کورم کا مسئلہ کیوں نہیں ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق سینیٹ اجلاس میں کورم کی نشان دہی پر مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ برہم ہو گئے اور سیدل خان نے پی ٹی آئی کے سینیٹر کی نشان دہی پر کہا کہ ’’کچھ لوگوں کو ایوان چلتا اچھا نہیں لگتا، کیا آپ صرف اس کام کے لیے اپنے علاقے سے ایوان میں آئے ہیں؟‘‘ کیا کورم کی نشان دہی کو سینیٹر کا جرم سمجھا گیا، کیونکہ کورم واقعی پورا نہیں تھا جس پر ڈپٹی چیئرمین کے حکم پر پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں جس پر ایوان سے باہر موجود بعض وزرا اور سینیٹر ایوان میں آئے تو کورم پورا ہوا، جس کے بعد کارروائی کچھ دیر چلی اور بعد میں اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔
ایوان سے باہر وزیر اور سینیٹر اگر پہلے ہی ایوان میں موجود ہوتے تو کورم کی نشان دہی نہ ہوتی اور بغیرکورم اجلاس جاری رہتا۔ کورم کی نشان دہی سینیٹروں کا فرض تو بنتا ہی ہے مگر اس سے زیادہ ذمے داری ایوان میں اجلاس کی صدارت کرنے والے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور دونوں کے نہ ہونے پر متعلقہ پریزائیڈنگ افسر کی بنتی ہے کہ وہ بڑے ایوان میں چند سینیٹر دیکھ کر خود کی کارروائی روک دیں اورکورم پورا کرانے کے لیے گھنٹیاں بجوا کر سینیٹروں اور وزیروں کو ایوان میں طلب کریں اور ایوان سے باہر رہنے والوں کی سرزنش کریں کہ کیا وہ ایوان سے غیر حاضر رہنے کے لیے سینیٹر منتخب ہوئے تھے کہ وہ اپنے علاقوں سے سینیٹ اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آتے ہیں اور ایوان میں آ کر بیٹھنے کے بجائے ایوان سے باہرکیوں مصروف ہوتے ہیں۔
کورم کی جائز نشان دہی کرنے والے سینیٹر پر برہم ہونے کے بجائے ان کی ستائش کی جانی چاہیے تھی کہ انھوں نے کورم کی نشان دہی کرکے قانونی ذمے داری پوری کی، کوئی غلط کام نہیں کیا، اگر کابینہ کی فوج میں موجود وزرا کی پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت لازمی کر لیں تب بھی کورم پورا ہو سکتا ہے۔بعض وزیروں نے تو اپنا اصول بنایا ہوا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ بعض وفاقی وزرا اور وزیر اعظم کبھی کبھی قومی اسمبلی کے ایوان میں آجاتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں وزیروں کی تعداد اس دن زیادہ ہوتی ہے جب وزیر اعظم نے کسی ضروری کام سے ایوان میں آنا ہوتا ہے تو وہ باہر کی تمام مصروفیات چھوڑ کر وزیر اعظم کو دکھانے کے لیے ایوان میں آتے ہیں ورنہ ان کی طرف سے ان کے محکموں کے وزرائے مملکت یا پارلیمانی سیکریٹری ہی ایوان میں آ کر پوچھے ہوئے سوالات کے جواب دیتے ہیں اور یہی حال قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا ہے۔ سرکاری ارکان بھی زیادہ تر قومی اسمبلی کے ایوان میں نہیں آتے اور اگر آتے ہیں تو زیادہ تر خاموش رہتے ہیں اور بہت ہی کم بولتے ہیں یا ذاتی معاملے پر بولتے ہیں اور وزیر اعظم کی آمد پر انھیں چہرہ دکھانے اور ملنے کے لیے آتے ہیں اور تالیاں بجانے میں پیش پیش ضرور ہوتے ہیں۔
ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کا ہجوم ایوانوں میں وزیر اعظم کی آمد پر اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اکثر ارکان کو ملنے کا وقت نہیں دیتے اور وہ قومی اسمبلی کے ایوان میں کم آتے ہیں اور اسی ایوان سے منتخب ہونے کے بعد انھیں قومی اسمبلی غیر اہم لگنے لگتی ہے۔ حکومت کو اپنے مطلب کی قانون سازی کرنی ہو، بجٹ پاس کرانا ہو تو وزیر اعظم ایوان میںآتے ہیں اور صدر مملکت کے سال میں ایک بار پارلیمنٹ سے خطاب کے موقع پر وزیر اعظم، اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ ضرور موجود ہوتے ہیں۔ ضرورت پر حکومت اپنے ارکان اور سینیٹروں کو تاکید کرا کر ایوان میں بلواتی ہے۔
پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تو خود اعتراف کیا تھا کہ ان کی حکومت میں تو دباؤ ڈال کر بجٹ پاس کرانا پڑتا تھا۔ سینیٹ بالاتر ادارہ ہے مگر نام کا کہ جہاں وزیر اعظم آنا ہی گوارا نہیں کرتے تو ان کے وزرا کیوں سینیٹ کو اہمیت دیں اور اسی لیے سینیٹ میں وزرا بھی برائے نام ہی آتے ہیں۔پاکستانی پارلیمنٹ قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے اور سینیٹ بالا ادارہ کہلاتا ہے ۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک سال تک سینیٹ کے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی اور تنقید کے بعد وہ سینیٹ کے اجلاس میں گئے تھے۔ سینیٹ کی بالاتری صرف یہ ہے کہ صدر مملکت کے ملک سے باہر جانے یا فوت ہو جانے پر چیئرمین سینیٹ آئینی طور پر ملک کا قائم مقام صدر بن جاتا ہے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی صدارت بھی چیئرمین سینیٹ کے بجائے قومی اسمبلی کا اسپیکر کرتا ہے جب کہ صدر مملکت کی ملک سے باہر جانے کے بعد اگر چیئرمین سینیٹ بھی ملک سے باہر ہو تو قومی اسمبلی کا اسپیکر قائم مقام صدر بن سکتا ہے۔
الزام لگایا جاتا ہے کہ سینیٹ میں سینیٹر بننے کے لیے ارکان اسمبلی کو رشوت دے کر ان کے ووٹ خریدے جاتے ہیں اور پارٹی ہدایت پر ووٹ نہیں دیتے۔سیاسی پارٹیاں بھی اتنی مجبور ہو جاتی ہیں کہ وہ اپنی ہدایت کے برعکس ووٹ نہ دینے والے سینیٹروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے خاموش ہو جاتی ہیں جس کی مثال پی ٹی آئی حکومت میں (ن) لیگ کے وہ 8 سینیٹر تھے جنھوں نے پارٹی کی ہدایت پر ووٹ نہیں دیا تھا اور ان کی نشان دہی بھی کرلی گئی تھی۔
سینیٹ کیا بالاتر ہے جو حکومتی اہم فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتی ہے نہ قومی بجٹ کی منظوری میں اس کا کوئی کردار ہوتا ہے۔ یہ ایوان بالا کیا صرف تجاویز اور سفارشات کے لیے رہ گیا ہے اور قومی خزانے پر بوجھ ہے جس کے اپنے سینیٹر بھی اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتے تو وہاں کورم کا مسئلہ کیوں نہیں ہوگا؟ پارلیمنٹ میں کورم نصف سے زیادہ ہونا چاہیے یہاں تو معمولی سینیٹروں کی تعداد بھی دستیاب نہیں ہوتی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کورم کی نشان دہی قومی اسمبلی کے چیئرمین سینیٹ ایوان سے باہر اور سینیٹر اور سینیٹ ایوان میں اجلاس میں میں شرکت ہیں اور آتے ہیں کے لیے کے بعد
پڑھیں:
شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
محبت کے بادشاہ، شاہ رخ خان آج اپنی 60ویں سالگرہ منا رہے ہیں، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئی نسل جین زی آج بھی ان کی پرانی رومانوی فلموں کی دیوانی ہے۔ جدید دور میں جہاں رشتے ڈیٹنگ ایپس اور میسجنگ تک محدود ہو گئے ہیں، وہاں نوجوان نسل پرانے انداز کی محبت میں پھر سے کشش محسوس کر رہی ہے اور اس کے مرکز یقینا شاہ رخ خان ہیں۔
’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’ویر زارا‘ اور ’محبتیں‘ جیسی فلمیں آج بھی نوجوانوں کے جذبات کو چھو رہی ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور تھیٹر ری ریلیز کے ذریعے یہ فلمیں دوبارہ دیکھی جا رہی ہیں اور جین زی فلمی شائقین شاہ رخ خان کے سادہ مگر گہرے رومانس کو نئے انداز میں سراہ رہے ہیں۔
فلم ٹریڈ تجزیہ کار گِرش وانکھیڑے کے مطابق، شاہ رخ خان کا جین زی سے تعلق صرف یادوں تک محدود نہیں بلکہ ان کی خود کو وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت نے انہیں ہر دور سے وابستہ رکھا ہے۔
انہوں نے کہا، ’شاہ رخ خان ہمیشہ سے آگے سوچنے والے فنکار ہیں۔ وہ میڈیا، ٹیکنالوجی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ خود کو اپڈیٹ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو صرف ایک اداکار نہیں بلکہ ایک برانڈ کے طور پر منوایا ہے۔‘
اسی طرح فلمی ماہر گِرش جوہر کا کہنا ہے کہ یہ نیا جنون کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک فطری تسلسل ہے۔ ان کا ماننا ہے، ’شاہ رخ خان ایک عالمی ستارہ ہیں۔ ان کی فلموں میں جو جذبہ اور رومانوی اپیل ہے، وہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ آج بھی دیکھیں تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے، یہی ان کی فلموں کی ابدی طاقت ہے۔‘
شاہ رخ خان کی پرانی فلموں کے مناظر اکثر انسٹاگرام ریلز اور ٹک ٹاک پر دوبارہ وائرل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ جین زی انہیں نئے رنگ میں پیش کرتی ہے، مگر محبت کا جذبہ وہی رہتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یش راج فلمز اور دیگر پروڈکشن ہاؤسز اب ان فلموں کو خاص مواقع پر محدود ریلیز کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ نئی نسل ان فلموں کو بڑی اسکرین پر دیکھ سکے۔
جنرل منیجر ڈی لائٹ سینماز راج کمار ملہوتراکے مطابق: ’یہ ری ریلیز بزنس کے لیے نہیں بلکہ ناظرین کے جذبات کے لیے کی جاتی ہیں۔ شاہ رخ خان کی فلموں کے گانے، کہانیاں اور کردار لوگوں کے دلوں میں پہلے سے جگہ بنا چکے ہیں، اس لیے لوگ دوبارہ وہ تجربہ جینا چاہتے ہیں۔‘
اگرچہ یہ ری ریلیز بڑے مالی منافع نہیں دیتیں، مگر ان کی ثقافتی اہمیت بے مثال ہے۔ تھیٹرز میں نوجوان شائقین 90 کی دہائی کے لباس پہن کر فلمیں دیکھنے آتے ہیں، گانوں پر جھومتے ہیں اور مناظر کے ساتھ تالیاں بجاتے ہیں اس طرح ہر شو ایک جشن میں بدل جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی مقبولیت کا راز صرف یادیں نہیں بلکہ ان کی مسلسل تبدیلی اور ارتقاء ہے۔ حالیہ بلاک بسٹر فلمیں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ رومانس کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ایکشن کے بھی شہنشاہ بن چکے ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ جین زی کے لیے شاہ رخ خان صرف ایک اداکار نہیں بلکہ محبت کی علامت ہیں۔ ڈیجیٹل دور کے شور میں ان کی فلمیں یاد دلاتی ہیں کہ عشق اب بھی خالص، جذباتی اور انسانی ہو سکتا ہے۔
شاید اسی لیے، جب تک کوئی راج اپنی سمرن کا انتظار کرتا رہے گا، شاہ رخ خان ہمیشہ محبت کے بادشاہ رہیں گے۔