data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ان دنوں ہمیں امریکا کی ہوائوں سے تین چار الفاظ سننے کو مل رہے ہیں تم بہت بہترین ہو، تم بہت زیرک ہو، تم بہت بہادر اور سمجھ دار ہو۔ یہ الفاظ تو بہت ہی خوش نما ہیں مگر ان کے اندر کا زہر سمجھنے کی ضرورت ہے جو ان الفاظ کے اندر کا زہر سمجھ گیا وہی بہادر بھی ہے اور وہی زیرک اور سمجھ دار بھی ہے۔ یہ الفاظ ہمارے لیے سب سے پہلے جارج مارشل نے ادا کیے تھے وہ اس وقت امریکی وزیر خارجہ تھے اور پاکستان ابھی نیا نیا اور تازہ تازہ بنا تھا؛ بالکل ایک نوزائیدہ ریاست تھی۔ ہم نے یہ الفاظ سنے اور جھوم اٹھے، پھر پہلا سرکاری دورہ بھی امریکا ہی کا کیا گیا۔ وقت آگے بڑھتا رہا اور اس دورے کے بعد پاکستان میں کوئی جمہوری حکومت ٹک نہیں سکی حتیٰ کہ مارشل لا نافذ ہوگیا اور ’’بہادر‘‘ آدمی نے کمان سنبھال لی پھر کیا ہوا؟ سب سے پہلے ایبڈو آیا اور اعلان ہوا کہ میرے ساتھ ہے وہ ایمان دار اور جو نہیں وہ سب کرپٹ ہیں اور وہ مقدمات کے لیے تیار ہوجائیں۔ بس پھر پولیس بندے پکڑتی اور کہتی کہ اوپر سے پوچھ کر بتائیں گے کہ کیا مقدمہ بنانا ہے؟ اس کے بعد بہادر آدمی آگے بڑھتا ہے مشرقی پاکستان والوں کو پیغام بھیجتا ہے کہ تو الگ ہوجائو، جسٹس منیر یہ پیغام لے کر جاتے ہیں اور مشرقی پاکستان سے جواب آتا ہے ابسلوٹلی ناٹ! لیکن وقت اور بات آگے بڑھتی رہتی ہے کہ 1965 آجاتا ہے پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ میں الجھ جاتا ہے۔ ہمارے جوان سرحدوں کی حفاظت کرتے کرتے شہید ہوجاتے ہیں اور ہم ماسکو میں یہ جنگ مذاکرات کی میز پر ہار جاتے ہیں۔ قبضہ کیے ہوئے دشمن کے علاقے واپس کردیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بہادر آدمی کو بھٹو کی شکل میں وزیر خارجہ میسر ہوتا ہے، جس کی اپنے بہادر آدمی سے نہیں بنتی، جب بھٹو کو شاستری کے بارے میں یوں اطلاع ملی کہ وہ باسٹرڈ مرگیا ہے، بھٹو صاحب نے پوچھا کون باسٹرڈ مرا ہے۔ یہ الفاظ بہادر آدمی کے ساتھ بھٹو صاحب کے تعلقات کی بہترین عکاسی کرتے ہیں اس وقت امریکا میں چیری بولن وزیر خارجہ تھے پکے اسرائیلی تھے لہٰذا پاکستان کیسے جیت سکتا تھا۔ معاہدہ تاشقند ہوا، نقصان ہمارا ہوا، پھر بھی ہمیں کہا گیا کہ تم بہت بہادر ہو۔ پھر 1971 آجاتا ہے اور ایک بار پھر پاک بھارت جنگ چھڑ جاتی ہے اور یہ جنگ ٹائی فائیڈ بخار ثابت ہوئی، یہ بخار بھی اپنی نشانیاں چھوڑ جاتا ہے۔ اس جنگ کے بعد ہم مشرقی پاکستان سے محروم ہوئے، اس کے بعد بھٹو صاحب شملہ جاتے ہیں اور 2 جولائی 1972‘ اس وقت ٹکا خان آرمی چیف تھے۔ یہ بھٹو صاحب کے شیدائی کہ ان کی پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے، ہولی فیملی اسپتال کے بالکل قریب ان کی رہائش گاہ، کوئی اب انہیں جانتا بھی نہیں اور اس وقت ہمیں ’’تم بہت بہادر ہو‘‘ کہنے والوں میں امریکی وزیر خاجہ ویلیم راجر پیش پیش تھے۔
1971 تو ہم سانحات سہتے سہتے پہنچ گئے اور بہادر بھی کہلاتے رہے۔ اس کے بعد جہاد افغانستان آجاتا ہے ایک جانب روس ہے اور دوسری جانب امریکا۔ لڑنے والے افغان مجاہدین؛ پاکستان میں جناب ضیاء الحق حکمران، امریکی مجاہدین کی ڈاڑھی کو ہاتھ لگا کر کہتے تھے کہ تم تو فرشتے ہو فرشتے۔ جہاد افغانستان کے اس سارے زمانے میں الیگزینڈر ہیگ، وارن کرسٹو فر، ڈیوڈ نیوزم، رچرڈ کوپر، سائرس وینس، ایڈمنڈ اسکائی اور جارج شلز امریکی وزیر خارجہ رہے یہ ہمارے پیسے لے کر مکر گئے اور ہمارے ایف سولہ طیارے روکتے رہے، اس کے بدلے گندم لینے کا کہتے رہے۔ یہ سب لوگ ہمارے حکمرانوں کے لیے ایک ہی گردان کرتے رہے کہ تم بہت بہادر ہو۔ اس کے بعد 1989 سے 1995 تک؛ جو کچھ افغانستان میں ہوتا رہا یہ ایک تلخ تاریخ ہے۔ معاہد پشاور ہوا، معاہدہ مکہ مکرمہ ہوا، ان سب کا کیا نتیجہ نکلا؟ 1995 میں طالبان آگئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکے وزیر داخلہ نصیر اللہ خان بابر نے کہا کہ یہ میرے بیٹے ہیں اور رحمن ملک اس وقت ایف آئی اے میں تھے۔ سب لین دین کے نگران‘ نصیر اللہ خان کے ’’بیٹوں‘‘ کی حکومت امریکا نے سب سے پہلے تسلیم کی اور پھر 2001 آگیا، نائن الیون کی تباہی آئی تو یہی مجاہدین جو کبھی فرشتے تھے راتوں رات دہشت گرد بن گئے۔ انہیں زمین سے نکال نکال کر مارا جانے لگا۔ امریکا دو کام کر رہا تھا افغانستان کے پہاڑوں میں اسامہ کو تلاش کرنے کے نام پر طاقت ور بم مار رہا تھا اور پہاڑوں کے ٹکڑے لے جا کر ان کا تجزیہ کر رہا تھا کہ یہاں کون کون سی معدنیات ہیں۔ یوں اس ساری جنگ میں اس نے افغانستان کے قدرتی وسائل کا پورا پورا ادراک حاصل کرلیا۔ ہمیں اس وقت بہادر آدمی کی صورت میں پرویز مشرف میسر تھے‘ جنہوں نے کہا کہ ’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ پھر امریکا کو زمینی راستہ بھی دیا، فضائی روٹ بھی دیے اور پوری پوری لاجسٹک سپورٹ بھی۔ آج ایک بار پھر ہم تم بہت بہادر ہو، زیرک ہو، سمجھ دار ہو، کی گردان سن رہے ہیں۔ اللہ ہمارے ملک کی، ہماری سرحدوں کی، ہمارے قومی مفادات کی، ہماری مسلح افواج کی، ہماری قوم کی اور ہمارے قدرتی سائل کی حفاظت فرمائے آمین ثم آمین۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تم بہت بہادر ہو بہادر آدمی سب سے پہلے بھٹو صاحب اس کے بعد یہ الفاظ جاتے ہیں ہیں اور ہے اور
پڑھیں:
14 اور 15 اگست
بات 14 اگست، 15 اگست اور قیام پاکستان کے حوالے سے مسلسل اٹھائے جانے والے دو سوالات پر کرنی ہے، مگر پہلے 14 اگست کا مختصر احوال بیان کرتے ہیں۔
یہ سطریں 14 اگست کی دوپہر لکھ رہا ہوں، ابھی کچھ دیر قبل اہلیہ اور چھوٹے بیٹے کےساتھ باہر کا چکر لگا کر واپس آئے ہیں۔ سڑکوں پر ہلہ گلا اور شور شرابا تھا، بڑے باجے سے پاں پاں کرتے لڑکے بھی نظر آئے، بچے بالے بھی اس میں لگے ہوئے تھے۔ یہ آوازیں بھدی اور بلند تھیں، مگر ماحول ایسا بنا ہوا کہ قابل برداشت لگا۔ ایک بات اچھی لگی کہ عام لوگ باہر نکلے ہوئے ہیں، اپنے اپنے انداز سے وہ جشن آزادی بھی منا رہے ہیں۔
بازاروں میں بھی دکانداروں نے اپنے انداز میں کچھ نہ کچھ اہتمام کر رکھا تھا، ریڑھیوں پر چھوٹے جھنڈے وغیرہ بھی نظر آئے۔ شغل لگانے والوں میں پٹھان لڑکے خاصے نظر آئے۔ لاہور میں پچھلے دس پندرہ برسوں کے دوران ہزاروں لاکھوں پشتون آباد ہوئے ہیں، یہ لوگ مقامی آبادی میں گھل مل گئے ہیں اور ان میں اب پشتون کلچر کے ساتھ لاہوری رنگ بھی جھلکتا ہے، یہی مل جل کر رہنے کی خوبصورتی ہے۔ اس پر خوشی ہوئی کہ تحریک انصاف کے ناراض عناصر کی تلخی، کڑواہٹ اور بعض پشتون قوم پرستوں کے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کا عام آدمی پر زرا برابر بھی اثر نہیں پڑا۔
میں نے کئی فیملیز کو دیکھا، تعلق لیبر کلاس سے لگ رہا تھا، ایک موٹر سائیکل پر میاں بیوی اور دو تین بچے کسی نہ کسی طرح سوار تھے، موسم خوشگوار تھا، وہ آزادی کے دن کا مزا لے رہے تھے۔ کئی فیملیز جو لوئر مڈل یا لوئر کلاس کی لگ رہی تھیں، وہ بھی اپنے چھوٹے بچوں کو سبز کپڑے پہنا کر باہر نکلے، کسی نے ہاتھ میں جھنڈی یا چھوٹا جھنڈا بھی پکڑ رکھا تھا۔ بچیوں کے ہاتھوں میں سبز چوڑیاں وغیرہ، بالوں میں سبز پونی یا ایسا ہی کچھ اور، میں نے اپنے بیٹے پر نظر ڈالی۔ ماں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اس کے لیے سبز شرٹ نکالی تھی، سینے پر پاکستان کے جھنڈے کا بیج بھی ٹانک دیا۔ پاکستانی بچہ لگ رہا تھا، ایک جگہ سے کون کھائی تو آئسکریم کا رنگ سبز اور سفید تھا۔ وہاں سے ہمیشہ مینگو فلیور والی کون ملتی تھی، آج انہوں نے بھی یوم آزادی کا فلیور شامل کردیا، اچھا لگا۔
خاصا لمبا چکر لگایا تھا، مختلف علاقوں میں گئے، یہی مشاہدہ اور احساس تھا کہ سوشل میڈیا کی بعض اوقات زہرآلود فضا کا عملی دنیا سے کوئی تعلق نہیں، عام آدمی پر ہمارے ان زہریلے، کڑوے، متعصبانہ لکھاریوں، نام نہاد قوم پرستوں کا ذرا برابر بھی اثر نہیں۔ پنجابی ہوں یا پٹھان یا پھر سرائیکی، انہوں نے سیاست اور دیگر مسائل کو ایک طرف رکھا اور یوم آزادی کو اپنے انداز سے سیلیبریٹ کیا۔ باقی صوبوں میں بھی ایسا ہوگا مگر ظاہر ہے وہاں کا مشاہدہ نہیں۔ ان میں ظاہر ہے تحریک انصاف کے بھی ہوں گے اور دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بھی، عام آدمی مگر اپنے انداز سے سوچتا ہے، سیاسی جماعت کے کلٹ فالورز کی طرح نہیں۔
فیس بک کھولی تو ہمارے محترم ڈاکٹر مشتاق خان صاحب کی پوسٹ دیکھی۔ ڈاکٹر صاحب آج کل ’وی نیوز‘ پر کالم بھی لکھ رہے ہیں، یہ میرے جیسے لوگوں کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ہم بھی اسی پلیٹ فارم پر شائع ہورہے ہیں، جہاں ان جیسا سکالر اور عالم فاضل چھپ رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پوسٹ میں یہ انکشاف کیاکہ ان کا یوم پیدائش 15 اگست ہے۔ ڈاکٹر مشتاق خان کو اس پر پیشگی مبارک باد ہو۔ 15 اگست کا ذکر انہوں نے محترم عقیل عباس جعفری کے ایک تحقیقی مضمون کی مناسبت سے کیا، جس میں جعفری صاحب نے مختلف دلائل سے کہاکہ قیام پاکستان 14 نہیں 15 اگست کو ہوا۔
مجھے ڈاکٹر مشتاق خان صاحب کی اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی مجبوری کی وجہ سے سہی، کہ اس نے جا کر بھارت کے گورنر جنرل کی پوزیشن سنبھالنا تھی، پاکستان میں انتقالِ اقتدار کی تقریب 14 اگست 1947 کو ہی منعقد کردی اور دوسرا یہ کہ اگلے سال آزادی کی پہلی سالگرہ مناتے ہوئے قائداعظم کی باقاعدہ منظوری کے ساتھ تقریب 14 اگست کو منائی گئی تو اس کے بعد تو بات ہی ختم ہوگئی اور 15 اگست کی کیا گنجائش رہ گئی ہے؟
ڈاکٹر مشتاق صاحب نے یہ خوبصورت جملہ بھی لکھا، ’قائدِاعظم رحمہ اللہ کی خداداد ذہانت کی داد تو دیجیے کہ ایک تو انہوں نے ماؤنٹ بیٹن کو پاکستان کا گورنر جنرل بننے نہیں دیا، دوسرے انتقالِ اقتدار کی رسم بھی ایک دن پہلے کرائی اور پھر اگلے سال آزادی کی تقریب بھی ایک دن پہلے کرکے پاکستان کی الگ امتیازی حیثیت بھی منوالی۔ اللہ قائداعظم کی قبر کو نور سے بھر دے۔ آمین۔‘
میری ذاتی رائے میں اب ان چیزوں سے آگے بڑھنا چاہیے، پاکستان کی آزادی کی تقریب 14 اگست کو طے ہوگئی اور پچھلے 77 برسوں سے ایسا ہورہا ہے تو پھر اب عوامی سطح پر یہ باب کلوز ہوچکا۔ البتہ محققین بے شک اپنا کام کرتے رہیں۔
’وی نیوز‘ پر ہی پچھلے سات آٹھ دنوں کے دوران ڈاکٹر عائشہ جلال کے انٹرویو پر دو اقساط میں کالم لکھے۔ اس پر ہونے والا ردعمل بہت دلچسپ تھا۔ بعض لوگوں کو یہ شکوہ تھا کہ ڈاکٹر عائشہ نے مولانا آزاد پر تنقید کیوں کی؟ حالانکہ ڈاکٹر عائشہ جلال نے مولانا آزاد کی کتاب پر تنقید کی تھی اور یہ کہاکہ جو 30 صفحات مولانا نے 30 برسوں کے لیے محفوظ کرائے، ان میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا کہ انہیں اتنا عرصہ نہ شائع کیا جاتا۔
سچی بات ہے کہ یہ تنقید نہیں بلکہ امر واقعہ ہے۔ مولانا آزاد کے وہ 30 صفحات اب منظر عام پر آ چکے ہیں، ان کی کتاب انڈیا ونز فریڈم کے اردو تراجم میں وہ 30 صفحات شامل ہیں۔ پاکستان میں مختلف پبلشرز نے یہ کتاب شائع کی ہے، کوئی بھی شخص پڑھ کر دیکھ سکتا ہے۔ اسے حیرت ہوگی کہ مولانا آزاد نے یہ ڈھکوسلا کیوں کیا تھا؟ وہ 30 صفحات بھی ساتھ ہی چھاپ دیتے اور اگر واقعی کچھ کھل کر لکھنا ہی تھا تو پھر لکھ ڈالتے، ایسا ہومیو پیتھی سا لکھنے اور 30 سال تک اسے خفیہ رکھنے کے ڈرامے کی کیا تک تھی؟
میں ذاتی طور پر مولانا آزاد کا احترام کرتا ہوں اور ان کے علمی مرتبے کا قائل ہوں، وہ ایک صاف ستھرے اور بے داغ کردار کے حامل شخص تھے۔ ایسا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی مالی مفاد یا عہدے کی لالچ میں کانگریس یا ہندوؤں کے ساتھ تھے، ایسا نہیں ہے۔ یہی حضرت حسین احمد مدنی کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے، مولانا آزاد یا مولانا مدنی کی اپنی رائے یا سوچ تھی، جس سے ہم اختلاف کر سکتے ہیں، مگر یہ شائستگی سے ہونا چاہیے، ان بزرگوں کے ہم عصر اگر ان کے حوالے سے کچھ سخت یا تنقیدی رائے رکھتے بھی تھے تو ہم چھوٹوں کو اس سے باہر ہی رہنا چاہیے۔
ہم مولانا آزاد اور مولانا مدنی کا احترام کرتے ہیں، مگر سمجھتے ہیں کہ وہ انگریزی محاورے کے مطابق رانگ سائیڈ آف ہسٹری پر تھے یعنی تاریخ کی غلط طرف، تاریخ کے دھارے کے برعکس، اسی وجہ سے انہیں شکست ہوئی، ان کا مؤقف غلط ثابت ہوا، سچ تو یہ ہے کہ وہ کانگریس کے بارے میں جو رائے رکھتے تھے، جو کچھ امید انہیں پنڈت نہرو اور ہندوستان کی اکثریتی ہندو آبادی کے بارے میں تھی، وہ بھی سراسر غلط نکلی۔ آج ہر ایک کے سامنے پورا منظر واضح ہے، آج تاریخ نے ثابت کر دیا کہ قائداعظم درست تھے اور ان کے سیاسی مخالف غلطی پر تھے۔
پاکستان میں ایک حلقہ ہمیشہ مولانا آزاد کی پیش گوئیوں کا ذکر کرتا ہے اور یوں تاثر دیتا ہے جیسے مولانا آزاد کوئی غیر معمولی سیاسی وژنری تھے اور ان کی پیش گوئیاں درست نکلیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا آزاد کی اپنے بارے میں، اپنی پارٹی کانگریس کے بارے میں اور اپنے آس پاس کے حوالے سے تمام اندازے، پیش گوئیاں غلط نکلیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پنڈت نہرو وہ کریں گے جو انہوں نے بعد میں کیا۔ مولانا آزاد کو ذرا برابر بھی گمان نہیں ہوگا کہ خود گاندھی جی کی کوشش سے مولانا آزاد کو فیصلہ کن مرحلے میں کانگریس کی صدارت سے الگ کیا جائے گا اور گاندھی خود نہرو کو خط لکھیں گے کہ مولانا آزاد کے بجائے کسی اور مسلمان کو فلاں وزارت دو وغیرہ وغیرہ۔ گاندھی جی کا وہ خط بھی اب منظرعام پر آ چکا ہے۔ تاریخ بڑی بے رحم اور سفاک چیز ہے، یہ ہر ایک کو پوری طرح بے نقاب کر دیتی ہے، غلطیاں ہر ایک سے ہوتی ہیں، مولانا آزاد، مولانا مدنی اور ان کے حامیوں سے بھی ہو گئیں۔
ایک دلچسپ بات یہ کہی جاتی ہے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہندوستان میں مسلمان بہت طاقتور پوزیشن میں ہوتے اور ایک طرح سے اپنی سب باتیں منوا لیتے، میں ان لوگوں کو ایک مشورہ دوں گا کہ زرا انٹرنیٹ پر نائیجریا کے بارے میں سرچ کریں، آج کل تو چیٹ جی پی ٹی یہ کام دو تین سکینڈز میں کر دے گا۔ نائیجریا مسلم اکثریتی ملک ہے جہاں مسلمان (سی آئی اے فیکٹ بک اور بعض دیگر سورسز کے مطابق ) 53 فیصد ہیں یعنی ساڑھے 12 کروڑ کے لگ بھگ۔ دوسری بڑی آبادی مسیحی یعنی عیسائی ہیں، یہ چھیالیس سنتالیس فیصد ہیں، 10 کروڑ 90 لاکھ کے لگ بھگ۔ اس مسلم اکثریتی ملک کے آئین کے مطابق ایک بار صدر مسلمان جبکہ دوسری بارکوئی عیسائی امیدوار بنے گا، مسلمان صدر ہوگا تو نائب صدر عیسائی جبکہ عیسائی صدر ہونے پر نائب صدر مسلمان ہوگا۔
میں نایئجریا جا چکا ہوں، وہاں کی تین چار ریاستوں (کانو، قدونہ، دوسی وغیرہ) میں کئی دن گزارے، اہم شخصیات اور یونیورسٹی طلبہ سے گھنٹوں ڈسکس کیا۔ عیسائی آبادی تعداد میں کم ہونے کے باوجود چھائی ہوئی ہے کیونکہ وہ تعلیم، ملازمتوں، فوج، بیوروکریسی، تجارت وغیرہ میں بہت آگے ہیں۔ مسلمان تعداد میں زیادہ مگر پسماندہ، کم تعلیم یافتہ اور بٹے ہوئے ہیں۔ حال یہ ہے ک مجھے بتایا گیا کہ جب مسلمان صدر بننے کی باری آتی ہے تو کسی کمزور سے شخص کو صدر بنوا دیا جاتا ہے اور مسیحی نائب صدر طاقتور شخص ہوتا ہے تاکہ وہی معاملات حکومت چلاتا رہے۔
یہی سب کچھ ہندوستان میں ہونا تھا اگر پاکستان نہ بنتا۔ اس لیے کہ ہندو بھی مسلمانوں کی نسبت ہر معاملے میں بہت آگے تھے، تعلیم، ملازمتوں، تجارت، مالی وسائل وغیرہ میں۔ انگریز دور ہی میں ہندو نہ صرف ہندو علاقوں بلکہ مسلمان اکثریتی صوبوں میں بھی پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔ حال یہ ہے کہ لاہور جیسے شہروں میں بھی مسلمان دکاندار اکا دکا ہی تھے۔ یہی دیگر شہروں کا حال تھا۔ انگریز فوج میں بھی ہندو بڑی تعداد میں تھے۔ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو مسلمان آبادی ہندوؤں سے تعداد میں نصف کے قریب ہوتی یعنی کل آبادی کا تیس چالیس فیصد مگر چونکہ وہ چند صوبوں میں مرتکز تھے، اس لیے بنگال، پنجاب، سندھ ، سرحد یا کشمیر کے سوا باقی جگہوں پر ان کی صوبائی حکومت نہ بن پاتی، بلکہ غیر منقسم پنجاب میں بھی یونینسٹ، کانگریس، سکھ وغیرہ اتحاد کرکے اپنی حکومت بنا لیتے جیسا کہ پہلے ہوتا رہا تھا۔
میں نے چند منٹ لگا کر اعداد وشمار جمع کیے، ہندوستان کی موجودہ آبادی ایک ارب 46 کروڑ بتائی جاتی ہے، اس میں مسلمانوں کی آبادی انیس بیس کروڑ ہے، 19 کروڑ 70 لاکھ بتائی جا رہی ہے۔ اس میں اگر پاکستان کی مسلم آبادی جو کہ 23 کروڑ 17 لاکھ کہی جاتی ہے اور بنگلہ دیش کی 15 کروڑ مسلم آبادی شامل کر بھی لیں تو کل مسلمان 57 کروڑ 91 لاکھ بنتے ہیں، چلیں 58 کروڑ سمجھ لیں۔ جبکہ بھارت کی غیر مسلم آبادی، پاکستان اور بنگلہ دیش کی غیر مسلم آبادی ٹوٹل ملا کر ایک ارب 31 کروڑ بنتی ہے۔
اب آپ خود ہی حساب کتاب کرلیں کہ ایک ارب 31 کروڑ آبادی جس کا بیشتر حصہ ہندوستان کے 90 فیصد صوبوں میں اکثریت میں ہوتا، اس کے مقابلے میں 58 کروڑ مسلمان جس کا بڑا حصہ منقسم تھا اور وہ صرف تین چار صوبوں میں اپنی صوبائی حکومت بنا پاتے، جو فوج، پولیس، سول سروس، جنرل ملازمتوں، کاروبار، انڈسٹری، تجارت، میڈیا وغیرہ میں ہندوؤں سے بہت بہت پیچھے تھے۔ وہ مسلمان غیر منقسم ہندوستان میں کیا کر لیتے؟َ نائجیریا کے مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود ہر اعتبار سے پیچھے ہیں تو ہندوستانی مسلمانوں میں ایسے کون سے ہیرے موتی جڑے تھے کہ وہ کرشمہ کر دکھاتے؟
سچی بات یہ ہے کہ ہمیں قائداعظم کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنی فہم وفراست اور تجربات سے ہندوقوم پرستی اور کانگریسی لیڈروں کے زہریلے پن اور مخفی تعصبات کا بروقت اندازہ لگا لیا اور آزاد وطن کے مطالبے پڑ ڈٹ گئے۔ یوں ہم ایک الگ، آزاد وطن میں سانس لے رہے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارا یوم آزادی 14 اگست ہے اور ہمیں 15 اگست کو ہندو اکثریت کے ترنگے جھنڈے کو سلامی دینا اور بندے ماترم جیسے گیت گانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں کسی ہندو اکثریتی پارٹی یا ہندو میڈیا کے سامنے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کی بھی کوئی حاجت نہیں۔
رہی بطور پاکستانی ہماری قومی غلطیاں، بلنڈرز، ایڈونچرز وغیرہ، وہ الگ معاملہ ہے۔ ہم ہوش مندی اور سمجھداری سے کام لیتے تو مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا۔ ہم موجودہ پاکستان کو درست سمت میں اور سلیقے سے چلانے کی کوشش کرتے تو جومعاشی حالت آج ہے، اس سے کئی گنا بہتر ہوتی۔ یہ سب مگر آج کیا جا سکتا ہے اور آنے والے کل میں بھی۔ غزہ کے فلسطینیوں نے ہمیں بتا دیا ہے کہ غلام ہونا کتنی بڑی تکلیف اور مصیبت ہے۔ یہ بھی کہ قابض قوتوں سے رہائی کس قدر مشکل ہے، خاص کر جب انہیں عالمی قوتوں کی سپورٹ حاصل ہو، آج کا بھارت جو سپر پاورز کا گماشتہ بننے کو تیار رہتا ہے، اس سے کسی اقلیت کی رہائی اور آزادی ناممکن سا خواب لگتا ہے۔
اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، قائدین تحریک پاکستان کا بھی کہ ٹھیک وقت پر ہم بھارتی شکنجے اور استبداد سے نکل آئے۔ اب اپنی حالت خود سدھارنی ہے۔ اس پر توجہ دیں، وہ کریں جو وقت کی ضرورت ہے، ان شااللہ سب کچھ اچھے سے بدل جائے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
14 اور 15 اگست wenews تقسیمِ ہند جشن آزادی پاکستان دو قومی نظریہ عامر خاکوانی قائداعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کانگریس ہندوستان وطن عزیز کی ترقی وی نیوز