ٹرمپ کا شہریت محدود کرنیکا حکم نافذ، لاکھوں بچوں کا مستقبل خطرے میں
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کو اپنی ’’قانون کی حکمرانی‘‘ اور ’’صدارتی اختیارات کے تحفظ‘‘ کی فتح قرار دیا ہے۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک مٹھی بھر ’’انتہاء پسند بائیں بازو کے جج‘‘ یونیورسل انجکشنز کا استعمال کرکے انتظامیہ کی پالیسیوں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر سپریم کورٹ نے انکی راہ روک دی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آج امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس متنازع ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف جاری قومی سطح کی پابندی ختم کر دی ہے، جس کے تحت غیر قانونی یا عارضی ویزے پر مقیم والدین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو امریکی شہریت دینے کا عمل روکا جانا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ کے 6-3 کے فیصلے کے بعد اب یہ حکم 28 امریکی ریاستوں میں 27 جولائی 2025ء سے نافذالعمل ہوگا، جس میں ریاست ٹیکساس بھی شامل ہے، جبکہ دیگر 22 ریاستوں میں عدالتوں کے جاری کردہ انجکشنز کے باعث عارضی طور پر اس کے اطلاق پر پابندی برقرار ہے۔ ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کا اطلاق اُن بچوں پر ہوگا، جو 19 فروری 2025ء یا اس کے بعد پیدا ہوئے ہوں اور جن کے والدین غیر قانونی مہاجر ہوں یا محض عارضی ویزہ ہولڈر۔ امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت اب تک ہر ایسے بچے کو پیدائش کے وقت خود بخود امریکی شہریت حاصل ہوتی رہی ہے، مگر ٹرمپ انتظامیہ نے اس شق کی نئی تعبیر پیش کی، جس میں شہریت کو والدین کی قانونی حیثیت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعد جن 28 ریاستوں میں اس حکم پر عملدرآمد کیا جا سکتا ہے، ان میں ٹیکساس، فلوریڈا، اوہائیو، جورجیا، انڈیانا، الاباما، ٹینیسی، کینساس، نیبراسکا، لوئیزیانا، مسیسیپی، آئیووا، نارتھ و ساؤتھ ڈکوٹا، مونٹانا، ویومنگ، آکلاہوما، ایریزونا، نیواڈا، یوٹاہ، میزوری، آرکنساس، آلاسکا، ایڈاہو، ویسٹ ورجینیا، نارتھ کیرولائنا، کینٹکی اور نیو میکسیکو شامل ہیں۔ ان ریاستوں نے یا تو عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا یا عدالت نے ان کے حق میں کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اس کے برعکس کیلیفورنیا، نیویارک، واشنگٹن، میساچوسٹس، میری لینڈ، اوریگون، مشی گن، نیو جرسی، پنسلوانیا، کولوراڈو، منیسوٹا، ورجینیا، ڈیلاویئر، روڈ آئی لینڈ، ہائیوائی، مین، نیواڈا، ورمونٹ، نیو ہیمپشائر، کنیکٹیکٹ، وسکونسن، نیو میکسیکو اور واشنگٹن ڈی سی سمیت 22 ریاستوں اور خود مختار وفاقی دارالحکومت نے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے، جس کے باعث وہاں اس فیصلے پر عملدرآمد فی الحال ممکن نہیں۔
امریکی ادارے امیگرنٹ لیگل ریسورس سینٹر اور امریکن سول لبرٹیز یونین کے مطابق، اس قانون کے اطلاق سے ہر سال تقریباً 1.
درحقیقت، کئی ریاستوں میں نئے مقدمات دائر بھی ہوچکے ہیں، جن میں میری لینڈ اور نیو ہیمپشائر شامل ہیں۔ ان مقدمات کا مقصد اس آرڈر کو وسیع پیمانے پر چیلنج کرنا ہے، تاکہ وہ ریاستیں بھی بچ سکیں، جہاں اب تک عدالتوں نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔ ادھر ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کو اپنی ’’قانون کی حکمرانی‘‘ اور ’’صدارتی اختیارات کے تحفظ‘‘ کی فتح قرار دیا ہے۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک مٹھی بھر ’’انتہاء پسند بائیں بازو کے جج‘‘ یونیورسل انجکشنز کا استعمال کرکے انتظامیہ کی پالیسیوں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر سپریم کورٹ نے ان کی راہ روک دی ہے۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ امریکا میں شہریت کے اصول کو علاقہ وار بنیادوں پر تقسیم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔ اگر ہر ریاست میں شہریت کی تعریف مختلف ہوگئی تو امریکا جیسے وفاقی ریاستی نظام میں قانونی پیچیدگیاں اور معاشرتی تقسیم میں اضافہ ہوگا۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ مسئلہ اب بھی حتمی طور پر حل شدہ نہیں ہے۔ آئندہ عدالتی سیشن میں، جو اکتوبر 2025ء سے شروع ہوگا، سپریم کورٹ کے سامنے یہ سوال باقاعدہ پیش ہوسکتا ہے کہ آیا صدر کا یہ ایگزیکٹو آرڈر چودھویں ترمیم سے متصادم ہے یا نہیں۔ اگر عدالت نے آئینی بنیادوں پر اسے رد کر دیا تو یہ فیصلہ ہمیشہ کے لیے غیر مؤثر ہو جائے گا۔ تاہم اگر عدالت نے اس کی توثیق کر دی تو امریکا میں شہریت کے قانون کی تاریخ میں ایک نیا باب لکھا جائے گا۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے، جس کے اثرات امریکا میں لاکھوں خاندانوں اور بچوں پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ ریاستی اور وفاقی سطح پر آئندہ چند مہینے اس معاملے میں فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔ یہ واضح ہے کہ پیدائشی شہریت جیسے بنیادی حق پر اب سیاست، قانون اور عدلیہ کی جنگ شدت اختیار کرچکی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ نے ریاستوں میں میں شہریت اس فیصلے
پڑھیں:
ایران ایٹمی پروگرام کیجانب بڑھا تو یہ انکا آخری اقدام ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکی حملوں سے پہلے ایران نے یورینیم منتقل نہیں کیا، آبدوزوں سے 30 راکٹ فائر کئے گئے، جو ٹارگٹ پر لگے، خامنہ ای انسانی حقوق سے زیادہ ایٹمی پروگرام کو ترجیح دیتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران ایٹمی پروگرام کی جانب بڑھا تو یہ ان کا آخری اقدام ہوگا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایران پرامن راستے پر چلے گا تو پابندیاں ہٹا دیں گے، ایران جوہری طاقت حاصل کرنے کے قریب تھا، ایران کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ہم کب اور کیسے حملہ کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکی حملوں سے پہلے ایران نے یورینیم منتقل نہیں کیا، آبدوزوں سے 30 راکٹ فائر کئے گئے، جو ٹارگٹ پر لگے، خامنہ ای انسانی حقوق سے زیادہ ایٹمی پروگرام کو ترجیح دیتا ہے۔
ٹیرف کا مقابلہ ٹیرف سے ہی کریں گے، امریکی حکومت معیشت کیلئے بڑے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ امیر لوگوں کا گروپ ٹک ٹاک خریدنا چاہتا ہے، 2 ہفتوں میں بتاؤں گا کہ ٹک ٹاک خریدنے والے کون ہیں، امریکا کی دنیا میں عزت بحال ہوئی ہے، سب قدر کر رہے ہیں، مجھ سے پہلے جو صدر تھا، وہ سیڑھیوں پر گرتا رہتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی نیویارک کا میئر ہو، اسے سیدھا چلنا پڑے گا، مجھے کینیڈا اچھا لگتا ہے، اسے امریکی ریاست ہونا چاہیئے، ایلون مسک الیکٹرک گاڑیوں کے معاملے پر ناراض تھے۔