Jasarat News:
2025-10-04@23:37:34 GMT

سانحہ سوات اور حکمرانوں کی بے حسی

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پروفیسر عنایت علی خان کا یہ صرف ایک شعر نہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی بے حسی کا نوحہ ہے۔ اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا پندرہ سے زائد لوگ دریا کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے مگر نہ کوئی شرمندگی، نہ کسی نے استعفا دیا، نہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے کوئی ذمے داری قبول کی، نہ کسی وزیر نے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھا، نہ کسی نے عوام سے معافی مانگی، نہ کسی نے دکھی خاندانوں کا درد محسوس کیا۔ یہ واقعہ پہلا نہیں، ایسے سانحے ماضی قریب میں بھی ہو چکے ہیں اور افسوس، ہم نے پہلے بھی کسی سے سبق نہیں سیکھا اگر سیکھا ہوتا تو آج یہ ماں، یہ بچیاں، یہ بچے، شاید ہمارے درمیان زندہ ہوتے۔ دلخراش واقعے کے عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ انہوں نے ریسکیو ٹیموں کو بار بار پکارا گیا، لوگ دہائی دیتے رہے مگر کوئی بھی اْن کی مدد کو نہ پہنچا۔ کیونکہ وہ عام لوگ تھے۔ نہ عمران خان کی بہن علیمہ خان جسے پچھلی بار ایسے ہی حالات میں ہیلی کاپٹر بھیج کربچا لیا گیا تھا، نہ گنڈاپور کے بچے تھے جن کے لیے ہیلی کاپٹر اترتے وہ تو فقط عام پاکستانی تھے!
پے درپے رونما ہونے والے حادثات کی وجہ سے اب لوگ کہتے ہیں کہ الخدمت کے پاس ہیلی کاپٹر ہونا چاہیے تو اس کے جواب میں کسی نے خوب کہا کہ ’’اگرآپ الخدمت کو ووٹ دیں گے تو حکومت کے سارے ہیلی کاپٹر عوام کے ہوں گے‘‘۔
ذرا سوچیے! ان بچوں کو کس چاہت، کس تڑپ، کس دعا سے ماں باپ نے پالا ہوگا؟ کتنی نیندیں قربان کی ہوں گی، کتنے خواب سنوارے ہوں گے، کس خوشی سے ان کے ننھے ہاتھ تھام کر سیاحت کے لیے نکلے ہوں گے۔ کون جانتا تھا وہ سفر زندگی سے موت کا سفر بن جائے گا۔ اور افسوس جن حکمرانوں کی نظر میں شہریوں کی قیمت ایک چیونٹی سے بھی کم ہو چکی ہے، جہاں سیاست انسانی جانوں سے مہنگی ہے، وہاں ایسے سوال نہ اٹھتے ہیں، نہ برداشت کیے جاتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں اگر صرف ایک جان بھی حکومتی غفلت سے ضائع ہو تو عدالتیں ہل جاتی ہیں، پارلیمنٹ تھرتھرا اٹھتی ہے، سیاست دان استعفا دیتے ہیں، اور عوام سوال کرتے ہیں اور آئندہ ایسے سانحے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ مگر کے پی کے کی نااہل مگر وہاں کی عوام کی اکثریت کے پسندیدہ حکمران اور کپتان کے سپاہی خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور تو سانحے کے وقت، شاید شہد پی کر نیند فرما رہے تھے۔ ان کی انتظامیہ کی ترجیحات تو صرف اڈیالہ جیل میں قید قیدی نمبر 804 کی خدمت ہے۔ کیا یہ ہے وہ ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ جس کا نعرہ گزشتہ 13 سال سے لگایا جا رہا ہے؟ اگر بطورِ قوم ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو سچ یہی ہے کہ ہم میں سے اکثر خود ہی قاتل ہیں، خود ہی مقتول، خود ہی ظالم، خود ہی مظلوم۔ یہ حکومتیں آخر بنتی کس کے ووٹ سے ہیں؟ جب انتخابات آتے ہیں، تو ہمارا حافظہ کیوں ساتھ چھوڑ دیتا ہے؟ ہم نااہلیاں بھول جاتے ہیں، جرائم کو نظر انداز کرتے ہیں، اور کسی کو کلٹ، کسی کو برادری، کسی کو زبان، اور کسی کو چند سکوں کے عوض ووٹ دے کر خود کو پھر اسی عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ سید مودودیؒ نے فرمایا: ’’دنیا میں اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ نہیں کہ کسی قوم کی تقدیر زبردستی بدلے، بلکہ وہ خود بدلنا چاہے تو اللہ اس کی مدد فرماتا ہے‘‘۔ یاد کیجیے! سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا: ’’اگر دریا کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا، تو قیامت کے دن عمر سے اس کا حساب لیا جائے گا‘‘۔ وہ ایسے لوگوں کے حکمران تھے جن کے دل قرآن کے نور سے منور تھے، جن کی زندگیاں سنت ِ رسولؐ کی خوشبو سے معطر تھیں۔ تب اللہ نے انہیں عمر بن خطابؓ اور عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے حکمران دیے۔ مگر آج؟ ہماری پسند کا معیار بدل گیا ہے، علم و عمل کے شاہکاروں کی جگہ ہم نے خوبصورت پلے بوائے، دولت مند، مشہور کھلاڑی اور چکنی چپڑی تقریروں سے بے وقوف بنانے والے سبز باغ دکھانے والے چنے۔ نتیجہ؟ ہمیں وہ حکمران ملے جنہوں نے زبان سے ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ کا نعرہ لگایا مگر عمل رئیس المنافقین جیسا کیا۔ ہم اپنے ہاتھوں بوئے گئے زہریلے بیج کی کڑوی فصل آج ملک بھر، بالخصوص کے پی کے اور سندھ کے حکمرانوں کی شکل میں کاٹ رہے ہیں۔ ہم دنیا کی وہ عجیب قوم ہیں جو کیکر کا بیج زمین میں بوتی ہے اور توقع آم اُگنے کی رکھتی ہے! ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ’’جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا‘‘۔ (سورۂ المائدہ: 32)
اگر ہمارے ووٹ ان قاتل حکمرانوں کے لیے تھے تو پھر ہم بھی حکمرانوں کے گناہوں میں شریک ہیں۔ ہمیں بطور قوم یاد رکھنا چاہیے کہ: صرف آنسو بہانے سے تقدیر نہیں بدلتی، صرف فریاد سے حالات نہیں سدھرتے۔ اگر ہمارا شعور بیدار نہ ہوا تو کبھی سوات کی موجیں، کبھی کراچی کا سمندر، کبھی مہنگائی کی بھوک، کبھی ڈاکو کی گولی، اور کبھی پولیس کا ظلم عوام کو نگلتا رہے گا۔ کاش! قوم جاگ جائے۔ کاش! اندر کا انسان مرنے سے پہلے بیدار ہو جائے۔کاش! سانحے صرف اخبار کی سرخی نہ بنیں، بیداری کا سبب بنیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہیلی کاپٹر کسی کو خود ہی کے لیے

پڑھیں:

جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی

کیا آپ کو کسی نوعمر لڑکی یا لڑکے نے بتایا کہ وہ سٹریس اور تنہائی کا شکار ہے؟ آپ نے سوچا ہوگا یہ تو دنیا بھر سے جڑا ہوا ہے، ہزاروں دوست آن لائن ہیں، پھر کیسی تنہائی ؟ یہ ہے جین زی (Gen Z) ، وہ نسل ہے جو 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئی اور آج ان کی عمریں قریباً 13 سے 28 برس کے درمیان ہیں۔

میرے اپنے بچے جین زی سے ہیں تو اس کالم کو ایک ماں کا مکالمہ سمجھا جائے۔ یہ نوجوان موبائل اور ٹیکنالوجی کے حصار میں بڑے ہوئے ہیں۔ ذہین ہیں۔ بہت سے معاملات میں اپنے سے پہلے کی نسل سے آگے ہیں، مگر سماجی سطح پر کوئی خلا بہر طور ان کی زندگیوں میں موجود ہے۔

امریکی ماہرِ نفسیات جین ٹوینج (Jean Twenge) اپنی کتاب iGen میں لکھتی ہیں کہ یہ نسل سوشل میڈیا کے ذریعے ہر وقت جڑی رہتی ہے لیکن عملی زندگی میں پہلے سے زیادہ تنہا اور بے چین دکھائی دیتی ہے، 2023 کی ایک رپورٹ (Deloitte Global Survey) کے مطابق 46 فیصد جین زی نوجوان روزانہ دباؤ اور اضطراب کا شکار رہتے ہیں اور ماہرین سماجیات انہیں “Loneliest Generation” یعنی سب سے تنہا نسل قرار دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:’لائیو چیٹ نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہے‘،پنجاب اسمبلی میں ٹک ٹاک پر پابندی کی قرارداد جمع

سوال یہ ہے کہ آخر یہ نسل اتنی اکیلی کیوں ہے؟ جب کہ ان کے اردگرد دنیا سکڑ کر جام جم میں آگئی ہے۔ یہ صبح اٹھتے ہی اپنا موبائل کھولتے ہیں اور ان کی مرضی کی دنیا، مرضی کے لوگ ان کا استقبال کرتے ہیں ۔ ہماری نسل یا اس سے پچھلی نسل کو یہ ’میری دنیا، میری مرضی‘ والی سہولت میسر نہ تھی۔

ہمارے بچپن میں دوست، محلے دار بلا تفریق ساتھ کھیلا کرتے۔ ساتھ پڑھا کرتے۔ کوئی زیادہ امیر کوئی مڈل کلاس کسی کا گھر تنگی معاش کا شکار ، اگر کبھی مڈل کلاس بچہ اپنا موازنہ امیر دوست سے کرتا تو ماں باپ کے پاس وہی گھڑے گھڑائے جواب ہوتے، ’بیٹا قناعت اختیار کرو، اپنے جیسوں میں دوستی کرو، ان کی قسمت ان کے ساتھ ہماری قسمت ہمارے ساتھ‘ اور مزے کی بات ہماری اکثریت مان بھی جاتی۔

جین زی کو آپ اس قسم کی فرسودہ مثالیں نہیں دے سکتے۔ ان کے دور کا ایک بڑا المیہ ہے کمپیریزن/موازنہ کلچر، جو شاید پہلے مین اسٹریم نہیں تھا۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں سے مقابلہ اور موازنہ اب ان کے رہن سہن کا حصہ ہے۔

مزید پڑھیں: نوجوان نسل کو جھوٹے پروپیگنڈے سے بچانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اپنا کردار ادا کرے، وزیراعظم شہباز شریف

اس تنہائی کی ایک بڑی وجہ بہت سارے غیر اہم، غیر متعلقہ لوگوں اور معلومات تک فوری رسائی ہے۔ ان کے دن کا بڑا حصہ انسٹاگرام، فیس بک اور ٹک ٹاک پر گزرتا ہے۔ وہاں ہمیں زیادہ تر جھوٹ یا آدھا سچ دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے سے بات بات پر لڑنے والے میاں بیوی، سوشل میڈیا پر بغل گیر ہوتے وڈیو، تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں، سر عام اظہار محبت کرتے ہیں۔

لوگ کامیابی، خوشی، چمک دمک، شادیاں، مہنگے کپڑے، گاڑیاں دکھائیں گے تو کیا وہ کچے ذہن پر اثر نہ کریں گی؟ معصوم ذہن یہی سوچے گا کہ زندگی یہی ہے، اور پھر سوچے گا میری زندگی ایسی کیوں نہیں؟ نتیجتاً اپنے آپ کو کمتر سمجھنے لگے گا۔ یہی وہ comparison culture ہے جو بے سکون کرتا ہے۔ زندگی سے توقعات بڑھاتا ہے، خواب اور حقیقت کا فرق مٹا دیتا ہے۔

نفسیات دان کہتے ہیں کہ جب کوئی ہر وقت دوسروں کی کامیابی کو معیار بنائے تو اس کا نتیجہ anxiety اور depression کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ اسی کیفیت نے آج جین زی کو اپنے ہی بنائے سراب کا قیدی بنا رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: نوجوان نسل میں نفرت اور مایوسی پھیلانے والے عناصر کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے، صدر آصف زرداری

تنہائی کی ایک اور بڑی وجہ شاید صبر کا نہ ہونا ہے۔ صبر ایسا کمال وصف ہے کہ یہ انسانی دماغ کے لیے سب سے بڑا anti-depressant ہے۔ جین زی کو فوری نتائج کی جلدی ہوتی ہے۔ محبت ہے تو فوری اظہار ہو، نفرت ہے تو منہ پر کہہ دو، بالکل اسی طرح جیسے پوسٹ لگا کر فوری لائیکس اور کمنٹس کا انتظار کیا جاتا ہے جسے ماہرین instant gratification بھی کہتے ہیں۔

یہ نسل فوری نتیجہ چاہتی ہے جبکہ زندگی مشکل ہے، پیچیدہ ہے، تعلقات، رشتوں، دوستیوں میں آئیڈیل ملنا یا آئیڈیل حالات نصیب ہونا، قریباً ناممکن ہے۔ رشتوں کی پیچیدہ گرہیں اگر ہاتھوں سے کھولنی ہیں تو سوچنے، غور کرنے، دوسرے کی بات سننے، دوسرے کے جوتوں میں اپنا پیر رکھنے یعنی empathise کرنے سے ہی ممکن ہے۔

سمجھداری اور صبر کا کوئی نعم البدل نہیں ، جین زی کو فوری ری ایکشن دینے کی عادت ہے، یہ عادت تعلق اور دوستیوں میں دراڑ ڈالتی ہے۔ منہ پھٹ ہونا کوئی طرہ امتیاز نہیں۔ جب آپ سب سے ذرا ذرا سی بات پر نالاں رہیں گے تو تنہا ہی رہ جائیں گے ناں۔ کیا خیال ہے؟ محبت ہو، رشتہ ہو یا پروفیشنل کامیابی، یہ سب صبر، سمجھداری اور وقت مانگتی ہیں۔

مزید پڑھیں: چین نے سوشل میڈیا پر سختی کیوں بڑھا دی؟

یہی عادت انہیں ورک پلیس پر بھی مشکل میں ڈالتی ہے۔ ایک پراجیکٹ جسے ہفتوں یا مہینوں لگنے ہیں، وہ چاہتے ہیں کل ختم ہو جائے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو مایوسی اور دباؤ کا احساس بڑھتا ہے۔ یوں فوری خوشی کی چاہ انہیں مسلسل ذہنی تناؤ میں رکھتی ہے۔

اس نسل کا کمال یہ ہے کہ کھل کر ذہنی صحت پر بات تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) میں کمزور دکھائی دیتی ہے۔ ایک دوست کے غصے کو برداشت کرنا، نفسیاتی بیماریوں کے شکار باس کے ساتھ کام کرنا اور اچھا کام کرنا، میاں بیوی کے درمیان مسائل، لڑائیوں میں درمیانی رستہ نکالنا، رشتوں کی نزاکت کو سمجھنا، یا اختلاف کو خوش اسلوبی سے سنبھالنا۔ یہ سب چیزیں مشکل ہیں۔

یہ آمنے سامنے مکالمے سے حل ہوتی ہیں، ٹیکسٹ میسج پر نہ جذبات کی ٹھیک ترجمانی ہوتی ہے نہ باڈی لینگویج کے ذریعے بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ اب ملاقات سے گریز ہے اور مکالمے کا رواج کمزور ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ فیس بک پوسٹ لگائی جاتی ہے کہ ” feeling alone with 99 others”

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں

جاری ہے ۔۔۔۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قرۃ العین حیدر

تنہائی کا شکار ٹوئٹر جین زی سٹریس سوشل میڈیا فیس بک نوجوان نسل

متعلقہ مضامین

  • ہم بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں کررہے؟
  • سب سے مل آؤ مگر…
  • یہ بربریت آخرکب تک؟
  • جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی
  • کردار اور امید!
  • لال اور عبداللہ جان
  • گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن
  • ٹرمپ کے امن منصوبے کی حمایت فلسطینیوں کیساتھ خیانت ہے، علامہ جواد نقوی
  • عرب حکمرانوں کی امریکی فتنے سے اظہار یکجہتی
  • دورہ جامعہ اشرفیہ‘ علوم کی تقسیم حکمرانوں نے اپنے مفادات کیلئے کی: فضل الرحمان