عمران خان کے بیانئے سے اختلاف، جیل میں قید چار PTI سینئر رہنماؤں نے بحران سے نکلنے کا راستہ ’’مذاکرات‘‘ کو قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جیل میں قید چار سینئر رہنمائوں نے ملک کو درپیش سنگین سیاسی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ ’’سیاسی مذاکرات‘‘ کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سیاسی اور ادارہ جاتی سطح پر فوری مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ یہ موقف پارٹی کے بانی عمران خان کے اس بیانیے سے مختلف ہے جس میں وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت پر آمادگی ظاہر کرتے رہے ہیں۔سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے دستخط شدہ ایک خط میں زور دیا گیا ہے کہ ادارہ جاتی اور سیاسی سطح پر مذاکرات ضروری ہیں، اور مذاکرات فوراً شروع کیے جائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل میں قید رہنمائوں کا یہ خط پارٹی کے کچھ ایسے سرکردہ رہنمائوں کی مشاورت کے ساتھ جاری کیا گیا ہے جو وزیراعظم کی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہتے تھے لیکن عمران خان نے ان کی اس رائے کو مسترد کر دیا تھا۔ لاہور کی جیل میں قید ان رہنمائوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے، ملکی تاریخ کے اس بدترین بحران سے نکلنے کا واحد طریقہ مذاکرات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات ضروری ہیں، سیاسی سطح پر بھی اور اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر بھی۔ خط میں ان رہنمائوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں کسی بھی جانب سے پہل کو تنقید کا نشانہ بنانا دراصل اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہوگا، اور ایسی رکاوٹ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذاکراتی کمیٹی نامزد کی جائے، پیٹرن انچیف عمران خان تک رسائی کو آسان بنایا جائے تاکہ قیادت کے ساتھ مشاورت کیلئے نقل و حرکت آسان ہو سکے، او روقتاً فوقتاً مذاکراتی عمل جاری رہ سکے۔ ’’دی نیوز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے خط کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں قید رہنمائوں سے ہمیں یہ خط مل گیا ہے، خط اصل ہے، ہم ان کی رائے پر غور کر رہے ہیں۔ تاہم، اس خط کے مندرجات عمران خان کے موقف سے بہت مختلف ہیں۔ سابق وزیراعظم نے چند روز قبل واضح الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ وہ موجودہ حکومتی اتحاد سے کسی قسم کی بات چیت کیلئے تیار نہیں، اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کو ممکن سمجھتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ موجودہ حکمران مبینہ انتخابی دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں۔یہ پیش رفت پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے اندر بڑھتے اختلاف رائے کی عکاس ہے، جہاں پارٹی کے جیل میں قید سینئر رہنما اب کھل کر اقتدار میں بیٹھی موجودہ سیاسی قوتوں سے بھی بات چیت کی حمایت کر رہے ہیں تاکہ موجودہ سیاسی جمود کو توڑا جا سکے۔
انصار عباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جیل میں قید کا کہنا تھا کہ
پڑھیں:
پاکستان میں اکثر چینی کا بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اگست 2025ء) پاکستان میں چینی کی اس قلّت کے پیچھے چند وجوہات ہیں جو اسی تواتر سے ہر سال ایک سی ہی رہی ہیں۔ سب سے پہلے آپ کو پاکستان کے صوبے بلوچستان لے چلتے ہیں۔ یہاں پر پچھلے دو سالوں سے چینی کی پنجاب سے بلوچستان آمد اور پھر بلوچستان کے راستے افغانستان اسمگل ہونے کی خبریں اکثر سامنے آتی رہی ہیں۔
سرکاری افسران اور بس میں سفر کرنے والوں نے بتایا کہ یہ چینی بسوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی جاتی رہی ہے۔ کسٹمز حکام نے بھی اس کی تصدیق کی اور دعویٰ کیا کہ 2023 میں ہر دوسرے روز کوئٹہ سے 100 ٹن چینی اور ہفتے میں 700 ٹن چینی غیر قانونی راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی گئی۔
جہاں اس اسمگلنگ میں پچھلے تین سالوں میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا وہیں اس سال اسمگلنگ سے متعلق کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔
(جاری ہے)
اس کی وجہ حکام یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی چینی مہنگی ہے جس سے اس کی غیر قانونی خرید و فروخت میں کمی آئی ہے جبکہ افغانستان میں اس وقت قدرے کم قیمت پر بھارتی چینی بازاروں میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس لیے اس وقت اسمگلنگ میں پہلے کے مقابلے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اب پاکستان سے چینی افغانستان اور دیگر ممالک باقاعدہ طور پر برآمد کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اب یہی چینی قانونی راستوں سے افغانستان پہنچتی ہے۔
بلوچستان میں ایک صوبائی افسر نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''ان واقعات کو دیکھتے ہوئے سرکاری سطح پر چینی لانے اور لے جانے والوں کے لیے پرمِٹ رکھنا اور چیک پوسٹوں پر دکھانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ بے شک آپ کی گاڑی یا ٹرک کئی بار اسی چیک پوسٹ سے گزرے ہوں، آپ سے پرمِٹ مانگا جائے گا۔‘‘
واضح رہے کہ پرمِٹ پہلے بھی دکھائے جاتے تھے لیکن ایک صوبائی افسر نے بتایا کہ ''کچھ گاڑیوں کا پرمِٹ چیک نہیں کیا جاتا،‘‘ جس کے نتیجے میں چینی گاڑیوں اور بسوں کے ذریعے اسمگل ہوتی رہی۔
تاجروں کے مطابق قانونی راستوں سے چینی یا خورد و نوش کی کوئی بھی اشیا بھیجنے میں منافع کم ملتا ہے۔مذکورہ افسر نے مزید کہا کہ اب ''پنجاب سے چینی اس مقدار میں نہیں آرہی جتنی پہلے آتی تھی۔ تو اسمگلنگ کا مارجن پہلے سے قدرے کم ہو گیا ہے۔‘
‘
حالیہ 'بحران‘ کیسے اور کیوں بنی؟سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''یہ ایک مصنوعی بحران ہے جسے ہر سال مِل مالکان کو فائدہ دینے کے لیے بنایا جاتا ہے۔
اور پھر گنّے کی کرشنگ کا موسم آتے ہی (جس دوران مِل مالکان خسارے میں ہوتے ہیں) ختم کردیا جاتا ہے تاکہ سب برابر کما سکیں۔‘‘انہوں نے کہا کہ ''حکومت نے 757,597 میٹرک ٹن چینی 2024-2025 میں برآمد کی جس سے قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ اس سے پہلے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت میں ایسا کیا گیا تھا جب بغیر کسی پلان اور حکمتِ عملی کے 900000 میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی تھی۔
آپ کو اگر چینی برآمد کرنی ہی ہے تو آپ پہلے 100000 میٹرک ٹن برآمد کریں تاکہ آپ کو مارکیٹ اور حقائق کا پتا چل سکے۔ مارکیٹ اور برآمد کے نتائج جانے بغیر آپ اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں؟‘‘مفتاح نے کہا کہ ''ان کا مقصد چینی کی قیمت بڑھانے سے ہے نا کہ معاملات سنبھالنے سے۔ یہ مِل مالکان اور ان کے دوستوں پر مشتمل طبقہ ہے جو اس بحران سے منافع کماتا ہے۔
‘‘واضح رہے کہ چینی کی قیمت جولائی کے مہینے میں 210 روپے فی کلو ہوئی جس کے بعد اب حکومت نے اسے 163 روپے فی کلو پر روک دیا ہے۔
اس کے بارے میں معاشی تجزیہ کار شمس الاسلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "2024-2025 کے دوران پاکستان نے تقریباً 84 ملین ٹن گنے اور 70 لاکھ چینی کی پیداوار کی، اس کے باوجود اس بڑے پیمانے پر پیداوار کے فوائد عام کاشت کاروں تک نہیں پہنچتے۔
اس کے ساتھ ہی ایک شوگر کارٹیل قیمتوں اور پیداوار کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ اور حکومت کی جانب سے بنائے گئے بحران کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔‘‘شمس الاسلام نے کہا کہ یہ ایک 'منصوبہ بند بحران‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر سال شوگر کارٹیل ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، جس سے مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے۔ یہ حکومت کو برآمدات کی منظوری دینے پر مجبور کرتا ہے، جس سے مِلوں کو مقامی قیمتوں میں افراط زر کو برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی مارکیٹ کے نرخوں سے کم فروخت کرنے کی اجازت ملتی ہے۔
شمس الاسلام نے کہا کہ برآمدات مکمل ہونے کے بعد، کارٹیل خام چینی کی درآمد کا مطالبہ کرتا ہے، سپلائی کے بحران کا دعویٰ کرتا ہے، قیمتوں میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت یوٹیلٹی اسٹورز اور 'سستی چینی بازار' کے ذریعے چینی کی فروخت پر بھاری سبسڈی خرچ کرتی ہے۔ شوگر ملز کو صنعت کی مدد کے بھیس میں اربوں کی سرکاری سبسڈی ملتی ہے۔
‘‘جب چینی کی عالمی قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل برآمدی سبسڈی کا مطالبہ کرتا ہے، ٹیکس دہندگان کو اپنے منافع کو فنڈ دینے پر مجبور کرتا ہے۔ جب بین الاقوامی سطح پر قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل مقامی قیمتوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے درآمدات کو روکتا ہے۔
اس بحران سے فائدہ کس کو ہوتا ہے؟شمس الاسلام نے کہا کہ ''اس کا فائدہ انہیں خاندانوں کو ہوتا ہے جو پاکستان پر حکومت کرتے ہیں۔
‘‘انہوں نے کہ پاکستان کی شوگر انڈسٹری مارکیٹ فورسز کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس پر سیاسی اشرافیہ کا غلبہ ہے۔ سب سے بڑے مل مالکان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔ بااثر بیورو کریٹس اور کاروباری شخصیات جو ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی کے لیے لابنگ کرتے ہیں، اور بڑی شوگر ملوں میں براہ راست حصص رکھنے والے ریٹائرڈ فوجی اہلکار سب شامل ہیں۔‘‘
سحر بلوچ
ادارت: جاوید اختر