پاکستان میں سیاحت کے فروغ کیلئے اہم سنگ میل عبور
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کی مؤثر سہولت کاری سے پاکستان نے سیاحت کے فروغ کے لیے ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا۔
گلگت بلتستان میں کوہ پیمائی اور ٹریکنگ کی رائلٹی فیس کے تنازع کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا، جس سے خطے میں سیاحتی سرگرمیوں کی بحالی کی راہ ہموار ہوگئی۔
اس پیشرفت سے نہ صرف مقامی ہوٹل مالکان، گائیڈز، پورٹرز اور ٹرانسپورٹرز کا اعتماد بحال ہوا ہے بلکہ بین الاقوامی کوہ پیماؤں کے اعتماد میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
رائلٹی فیس کے مسئلے کے باعث کچھ عرصے سے سیاحتی سرگرمیاں متاثر ہو رہی تھیں، تاہم مختلف اسٹیک ہولڈرز کی بروقت مشاورت اور شمولیت کے ذریعے اس چیلنج کا فوری اور مؤثر حل ممکن بنایا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایس آئی ایف سی پاکستان میں سرمایہ کاری اور سیاحت کو آسان، پائیدار اور سازگار ماحول میں فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔
کوہ پیمائی کے شعبے میں حالیہ پیشرفت اسی تسلسل کا حصہ ہے، جو نہ صرف سیاحتی شعبے کو تقویت دے گی بلکہ ملکی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ججز کے استعفوں پر جشن نہیں بلکہ نظام مضبوط کرنا ضروری ہے، سعد رفیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے 27ویں آئینی ترمیم کے بعد یکے بعد دیگرے ججز کے مستعفی ہونے پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری اپنے مفصل بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ استعفے پاکستان میں آئین، قانون، انصاف اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس منصور علی شاہ کے سپریم کورٹ سے استعفیٰ دینے کے بعد اب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی اس سلسلے میں شامل ہو گئے ہیں، اور یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے تینوں ججز کی دیانتداری، انصاف پسندی اور پیشہ ورانہ کارکردگی کی کھل کر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ
جسٹس اطہر من اللّٰہ ججز بحالی تحریک کے دوران فرنٹ لائن کے رفیق تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی قابلیت، جرات اور پیشہ ورانہ آزادی سب پر واضح ہے۔
جسٹس شمس محمود مرزا کا شمار بھی بہترین شہرت رکھنے والے ججز میں ہوتا ہے۔
انہوں نے جسٹس شمس محمود مرزا پر رشتہ داری کے الزام کو بے بنیاد اور “طفلانہ حرکت” قرار دیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ ان ججز کے فیصلوں سے اختلاف اپنی جگہ، مگر ان کی شرافت، اہلیت اور نیک نیتی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے استعفے عدلیہ کے لیے نقصان دہ ہیں اور ادارہ جاتی توازن کو کمزور کرتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ استعفوں کو سیاسی دھڑے بندی کی نظر سے دیکھیں تو شاید کچھ لوگوں کو یہ اچھا لگے، لیکن حقیقت میں یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان کے مطابق یہ سلسلہ رکنے والا نہیں اور “یہ عدلیہ سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ تک جائے گا”۔
انہوں نے زور دیا کہ ہر مخالف کو پکڑ لینا یا ملک دشمن قرار دینا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک ذمہ دار ریاست ماحول کو ٹھنڈا رکھتی ہے، تنازعات بڑھاتی نہیں۔ پاکستان جیسے حساس اور نیوکلیئر ملک کے لیے اندرونی محاذ آرائی انتہائی نقصان دہ ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ خوشی کے ڈھول پیٹنے کے بجائے پیدا ہوتی فالٹ لائنز کو پُر کرنے کی کوشش کرنا ہی دانشمندی ہے۔