سانحہ دریائے سوات کی تحقیقاتی رپورٹ میں سارا ملبہ سیاحوں پر ڈال دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
سانحہ دریائے سوات کی تحقیقاتی رپورٹ میں سارا ملبہ سیاحوں پر ڈال دیا گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 3 July, 2025 سب نیوز
سوات (سب نیوز)سانحہ دریائے سوات کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں ذمہ داری کا سارا ملبہ سیاحوں پر ڈال دیا گیا ہے، کمشنر مالاکنڈ کی جانب سے اہم انکشاف سامنے آیا ہے کہ دریائے سوات کا رخ تعمیراتی کام کے باعث تبدیل کیا گیا تھا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کا بہا ودوسری جانب موڑنے سے جائے حادثہ پر سطحِ آب کم ہوگئی، جس کے باعث سیاح اس مقام تک پہنچ گئے، دوسری جانب حکومتی نمائندے بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس امدادی کارروائی کے لیے ہیلی کاپٹر تو تھا لیکن وہ چھوٹا تھا۔
کمشنر ملاکنڈ کی جانب سے سانحہ سوات کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ صوبائی تحقیقاتی ٹیم کو ارسال کر دی گئی ہے، جس میں کئی اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سانحہ کے مقام پر دریا کی سطح کم تھی اور سیاح محفوظ سمجھ کر وہاں پہنچے تھے، تاہم افسوسناک واقعے سے قبل تعمیراتی کام کے باعث دریا کا پانی دانستہ طور پر موڑا گیا تھا جس سے خطرہ بڑھ گیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلابی خطرات کے پیشِ نظر متعلقہ اداروں کو الرٹ کر دیا گیا تھا اور سیلاب کنجنٹنسی پلان 2025 مئی میں تیار کر لیا گیا تھا۔ اس کے باوجود واقعہ رونما ہوا، جس پر کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
کمشنر ملاکنڈ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ خراب موسم کے بارے میں متعدد مرتبہ وارننگز موصول ہوئیں جنہیں متعلقہ اداروں کو پہنچا بھی دیا گیا تھا۔ مزید کہا گیا کہ ممکنہ ایمرجنسی کی صورت میں افسران کو ڈیوٹیاں پہلے ہی تفویض کی جا چکی تھیں اور دریا کنارے تجاوزات کے خلاف کارروائی کا فیصلہ بھی سیلاب سے پہلے کیا جا چکا تھا۔رپورٹ میں یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ 2 جون سے ملاکنڈ ڈویژن میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی تھی، جس کے تحت دریا میں نہانے اور کشتی رانی پر مکمل پابندی عائد تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ سانحے سے قبل ضلعی اور تحصیل انتظامیہ کی جانب سے الرٹس کے باوجود مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی وجوہات کا مزید جائزہ لیا جا رہا ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا پابندیوں کے باوجود سیاح جائے حادثہ تک کیسے پہنچے اور مقامی سطح پر کن ذمہ داران کی غفلت کا عنصر شامل تھا۔ صوبائی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کی روشنی میں مزید چھان بین میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں سامنے آ سکتا ہے۔سانحہ سوات پر ہر کوئی غم زدہ ہے، شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ سانحہ جن سرکاری محکموں کی غفلت کی وجہ سے پیش آیا، ان سب کو سخت سزا دی جائے۔
دوسری جانب ڈی جی ریسکیو شاہ فہد انکوائری کمیٹی میں پیش ہوئے، کمیٹی نے ڈی جی ریسکیو شاہ فہد سے دو اہم سوالات کئے کہ واقعے کے دوران آپ کہاں تھے؟ اور اورسیلاب میں پھنسے افراد کو بچانے کے لیے کیا کیا؟۔کمیٹی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی ریسکیو نے کہا کہ واقعے کے وقت میں پشاور میں تھا 27 جون کو سوات کے مختلف حصوں میں پھنسے افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے آپریشنز کئے گئے۔ ریسکیو آپریشن کے دوران درجنوں افراد کو بچایا گیا۔فہد شاہ نے مزید بتایا کہ 9 بج کر 45 منٹ پر کال موصول ہوئی، ایمبولینس موقع پر پہنچی تاہم ایمرجنسی کی نوعیت الگ تھی، اس لئے واقعے کی جگہ پر غوطہ خور، کشتی اور دیگر سامان بھیجا گیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرہمارے 26لوگوں کی بحالی تک اسمبلی نہیں جائیں گے،اپوزیشن لیڈر پنجاب ملک احمد بچھر ہمارے 26لوگوں کی بحالی تک اسمبلی نہیں جائیں گے،اپوزیشن لیڈر پنجاب ملک احمد بچھر گالیاں دینے، گریبان پکڑنے، حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ملک احمد خان ترکیہ کے وزیر خارجہ حاکان فدان اگلے ہفتے پاکستان کا دورہ کرینگے این ڈی ایم اے کا 5تا 10جولائی ملک بھر میں شدید بارشوں اور سیلاب کا الرٹ جاری شہباز شریف سے مذاکرات ہوئے تو پوچھوں گا کب اقتدار واپس کرو گے؟، محمود اچکزئی گورنر خیبرپختونخوا کی میری حکومت گرانے کی حیثیت نہیں، علی امین گنڈاپورCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: تحقیقاتی رپورٹ دریائے سوات رپورٹ میں سوات کی دیا گیا گیا تھا گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
سانحہ سوات، سیاحوں کو ڈرون کے ذریعے حفاظتی جیکٹس کیوں فراہم نہیں کی گئیں؟ جج پشاور ہائیکورٹ
وکیل درخواست گزار محمد ناصر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ دریائے سوات میں طغیانی کے باعث 17 افراد جانبحق ہوگئے ہیں، ہوٹل مالکان نے تجاوزات کئے ہیں سیاحوں کے لئے دریا کے کنارے پر جگہیں بنائے ہوتے ہیں اس وجہ سے حادثات ہوتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے سانحہ سوات سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ سیاحوں کو ڈرون کے ذریعے حفاظتی جیکٹس کیو فراہم نہیں کی گئیں؟۔ پشاور ہائی کورٹ میں سیاحوں کے جانبحق ہونے کے معاملے کی سماعت ہوئی، سماعت چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ اور جسٹس فہیم ولی نے کی۔ عدالت نے کمشنر ملاکنڈ، ہزارہ، کوہاٹ، بنوں، ڈی آئی خان، اور متعلقہ اضلاع کے ریجنل پولیس آفیسر کو کل طلب کرلیا۔ وکیل درخواست گزار محمد ناصر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ دریائے سوات میں طغیانی کے باعث 17 افراد جانبحق ہوگئے ہیں، ہوٹل مالکان نے تجاوزات کئے ہیں سیاحوں کے لئے دریا کے کنارے پر جگہیں بنائے ہوتے ہیں اس وجہ سے حادثات ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ غفلت کے باعث 17 افراد کی جانیں چلی گئی، سیاحوں کو بروقت کیو ریسکیو نہیں کیا گیا، سیاحوں کی حفاظت کے لئے اقدامات کیو نہیں کئے گئے۔ چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہ کہا کہ سیاحوں کو ڈرون کے ذریعے حفاظتی جیکٹس کیوں فراہم نہیں کی گئیں، سوات میں تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ وکیل نے کہا کہ ائیر ایمبولینس بھی موجود ہے، وقت کم ہونے کی وجہ سے اس کو استعمال نہیں کیا جاسکا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دیاؤں کی دیکھ بال کس کی زمہ داری ہے؟ حکومت نے حفاظتی اقدامات کے لئے وارننگ جاری کی تھی، کیا متعلقہ حکام نے اس پر عمل درآمد یقینی بنایا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، متعدد زمہ داران کو معطل کیا ہے، سپریم کورٹ میں اس طرح کا کیس زیرالتوا ہے، جس میں حکومت کو اس حوالے سے اقدامات کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ سوات واقعہ سے متعلق ائندہ سماعت پر ہمیں رپورٹ دیں، عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔