بھارتی اداکارہ شیفالی زری والا کی اچانک موت پر معروف مذہبی اسکالر مفتی طارق مسعود کا بیان سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے، جس میں انہوں نے شہرت، خوبصورتی اور زندگی کی ناپائیداری پر زور دیتے ہوئے نوجوانوں کو عبرت حاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔ یاد رہے کہ شیفالی زری والا کی موت اینٹی ایجنگ انجیکشنز کے باعث دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی، جس نے مداحوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ مفتی طارق مسعود نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک مشہور اداکارہ، جس نے دنیا میں نام، شہرت اور حسن کمایا، ایک لمحے میں مٹی میں مل گئی۔ ان کے مطابق چونکہ وہ ہندو تھیں، اس لیے ان کی لاش کو جلا دیا گیا ہوگا، جو دنیا کی حقیقت کو عیاں کرتا ہے اور انسان کی بے بسی کا ثبوت ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ لوگ اس واقعے سے سبق لینے کے بجائے اُس کی پرانی ویڈیوز، گانے اور ڈانس سینز دیکھنے میں مصروف ہو گئے، جو کہ بقول ان کے ایک لاحاصل عمل ہے۔ مفتی صاحب نے مزید کہا کہ فنکار دنیا میں صرف اپنے چہرے اور خوبصورتی کو سنوارنے پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں، لیکن موت کے بعد وہی چہرہ راکھ بن جاتا ہے۔ "تب لوگ سیلفی کیوں نہیں لیتے؟ تب ان کے ساتھ دفن کیوں نہیں ہونا چاہتے؟" — ان کے ان جملوں نے بہت سے سامعین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آخر میں مفتی طارق مسعود نے اسلامی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ غیر مسلم کے لیے دعائے مغفرت کرنا اسلام کے مطابق درست نہیں، اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی دینی حدود میں رہ کر ردعمل دیں اور اپنی آخرت کو بہتر بنانے کی فکر کریں۔ یہ بیان آن لائن مختلف حلقوں میں زیر بحث ہے، جہاں کچھ افراد اسے ایک اہم یاددہانی قرار دے رہے ہیں، تو کچھ اس میں مذہبی حدود و اخلاقی حساسیت کے پہلو پر بھی اظہار خیال کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: مفتی طارق مسعود

پڑھیں:

خطبہٴ نکاح کا پیغام

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہمارے ہاں نکاح کی مجالس میں خطبہ نکاح پڑھنے کی سنت ادا ہوتی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خطبے میں کیا کہا جارہا ہے اس کا بالکل بھی پتا نہیں ہوتا، حالانکہ اس کا سمجھنا خود عائلی زندگی کے لیے ایک بہت بڑا پیغام رکھتا ہے۔

خطبہ نکاح کا حکم
خطبہ نکاح کا مجلس میں پڑھنا سنت عمل ہے اور خطبے کا سننا واجب ہے، اسی لیے اس دوران بات چیت کرنا یا شور مچانا انتہائی بے ادبی کی بات ہے۔

خطبہ نکاح کی تاریخ
خطبہ نکاح کی تاریخ نہایت دلچسپ ہے، اہل عرب کے ہاں بھی نکاح سے پہلے خطبہ پڑھا جاتا تھا، لیکن اس میں وہ اپنے خاندان، قبیلے اور آباؤ اجداد کے مناقب بیان کیا کرتے تھے، لیکن جب آپ علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو آپ نے دیگر امور کی طرح خطبۂ نکاح کے مندرجات کو بھی تبدیل فرمادیا اور اس میں حمد باری تعالیٰ، رسالت و شہادت، قرآن کریم کی منتخب آیات و روایات کا ایسا حسین مجموعہ جمع فرمایا کہ یہ خطبہ زوجین اور فریقین کے لیے عائلی زندگی کا ایک ایسا خوب صورت پیغام بن گیا جس میں گراں قدر ہدایات موجود ہیں۔

مضمون کا مقصد
عام طور پر ہمارے ہاں جو خطبہ پڑھا جاتا ہے اس کا ترجمہ اور مختصر سی تشریح پیش خدمت ہے، تاکہ اس خطبے کو سننے سمجھنے کا رواج پیدا ہو اور عام لوگ اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرسکیں۔
خطبے میں سب سے پہلے اللہ رب العزت کی تعریف اور شہادت رسالت کا بیان ہوتا ہے۔

مسلمان کی نظریاتی اساس
خطبے کے اس حصے میں اس سبق کو دہرایا جاتا ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان نظریاتی طور پر دو چیزوں کو سب سے پہلا درجہ دیتے ہیں:

1۔ توحید
2۔ رسالت
توحید یعنی ہم اللہ کو ایک مانتے ہیں اور تمام قسم کی تعریف اسی ایک ذات کے لیے ہے، کیونکہ وہی ذات ہے جس نے کائنات کو پیدا فرمایا، انسان کو پیدا فرمایا، زندگی موت، نفع نقصان، صحت بیماری، مالداری فقر فاقہ، اولاد و نعمت، ہدایت گمراہی، وغیرہ، سب کا سب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اسی لیے ہمیں یقین اور بھروسہ ہے کہ دنیاو آخرت میں ہماری بخشش، معافی تلافی فقط وہی ذات کرسکتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہماری دوسری نظریاتی اساس یہ ہے کہ وہ اپنا پیغام انبیا کے ذریعے ہم تک پہنچاتا ہے اور انہی انبیا کے سنہری سلسلے کی آخری کڑی آپ علیہ السلام کی ذات مبارک ہے، جو سید البشر، رحمت للعالمین اور ختم نبوت کا تاج لے کر آئے اور ان سے محبت اور ان کا طریقہ پوری انسانیت کے لیے قیامت تک قابل عمل و ناگزیر ہے۔

شادی اور تقوی
اس کے بعد خطبے میں قرآن کریم کے تین مختلف مقامات سے آیات پڑھی جاتی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں آیات میں ”تقوی“ کا ذکر ہے۔ اس کی حکمت علما یہ بیان فرماتے ہیں کہ تقوی کا مطلب اللہ کا خوف و ڈر، خشیت الہی، قیامت کے دن جواب دہی کا احساس ہے اور جب تک یہ احساس بیدار نہ ہو تب تک انسان کسی رشتے کو نبھا نہیں سکتا اور میاں بیوی چونکہ ایک طویل عرصہ ساتھ رہنے کا عہد کرتے ہیں اور اس عرصے میں مزاج کا اختلاف عین ممکن ہے، اس اختلاف کے ساتھ ساری زندگی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا تب ہی ممکن ہے جب اللہ رب العزت کی نگرانی اور جواب دہی کا احساس پیدا ہوجائے، یہ ہوا تو پھر ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا جائے گا کہ میرے کسی رویے سے وہ عظیم ذات، جو مجھے ہر آن ہر لمحہ دیکھ سن سمجھ رہی ہے، کہیں میری گرفت نہ کردے اور اس احساس میں آکر ہی زوجین ایک دوسرے کے جانی مالی حقوق کی پروا کرسکتے ہیں اور اگر یہ نہ رہے تو کوئی خاندان کا سربراہ، انجمن، پنچائت، کورٹ کچہری ان کو مکمل پابند نہیں کرسکتا۔

خاتمہ بالخیر کی فکر اور طریقہ
سب سے پہلی آیت میں بیان فرمایا۔ ترجمہ: ”اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے“ (آل عمران)۔
آیت کے آخر میں فرمایا کہ تمہیں ہر گز موت نہ آئے، مگر اسلام کی حالت میں۔ یعنی اپنے خاتمہ بالخیر کی فکر کرو اور ایک دوسری روایت میں خاتمہ بالخیر کا طریقہ یوں سمجھایا کہ: جیسے تم زندگی گزارتے ہو ویسے تمہیں موت آئے گی اور جیسے تمہیں موت آئے گی ویسے ہی تمہیں اٹھایا جائے گا اور تمہارا حشر ہوگا (روح البیان)۔
یعنی دارومدار سارا کا سارا آج کے عمل پر ہے، اگر کسی کا حال درست ہے تو خاتمہ بالخیر کا مستقبل بھی درست رہے گا اور اس سے آگے کی منزل بھی پار لگ جائے گی، لیکن آج متاثر ہے تو ہر طرح کا مستقبل خطرے میں ہے۔
اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ زوجین اپنے حالیہ رویے پر خصوصی نظر رکھیں اور مادی مستقبل کی جستجو کے علاوہ اپنے ایمانی مستقبل کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کریں۔

تخلیق انسانی کا تسلسل
دوسری آیت میں فرمایا۔ ترجمہ: ”لوگو! اپنے رب سے ڈرو ،جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلادیے اور اللہ سے ڈرو ،جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو، بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے“ (النساء )۔
یہاں آیت میں پوری انسانیت کو مخاطب کرکے ان کی تخلیق کا نقطہ آغاز بیان فرمادیا کہ تمہیں آدم علیہ السلام، جو کہ پہلے انسان اور پہلے پیغمبر ہیں، ان سے پیدا فرمایا اور وہ تمہارے آباو اجداد میں اول کا درجہ رکھتے ہیں اور ان ہی سے تمہاری اول ماں بی بی حوا علیہا السلام کو پیدا فرمایا اور پھر یہ سلسلہ چلتے چلتے پوری انسانیت کی تخلیق کا ذریعہ بنا اور سمجھادیا کہ تم اس سرزمین میں کیسے آئے اور کہاں سے آئے، ساتھ میں اشارہ فرمادیا کہ اب تم نکاح کے ذریعے اسی سلسلے کا حصہ بننے جارہے ہو۔

رشتے داروں کا مقام
اس کے ساتھ رشتے داروں کا خاص طور پر ذکر فرمایا کہ ان کے حقوق کے معاملے میں اللہ سے خاص طور پر ڈرو، کیونکہ اب تم بھی ان رشتوں کا حصہ بن چکے ہو، ایک فرد سے جوڑے میں اور جوڑے سے فیملی اور فیملی سے ایک خاندان کا حصہ بننے جارہے ہو اور خاندان میں تم اور تمہارے والدین بیوی بچوں کے علاوہ بھی ایک خوب صورت رشتوں کا گل دستہ موجود ہے، ان کے حقوق کی خصوصی رعایت کرنا، خودغرضی کا شکار مت ہوجانا، ان کے ساتھ اپنے رویے کو درست کرلینا۔

سچائی کا رشتہ
ترجمہ: ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے اس نے بڑی کام یابی پائی“ (احزاب)۔
تیسری آیت میں فرمایا کہ سیدھی سچی کھری اور دوٹوک بات کرنے کی عادت پیدا کرو۔ انسان زندگی میں بہت سے معاملات اور لین دین کرتا رہتا ہے، لیکن نکاح کا معاملہ چونکہ ساری زندگی ساتھ رہے گا اسی لیے اپنی زبان کی خبرگیری کا خاص طور پر خیال رکھنے کا حکم ہورہا ہے کہ اگر تم نے زبان کا ٹھیک استعمال کیا تو یہ رشتہ ایک خوب صورت تعلق میں بدل جائے گا اور اگر تم نے زبان کو قابو میں نہ رکھا تو پھر یہ رشتہ خطرے میں پڑسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی جو روایات عام طور پر خطبے میں پڑھی جاتی ہیں ان میں سب سے پہلی اور معروف روایت یہ ہے۔

نکاح کی عالی نسبت
النکاح من سنتی (ابن ماجہ)، ترجمہ: نکاح میرا طریقہ ہے۔
فمن رغب عن سنتی فلیس منی (بخاری)، ترجمہ: جس نے میرے طریقے کو نظر انداز کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ نکاح کوئی معمولی عمل نہیں، بلکہ یہ میرا طریقہ ہے اور آپ کا اتنا کہنا ہی اس عمل کے ضروری اور اہم ہونے کے لیے کافی ہے ،کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ جو آپ کا طریقہ ہے وہ یقینا کامیابی کا طریقہ ہے ۔

امت کے نوجوان
دوسری روایت میں فرمایا۔ ترجمہ: اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے، یہ نگاہوں کو جھکانے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے میں (دوسری چیزوں کی نسبت) بڑھ کر ہے اور جو استطاعت نہ پائے، وہ خود پر روزے کو لازم کر لے، یہ اس کے لیے اس کی خواہش کو قطع کرنے والا ہے (مسلم)۔
اس روایت میں آپ کے مخاطب امت کا نوجوان طبقہ ہے، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ نکاح بھرپور جوانی میں ہونا چاہیے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اے نوجوانو! اگر مالی پوزیشن ضرورت کی حد تک درست ہے تو ضرور نکاح کرو، اس سے تمہیں دو فائدے حاصل ہوں گے:

1۔ نگاہ کی حفاظت
2۔ شرم گاہ کی حفاظت
نکاح کے فوائد
نکاح کے فوائد میں آپ نے نکاح کا مقصد بھی ذکر فرمادیا۔ چونکہ نوجوان اپنے شباب اور جذبات میں جی رہا ہوتا ہے اور اس کے پاس خدا کی دی ہوئی صحت کی نعمت اپنے جوبن میں ہوتی ہے تو فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ تم اس نعمت کا کہیں غلط استعمال کر بیٹھو اور اپنی صحت اور جوانی کو نقصان پہنچادو، تمہارے ارد گرد فحاشی کے مناظر، خواتین کا جال، موبائل کی سہولت یہ سب تمہیں اپنی قوت کو غیر فطری خرچ کی دعوت دے سکتے ہیں ،اسی لیے تمہارے لیے نکاح ضروری ہے، تاکہ تمہاری قوت صحیح وقت پر صحیح جگہ لگ سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ دو چیزوں کا ذکر خاص طور پر فرمایا، نگاہ اور شرم گاہ، یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے معاون کی حیثیت رکھتے ہیں، نگاہ کی غلطی شرم گاہ کی غلطی پر ختم ہوا کرتی ہے۔ اسی لیے آپ فرماتے ہیں کہ نوجوان کے قیمتی جذبات کو ضائع کرنے کی راہ یہیں سے کھلتی ہے اور جب نکاح نہ ہو تو یہ دونوں سرپھرے آوارہ بن جاتے ہیں اور جب نکاح ہوجائے تو ان کی نگرانی آسان ہوجاتی ہے۔

رشتہ کرنے کا طریقہ
تیسری روایت میں فرمایا کہ: جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا (ترمذی)۔
رشتہ کرنا کا ایک سنہری اصول بیان فرمایا کہ جب رشتہ کرو تو دو چیزیں خاص طور پر پرکھ لیا کرو۔

1۔ دین داری
2۔ اخلاق
جس مرد میں یہ دو جوہر پائے جائیں تو رنگ صورت، مال و متاع کی جنجھٹ مت پالو، بلکہ اللہ کا نام لے کر ہاں کردو، کیوں کہ دین داری ہوگی تو ایسا شخص ایمان، صوم و صلاۃ، رویہ سلوک، لین دین اور حقوق کا خیال رکھنے والا ضرور ہوگا اور ایسا رشتہ ملنا ایک غنیمت ہے۔
ساتھ میں تنبیہ فرمائی کہ ایسا رشتہ کسی مادی سبب کی وجہ سے اگر ٹھکرانے کا رواج بڑھ گیا تو معاشرہ فساد کا شکار ہوجائے گا۔

دین دار خاتون
چوتھی روایت میں ذکر فرمایا کہ: عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دین دار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی) (بخاری)۔
فرمایا کہ عام طور پر لڑکی کے انتخاب میں حسن و جمال، مال و دولت اور خاندانی وجاہت کو دیکھا جاتا ہے، جب کہ اصل چیز دین داری ہے، کیوں کہ باقی ساری چیزیں فانی ہیں اور زندگی کا سکون حاصل کرنے میں مددگار نہیں ہیں، جب کہ دین داری اصل ہے اور زندگی بھر کا سکون دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی صورت ہی میں ممکن ہے اور ایک دوسری روایت میں عورتوں کی دین داری کا مختصر اور خوب صورت نقشہ پیش کردیا فرماتے ہیں: جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے، اپنے ماہ (رمضان) کا روزہ رکھ لے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرلے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں، اس کے جس دروازے سے داخل ہونا چاہے، داخل ہوجا (رَوَاہُ أَبُو نعیم فِی الْحِلْیة)۔

مولاناعبدالمتین

متعلقہ مضامین

  • رشمیکا مندانا نے خفیہ منگنی کرلی؟ تصویر وائرل
  • کشمیریوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، محبوبہ مفتی
  • سابق سینیٹرسراج الحق کی دوحا میں الشیخ علی القرہ داغی سے ملاقات
  • جنوبی افریقا کیخلاف ٹیسٹ سیریز، شان مسعود قیادت جاری رکھیں گے
  • پورٹ قاسم عالمی رینکنگ میں نمایاں، دنیا کی نویں تیزی سے ترقی کرتی کنٹینر بندرگاہ قرار
  • الہان عمر کی پاکستانی اسکارف پہنے ویڈیو وائرل
  • صمود فلوٹیلاکے غیر مسلح امدادی کارکنوں کی گرفتاری عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے،ڈاکٹر حمیرا طارق
  • خطبہٴ نکاح کا پیغام
  • اسرائیل کو تسلیم کرنے والا غدار قرار پائے گا، حکمران عبرت کا نشان بن جائیں گے، حافظ نعیم
  • دنیا میں سب سے زیادہ کروموسومز رکھنے والا جاندار