دالبندین میں آوارہ کتوں کی بھرمار، شہری عدم تحفظ کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چاغی( آئی این پی )دالبندین شہر اور نواحی علاقوں میں آوارہ کتوں کی روز افزوں تعداد شہریوں کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ گلیوں، محلوں، بازاروں اور رہائشی کلیوں میں ان کتوں کی آزادانہ نقل و حرکت نے عوام ، بالخصوص خواتین، بچوں اور طلبہ و طالبات کی زندگی کو شدید متاثر کر دیا ہے۔فیصل کالونی سمیت متعدد علاقوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ دینی مدارس میں زیرِ تعلیم ہزاروں بچے، بچیاں اور خواتین روزانہ ان کتوں کے حملے کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں، خاص طور پر رات کے اوقات (ایک سے دو بجے کے درمیان) میں ان کی موجودگی ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ بعض اوقات یہ کتے گھروں کے دروازوں تک پہنچ جاتے ہیں، جبکہ کئی معصوم بچے اور راہگیر ان کا نشانہ بن چکے ہیں، جس سے علاقہ خوف و ہراس کی لپیٹ میں ہے۔شہریوں کا یہ بھی دعوی ہے کہ اکثر آوارہ کتے احمد وال کے راستے اور گرد و نواح سے لا کر دالبندین میں چھوڑ دیے جاتے ہیں، جس سے صورتحال دن بہ دن سنگین ہوتی جا رہی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
جانوروں کے بھی حقوق ہیں لیکن اشرف المخلوقات کے بچوں کو سڑکوں پر کتے کاٹ رہے ہیں، لاہور ہائیکورٹ
لاہور میں آوارہ کتوں کے شہریوں کو کاٹنے کے بڑھتے واقعات پر ہائیکورٹ نے اہم ریمارکس دیے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس خالد اسحاق نے آوارہ کتوں کے شہریوں کو کاٹنے کے بڑھتے واقعات کیخلاف اور ویکیسن کی فراہمی کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس خالد اسحاق نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ جانوروں کے بھی حقوق ہیں لیکن اشرف المخلوقات کے بچوں کو سڑکوں پر کتے کاٹ رہے ہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ ایک سال میں 1700 سے زائد افراد کتے کے کاٹنے سے متاثر ہو کر میو اسپتال پہنچے ہیں۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ بتائیں وکیل صاحب کیا یہ درست نہیں۔ درخواست گزار کے وکیل ایڈوکیٹ اظہر صدیق نے بتایا کہ ڈی ایچ اے میں بھی آوارہ کتے گھوم رہے ہیں۔
جج نے ہدایت کی کہ لائیو سٹاک، لوکل گورنمنٹ اور محکمہ صحت ایک میٹنگ کریں، سارے محکمے اس حوالے سے مشاورت کریں اور رپورٹ جمع کروائیں۔
واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں اسپتالوں میں کتوں کے کاٹنے کی ویکسین کی بروقت فراہمی کی استدعا کی گئی ہے۔