data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ان دنوں ہمیں امریکا کی ہوائوں سے تین چار الفاظ سننے کو مل رہے ہیں تم بہت بہترین ہو، تم بہت زیرک ہو، تم بہت بہادر اور سمجھ دار ہو۔ یہ الفاظ تو بہت ہی خوش نما ہیں مگر ان کے اندر کا زہر سمجھنے کی ضرورت ہے جو ان الفاظ کے اندر کا زہر سمجھ گیا وہی بہادر بھی ہے اور وہی زیرک اور سمجھ دار بھی ہے۔ یہ الفاظ ہمارے لیے سب سے پہلے جارج مارشل نے ادا کیے تھے وہ اس وقت امریکی وزیر خارجہ تھے اور پاکستان ابھی نیا نیا اور تازہ تازہ بنا تھا؛ بالکل ایک نوزائیدہ ریاست تھی۔ ہم نے یہ الفاظ سنے اور جھوم اٹھے، پھر پہلا سرکاری دورہ بھی امریکا ہی کا کیا گیا۔ وقت آگے بڑھتا رہا اور اس دورے کے بعد پاکستان میں کوئی جمہوری حکومت ٹک نہیں سکی حتیٰ کہ مارشل لا نافذ ہوگیا اور ’’بہادر‘‘ آدمی نے کمان سنبھال لی پھر کیا ہوا؟ سب سے پہلے ایبڈو آیا اور اعلان ہوا کہ میرے ساتھ ہے وہ ایمان دار اور جو نہیں وہ سب کرپٹ ہیں اور وہ مقدمات کے لیے تیار ہوجائیں۔ بس پھر پولیس بندے پکڑتی اور کہتی کہ اوپر سے پوچھ کر بتائیں گے کہ کیا مقدمہ بنانا ہے؟ اس کے بعد بہادر آدمی آگے بڑھتا ہے مشرقی پاکستان والوں کو پیغام بھیجتا ہے کہ تو الگ ہوجائو، جسٹس منیر یہ پیغام لے کر جاتے ہیں اور مشرقی پاکستان سے جواب آتا ہے ابسلوٹلی ناٹ! لیکن وقت اور بات آگے بڑھتی رہتی ہے کہ 1965 آجاتا ہے پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ میں الجھ جاتا ہے۔ ہمارے جوان سرحدوں کی حفاظت کرتے کرتے شہید ہوجاتے ہیں اور ہم ماسکو میں یہ جنگ مذاکرات کی میز پر ہار جاتے ہیں۔ قبضہ کیے ہوئے دشمن کے علاقے واپس کردیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بہادر آدمی کو بھٹو کی شکل میں وزیر خارجہ میسر ہوتا ہے، جس کی اپنے بہادر آدمی سے نہیں بنتی، جب بھٹو کو شاستری کے بارے میں یوں اطلاع ملی کہ وہ باسٹرڈ مرگیا ہے، بھٹو صاحب نے پوچھا کون باسٹرڈ مرا ہے۔ یہ الفاظ بہادر آدمی کے ساتھ بھٹو صاحب کے تعلقات کی بہترین عکاسی کرتے ہیں اس وقت امریکا میں چیری بولن وزیر خارجہ تھے پکے اسرائیلی تھے لہٰذا پاکستان کیسے جیت سکتا تھا۔ معاہدہ تاشقند ہوا، نقصان ہمارا ہوا، پھر بھی ہمیں کہا گیا کہ تم بہت بہادر ہو۔ پھر 1971 آجاتا ہے اور ایک بار پھر پاک بھارت جنگ چھڑ جاتی ہے اور یہ جنگ ٹائی فائیڈ بخار ثابت ہوئی، یہ بخار بھی اپنی نشانیاں چھوڑ جاتا ہے۔ اس جنگ کے بعد ہم مشرقی پاکستان سے محروم ہوئے، اس کے بعد بھٹو صاحب شملہ جاتے ہیں اور 2 جولائی 1972‘ اس وقت ٹکا خان آرمی چیف تھے۔ یہ بھٹو صاحب کے شیدائی کہ ان کی پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے، ہولی فیملی اسپتال کے بالکل قریب ان کی رہائش گاہ، کوئی اب انہیں جانتا بھی نہیں اور اس وقت ہمیں ’’تم بہت بہادر ہو‘‘ کہنے والوں میں امریکی وزیر خاجہ ویلیم راجر پیش پیش تھے۔
1971 تو ہم سانحات سہتے سہتے پہنچ گئے اور بہادر بھی کہلاتے رہے۔ اس کے بعد جہاد افغانستان آجاتا ہے ایک جانب روس ہے اور دوسری جانب امریکا۔ لڑنے والے افغان مجاہدین؛ پاکستان میں جناب ضیاء الحق حکمران، امریکی مجاہدین کی ڈاڑھی کو ہاتھ لگا کر کہتے تھے کہ تم تو فرشتے ہو فرشتے۔ جہاد افغانستان کے اس سارے زمانے میں الیگزینڈر ہیگ، وارن کرسٹو فر، ڈیوڈ نیوزم، رچرڈ کوپر، سائرس وینس، ایڈمنڈ اسکائی اور جارج شلز امریکی وزیر خارجہ رہے یہ ہمارے پیسے لے کر مکر گئے اور ہمارے ایف سولہ طیارے روکتے رہے، اس کے بدلے گندم لینے کا کہتے رہے۔ یہ سب لوگ ہمارے حکمرانوں کے لیے ایک ہی گردان کرتے رہے کہ تم بہت بہادر ہو۔ اس کے بعد 1989 سے 1995 تک؛ جو کچھ افغانستان میں ہوتا رہا یہ ایک تلخ تاریخ ہے۔ معاہد پشاور ہوا، معاہدہ مکہ مکرمہ ہوا، ان سب کا کیا نتیجہ نکلا؟ 1995 میں طالبان آگئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکے وزیر داخلہ نصیر اللہ خان بابر نے کہا کہ یہ میرے بیٹے ہیں اور رحمن ملک اس وقت ایف آئی اے میں تھے۔ سب لین دین کے نگران‘ نصیر اللہ خان کے ’’بیٹوں‘‘ کی حکومت امریکا نے سب سے پہلے تسلیم کی اور پھر 2001 آگیا، نائن الیون کی تباہی آئی تو یہی مجاہدین جو کبھی فرشتے تھے راتوں رات دہشت گرد بن گئے۔ انہیں زمین سے نکال نکال کر مارا جانے لگا۔ امریکا دو کام کر رہا تھا افغانستان کے پہاڑوں میں اسامہ کو تلاش کرنے کے نام پر طاقت ور بم مار رہا تھا اور پہاڑوں کے ٹکڑے لے جا کر ان کا تجزیہ کر رہا تھا کہ یہاں کون کون سی معدنیات ہیں۔ یوں اس ساری جنگ میں اس نے افغانستان کے قدرتی وسائل کا پورا پورا ادراک حاصل کرلیا۔ ہمیں اس وقت بہادر آدمی کی صورت میں پرویز مشرف میسر تھے‘ جنہوں نے کہا کہ ’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ پھر امریکا کو زمینی راستہ بھی دیا، فضائی روٹ بھی دیے اور پوری پوری لاجسٹک سپورٹ بھی۔ آج ایک بار پھر ہم تم بہت بہادر ہو، زیرک ہو، سمجھ دار ہو، کی گردان سن رہے ہیں۔ اللہ ہمارے ملک کی، ہماری سرحدوں کی، ہمارے قومی مفادات کی، ہماری مسلح افواج کی، ہماری قوم کی اور ہمارے قدرتی سائل کی حفاظت فرمائے آمین ثم آمین۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تم بہت بہادر ہو بہادر آدمی سب سے پہلے بھٹو صاحب اس کے بعد یہ الفاظ جاتے ہیں ہیں اور ہے اور
پڑھیں:
بدین،راہموں برادری کے 4 افراد کے قتل کیخلاف اہم مشاورتی اجلاس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بدین (نمائندہ جسارت )گولارچی کے قصبہ کھورواہ میں راہمون برادری کا اہم مشاورت ، پولیس افسران کے خلاف مخالفین کی پشت پناہی کرنے کے الزامات، راہموں برادری کے چار بے گناہ افراد کے قاتلوں کی گرفتاری اور انصاف کی فراہمی کا مطالبہ ۔تفصیلات کے مطابق راہموں برادری کے قتل ہونے والے چار نوجوانوں کے قتل میں ملوث ملزمان کی پولیس کی جانب سے پشت پناہی کرنے اور کیس کی تفتیش میں رکاوٹیں ڈالنے پر غور فکر اور اجتماعی لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ضلع بدین کی تحصیل گولارچی کے قصبہ کھورواہ کے گاؤں ملک اللہ بچایو میں راہمون برادری کی جانب سے ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا جس میں برادری سے تعلق رکھنے والی سیاسی سماجی شخصیات برادری کے معززین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔اس موقع پر راہموں برادری کے ایک مشترکہ بیانیہ میں کہا گیا کہ 2015ء میں ہماری خریدی گئی زمین پر شرپسند عناصر نے حملہ کیا اور ہمارے 4نوجوانوں کو شہید کیا، مگر ہم نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، کسی قسم کا انتشار نہیں پھیلایا اور انتظامیہ سے مکمل تعاون کیا۔ اس وقت انتظامیہ نے مکمل انصاف کی یقین دہانی کرائی، جس کے بعد ہم نے قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے پرامن جدوجہد جاری رکھی۔ تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انتظامیہ نے انصاف دینے کے بجائے الٹا ہمارے افراد پر جھوٹی ایف آئی آرز درج کیں۔ باوجود اس کے ہم نے قانونی طریقہ اپنایا، عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کیں، مگر اب بھی کھورواہ تھانے کے ایس ایچ او محمد خان کلوئی اور گولارچی کے ڈی ایس پی عبدالرحیم خاصخیلی جو اس کیس کے تفتیشی افسر بھی نہیں ہیں، اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے ہمارے عام لوگوں کو مسلسل ہراساں کر رہے ہیں۔ اجلاس میں راہمون قبیلے کے معززین جن میں چیئرمین صالح راہمون، ایڈووکیٹ انور راہمون، سائیں اچار راہمون، مصطفی راہمون، عبدالغنی راہمون، ڈاکٹر عبدالمجید راہمون، چیئرمین خدابخش راہمون، شعیب سندھی، عظیم سندھی، راجا عرس، مدد علی راہمون سمیت دیگر وزیر داخلہ سندھ ، آئی جی سندھ، ڈی آئی جی حیدرآباد اور ایس ایس پی بدین سے پرزور مطالبہ کیا کہ کھورواہ تھانے کے ایس ایچ او محمد خان کلوئی اور ڈی ایس پی گولارچی عبدالرحیم خاصخیلی کو فوری طور پر عہدوں سے ہٹایا جائے۔ ان کی جگہ ایماندار اور غیر جانبدار افسران کو تعینات کیا جائے۔ اس واقعے میں ملوث روپوش ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور راہمون برادری میں پائی جانے والی بے چینی کو ختم کر کے فوری انصاف فراہم کیا جائے۔اس موقع پر راہمون برادری نے خبردار کیا کہ اگر ان کے جائز مطالبات پورے نہ کیے گئے تو وہ احتجاج کا آئینی اور جمہوری حق محفوظ رکھتے ہیں اور حالات جو بھی ہوں گے اس کے ذمہ دار محکمہ پولیس اور ہمارے مخالفین ہوں گے . کیونکہ جن ماں باپ کے لخت جگر ، بہن بھائیوں کے بھائی ، بیٹے بیٹیوں کے وارث اور بیویوں کے شریک حیات کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے ان کا صبر اور برداشت لبریز ہو گیا ہے۔