نئے مالی سال میں حکومت ٹھوس معاشی اصلاحات کرے، صدر ایف پی سی سی آئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
اسلام آباد: ایف پی سی سی آئی کے صدر عاطف اکرام شیخ نے نئے مالی سال کے آغاز پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو معاشی میدان میں مہنگائی، بے روزگاری اور تجارتی خسارے جیسے سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی سے عوام کی قوتِ خرید متاثر ہوئی ہے جبکہ کاروباری طبقہ بھی شدید دباؤ میں ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ نوجوانوں کے لیے سنگین مسئلہ بن چکا ہے، اور تجارتی خسارہ معیشت پر مستقل دباؤ ڈال رہا ہے۔
صدر ایف پی سی سی آئی کا کہنا تھا کہ ان چیلنجز کے باوجود معاشی امکانات کے در بھی کھلے ہیں، حکومت نے انفراسٹرکچر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ تاہم غربت میں کمی اور معیشت کی بحالی کے لیے مزید ٹھوس پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ حکومت زراعت اور سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرے، شرح سود میں کمی لائے، روزگار کے مواقع پیدا کرے اور چھوٹے کاروبار و مقامی صنعتوں کی ترقی پر توجہ دے۔
عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ اگر حکومت سنجیدگی سے ان پالیسیوں پر عمل کرے تو نئے مالی سال میں معاشی ترقی کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پی آئی اے کی نجکاری اور سماجی و معاشی روٹس کا مستقبل
گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر برائے نجکاری، مسٹر عبدالعلیم خان نے ایک اہم پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ حکومت تقریباً 8 مختلف سرکاری اداروں کو نجکاری کی فہرست میں شامل کر چکی ہے، جن میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (PIA) بھی شامل ہے۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب قومی ایوی ایشن پالیسی میں ’سماجی و معاشی روٹ (socio economic routes)کا مستقبل جو پہلے ہی غیر یقینی کا شکار ہے، ایک مرتبہ پھر خدشات کے دھانے پر آ گیا۔
بغیر socio eco پالیسی کے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ نہ صرف مالی اور انتظامی پہلوؤں سے اہمیت رکھتا ہے، بلکہ ملک کے دور دراز اور مشکل رسائی والے علاقوں کی فضائی رابطہ کاری پر بھی براہِ راست اثر ڈال سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر پی آئی اے کا انتظام نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا تو کیا یہ روٹس برقرار رہیں گے یا پھر منافع نہ ہونے کے باعث ختم کر دیے جائیں گے؟
پالیسی کا بنیادی ڈھانچہ — وعدے کاغذ تک محدود:پاکستان کی قومی ایوی ایشن پالیسی میں ایک اہم مگر بار بار نظرانداز ہونے والا پہلو ’سماجی و معاشی روٹس‘ ہیں۔ یہ وہ فضائی راستے ہیں جو ملک کے انتہائی دور دراز اور دشوار گزار علاقوں — اسکردو، گلگت، چترال، سوات، گوادر اور بلوچستان کے ساحلی شہروں کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑتے ہیں۔
پالیسی میں یہ واضح شرط رکھی گئی تھی کہ ملکی ایئرلائنز اپنی گنجائش کا کم از کم ایک مخصوص حصہ یعنی 10 فیصد پرائمری روٹس پر اور 5 فیصد سماجی و معاشی روٹس پر استعمال کریں گے۔
دراصل یہ روٹس نہ صرف سیاحتی اور تجارتی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ان علاقوں کے لیے زندگی کی شہ رگ ہیں، خاص طور پر برفباری یا طویل زمینی فاصلوں کے باعث یا زمینی سفر متاثر ہونے کی صورت میں یہ روٹس بہت زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
2019 کی پالیسی — ایک ادھورا وعدہ؛2019 کی قومی ایوی ایشن پالیسی میں تجویز دی گئی تھی کہ غیر منافع بخش مگر اہم روٹس کو مراعات اور مالی معاونت دی جائے۔ مسودے میں کہا گیا تھا کہ ایسے روٹس پر پرواز کرنے والے آپریٹرز کو آپریشنل ٹیکسز اور چارجز میں رعایت دی جائے، اور حکومت یا پی سی اے اے ایک باقاعدہ نظام کے تحت ایئرلائنز کو ادائیگی کرے۔
تاہم یہ معاوضہ اسکیم حتمی پالیسی میں شامل نہ ہو سکی اور نہ ہی اس پر عملدرآمد ہوا، جس کے نتیجے میں پی آئی اے اور دیگر چند ایئرلائنز کو ان روٹس پر مالی نقصان کے باوجود سروس جاری رکھنی پڑی۔
2024 کی پالیسی — خاموشی یا غفلت؟قومی ایوی ایشن پالیسی 2024 میں سماجی و معاشی روٹس کے معاوضے کے حوالے سے کوئی واضح عوامی اپ ڈیٹ موجود نہیں۔ اگرچہ 2024 کے آخر میں کابینہ نے بعض پالیسی حصوں میں نرمی کرتے ہوئے سیرین ایئر اور ایئر بلیو کو بین الاقوامی پروازیں شروع کرنے کی اجازت دی، مگر سماجی و معاشی روٹس کے لیے سبسڈی یا قانونی ذمہ داری پر خاموشی برقرار رہی۔
نجکاری کے بعد کیا ہوگا؟نجکاری کے بعد نجی سرمایہ کار تجارتی منافع کو ترجیح دیں گے، اور غیر منافع بخش روٹس عموماً ان کے بزنس ماڈل میں شامل نہیں ہوتے۔ اگر پالیسی میں مضبوط قانونی شق نہ ہوئی تو:
ان روٹس پر پروازیں کم یا بند ہو جائیں گی۔ مقامی آبادی سیاحت اور تجارت کے مواقع سے محروم ہو جائے گی۔ ہنگامی طبی سہولتوں اور اشیائے ضروریہ کی ترسیل میں مشکلات پیدا ہوں گی۔ بین الاقوامی ماڈلز کیا کہتے ہیں؟آسٹریلیا، کینیڈا اور یورپی یونین میں Public Service Obligation (PSO) پروگرام نافذ ہے، جس کے تحت حکومت نجی ایئرلائنز کو سبسڈی دیتی ہے، اور یہ قانون کے تحت لازمی ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس نوعیت کا کوئی مؤثر قانونی ڈھانچہ نہیں۔
سفارشات:سماجی و معاشی روٹس کو قانونی لازمی خدمت کا درجہ دیا جائے۔
شفاف سبسڈی اسکیم بنائی جائے جو نجکاری کے بعد بھی برقرار رہے۔
بجٹ میں اس مقصد کے لیے مستقل فنڈ مختص ہو اور سالانہ عوامی رپورٹ شائع ہو۔
نجکاری معاہدے میں لازمی شق رکھی جائے کہ خریدار یہ روٹس برقرار رکھے، بصورت دیگر جرمانہ ہو۔
2019 میں جو وعدہ کاغذ پر کیا گیا، وہ کبھی حقیقت نہ بن سکا۔ 2024 کی پالیسی نے بھی اس خامی کو برقرار رکھا۔ اگر نجکاری سے قبل مضبوط قانونی و مالی تحفظات شامل نہ کیے گئے تو شمالی اور ساحلی علاقوں کے عوام فضائی تنہائی کا شکار ہو جائیں گے۔
یہ صرف ایک پالیسی کی ناکامی نہیں، بلکہ قومی یکجہتی اور علاقائی ترقی پر کاری ضرب ہوگی۔ظرورت اس امر کی ہے کہ اس confusion کو فوری طور پر ختم کر کے ایک پالیسی مرتب کی جائے۔
تحریر: عبید الرحمٰن عباسی
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ایوی ایشن پی آئی اے نجکاری