہیں۔
غریب اور کم وسیلہ لوگوں سے ہمدردی اور پیارکرو اور انھیں عزت دو۔ اور چوتھا یہ کہ ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دو اور اپنے ضمیر اور اصول کا پرچم کبھی سر نگوں نہ ہونے دو، چاہے اس سے تمہیں کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے۔بھائی جان نے ان ہدایات کو حرزِ جاں بنایا اور ان سنہری اصولوں کے مطابق زندگی گذاری۔ ان کے بیرسٹر دوست بتایا کرتے تھے کہ برطانیہ میں بیرسٹری کے دوران سب طالب علم پبوں اور کلبوں میں جایا کرتے تھے مگر برائی کے گڑھ میں رہ کر بھی افتخار چیمہ صاحب ان خرافات سے محفوظ رہے اور ان کی جوانی مکمّل طور پر بے داغ رہی۔
وہ بارایٹ لاء کرکے واپس آئے تو گاؤں کے لوگوں نے جھنڈیاں لگاکر ان کا پرجوش استقبال کیا۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد وہ ایڈیشنل سیشن جج مقرر ہوگئے۔ ان کے جج بننے پر والدہ صاحبہ نے بڑی سخت دعا کی مگر اس سے یہ ہوا کہ زندگی گذارنے کے لیے ہماری سمت کا بڑا واضح تعیّن ہوگیا۔ ان کے جج بننے کے فوراً بعد ادھر ادھر سے مختلف کہانیاں نکلنے لگیں، کسی جگہ یہ مشہور ہوجاتا کہ کوئی چیمہ جج لگا ہے جو بڑا سخت ہے، نہ کسی کی چائے پیتا ہے اور نہ سفارش مانتاہے، کسی نے سنایا کہ قتل کے اصل حقائق تک پہنچنے کے لیے افتخار چیمہ صاحب بھیس بدل کر متعلقہ گاؤں میں چلے جاتے ہیں اور پھر فیصلے سے پہلے اللہ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگتے ہیں کہ میرے ہاتھ سے بے انصافی نہ ہوجائے۔
عدلیہ میں شامل ہونے سے پہلے وہ ہمارے ہی نہیں پورے گاؤں بلکہ پورے علاقے کے بھاجی (بھائی جان) تھے۔ 1974میں ایڈیشنل سیشن جج مقرر ہوئے تو پھر سب لوگ انھیں جج صاحب کہنے لگے۔ ضلع وزیرآباد کا ہر شخص جانتا تھا کہ جج صاحب کون ہیں اور کیسے ہیں۔ بچپن کے دوست، گرائیں اور ان کے شاگرد سلیم منصو خالد اُس دور کو یاد کرکے بار بار کہتے رہے کہ ’’ایک تاریخی اور یادگار عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے‘‘۔ انھوں نے ہی سنایا کہ بڑے بھائی ظفر صاحب بھی راوالپنڈی میں ملازم تھے جب جج صاحب کی پہلی تعیناتی راولپنڈی میں ہوئی تھی۔ ظفر صاحب بتاتے ہیں کہ ایک روز مجھے جج صاحب کا فون آیا، ’’ظفر کل تیار رہنا کہیں چلنا ہے‘‘۔
دوسرے روز انھوں نے مجھے ساتھ لیا اور ہم دونوں ویگن پر بیٹھ کر مری کی جانب چل پڑے، کوئی پینتالیس پچاس منٹ کے بعد ہم ایک اسٹاپ پر اُتر گئے اور جج صاحب پہاڑی پر چڑھنے لگے، ایک گھنٹہ چلنے کے بعد ایک چھوٹی سی بستی آئی، وہاں انھوں نے نماز پڑھی، مسجد سے نکلے تو بستی کے کچھ لوگ بھی نکل آئے۔ ان سے کہنے لگے ’’کتنا خوبصورت علاقہ ہے، یہ یقیناً بڑا پُرامن بھی ہوگا‘‘۔ پھر کہنے لگے ’’آپ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں۔ یہاں تو کبھی کوئی جرم نہیں ہواہوگا‘‘۔ دو تین بزرگوں نے کہا ’’جی پہلے تو ایسا ہی تھا مگر اب ایسا نہیں ہے‘‘۔ اب ایسا کیوں نہیں ہے؟ ان کے پوچھنے پر لوگوں نے بولنا شروع کردیا ’’جی چند مہینے پہلے لالچ میں آکر ایک شخص نے قتل کردیا ہے‘‘۔
(جاری ہے)