مزدور کی کم ازکم اجرت42ہزار روپے مقررکرنے سے متعلق اہم پیش رفت
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ : واجد حسین انصاری) حکومت سندھ نے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کے احکامات کی روشنی میں مزدور کی کم از کم اجرت میں اضافے سے متعلق اہم پیش رفت شروع کردی ہے اور صوبائی محکمہ محنت نے سندھ میں مزدور کی ماہانہ اجرت کم ازکم 42ہزار روپے مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔ذرائع کے مطابق سندھ میں مزدور کی کم ازکم اجرت میں اضافے کے لئے محکمہ محنت سندھ نے اہم پیش رفت شروع کردی ہے اور محکمے کی جانب سے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے لئے باقاعدہ خط لکھ دیاگیا ہے جس میں کم ازکم ماہانہ اجرت 42ہزار روپے کرنیکی سفارش کی گئی ہے۔مزدوروں کی کم از کم تنخواہ میں اضافے کا فیصلہ مینیمم ویج بورڈ ایکٹ کے تحت بورڈ میٹنگ میں ہوگا جس کا اجلاس (آج) بدھ کو کراچی میںطلب کرلیاگیا ہے۔محکمہ محنت سندھ کے تحریر کردہ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی کی موجودہ شرح کا سب سے زیادہ اثر ورکنگ کلاس پرہوا ہے۔اس لئے اب مزدوروں کی کم از کم ماہانہ اجرت میں اضافہ ضروری ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مینیمم ویج بورڈ کے اجلاس میں میں صنعتی انجمنوں،مالکان کے نمائندے اور لیبر لیڈرز شریک ہوں گے جبکہ سندھ حکومت کی نمائندگی محکمہ لیبر کیافسران کریں گے۔مینیمم ویج بورڈ ہنرمند اور غیر ہنرمند افرادی قوت کی اجرت کاتعین کرے گا۔واضح رہے کہ اس وقت سندھ میں مزدور کی کم ازکم اجرت 37500 روپے ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی حالیہ بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ اس میں اضافہ کیا جائے گا۔ صوبہ خیبرپختونخواہ کی حکومت نے چار ہزار روپے کے اضافے سے کم ازکم اجرت 40000روپے مقرر کی ہے جبکہ پنجاب میں مزدور کی اجرت تین ہزار روپے بڑھا کر چالیس ہزار روپے کی گئی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں مزدور کی مزدور کی کم
پڑھیں:
سکھر ،چھوہارا مارکیٹ میں مزدور خواتین ہراسگی کے باعث ذہنی دبائو کاشکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251005-11-9
سکھر(نمائندہ جسارت)سندھ حکومت کی بے حسی کی انتہا، ایشیا کی سب سے بڑی چھوہارا مارکیٹ میں روزانہ مزدوری کرنے کیلیے آنے والی ہزاروں خواتین سات کلومیٹر پیدل چلنے پر مجبور، خواتین ہراسگی کے باعث ذہنی دباؤ کا شکار، منڈی کے بااثر سیٹھ اور سرکاری ادارے تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آغا قادر داد چھوہارا مارکیٹ میں مزدوری کرنے والی بیشتر خواتین جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ نہ صرف ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام موجود ہے بلکہ خواتین کو چھوہارا منڈی کے ماحول میں مسلسل استحصال اور تذلیل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا قانون برائے انسداد ہراسگی 2010ء واضح طور پر کہتا ہے کہ کام کی جگہ پر خواتین کو ہر قسم کی بدسلوکی، ہراسگی اور غیر انسانی سلوک سے محفوظ رکھنا اداروں اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ، محکمہ لیبر، سوشل سیکورٹی اور ضلعی انتظامیہ سمیت وہ ادارے، جو اس قانون پر عملدرآمد کے پابند ہیں، خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔قانون کے تحت انتظامیہ پر لازم ہے کہ خواتین کو محفوظ ماحول فراہم کرے۔ہراسگی یا تذلیل کی شکایت پر فوری ایکشن لیا جائے۔خلاف ورزی پر ملوث افراد کو سخت سزا اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔مگر چھوہارا مارکیٹ میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ نہ صرف خواتین کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں بلکہ سات کلومیٹر روزانہ پیدل سفر کرکے کام پر پہنچنے والی خواتین کھلے عام استحصال کا شکار ہیں۔ سول سوسائٹی، این جی اوز اور انسانی حقوق کے دعویدار ادارے بھی اس انسانی المیے پر خاموش ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے قانون صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہو اور عملی طور پر خواتین کو انصاف دلانے والا کوئی موجود نہ ہو۔سوال یہ ہے کہ اگر آئین اور قانون کے ہوتے ہوئے بھی خواتین کے ساتھ یہ رویہ روا رکھا جا رہا ہے تو پھر انصاف کہاں ہے؟۔