Express News:
2025-10-04@23:36:07 GMT

سیکرڈ لیڈرشپ: قیادت کا نیا انداز

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

قوموں کی ترقی و بقاء میں قیادت کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ خاندان، معاشرہ اور ادارے، سب ہی راہ نماؤں کی بدولت ترقی یا تنزلی کا شکار ہوتے ہیں۔ آج کی دُنیا میں لیڈرشپ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مختلف زاویوں سے گفتگو، تحقیق اور تجزیہ جاری ہے۔

نت نئے رجحانات اور پہلوؤں پر غوروفکر کیا جا رہا ہے، اور جدید قیادت کے عوامل و اثرات کو اُجاگر کیا جا رہا ہے۔ چوںکہ لیڈرشپ میرے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک ہے، اس لیے میں اس پر پڑھنے، لکھنے، سیکھنے اور سکھانے کی مسلسل جستجو میں رہتا ہوں۔ میری دانست میں قیادت، قوموں کے معیار، افکار اور کردارواعمال پر گہرے انداز میں اثرانداز ہوتی ہے۔

لہٰذا، ہر وہ شخص لیڈر ہے جو ذمے داری قبول کرتا ہے، اور جو شخص ذمے داری لیتا ہے، وہ درحقیقت قیادت کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لیڈرشپ سے متعلق سوچ، خیال اور تصور بہت محدود اور اُدھورے ہیں۔ چناںچہ لوگ قیادت کو چند مخصوص زاویوں سے دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں جب بھی کوئی شخص لیڈرشپ کے حوالے سے گفتگو یا تبادلہ خیال کرتا ہے، تو لوگ اُس کے عہدے، مقام اور تجربے کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں، گویا قیادت کا مفہوم صرف رسمی حیثیت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

آج کے اس مضمون میں ہم قیادت کے جس زاویے اور پہلو پر غور کریں گے، وہ ایک منفرد اور قدرے مختلف نقطۂ نظر ہے۔ اس کا مقصد معاشرے کو ایسے موضوعات اور رجحانات کی طرف متوجہ کرنا ہے، جن کے ذریعے لوگ اپنے اپنے شعبے اور عہدے میں رہتے ہوئے قیادت کے حقیقی مفہوم اور پہلوؤں کو سمجھ سکیں۔ ’’سیکرڈ لیڈرشپ‘‘ (Sacred Leadership) کوئی مذہبی، سیاسی یا غیر معمولی موضوع نہیں، بلکہ لیڈرشپ کا ایک مخصوص طرزِعمل ہے ، جس میں لیڈر اپنی ذات سے بالاتر ہو کر اپنے فالورز کی زندگی کے مقصد کو بہتر بنانے اور اس کے حصول میں اُن کی مدد کرتا ہے۔

ایسی قیادت انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی بھلائی کے لیے کوشاں ہوتی ہے۔ آج کے جدید، مصروف اور انتشارزدہ دُور میں ایسی قیادت کی شدید ضرورت ہے جو خاندانوں، معاشروں، اداروں، ملکوں اور پوری دُنیا کی بہتری کے لیے سوچے، اور عملی اقدامات کے ذریعے اس دُنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں کردار ادا کرے۔ اس مضمون میں سیکرڈ قیادت کے علمی، فکری اور عملی پہلوؤں کو مربوط اور مؤثر انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔

سیکرڈ قیادت: ایک با مقصد، با اصول اور عظیم سفر

موجودہ دُور میں قیادت صرف انتظامی امور چلانے یا کارکردگی بڑھانے تک محدود نہیں رہی ہے، بلکہ اس میں ہر روز ایک نئے تصور نے جنم لیا ہے، جسے ’’سیکرڈ قیادت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ قیادت کا ایسا فہم ہے جو راہ نما کو محض اختیارات استعمال کرنے والا فرد نہیں، بلکہ ایک اخلاقی، روحانی اور با مقصد شخصیت کے طور پر دیکھتا ہے۔ ایسی شخصیت جو نہ صرف ادارے یا تنظیم کی ترقی کا باعث بنتی ہے، بلکہ انسانوں کی زندگیوں میں بھی مثبت تبدیلی لانے کا ذریعہ بنتی ہے۔

سیکرڈ قیادت کا مفہوم

سیکرڈ قیادت سے مراد ایسا طرزِقیادت ہے جو گہرے مقصد، اعلیٰ اقدار اور عظیم تر سچائی و روحانی حقیقت سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ طرزِقیادت صرف وقتی کامیابیوں یا مادی فوائد تک محدود نہیں، بلکہ اس کا تعلق ایک بلند نصب العین، خدمتِ خلق اور دیرپا مثبت اثرات سے ہوتا ہے۔

یہ قیادت روحانی بیداری، اخلاقی جرات اور انسان دوستی کے امتزاج پر قائم ہوتی ہے۔ اس کے چند بنیادی اصول ہیں جو اس کی اصل رُوح کو برقرار رکھتے ہیں اور اسے عام طرزقیادت سے مختلف اورممتاز بناتے ہیں۔

مقصد پر مبنی قیادت

سیکرڈ راہ نما اپنے وجود کے مقصد سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ اُس کا ہر قدم، ہر فیصلہ اور ہر حکمتِ عملی کا محور یہی مقصد ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ صرف ایک ادارہ نہیں چلا رہا ہے، بلکہ ایک نظریے اور مشن کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اُس کی اپنے مقصد سے وابستگی نمایاں، واضح اور پُراثر ہوتی ہے۔ سیکرڈ قیادت ایک بلند اور واضح مقصد سے جُڑی ہوتی ہے، اور قائد اپنی تمام سرگرمیوں کو اسی مقصد سے ہم آہنگ رکھتا ہے۔

اقدار کی بنیاد پر راہ نمائی

یہ طرزِقیادت عہدے یا رسمی اختیارات پر نہیں، بلکہ دیانت داری، شفقت، انصاف، بردباری اور احترام جیسی اقدار پر مبنی ہوتی ہے۔ ایسی قیادت ایک ایسا ماحول پیدا کرتی ہے جس میں اعتماد، شفافیت اور باہمی تعاون کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ انسانی ہم دردی اور اجتماعی فلاح جیسی دائمی اقدار کو ہمیشہ اولین ترجیح دی جاتی ہے تاکہ ایک مثبت، مؤثر اور پائیدار قیادت وجود میں آ سکے۔

حقیقی شخصیت کا اظہار

سیکرڈ قائدین اگرچہ انسان ہوتے ہیں، لیکن بناوٹ سے پاک ہوتے ہیں۔ وہ جیسے اندر سے ہوتے ہیں، ویسے ہی باہر سے نظر آتے ہیں۔ اُن کی سچائی اور خلوص اُن کے پیروکاروں کے دِلوں میں اعتماد اور وفاداری پیدا کرتی ہے۔ یہ قائدین خالص اور شفاف ہوتے ہیں، جو اپنے پیروکاروں کے ساتھ گہرے انسانی اور جذباتی تعلقات قائم کرتے ہیں، اور ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کے ضامن بنتے ہیں۔

مضبوط روحانی تعلق کی بنیاد

سیکرڈ قیادت کسی نہ کسی روحانی حقیقت سے جُڑی ہوتی ہے، چاہے وہ مذہب ہو، انسانیت کا احترام، یا کائناتی وحدت کا شعور۔ یہ روحانی تعلق قائد کو عاجزی، خوداحتسابی اور مسلسل بہتری کی طرف لے جاتا ہے۔ اگرچہ یہ قیادت لازمی طور پر مذہبی نہیں ہوتی ہے، لیکن یہ کسی اعلیٰ روحانی مقصد، آفاقی تعلق کے احساس، یا عظیم تر نصب العین سے جُڑے رہنے پر زور دیتی ہے۔ یہی تعلق قائد کی بصیرت، نرمی اور اخلاقی پختگی کی بنیاد بنتا ہے۔

خدمت گزار قیادت

سیکرڈ قائد خود کو دوسروں کا خادم سمجھتا ہے، نہ کہ مالک یا حکم ران۔ وہ اپنے پیروکاروں کی بھلائی، ادارے کی ترقی اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا وقت، توانائیاں اور صلاحیتیں وقف کرتا ہے۔ ایسے راہ نما دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیتے ہیں اور ادارے کی فلاح و بہبود کو اپنا اولین مقصد بناتے ہیں، تاکہ کمیونٹی میں اجتماعی ذمہ داری اور باہمی ہمدردی کا احساس پروان چڑھے۔

مثبت تبدیلی اور احساس کا قیمتی ورثہ

سیکرڈ قیادت وقتی شہرت یا ذاتی فائدے پر قناعت نہیں کرتی ہے۔ یہ ایسی قیادت ہے جو ایک دیرپا اور پائے دار ورثہ چھوڑنے کی خواہاں ہوتی ہے۔ ایسا ورثہ جو آنے والی نسلوں تک فائدہ پہنچائے اور معاشرے میں حقیقی بہتری کا ذریعہ بنے۔ یہ طرزِقیادت عارضی کامیابی کی بجائے، گہری اور دیرپا مثبت تبدیلی پر مرکوز ہوتی ہے، جو افراد، اداروں اور قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

دیگر طرزِقیادت سے مختلف اور منفرد

عمومی طور پر قیادت کو دو بڑے زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ لین دین پر مبنی قیادت (Transactional Leadership) جہاں قائد کارکردگی کے بدلے انعام یا سزا دیتا ہے۔ تبدیلی پسند قیادت (Transformational Leadership) جو افراد کو متاثر کر کے بااختیار بناتی ہے اور ان کے اندر ایک نیا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ تاہم، سیکرڈ قیادت ان دونوں سے کہیں آگے کا سفر ہے۔ یہ قیادت محض عملیت یا کارکردگی پر زور نہیں دیتی بلکہ ’’روحانیت اور خودآگاہی‘‘ کو قیادت کا لازم جزو قرار دیتی ہے۔ سیکرڈ قیادت انسان کو مشین یا محض وسائل کا جزو نہیں سمجھتی بلکہ ایک ’’مکمل روحانی، جذباتی، اور اخلاقی وجود‘‘ مانتی ہے، جس کی فلاح، ترقی اور راہ نمائی کو ایک مقدس فریضہ تصور کیا جاتا ہے۔ جیمز ڈبلیو ڈیوس نے اپنی کتاب Sacred Leadership: Leading for the Greatest Good میں راہ نما کی تجزیاتی سوچ کو اس کی روحانی گہرائی سے جوڑ کر قیادت کے ایک جامع، متوازن اور با مقصد تصور کی بنیاد رکھی ہے۔

اسی طرح Shift Practitioner جیسے ادارے مقامی اور عالمی قیادت کے ماڈلز سے سیکھ کر، جدید تنظیمی قیادت میں روحانی اور اجتماعی دانش کو شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ’’سچی قیادت وہی ہے جو انسان اپنی سچائی اور اصلیت کے ساتھ کرے، اور ایسا اثر چھوڑے جو صرف ڈیجیٹل یا مادی دُنیا تک محدود نہ ہو، بلکہ رُوح کی گہرائیوں تک جا پہنچے۔‘‘

سیکرڈ قیادت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ایک کام یاب قائد بننے کے لیے صرف مہارتیں، حکمتِ عملی یا اہداف کافی نہیں ہیں، بلکہ نیک نیت، اعلیٰ مقصد، سچائی، عاجزی اور خدمت کا جذبہ ضروری ہے۔ یہ قیادت نہ صرف اداروں کو ترقی دیتی ہے، بلکہ دلوں کو جیتتی ہے، رُوحوں کو چھوتی ہے اور معاشروں کو سنوارتی ہے۔ ایسے قائدین دُنیا کو صرف بہتر نہیں بناتے، بلکہ بامعنی اور با مقصد بناتے ہیں۔ اور آج کے بحران زدہ، مادیت زدہ اور افراط و تفریط سے بھری دُنیا کو ایسے ہی راہ نماؤں کی اشد ضرورت ہے جو قیادت کو ذمے داری اور خدمت کا عمل سمجھیں۔

سیکرڈ قیادت کی امتیازی خوبیاں

اعلیٰ مقصد کی حامل قیادت میں وہ خوبیاں پائی جاتی ہیں جو اسے روایتی قیادت سے منفرد بناتی ہیں۔ یہ قیادت جذبہِ خدمت سے سرشار ہوتی ہے۔ اپنی ذات سے آگاہی اور روحانی شعور اس کا خاصہ ہوتا ہے۔ یہ قائدین اپنی زندگی کے مقصد، کام یابی کے تصور، اور دُنیا میں بہتری کے لیے ایک واضح اور بلند موقف رکھتے ہیں۔

معاشرتی ترقی کے معمار

سیکرڈ قائدین اپنی شخصیت کو عملی نمونہ بنا کر معاشرے میں حقیقی اور اجتماعی ترقی کے علم بردار بنتے ہیں۔ یہ معاشرے کو ان سمتوں اور راہوں سے متعارف کرواتے ہیں جن پر سوچنا یا گفتگو کرنا اکثر محدود سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ’’معاشرتی ترقی کے معمار‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن پر غوروفکر کرنے اور ان سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔

قدرتی اور آفاقی صفات کے حامل

سیکرڈ راہ نما ایسی قدرتی اور آفاقی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں جنہیں خالق نے خاص مقصد کے تحت نوازا ہوتا ہے تاکہ وہ انسانیت کی رہنمائی اور خدمت کا فریضہ انجام دے سکیں۔ ان کی صلاحیتوں، مہارتوں اور خوبیوں سے نہ صرف ان کی ذات بلکہ ادارے، معاشرہ اور بنی نوع انسان مستفید ہوتے ہیں۔ دُنیا میں بے شمار قائدین بظاہر اعلیٰ صلاحیتوں سے آراستہ ہوتے ہیں، لیکن ان میں قیادت کی رُوح یعنی مقصد، خدمت اور انسان دوستی کے وٹامن کی کمی پائی جاتی ہے۔

انسانیت کے پیامبر

سیکرڈ قائدین کسی مخصوص قوم، جماعت، فرقے یا سرحد تک محدود نہیں ہوتے۔ وہ انسانیت پر یقین رکھتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ انسانوں کی بھلائی کے لیے خدمات انجام دیں۔ وہ عالم گیریت، لافانیت، اور آفاقی محبت کے پرچار ہوتے ہیں۔ ان کا نصب العین رنگ، نسل، مذہب یا زبان سے ماورا ہوتا ہے۔

روشنی کے مینار

یہ قائدین اپنے افکار، کردار اور اعمال سے دوسروں کے لیے روشنی کے مینار ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف ذہن سازی کرتے ہیں بلکہ سماجی تشکیل میں بھی رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت دوسرے راہ نماؤں کے لیے مشعلِ راہ اور نوجوان نسل کے لیے قابلِ تقلید مثال ہوتی ہے۔

روشن مثال

سیکرڈ قائدین جس بھی شعبے سے وابستہ ہوں، اپنے ادارے، افراد اور پیروکاروں کے لیے ایک ’’روشن مثال‘‘ ہوتے ہیں۔ انہیں مثبت تبدیلی لانے کے لیے نہ عہدے کی ضرورت ہوتی ہے، نہ مرتبے یا اختیار کی۔ ان کا اصل اثر ان کی ’’سچائی، اخلاص، وژن اور عمل‘‘ سے ہوتا ہے، جو دوسروں کو تحریک دیتا ہے۔

سیکرڈ لیڈرشپ: قیادت کا نیا انداز

یہ قیادت اپنے اندر ایک بصیرت افروز، فکری گہرائی لیے ہوئے ہے اور وقت کی اشد ضرورت ہے۔ یہ قیادت کو محض طاقت یا اختیار سے جوڑنے کے بجائے اسے روحانیت، اخلاق، خدمت اور اعلیٰ مقصد سے ہم آہنگ کرتی ہے۔ سیکرڈ لیڈرشپ ایک ایسا جدید اور بامعنی تصور ہے جو قیادت کو ایک مقدس فریضہ تصور کرتا ہے۔ ایک ایسا سفر جو اپنی ذات سے بلند ہوکر خدمتِ انسانیت کے جذبے پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر ہم اس قیادت کے فلسفے کو اپنائیں تو نہ صرف بہتر ادارے تشکیل دے سکتے ہیں بلکہ ایسی دُنیا کی تعمیر بھی ممکن ہے، جہاں انسانیت، محبت، خدمت اور فلاح کا بول بالا ہو۔ ہمیں ایسے راہ نماؤں کی ضرورت ہے جو صرف روشنی کے مینار نہ ہوں، بلکہ اُمید کا سورج بھی بنیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیکرڈ قائدین سیکرڈ لیڈرشپ سیکرڈ قیادت مثبت تبدیلی تک محدود نہ سیکرڈ قائد ایسی قیادت طرز قیادت راہ نماؤں میں قیادت کی بنیاد یہ قیادت قیادت سے ہوتے ہیں قیادت کے ایک ایسا قیادت کو ضرورت ہے قیادت کا کرتے ہیں راہ نما کرتا ہے جاتا ہے ہوتا ہے ہوتی ہے کرتی ہے کہ ایک بلکہ ا ا فاقی کے لیے اور ان

پڑھیں:

آزاد جموں و کشمیر کی حالیہ کشیدگی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251005-03-5

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

 

 

آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ دنوں پیدا ہونے والی کشیدگی اور احتجاجی تحریک نہ صرف مقامی حالات کی ترجمانی کر رہی ہے بلکہ یہ پورے پاکستان اور خطے کی سیاست، معیشت اور سفارتی صورتحال کے لیے بھی سنگین سوالات پیدا کر چکی ہے۔ پانچ روز سے جاری احتجاج، انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی معطلی، بازاروں اور ٹرانسپورٹ کی بندش، اسکولوں میں طلبہ کی غیر حاضری اور طبی سہولتوں تک رسائی میں مشکلات، یہ سب محض وقتی رکاوٹیں نہیں بلکہ ایک بڑے بحران کی علامت ہیں، جو اپنی جڑوں میں معاشی، سیاسی اور انتظامی محرومیوں سے جڑا ہے۔ آزاد کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے تحت ہونے والے احتجاج محض جزوی مطالبات پر مبنی نہیں، بلکہ عوامی محرومیوں، عدم مساوات اور مہنگائی کے خلاف ایک طویل عرصے سے جمع شدہ غصے کی جھلک ہیں۔ عوام بجلی کے بلوں، اشیائے خورو نوش کی قیمتوں، گورننس کی ناکامی اور عدم شفافیت پر سراپا احتجاج ہیں۔ ابتدائی طور پر پْرامن دھرنوں اور جلسوں کی شکل میں شروع ہونے والی یہ تحریک اس وقت پرتشدد رُخ اختیار کر گئی جب انتظامیہ اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ گئے اور طاقت کے استعمال نے صورت حال کو مزید بگاڑ دیا۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں نہ صرف زخمیوں کی تعداد بڑھتی رہی بلکہ کچھ علاقوں میں ہلاکتوں کی بھی اطلاعات سامنے آئیں۔ اس صورتحال نے مقامی آبادی میں شدید بے چینی پیدا کر دی۔ عوام کا یہ کہنا ہے کہ ان کی آواز برسوں سے نظر انداز کی گئی، اور جب وہ احتجاج پر مجبور ہوئے تو ان پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی بندش نے اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ اس طرح کے اقدامات وقتی طور پر حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے کیے جاتے ہیں مگر درحقیقت یہ عوامی بداعتمادی اور خوف میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں معلومات کی بندش محض ایک تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہار کا معاملہ بھی ہے۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی، جس میں رانا ثناء اللہ، احسن اقبال، طارق فضل چودھری، راجا پرویز اشرف اور قمر زمان کائرہ جیسے سینئر رہنما شامل ہیں۔ یہ کمیٹی مظفرآباد پہنچی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ ابتدائی مذاکرات کے بعد حکومتی نمائندوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ماحول مثبت رہا ہے اور امید ہے کہ باہمی افہام و تفہیم سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ تاہم عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے مزید مشاورت کے لیے وقت مانگا۔ یہ بات واضح ہے کہ حکومت مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی خواہش رکھتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام اس عمل پر اعتماد کریں گے یا نہیں۔ کیونکہ ماضی میں اکثر وعدے اور اعلانات محض کاغذی رہے ہیں۔

آزاد کشمیر کی موجودہ کشیدگی کو صرف مقامی تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ خطہ ایک حساس جغرافیائی اور سیاسی حیثیت رکھتا ہے، جہاں کی بدامنی فوری طور پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ اس صورتحال کو عالمی سطح پر اجاگر کرے اور یہ تاثر دے کہ پاکستان اپنے زیر انتظام علاقوں کو مستحکم رکھنے میں ناکام ہے۔ مزید برآں، عالمی سطح پر بھی ایسے حالات کو انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اگر عوام کے مطالبات کو نظر انداز کیا گیا اور طاقت کے استعمال کو ترجیح دی گئی تو یہ بات عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے وقار کو متاثر کر سکتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر شفاف تحقیقات اور عملی اقدامات کرے تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ پاکستان اپنے عوام کے حقوق کا احترام کرتا ہے۔

پاکستان کی داخلی سیاست پہلے ہی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ معاشی بحران، مہنگائی، بیروزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوامی اعتماد کو متزلزل کر رکھا ہے۔ ایسے میں آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والی کشیدگی اس بحران کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس صورتحال کو سنبھالتی ہے، کیونکہ اگر یہ تحریک مزید طول پکڑ گئی تو اس کے اثرات پورے ملک میں محسوس کیے جائیں گے۔ اس صورتحال کا ایک اور اہم پہلو معاشی پہیہ ہے۔ ٹرانسپورٹ، بازار اور کاروبار کی بندش نے نہ صرف مقامی معیشت کو مفلوج کر دیا ہے بلکہ یہ اثرات پاکستان کی مجموعی اقتصادی صورتحال پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی معاشی اصلاحات اور آئی ایم ایف کے دباؤ سے گزر رہا ہے، کسی بھی نئی بدامنی کی گنجائش موجود نہیں۔ آزاد کشمیر ہمیشہ سے ایک ایسا خطہ رہا ہے جہاں کی سیاسی حرکیات پاکستان کی قومی سیاست سے جڑی رہی ہیں۔ تاریخی طور پر یہاں کے عوام نے ہمیشہ وفاق پاکستان کے ساتھ تعلق کو مضبوط رکھنے کی کوشش کی، مگر ساتھ ہی اپنے حقوق اور خودمختاری کے مطالبات کو بھی دہراتے رہے۔ اس تناظر میں موجودہ احتجاجی تحریک دراصل اس تاریخی تسلسل کا ایک حصہ ہے، جو بار بار ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ مقامی عوام کے جائز مطالبات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حکومت نے عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات نہ کیے تو یہ تحریک مزید شدت اختیار کر سکتی ہے، جو نہ صرف مقامی سطح پر انتشار کا باعث بنے گی بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف، اگر مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جاتا ہے تو یہ ایک مثبت مثال بن سکتی ہے کہ مسائل کو مکالمے اور شفافیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔

اس بحران سے نکلنے کے لیے چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں: 1۔ فوری طور پر مواصلاتی نظام بحال کیا جائے تاکہ عوام میں اعتماد قائم ہو۔ 2۔ زخمیوں اور متاثرین کے لیے ہنگامی طبی امداد فراہم کی جائے۔ 3۔ شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کے ذریعے ذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ 4۔ عوامی نمائندوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے اور مقامی سطح پر گورننس بہتر بنائی جائے۔ 5۔ معاشی ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ عوام کو فوری سہولت مل سکے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو اگر بروقت کیے گئے تو نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک مثبت پیغام ہوں گے۔ بصورت دیگر، یہ بحران ایک بڑے طوفان کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ یہ لمحہ پاکستان کے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر حکومت دانشمندی، شفافیت اور ہمدردی کے ساتھ آگے بڑھی تو یہ بحران ایک موقع میں بدل سکتا ہے، جہاں عوام کا اعتماد بحال ہو اور ریاست کی ساکھ مضبوط ہو۔ لیکن اگر طاقت اور وعدوں پر انحصار کیا گیا تو نتائج نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے خطے کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • آزاد جموں و کشمیر کی حالیہ کشیدگی
  • بالاج قتل کیس کے مرکزی ملزم طیفی بٹ کی ڈرامائی انداز میں گرفتاری کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • غزہ ، انسانیت کی شکست کا استعارہ
  •    آزاد کشمیر کی 12 نشستوں کا معاملہ آئینی ، جذبات نہیں سمجھداری سے بات ہونی چاہیے، اعظم نذیر تارڑ
  • یہ کووڈ نہیں، پریشان نہ ہوں بس علامات کا فرق جانیں
  • نبی مکرم ؐ کی آمد کا مقصد’اللہ کے دین کا نفاذ تھا، اسما عالم
  • بھارت کی ہندو قیادت کا چھوٹا پن
  • پانچ سال تک استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد
  • سینیٹ میں جو بھی آئین سازی ہوتی ہے، باہمی اتفاق رائے سے کرتا ہوں، یوسف رضا گیلانی
  • اتحاد اور مضبوط قیادت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں!