فلسطین میں موت کا رقص جاری، پاکستانی سفیر نے اقوام متحدہ میں حقائق بے نقاب کر دیے
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
نیویارک (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ جو سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 (قابض فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی غیر قانونی بستیوں) پر عملدرآمد سے متعلق ہے، غزہ میں تکلیف اور سفاکی کی سطح کو حیران کن اور ناقابل برداشت قرار دیتی ہے۔
نجی ٹی وی ایکسپریس نیوزکے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مشرق وسطیٰ بشمول مسئلہ فلسطین پر بریفنگ کے دوران بیان دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے سیکرٹری جنرل کے ان الفاظ کا حوالہ دیا، جنہوں نے رپورٹ میں کہا کہ خاندانوں کو بار بار نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے اور وہ اب غزہ کی زمین کے پانچویں حصے سے بھی کم جگہ پر محصور ہیں، اور یہ سمٹتی ہوئی جگہیں بھی خطرے سے دوچار ہیں۔
سفیر عاصم نے کہا کہ بچے غذائی قلت کے باعث جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں، حالانکہ یونیسیف بارہا خبردار کر چکا ہے کہ غذائی قلت انتہائی تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہے۔
صرف مئی کے مہینے میں چھ ماہ سے پانچ سال کی عمر کے 5,100 سے زائد بچوں کو شدید غذائی قلت کے علاج کے لیے داخل کیا گیا۔ مارچ میں عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک 6,500 سے زائد مزید جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں اسرائیل کے جنگی طریقوں اور ہتھکنڈوں پر بھی سنگین تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور مظالم اور بین الاقوامی قوانین کی دیگر خلاف ورزیوں پر فوری احتساب پر زور دیا گیا ہے۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ نام نہاد نیا امدادی تقسیم نظام نہ صرف بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی وقار کے منافی ہے بلکہ یہ بھوکے شہریوں کو براہ راست خطرے میں ڈال دیتا ہے، کیونکہ انہیں کھانے اور پانی کی تلاش میں فعال جنگی علاقوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا نتیجہ خوفناک ہے کہ 500 سے زائد افراد کو صرف انسانی امداد حاصل کرنے کی کوشش میں قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعی ایک موت کا جال ہے، جیسا کہ سیکرٹری جنرل نے درست طور پر کہا۔
انہوں نے کہا کہ تشدد صرف غزہ تک محدود نہیں ہے۔ اسرائیل نے مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم میں فوجی چھاپوں میں شدت، غیر قانونی بستیوں کی توسیع اور آبادکاروں کے بے لگام تشدد کو فروغ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اوچا کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے 19 جون 2025 تک مغربی کنارے میں 949 فلسطینی جن میں کم از کم 200 بچے شامل ہیں، شہید کیے جا چکے ہیں اور 40,000 سے زائد افراد کو زبردستی بے دخل کیا گیا، جو 1967 کے بعد سب سے بڑی جبری بے دخلی ہے۔
سفیر عاصم نے خبردار کیا کہ اگر سلامتی کونسل اپنی ہی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی نہ بنائے تو اس کے سنگین نتائج عالمی امن و سلامتی کے لیے پیدا ہوں گے اور خود سلامتی کونسل کی ساکھ اور اختیار کو زک پہنچے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ سال اقوام متحدہ کے چارٹر کا 80 واں سال ہے، جو انصاف، امن اور تمام اقوام کی خودمختاری کے اصولوں پر مبنی ہے۔ مگر غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اس چارٹر کے بنیادی اصولوں کو مکمل بے خوفی کے ساتھ مسلسل پامال کیا جا رہا ہے،
انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل محض تماشائی نہ بنے۔ اصل مسئلے یعنی غیر قانونی اسرائیلی قبضے کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ الزام تراشی سے گریز کیا جائے۔ اب وقت ہے کہ مشترکہ عالمی عزم کے تحت مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ مسئلہ فلسطین عرب اسرائیل تنازع کا مرکزی نکتہ ہے۔ اس مسئلے کو منصفانہ اور پائیدار طریقے سے حل کرنے کے لیے سلامتی کونسل کو فوری اور دو ٹوک اقدام کرنا ہو گا۔
انہوں نے پاکستان کے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے میں تمام فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کرے۔ مستقل جنگ بندی بلا تاخیر قائم کی جائے۔
انسانی امداد پر عائد تمام پابندیاں مکمل اور غیر مشروط طور پر ختم کی جائیں۔ اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کو محفوظ اور بلا رکاوٹ رسائی دی جائے۔
غزہ کی تعمیر نو کے لیے عرب لیگ–او آئی سی منصوبے کی حمایت کی جائے۔ یہ منصوبہ امید بحال کرنے اور پائیدار امن کی بنیاد رکھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 پر عملدرآمد کے لیے قابل عمل اور وقت مقرر اقدامات کیے جائیں تاکہ دو ریاستی حل کی گنجائش باقی رہ سکے اور زمین پر مزید غیر قانونی تبدیلیاں روکی جا سکیں۔
قابل اعتبار اور ناقابل واپسی سیاسی عمل کا آغاز کیا جائے تاکہ دو ریاستی حل ممکن ہو، جو جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ہو، اور القدس الشریف (یروشلم) کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔
سفیر عاصم افتخار نے مزید کہا کہ اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس کے جلد از جلد انعقاد کی حمایت کی جائے تاکہ اس مقصد کو عملی شکل دی جا سکے۔
کسٹمز نے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما کی ویگو گاڑی ضبط کرلی
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ سیکرٹری جنرل سلامتی کونسل اقوام متحدہ سفیر عاصم کیا گیا کیا جا کے لیے
پڑھیں:
امریکی معاہدے کو بے نقاب نہ کرنا اسلام کی توہین ہے، علامہ ریاض نجفی
جامع علی مسجد حوزہ علمیہ جامعة المنتظر میں خطاب کرتے ہوئے وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر کا کہنا تھا کہ حماس فلسطین کی آزادی کی علامت، اسے معاہدے سے باہر رکھنا زیادتی ہے، انور السادات کے بعد حماس نے طوفان الاقصی آپریشن سے مسئلہ فلسطین کو زندہ کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے جامع علی مسجد حوزہ علمیہ جامعة المنتظر ماڈل ٹاون میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان دنیا میں باعظمت ہو رہے ہیں، امریکہ جیسے ملک کا صدر پاکستان کے سربراہ سے ملاقات کو اپنے لئے اعزاز قرار دے رہا ہے۔ لیکن ابھی تک ہم میں وہ شعور نہیں کہ ہم ٹرمپ کے شیطانی معاہدے کو رد کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ 1973ء میں انورالسادات نے فلسطین کاز کو زندہ کیا اور اب حماس نے7 اکتوبر 2023 کے طوفان الاقصی آپریشن سے زندہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سید ہیں، انہیں اپنے خاندان کا خیال رکھنا چاہیے، کسی سے نہ ڈریں۔ حقیقت کو سب کے سامنے لے کر آئیں، اتنی بڑی غلطیاں کرنیوالے امریکہ کے سامنے معاہدے کو بے نقاب نہ کرنا اسلام کی توہین ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر دنیا کے سامنے واضح کریں کہ حماس فلسطین کی آزادی کی علامت ہے، آزادی کی جنگ لڑنے والے حماس کو اس معاہدے سے باہر رکھنا زیادتی ہے۔ تمام مسلمان قوتوں کو حماس کھل کر ساتھ دینا چاہیے۔ حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ حماس کی بہادری اور فلسطینی عوام کی قربانیوں کی برکت کی وجہ سے آج مسئلہ فلسطین دنیا میں نمایاں ہوا ہے۔ برطانیہ سمیت اکثریت نے فلسطین کو قبول کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے منصوبے میں اسرائیل کو خلاف حقیقت کلین چٹ دی گئی ہے، اور مسئلے کی جڑ حماس کو قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی عظمت ساتویں آسمان کو چھو رہی ہے، اب یہ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ امریکہ کے 20 نکاتی منصوبے میں جتنے غلط نکات ہیں ان کو نمایاں کرتے۔ اسرائیل کے ظلم و بربریت کیخلاف اور امریکہ کے سامنے بات کرنے کی طاقت صرف پاکستان میں ہے۔ حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ حماس نے سات اکتوبر کی جنگ آزادی کے لیے لڑی ہے اور ابھی تک قائم ہے، دو سال میں حماس کو کوئی زیر نہیں کر سکا، نہ ہی اسرائیلی یرغمالی بازیاب کروائے جا سکے ہیں اور نہ ہی غزہ پر قبضہ کر سکے ہیں۔