Jasarat News:
2025-06-30@02:06:28 GMT

سانحہ سوات اور حکمرانوں کی بے حسی

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پروفیسر عنایت علی خان کا یہ صرف ایک شعر نہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی بے حسی کا نوحہ ہے۔ اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا پندرہ سے زائد لوگ دریا کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے مگر نہ کوئی شرمندگی، نہ کسی نے استعفا دیا، نہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے کوئی ذمے داری قبول کی، نہ کسی وزیر نے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھا، نہ کسی نے عوام سے معافی مانگی، نہ کسی نے دکھی خاندانوں کا درد محسوس کیا۔ یہ واقعہ پہلا نہیں، ایسے سانحے ماضی قریب میں بھی ہو چکے ہیں اور افسوس، ہم نے پہلے بھی کسی سے سبق نہیں سیکھا اگر سیکھا ہوتا تو آج یہ ماں، یہ بچیاں، یہ بچے، شاید ہمارے درمیان زندہ ہوتے۔ دلخراش واقعے کے عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ انہوں نے ریسکیو ٹیموں کو بار بار پکارا گیا، لوگ دہائی دیتے رہے مگر کوئی بھی اْن کی مدد کو نہ پہنچا۔ کیونکہ وہ عام لوگ تھے۔ نہ عمران خان کی بہن علیمہ خان جسے پچھلی بار ایسے ہی حالات میں ہیلی کاپٹر بھیج کربچا لیا گیا تھا، نہ گنڈاپور کے بچے تھے جن کے لیے ہیلی کاپٹر اترتے وہ تو فقط عام پاکستانی تھے!
پے درپے رونما ہونے والے حادثات کی وجہ سے اب لوگ کہتے ہیں کہ الخدمت کے پاس ہیلی کاپٹر ہونا چاہیے تو اس کے جواب میں کسی نے خوب کہا کہ ’’اگرآپ الخدمت کو ووٹ دیں گے تو حکومت کے سارے ہیلی کاپٹر عوام کے ہوں گے‘‘۔
ذرا سوچیے! ان بچوں کو کس چاہت، کس تڑپ، کس دعا سے ماں باپ نے پالا ہوگا؟ کتنی نیندیں قربان کی ہوں گی، کتنے خواب سنوارے ہوں گے، کس خوشی سے ان کے ننھے ہاتھ تھام کر سیاحت کے لیے نکلے ہوں گے۔ کون جانتا تھا وہ سفر زندگی سے موت کا سفر بن جائے گا۔ اور افسوس جن حکمرانوں کی نظر میں شہریوں کی قیمت ایک چیونٹی سے بھی کم ہو چکی ہے، جہاں سیاست انسانی جانوں سے مہنگی ہے، وہاں ایسے سوال نہ اٹھتے ہیں، نہ برداشت کیے جاتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں اگر صرف ایک جان بھی حکومتی غفلت سے ضائع ہو تو عدالتیں ہل جاتی ہیں، پارلیمنٹ تھرتھرا اٹھتی ہے، سیاست دان استعفا دیتے ہیں، اور عوام سوال کرتے ہیں اور آئندہ ایسے سانحے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ مگر کے پی کے کی نااہل مگر وہاں کی عوام کی اکثریت کے پسندیدہ حکمران اور کپتان کے سپاہی خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور تو سانحے کے وقت، شاید شہد پی کر نیند فرما رہے تھے۔ ان کی انتظامیہ کی ترجیحات تو صرف اڈیالہ جیل میں قید قیدی نمبر 804 کی خدمت ہے۔ کیا یہ ہے وہ ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ جس کا نعرہ گزشتہ 13 سال سے لگایا جا رہا ہے؟ اگر بطورِ قوم ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو سچ یہی ہے کہ ہم میں سے اکثر خود ہی قاتل ہیں، خود ہی مقتول، خود ہی ظالم، خود ہی مظلوم۔ یہ حکومتیں آخر بنتی کس کے ووٹ سے ہیں؟ جب انتخابات آتے ہیں، تو ہمارا حافظہ کیوں ساتھ چھوڑ دیتا ہے؟ ہم نااہلیاں بھول جاتے ہیں، جرائم کو نظر انداز کرتے ہیں، اور کسی کو کلٹ، کسی کو برادری، کسی کو زبان، اور کسی کو چند سکوں کے عوض ووٹ دے کر خود کو پھر اسی عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ سید مودودیؒ نے فرمایا: ’’دنیا میں اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ نہیں کہ کسی قوم کی تقدیر زبردستی بدلے، بلکہ وہ خود بدلنا چاہے تو اللہ اس کی مدد فرماتا ہے‘‘۔ یاد کیجیے! سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا: ’’اگر دریا کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا، تو قیامت کے دن عمر سے اس کا حساب لیا جائے گا‘‘۔ وہ ایسے لوگوں کے حکمران تھے جن کے دل قرآن کے نور سے منور تھے، جن کی زندگیاں سنت ِ رسولؐ کی خوشبو سے معطر تھیں۔ تب اللہ نے انہیں عمر بن خطابؓ اور عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے حکمران دیے۔ مگر آج؟ ہماری پسند کا معیار بدل گیا ہے، علم و عمل کے شاہکاروں کی جگہ ہم نے خوبصورت پلے بوائے، دولت مند، مشہور کھلاڑی اور چکنی چپڑی تقریروں سے بے وقوف بنانے والے سبز باغ دکھانے والے چنے۔ نتیجہ؟ ہمیں وہ حکمران ملے جنہوں نے زبان سے ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ کا نعرہ لگایا مگر عمل رئیس المنافقین جیسا کیا۔ ہم اپنے ہاتھوں بوئے گئے زہریلے بیج کی کڑوی فصل آج ملک بھر، بالخصوص کے پی کے اور سندھ کے حکمرانوں کی شکل میں کاٹ رہے ہیں۔ ہم دنیا کی وہ عجیب قوم ہیں جو کیکر کا بیج زمین میں بوتی ہے اور توقع آم اُگنے کی رکھتی ہے! ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ’’جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا‘‘۔ (سورۂ المائدہ: 32)
اگر ہمارے ووٹ ان قاتل حکمرانوں کے لیے تھے تو پھر ہم بھی حکمرانوں کے گناہوں میں شریک ہیں۔ ہمیں بطور قوم یاد رکھنا چاہیے کہ: صرف آنسو بہانے سے تقدیر نہیں بدلتی، صرف فریاد سے حالات نہیں سدھرتے۔ اگر ہمارا شعور بیدار نہ ہوا تو کبھی سوات کی موجیں، کبھی کراچی کا سمندر، کبھی مہنگائی کی بھوک، کبھی ڈاکو کی گولی، اور کبھی پولیس کا ظلم عوام کو نگلتا رہے گا۔ کاش! قوم جاگ جائے۔ کاش! اندر کا انسان مرنے سے پہلے بیدار ہو جائے۔کاش! سانحے صرف اخبار کی سرخی نہ بنیں، بیداری کا سبب بنیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہیلی کاپٹر کسی کو خود ہی کے لیے

پڑھیں:

وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا کی ایئرایمبولینس ریسکیو کیلئے نہیں پہنچ سکی: عظمیٰ بخاری

فوٹو بشکریہ انسٹاگرام اکاؤنٹ

وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ سانحہ سوات پہلا نہیں، اس طرح کے کئی سانحات ہو چکے ہیں، وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ایئر ایمبولینس ریسکیو کے لیے نہیں پہنچ سکی۔

میڈیا سے گفتگو کے دوران عظمیٰ بخاری نے کہا کہ سانحہ سوات تکلیف دہ اور افسوسناک ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سانحہ سوات کے عینی شاہدین کے مطابق کالز کی گئیں لیکن ریسکیو ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں، سانحے میں جاں بحق افراد کی زندگیاں آسانی سے بچائی جا سکتی تھیں۔

ریلے میں پھنسے سیاح دریائے سوات کا مزاج نہ بھانپ سکے

خطرناک مقامات پر سیلفی لینا، تصاویر اور ویڈیو بنانے کا شوق ہر سال سیاحتی موسم میں کئی قیمتی جانیں نگل لیتا ہے۔

عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ وزیرِاعلیٰ کے پی کل اڈیالہ جیل کے باہر کھڑے ایک بادشاہ کی نوکری کر رہے تھے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز دریائے سوات میں بارش کے بعد پانی کا ریلہ 17 افراد کو بہا کر لے گیا تھا۔

ریسکیو ذرائع کے مطابق حادثے میں جاں بحق افراد کی تعداد 10ہو گئی ہے جبکہ 3 افراد کی تلاش اب بھی جاری ہے۔

دریائے سوات میں پانی کی سطح مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  •  وزیر دفاع خواجہ آصف سانحہ سوات کے متاثرین کے گھر تعزیت کے لیے پہنچ گئے   
  • سانحہ وادی سوات؛ حکومتی بے حسی کا نوحہ
  • سانحہ دریائے سوات کی وجہ حکومت خواب غفلت میں ہے‘ عظمیٰ بخاری
  • سانحہ سوات کا ذمہ دار کون؟ سیاح مدد کو پکارتے رہے بچایا کیوں نہیں جا سکا؟
  • سانحہ سوات پر ڈپٹی کمشنر کے بجائے وزیراعلیٰ کے پی کو معطل کیا جائے، عطا تارڑ
  • سانحہ سوات میں سیاحوں کی نہیں بلکے پی ٹی آئی کے نظام کی موت ہوئی ہے؛ عطا تارڑ
  • سانحہ سوات پر ڈی سی کے بجائے وزیر اعلی گنڈا پور کو معطل کیا جائے: عطا تارڑ
  • سوات میں سیاحوں کی نہیں پی ٹی آئی کے نظام حکومت کی موت ہوئی، عطااللہ تارڑ
  • وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا کی ایئرایمبولینس ریسکیو کیلئے نہیں پہنچ سکی: عظمیٰ بخاری