رونالڈو نے زندگی کا باقی حصہ سعودی عرب میں گزارنے کا فیصلہ کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا کے ممتاز فٹبال اسٹار اور پرتگال کے لیجنڈری فارورڈ کرسٹیانو رونالڈو نے سعودی عرب کو اپنا مستقل مسکن بنانے کا فیصلہ کرلیا، رونالڈو کا کہنا ہے کہ وہ بقیہ زندگی اسی سرزمین پر گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سعودی کلب النصر کی جانب سے جاری ایک خصوصی ویڈیو پیغام میں رونالڈو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نہایت پُرامن اور محفوظ ملک ہے، جہاں میں اور میرے اہلِ خانہ خود کو مکمل طور پر گھر جیسا محسوس کرتے ہیں۔
رونالڈو نے کہا کہ اُن کی زندگی کے فیصلوں میں اُن کے خاندان کا بھرپور تعاون ہمیشہ شامل رہا ہے اور سعودی عرب میں قیام کے دوران انہیں نہ صرف سکون ملا بلکہ خوشی بھی ملی، اسی لیے اب یہ ملک اُن کا مستقل گھر بننے جا رہا ہے۔
اپنے بیان میں اسٹار فٹبالر کا کہنا تھا کہ وہ النصر کے ساتھ کسی بڑے اعزاز کے حصول کے لیے پُرعزم ہیں اور اسی مشن کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں امریکا میں جاری فیفا کلب ورلڈ کپ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، تاہم وہ آرام اور تیاری کو ترجیح دیتے ہوئے اس میں شامل نہیں ہوئے۔
رونالڈو نے سعودی پرو لیگ کو دنیا کی پانچ بڑی فٹبال لیگز میں شمار کرتے ہوئے کہا کہ 2034 میں متوقع فیفا ورلڈ کپ تاریخ کا سب سے یادگار اور شاندار ٹورنامنٹ ثابت ہوگا۔
اختتام پر پرتگالی اسٹار نے سعودی معاشرت اور عوامی محبت کی بھی بھرپور تعریف کی۔ ’’یہاں کے لوگ محبت، احترام اور خلوص سے بھرے ہوئے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ میں یہاں اپنی زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوں،‘‘ انہوں نے کہا۔
واضح رہے کہ 40 سالہ رونالڈو نے 2022 کے اختتام پر مانچسٹر یونائیٹڈ کو خیرباد کہہ کر النصر کلب کا حصہ بنے تھے۔ اب انہوں نے اپنے موجودہ کلب کے ساتھ 2027 تک معاہدے میں توسیع کر دی ہے، جس کا باضابطہ اعلان گزشتہ ہفتے کیا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: رونالڈو نے
پڑھیں:
سعودی عرب نے کشیدگی کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا،ایران
سعودی عرب میں ایران کے سفیر ڈاکٹر علی رضا عنایتی نے کشیدگی کو کم کرنے اور بات چیت کو فروغ دینے پر مملکت کی تعریف کی ہے۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے پیشرفت کو ’ایسی کامیابی قرار دیا جسے حاصل کرنے میں برسوں لگتے ہیں۔‘
علی رضا عنایتی نے سب سے پہلے 1990 میں جدہ میں بطور قونصل خدمات انجام دیں اور بعد میں ریاض میں چارج ڈی افیئرز کے طور پر تعینات رہے۔ مارچ 2023 میں چین کی ثالثی میں کروائے گئے معاہدے کے بعد سفیر کے طور پر واپس آئے۔
ایران کے خلاف حالیہ اسرائیلی حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے عنایتی نے ان حملوں کو ’کھلی جارحیت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اس وقت ہوئے جب تہران واشنگٹن کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات میں مصروف تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایران پر آدھی رات کو حملہ کیا گیا جب لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت فیصلہ کن جواب دینا ہمارا حق تھا اور یہ بھی ظاہر کرنا کہ ایران جنگ نہیں چاہتا، لیکن وہ طاقت اور عزم کے ساتھ اپنا دفاع کرے گا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشیدگی میں اضافے پر علاقائی ردعمل نے یکجہتی کے جذبے کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے وزیر خارجہ کو پہلی کال سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی جانب سے موصول ہوئی جس میں حملوں کی مذمت کی گئی، اس کے بعد سعودی وزارت خارجہ کا ایک بیان بھی آیا۔
اس کے بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے صدر مسعود پیزشکیان کو فون کال کے ذریعے مذمت اور یکجہتی کا اظہار کیا گیا تھا، اس کے بعد صدر پیزشکیان نے ولی عہد کو واپس فون کیا تھا اور کئی خلیجی ریاستوں کی جانب سے حمایت کے بیانات دیے گئے تھے۔
انہوں نے بحران کو کم کرنے کے لیے ریاض کی کوششوں کو سراہتے ہوئے سعودی عرب کے کردار کو ’باوقار‘ اور ’باعث رحمت‘ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری تمام دو طرفہ بات چیت میں ایران نے مملکت کے تعمیری موقف اور مزید جارحیت کو روکنے کے لیے اس کی کوششوں کو تسلیم کیا ہے۔ ہم اپنے سعودی بھائیوں، خاص طور پر شہزادہ محمد بن سلمان کے کردار کا خیرمقدم کرتے ہیں، جو ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
سفیر نے میل جول کی علامت کے طور پر سفر اور مذہبی تبادلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صرف اس سال دو لاکھ ایرانیوں نے عمرہ کیا ہے، اور اگر عازمین حج بھی شامل کیے جائیں تو مملکت میں آنے والے زائرین کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جو کہ ایک انتہائی مثبت اشارہ ہے۔
انہوں نے سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کے حالیہ دورہ تہران پر بھی روشنی ڈالی اور اسے ایک ’تاریخی موڑ‘ قرار دیا جس نے تعلقات کو معمول سے سٹریٹجک تعلقات کی طرف منتقل کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس دورے اور صدر پیزشکیان اور سپریم لیڈر کے ساتھ ملاقاتوں نے ایک مضبوط تاثر چھوڑا کہ ہم علاقائی استحکام کی تعمیر میں شراکت دار ہیں۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو ابھی مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمارے درمیان تجارت، سرمایہ کاری، ثقافت اور نوجوانوں سے متعلق معاہدوں کی بیجنگ معاہدے میں توثیق کی گئی ہے۔