جھوٹی معلومات کے خلاف لڑنے کے لیے ایک مؤثر بین الاقوامی میکنزم تشکیل، بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر کا اقوام متحدہ سے بڑا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
بنگلادیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے بدھ کے روز اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ میڈیا میں اخلاقی اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنانے اور جھوٹی معلومات کے خلاف لڑنے کے لیے ایک مؤثر بین الاقوامی میکنزم تشکیل دے۔
یہ بات انہوں نے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس جمونا میں یونیسکو کی نمائندہ سوسن وائیز اور مہدی بن صلاح (سینئر پراجیکٹ آفیسر، فریڈم آف ایکسپریشن اینڈ سیفٹی آف جرنلسٹس سیکشن، یونیسکو) سے ملاقات کے دوران کہی، جیسا کہ چیف ایڈوائزر کے پریس ونگ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا۔
جھوٹی معلومات سب سے بڑا چیلنجچیف ایڈوائزر نے کہا کہ ملک کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جھوٹی اور گمراہ کن خبروں کا درپیش ہے۔
’بعض جعلی خبریں بیرون ملک سے پھیلائی جاتی ہیں اور بعض میں مقامی افراد بھی ملوث ہوتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل حملہ ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے اقوامِ متحدہ کا بنگلہ دیش میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں پر گہری تشویش کا اظہار
انہوں نے کہا کہ نہ صرف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بلکہ روایتی میڈیا بھی بعض اوقات اس مسئلے میں شریک ہوتے ہیں۔
میڈیا سے بات کی جائے، صرف حکومت سے نہیںچیف ایڈوائزر نے کہا کہ آپ صرف حکومت سے بات نہ کریں، بلکہ میڈیا سے بھی مکالمہ کریں۔ اگر کوئی میڈیا ادارہ مسلسل غلط معلومات پھیلاتا ہے تو اسے بتایا جانا چاہیے کہ یہ ناقابلِ اعتماد ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ میڈیا میں آزادانہ خود احتسابی کا نظام ہونا چاہیے تاکہ اعتماد کی بحالی ممکن ہو۔ آپ اقوامِ متحدہ ہیں۔ آپ کی بات کی اہمیت ہے۔ ہمیں آپ کی حمایت درکار ہے۔
یونیسکو کی رپورٹ کا اجرایہ ملاقات یونیسکو اور اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام (UNDP) کی مشترکہ رپورٹ “An Assessment of Bangladesh’s Media Landscape” کے اجرا سے قبل ہوئی، جس میں آزاد، خودمختار اور متنوع میڈیا کے فروغ پر توجہ دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیوں پر اقوام متحدہ کو تشویش
یونیسکو کی نمائندہ سوسن وائیز نے کہا کہ یہ رپورٹ اس بات پر عکاسی کرتی ہے کہ کون سے پہلو مؤثر ہیں اور کون سے نہیں۔ اس میں بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ سفارشات شامل ہیں، جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ اور افسران کی تربیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
صحافیوں کے تحفظ اور کام کے ماحول پر بھی سفارشاتمہدی بن صلاح نے بتایا کہ رپورٹ میں صحافیوں، بالخصوص خواتین صحافیوں کی سلامتی اور میڈیا اداروں میں ان کے لیے سازگار ماحول پر بھی سفارشات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے حکومت کا کلیدی کردار ہوگا۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ یو این ڈی پی کے SIPS (Strengthening Institutions, Policies and Services) منصوبے کے تحت اور یونیسکو کے اظہارِ رائے کی آزادی کے منشور سے ہم آہنگ ہو کر تیار کی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ بنگلہ دیش ڈاکٹر محمد یونس میڈیا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ بنگلہ دیش ڈاکٹر محمد یونس میڈیا چیف ایڈوائزر اقوام متحدہ بنگلہ دیش نے کہا کہ انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
انسانی انخلاء کے نام پر فلسطینیوں کی جبری ہجرت کے خفیہ بین الاقوامی نیٹ ورک کا انکشاف
رپورٹ میں جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوزا کا بیان شامل ہے جن کے مطابق ان کی حکومت اس پرواز سے حیران رہ گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ غزہ کے لوگ ہیں جنہیں کسی نامعلوم طریقے سے طیارے میں بٹھایا گیا، جس نے نیروبی عبور کیا اور یہاں تک پہنچا۔ اسلام ٹائمز۔ انسانی انخلا کے نام پر فلسطینیوں کی جبری ہجرت کے خفیہ بین الاقوامی نیٹ ورک کا انکشاف ہوا ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کی ایک رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں نے "المجد یورپ" نامی ایک تنظیم کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں جس نے غزہ کی پٹی سے جنوبی افریقہ تک پروازیں منظم کیں۔ یہ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انسانی ہمدردی کے پردے میں یہ تنظیم مبینہ طور پر انسانی سمگلنگ میں ملوث ہے۔ یہ انکشاف الجزیرہ انگلش کی نشر کردہ ایک ویڈیو رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔ رپورٹ میں اس تنظیم کے بارے میں نہایت تشویشناک معلومات بیان کی گئی ہیں جو خود کو انسانی خدمت کا علمبردار ظاہر کرتی ہے تاہم دستیاب شواہد اس کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق "المجد یورپ" نے 13 نومبر کو ایک پرواز کا اہتمام کیا جس کے ذریعے 153 فلسطینیوں کو غزہ سے جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ منتقل کیا گیا، ایسے وقت میں جب غزہ محاصرے کی سنگین حالت اور تباہ کن انسانی المیے سے دوچار ہے۔ یہ پرواز محض دو ہفتوں میں اپنی نوعیت کی دوسری پرواز تھی جو غزہ کے شہریوں کو جنوبی افریقہ لے گئی۔
رپورٹ میں جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوزا کا بیان شامل ہے جن کے مطابق ان کی حکومت اس پرواز سے حیران رہ گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ غزہ کے لوگ ہیں جنہیں کسی نامعلوم طریقے سے طیارے میں بٹھایا گیا، جس نے نیروبی عبور کیا اور یہاں تک پہنچا۔ مجھے اس بارے میں وزیر داخلہ نے آگاہ کیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جب وزیر داخلہ نے دریافت کیا کہ ان افراد کے بارے میں کیا کیا جائے تو میں نے جواب دیا کہ ہم انہیں واپس نہیں بھیج سکتے۔ اگرچہ ان کے پاس ضروری دستاویزات نہیں لیکن وہ جنگ زدہ اور بحرانوں سے تباہ حال خطے سے آئے ہیں۔ انسانیت اور رحم کے تقاضے ہیں کہ ہم انہیں قبول کریں۔ رپورٹ کے مطابق کئی مسافروں نے بتایا کہ طیارہ قابض اسرائیل سے اڑا تھا جہاں انہیں غزہ سے منتقل کرنے کے بعد رکھا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے آن لائن درخواستیں دیں اور ہر شخص نے پانچ ہزار ڈالر ادا کیے۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تنظیم کا انحصار ایسے ویب سائٹ پر ہے جس کی رجسٹریشن آیس لینڈ میں کرائی گئی ہے اور وہ عام شہریوں کے لیے نام نہاد انسانی انخلا کی خدمات فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ تاہم جنوبی افریقہ کے ریگولیٹری ادارے ان سرگرمیوں کی نوعیت، مالی معاونت اور اصل پس منظر کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔
مزید یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ تنظیم صرف ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے چندے قبول کرتی ہے جس کے باعث اس کی فنڈنگ کے ذرائع تک رسائی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی ویب سائٹ پر موجود جن افراد کی تصاویر انتظامی ٹیم کے طور پر دکھائی گئی ہیں وہ دراصل مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر ہیں جس نے اس تنظیم کی ساکھ کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔ بار بار رابطے کی کوششوں کے باوجود اس نام نہاد تنظیم نے کوئی ردعمل دینے سے انکار کر دیا جس سے اس کے گرد پھیلا ہوا راز اور گہرا ہو گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق فی الحال جانچ پڑتال کا محور یہ ہے کہ آیا یہ پروازیں غیر قانونی طریقے سے افراد کی نقل و حرکت کے لیے استعمال کی گئیں اور غزہ کے تباہ کن انسانی بحران کو دھوکے کے طور پر استعمال کیا گیا۔رپورٹ اس امر کو بھی اجاگر کرتی ہے کہ تنازعہ زدہ علاقوں میں سرگرم ایسی تنظیموں پر نگرانی کرنے والے اداروں کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہے، خاص طور پر جب وہ جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجیوں جیسے مصنوعی ذہانت اور کرپٹو کرنسی کا سہارا لیتی ہیں جنہیں جعل سازی اور پردہ پوشی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس صورتحال میں مزید سخت جانچ اور جواب دہی کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی سطح پر یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ انسانی بحرانوں کو مشکوک مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور بعض نام نہاد خیراتی ادارے انسانی خدمت کے پردے میں خطرناک سرگرمیوں میں ملوث پائے جا رہے ہیں۔ رپورٹ اس اہم سوال پر اختتام پذیر ہوتی ہے کہ عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری کیا ہے تاکہ انسانی امداد حقیقی ضرورت مندوں تک پہنچ سکے نہ کہ اسے اسمگلنگ یا انسانی تجارت کے لیے استعمال ہونے دیا جائے۔