Jasarat News:
2025-08-14@15:57:32 GMT

سانحہ سوات اور حکمرانوں کی بے حسی

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پروفیسر عنایت علی خان کا یہ صرف ایک شعر نہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی بے حسی کا نوحہ ہے۔ اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا پندرہ سے زائد لوگ دریا کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے مگر نہ کوئی شرمندگی، نہ کسی نے استعفا دیا، نہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے کوئی ذمے داری قبول کی، نہ کسی وزیر نے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھا، نہ کسی نے عوام سے معافی مانگی، نہ کسی نے دکھی خاندانوں کا درد محسوس کیا۔ یہ واقعہ پہلا نہیں، ایسے سانحے ماضی قریب میں بھی ہو چکے ہیں اور افسوس، ہم نے پہلے بھی کسی سے سبق نہیں سیکھا اگر سیکھا ہوتا تو آج یہ ماں، یہ بچیاں، یہ بچے، شاید ہمارے درمیان زندہ ہوتے۔ دلخراش واقعے کے عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ انہوں نے ریسکیو ٹیموں کو بار بار پکارا گیا، لوگ دہائی دیتے رہے مگر کوئی بھی اْن کی مدد کو نہ پہنچا۔ کیونکہ وہ عام لوگ تھے۔ نہ عمران خان کی بہن علیمہ خان جسے پچھلی بار ایسے ہی حالات میں ہیلی کاپٹر بھیج کربچا لیا گیا تھا، نہ گنڈاپور کے بچے تھے جن کے لیے ہیلی کاپٹر اترتے وہ تو فقط عام پاکستانی تھے!
پے درپے رونما ہونے والے حادثات کی وجہ سے اب لوگ کہتے ہیں کہ الخدمت کے پاس ہیلی کاپٹر ہونا چاہیے تو اس کے جواب میں کسی نے خوب کہا کہ ’’اگرآپ الخدمت کو ووٹ دیں گے تو حکومت کے سارے ہیلی کاپٹر عوام کے ہوں گے‘‘۔
ذرا سوچیے! ان بچوں کو کس چاہت، کس تڑپ، کس دعا سے ماں باپ نے پالا ہوگا؟ کتنی نیندیں قربان کی ہوں گی، کتنے خواب سنوارے ہوں گے، کس خوشی سے ان کے ننھے ہاتھ تھام کر سیاحت کے لیے نکلے ہوں گے۔ کون جانتا تھا وہ سفر زندگی سے موت کا سفر بن جائے گا۔ اور افسوس جن حکمرانوں کی نظر میں شہریوں کی قیمت ایک چیونٹی سے بھی کم ہو چکی ہے، جہاں سیاست انسانی جانوں سے مہنگی ہے، وہاں ایسے سوال نہ اٹھتے ہیں، نہ برداشت کیے جاتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں اگر صرف ایک جان بھی حکومتی غفلت سے ضائع ہو تو عدالتیں ہل جاتی ہیں، پارلیمنٹ تھرتھرا اٹھتی ہے، سیاست دان استعفا دیتے ہیں، اور عوام سوال کرتے ہیں اور آئندہ ایسے سانحے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ مگر کے پی کے کی نااہل مگر وہاں کی عوام کی اکثریت کے پسندیدہ حکمران اور کپتان کے سپاہی خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور تو سانحے کے وقت، شاید شہد پی کر نیند فرما رہے تھے۔ ان کی انتظامیہ کی ترجیحات تو صرف اڈیالہ جیل میں قید قیدی نمبر 804 کی خدمت ہے۔ کیا یہ ہے وہ ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ جس کا نعرہ گزشتہ 13 سال سے لگایا جا رہا ہے؟ اگر بطورِ قوم ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو سچ یہی ہے کہ ہم میں سے اکثر خود ہی قاتل ہیں، خود ہی مقتول، خود ہی ظالم، خود ہی مظلوم۔ یہ حکومتیں آخر بنتی کس کے ووٹ سے ہیں؟ جب انتخابات آتے ہیں، تو ہمارا حافظہ کیوں ساتھ چھوڑ دیتا ہے؟ ہم نااہلیاں بھول جاتے ہیں، جرائم کو نظر انداز کرتے ہیں، اور کسی کو کلٹ، کسی کو برادری، کسی کو زبان، اور کسی کو چند سکوں کے عوض ووٹ دے کر خود کو پھر اسی عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ سید مودودیؒ نے فرمایا: ’’دنیا میں اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ نہیں کہ کسی قوم کی تقدیر زبردستی بدلے، بلکہ وہ خود بدلنا چاہے تو اللہ اس کی مدد فرماتا ہے‘‘۔ یاد کیجیے! سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا: ’’اگر دریا کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا، تو قیامت کے دن عمر سے اس کا حساب لیا جائے گا‘‘۔ وہ ایسے لوگوں کے حکمران تھے جن کے دل قرآن کے نور سے منور تھے، جن کی زندگیاں سنت ِ رسولؐ کی خوشبو سے معطر تھیں۔ تب اللہ نے انہیں عمر بن خطابؓ اور عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے حکمران دیے۔ مگر آج؟ ہماری پسند کا معیار بدل گیا ہے، علم و عمل کے شاہکاروں کی جگہ ہم نے خوبصورت پلے بوائے، دولت مند، مشہور کھلاڑی اور چکنی چپڑی تقریروں سے بے وقوف بنانے والے سبز باغ دکھانے والے چنے۔ نتیجہ؟ ہمیں وہ حکمران ملے جنہوں نے زبان سے ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ کا نعرہ لگایا مگر عمل رئیس المنافقین جیسا کیا۔ ہم اپنے ہاتھوں بوئے گئے زہریلے بیج کی کڑوی فصل آج ملک بھر، بالخصوص کے پی کے اور سندھ کے حکمرانوں کی شکل میں کاٹ رہے ہیں۔ ہم دنیا کی وہ عجیب قوم ہیں جو کیکر کا بیج زمین میں بوتی ہے اور توقع آم اُگنے کی رکھتی ہے! ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ’’جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا‘‘۔ (سورۂ المائدہ: 32)
اگر ہمارے ووٹ ان قاتل حکمرانوں کے لیے تھے تو پھر ہم بھی حکمرانوں کے گناہوں میں شریک ہیں۔ ہمیں بطور قوم یاد رکھنا چاہیے کہ: صرف آنسو بہانے سے تقدیر نہیں بدلتی، صرف فریاد سے حالات نہیں سدھرتے۔ اگر ہمارا شعور بیدار نہ ہوا تو کبھی سوات کی موجیں، کبھی کراچی کا سمندر، کبھی مہنگائی کی بھوک، کبھی ڈاکو کی گولی، اور کبھی پولیس کا ظلم عوام کو نگلتا رہے گا۔ کاش! قوم جاگ جائے۔ کاش! اندر کا انسان مرنے سے پہلے بیدار ہو جائے۔کاش! سانحے صرف اخبار کی سرخی نہ بنیں، بیداری کا سبب بنیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہیلی کاپٹر کسی کو خود ہی کے لیے

پڑھیں:

فیلڈ مارشل کے اوور سیز سے خطاب

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے اوور سیز پاکستانیوں سے خطاب اب ایک معمول بنتے جا رہے ہیں۔ شروع تو اسلام آباد میں اوورسیز کنونشن سے ہوئے پھر امریکا میں وہ دو بار اوورسیز پاکستانیوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ اب انھوں نے برسلز میں بھی اوور سیز پاکستانیوں کے ایک جلسہ عام سے خطاب کیا ہے۔ اس طرح اب تک وہ چند ماہ میں اوور سیز پاکستانیوں کے چار اجتماعات سے خطاب کر چکے ہیں۔

یہ درست ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں کے بارے میں ایک رائے اور تاثر یہی تھا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہیں اور فوج کے مخالف ہیں۔ لیکن فیلڈ مارشل کے خطابات اس تاثر کو ختم کر رہے ہیں۔ وہ اوور سیز پاکستانیوں کے بارے میں رائے بدل رہے ہیں۔

ان خطابات سے تحریک انصاف اوور سیز کمزور ہو رہی ہے اور فوج کے بارے میں رائے بھی بدل رہی ہے۔ اس لیے ان کے خطاب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ویسے بھی پاکستان میں فوج کے کور کمانڈر اور بالخصوص ڈی جی آئی ایس پی آر نوجوانوں سے خطاب کر رہے ہیں، یونیورسٹیوں میں جا رہے ہیں، نوجوانوں سے بات کر رہے ہیں۔

اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ نوجوانوں میں فوج کے بارے میں رائے بدلی جائے۔ ملک کے نوجوانوں کے ساتھ ڈائیلاگ کیا جائے۔ ان کے سوالات کے جواب دیے جائیں۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر اس دفعہ امریکا کے شہر ٹامپا گئے جہاں امریکا کی سینٹر ل کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ وہ وہاں کمان کی تبدیلی کی تقریب میں گئے۔ اس تقریب کے بعد انھوں نے وہاں اوور سیز پاکستانیوں سے خطاب کیا۔ یہاں ایک ہال میں ڈنر ہوا۔ جہاں پہلے فیلڈ مارشل نے خطاب کیا بعد میں سوالوں کے جواب بھی دیے۔

یہاں فیلڈ مارشل کو یہ سوال بھی ہوا کہ ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ آپ صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ فیلڈ مارشل نے ایسی تمام افواہوں کی سختی سے تردید کی اور واضح کیا کہ وہ کوئی سیاسی عہدہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ انھوں نے کہا کہ وہ فوج کے سربراہ کے طور پر خوش ہیں۔ وہ ملک کی جو خدمت کرنا چاہتے ہیں وہ بطور آرمی چیف کر سکتے ہیں۔

ایسا کوئی کام نہیں جو وہ بطور آرمی چیف نہیں کر سکتے اور اس کے لیے انھیں کوئی سیاسی عہدہ لینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہے، وہ فوجی ہیں اور فوجی ہی رہنا چاہتے ہیں۔

فیلڈ مارشل کی اوور سیز پاکستانیوں کی تقاریر کا محور بھارت ہی نظر آرہا ہے۔ امریکا میں بھی ان کی تقریر کا بڑا حصہ بھارت کے حوالے سے تھا۔ اسی طرح برسلز میں بھی ان کی تقریر کا بڑا حصہ بھارت پر ہی تھا۔ برسلز میں یہ تقریب ایک قلعہ کے باغ میں ہوئی جس کے چاروں طرف جھیل تھی۔

ایک خوبصورت باغ کے درمیان میں کرسیاں اور اسٹیج لگایا گیا تھا۔ اسٹیج پر فیلڈ مارشل تھے اور باقی سب نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ برسلز میں فیلڈ مارشل نے تقریبا دو گھنٹے خطاب کیا۔ اس میں ڈیڑھ گھنٹہ بھارت کے بارے میں تھا باقی پاکستان کے معاشی مستقبل کے بارے میں تھا۔

وہ پاکستان کے سیاسی معاملات اور سیاسی صورتحال کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتے۔ ان کی تقاریر میں سیاست نہیں ہوتی۔ اگر کوئی سوال ہو جائے تو اس کا بھی محتاط جواب دیا جاتا ہے۔

فیلڈ مارشل پاکستان کے معاشی مستقبل کے بارے میں پر امید ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2030تک پاکستان دنیا کی بیس بڑی معیشت میں شامل ہو جائے گا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ 2030 تک پاکستان جی ٹونٹی کا ممبر بن جائے گا۔ ان کے مطابق پاکستان اپنے معدنی وسائل کی مدد سے آیندہ چند سال میںاپنے تمام قرضے اتار دے گا۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات بدلنے والے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ آرمی چیف بنے تھے تو ملک ڈیفالٹ کے قریب تھا، سیاسی اتنشار تھا، آج صورتحال مختلف ہے، ہم معاشی استحکام کی طرف ہیں اور سیاسی انتشار بھی ختم ہو گیا ہے۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ پاکستان میں کچھ دوست ایسی خبریں پھیلا رہے ہیں کہ نظام کو خطرہ ہے۔ دوست فیلڈ مارشل کے ان خطابات سے بھی یہی تاثر دے رہے ہیں کہ معاملہ خراب ہے۔ لیکن میں نے ان دونوں خطاب سننے والے متعدد لوگوں سے بات کی ہے۔ وہ بتا رہے ہیں کہ فیلڈ مارشل اپنی تقاریر میں حکومت کی کارکردگی کی بہت تعریف کر رہے ہیں، وہ وزیر اعظم شہباز شریف کی بہت تعریف کر رہے ہیں۔

وہ حکومت کی کارکردگی سے بہت مطمئن نظر آرہے ہیں، ان کی تقاریر سے کہیں بھی یہ تاثر نہیں مل رہا کہ وہ حکومت سے ناراض ہیں، وہ حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں۔ امریکا ٹامپا میں خواتین کے حوالے سے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان کے سب سے بڑ ے صوبہ کی وزیر اعلیٰ خاتون ہے۔ وہ وزیر اعلیٰ مریم نواز کی بات کر رہے تھے۔ اس موقع پر انھوں نے وزیر اعلیٰ مریم نواز کی بہت تعریف بھی کی۔

فیلڈ مارشل کے خطابات کے سیاسی محرکات تلاش کیے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی رائے ہے کہ ان کے سیاسی اہداف ہیں ، اس لیے وہ اوور سیز سے خطاب کر رہے ہیں۔ پہلے گراؤنڈ تیارکی جائے گی پھر ملک میں کھیل شروع ہوگا۔

لیکن میں نہیں سمجھتا، کوئی سیاسی ایجنڈا ہے۔ میری رائے میں اوور سیز میں فوج کے امیج کو ٹھیک کرنا واحد ایجنڈا ہے۔ پاکستان کا مثبت امیج پیش کرنا ایجنڈا ہے۔ ملک کے بارے میں بد گمانی ختم کرنا ہی اصل ہدف ہے۔

یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ملک کے آرمی چیف کو اوور سیز کے ساتھ ایسے خطاب کرنا چاہیے۔ لوگوں کی یہ بھی رائے کہ اس طرح خطاب کرنا سیاست کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن پھر آپ کہیں گے کہ پاکستان میں نوجوانوں سے فوج کے جنرلز کا خطاب بھی ایسے ہی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مخالف پراپیگنڈے کو ختم کرنے کے لیے یہ حکمت عملی بنائی گئی ہے۔ اس سے زیادہ اس میں کچھ نہیں۔ لیکن دوست نہیں مان رہے۔ وہ بضد ہیں کہ سیاسی اہداف ہیں۔ اب اس کا تو وقت ہی فیصلہ کرے گا۔

متعلقہ مضامین

  • آج بھی وہ آزادی حاصل نہیں جو بھائی کے پاس ہے، حبا علی خان
  • گونگے کہیںکے ۔۔۔
  • شیلا کے ساتھ دو گھنٹے
  • فیلڈ مارشل کے اوور سیز سے خطاب
  • چین و برکس سے خوف
  • گہری خاموشی کا شور
  • افواہیں، دریا اور نیا موڑ
  • بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے
  • ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا
  • تاریخ کے وارث یا مجرم