Express News:
2025-09-17@23:34:28 GMT

کورم کا مسئلہ کیوں نہیں ہوگا؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

روزنامہ ایکسپریس کے مطابق سینیٹ اجلاس میں کورم کی نشان دہی پر مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ برہم ہو گئے اور سیدل خان نے پی ٹی آئی کے سینیٹر کی نشان دہی پر کہا کہ ’’کچھ لوگوں کو ایوان چلتا اچھا نہیں لگتا، کیا آپ صرف اس کام کے لیے اپنے علاقے سے ایوان میں آئے ہیں؟‘‘ کیا کورم کی نشان دہی کو سینیٹر کا جرم سمجھا گیا، کیونکہ کورم واقعی پورا نہیں تھا جس پر ڈپٹی چیئرمین کے حکم پر پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں جس پر ایوان سے باہر موجود بعض وزرا اور سینیٹر ایوان میں آئے تو کورم پورا ہوا، جس کے بعد کارروائی کچھ دیر چلی اور بعد میں اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔

ایوان سے باہر وزیر اور سینیٹر اگر پہلے ہی ایوان میں موجود ہوتے تو کورم کی نشان دہی نہ ہوتی اور بغیرکورم اجلاس جاری رہتا۔ کورم کی نشان دہی سینیٹروں کا فرض تو بنتا ہی ہے مگر اس سے زیادہ ذمے داری ایوان میں اجلاس کی صدارت کرنے والے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور دونوں کے نہ ہونے پر متعلقہ پریزائیڈنگ افسر کی بنتی ہے کہ وہ بڑے ایوان میں چند سینیٹر دیکھ کر خود کی کارروائی روک دیں اورکورم پورا کرانے کے لیے گھنٹیاں بجوا کر سینیٹروں اور وزیروں کو ایوان میں طلب کریں اور ایوان سے باہر رہنے والوں کی سرزنش کریں کہ کیا وہ ایوان سے غیر حاضر رہنے کے لیے سینیٹر منتخب ہوئے تھے کہ وہ اپنے علاقوں سے سینیٹ اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آتے ہیں اور ایوان میں آ کر بیٹھنے کے بجائے ایوان سے باہرکیوں مصروف ہوتے ہیں۔

کورم کی جائز نشان دہی کرنے والے سینیٹر پر برہم ہونے کے  بجائے ان کی ستائش کی جانی چاہیے تھی کہ انھوں نے کورم کی نشان دہی کرکے قانونی ذمے داری پوری کی، کوئی غلط کام نہیں کیا، اگر کابینہ کی فوج میں موجود وزرا کی پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت لازمی کر لیں تب بھی کورم پورا ہو سکتا ہے۔بعض وزیروں نے تو اپنا اصول بنایا ہوا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ بعض وفاقی وزرا اور وزیر اعظم کبھی کبھی قومی اسمبلی کے ایوان میں آجاتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں وزیروں کی تعداد اس دن زیادہ ہوتی ہے جب وزیر اعظم نے کسی ضروری کام سے ایوان میں آنا ہوتا ہے تو وہ باہر کی تمام مصروفیات چھوڑ کر وزیر اعظم کو دکھانے کے لیے ایوان میں آتے ہیں ورنہ ان کی طرف سے ان کے محکموں کے وزرائے مملکت یا پارلیمانی سیکریٹری ہی ایوان میں آ کر پوچھے ہوئے سوالات کے جواب دیتے ہیں اور یہی حال قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا ہے۔ سرکاری ارکان بھی زیادہ تر قومی اسمبلی کے ایوان میں نہیں آتے اور اگر آتے ہیں تو زیادہ تر خاموش رہتے ہیں اور بہت ہی کم بولتے ہیں یا ذاتی معاملے پر بولتے ہیں اور وزیر اعظم کی آمد پر انھیں چہرہ دکھانے اور ملنے کے لیے آتے ہیں اور تالیاں بجانے میں پیش پیش ضرور ہوتے ہیں۔

ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کا ہجوم ایوانوں میں وزیر اعظم کی آمد پر اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اکثر ارکان کو ملنے کا وقت نہیں دیتے اور وہ قومی اسمبلی کے ایوان میں کم آتے ہیں اور اسی ایوان سے منتخب ہونے کے بعد انھیں قومی اسمبلی غیر اہم لگنے لگتی ہے۔ حکومت کو اپنے مطلب کی قانون سازی کرنی ہو، بجٹ پاس کرانا ہو تو وزیر اعظم ایوان میںآتے ہیں اور صدر مملکت کے سال میں ایک بار پارلیمنٹ سے خطاب کے موقع پر وزیر اعظم، اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ ضرور موجود ہوتے ہیں۔ ضرورت پر حکومت اپنے ارکان اور سینیٹروں کو تاکید کرا کر ایوان میں بلواتی ہے۔

پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تو خود اعتراف کیا تھا کہ ان کی حکومت میں تو دباؤ ڈال کر بجٹ پاس کرانا پڑتا تھا۔ سینیٹ بالاتر ادارہ ہے مگر نام کا کہ جہاں وزیر اعظم آنا ہی گوارا نہیں کرتے تو ان کے وزرا کیوں سینیٹ کو اہمیت دیں اور اسی لیے سینیٹ میں وزرا بھی برائے نام ہی آتے ہیں۔پاکستانی پارلیمنٹ قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے اور سینیٹ بالا ادارہ کہلاتا ہے ۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک سال تک سینیٹ کے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی اور تنقید کے بعد وہ سینیٹ کے اجلاس میں گئے تھے۔ سینیٹ کی بالاتری صرف یہ ہے کہ صدر مملکت کے ملک سے باہر جانے یا فوت ہو جانے پر چیئرمین سینیٹ آئینی طور پر ملک کا قائم مقام صدر بن جاتا ہے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی صدارت بھی چیئرمین سینیٹ کے بجائے قومی اسمبلی کا اسپیکر کرتا ہے جب کہ صدر مملکت کی ملک سے باہر جانے کے بعد اگر چیئرمین سینیٹ بھی ملک سے باہر ہو تو قومی اسمبلی کا اسپیکر قائم مقام صدر بن سکتا ہے۔

الزام لگایا جاتا ہے کہ سینیٹ میں سینیٹر بننے کے لیے ارکان اسمبلی کو رشوت دے کر ان کے ووٹ خریدے جاتے ہیں اور پارٹی ہدایت پر ووٹ نہیں دیتے۔سیاسی پارٹیاں بھی اتنی مجبور ہو جاتی ہیں کہ وہ اپنی ہدایت کے برعکس ووٹ نہ دینے والے سینیٹروں کے خلاف کارروائی کرنے کے  بجائے خاموش ہو جاتی ہیں جس کی مثال پی ٹی آئی حکومت میں (ن) لیگ کے وہ 8 سینیٹر تھے جنھوں نے پارٹی کی ہدایت پر ووٹ نہیں دیا تھا اور ان کی نشان دہی بھی کرلی گئی تھی۔

سینیٹ کیا بالاتر ہے جو حکومتی اہم فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتی ہے نہ قومی بجٹ کی منظوری میں اس کا کوئی کردار ہوتا ہے۔ یہ ایوان بالا کیا صرف تجاویز اور سفارشات کے لیے رہ گیا ہے اور قومی خزانے پر بوجھ ہے جس کے اپنے سینیٹر بھی اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتے تو وہاں کورم کا مسئلہ کیوں نہیں ہوگا؟ پارلیمنٹ میں کورم نصف سے زیادہ ہونا چاہیے یہاں تو معمولی سینیٹروں کی تعداد بھی دستیاب نہیں ہوتی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کورم کی نشان دہی قومی اسمبلی کے چیئرمین سینیٹ ایوان سے باہر اور سینیٹر اور سینیٹ ایوان میں اجلاس میں میں شرکت ہیں اور آتے ہیں کے لیے کے بعد

پڑھیں:

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور صوبائی وزرا دہشتگردی کا مقابلہ کرنیوالے سیکیورٹی اہلکاروں کے جنازوں میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟

13 ستمبر کو جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ایف سی کے 12 اہلکاروں کی نمازِ جنازہ بنوں کینٹ میں ادا کی گئی۔ اس جنازے میں وزیر اعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل عاصم منیر، وزیر دفاع خواجہ آصف اور اعلیٰ عسکری حکام نے شرکت کی۔

جنازے کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد یہ سوالات اٹھنے لگے کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے جنازے میں شرکت کیوں نہیں کی؟ سوشل میڈیا پر بھی یہ بحث چھڑ گئی کہ وزیر اعلیٰ اپنے صوبے کی حدود میں شہید ہونے والے فوجی اہلکاروں کے جنازوں میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟

یہ بھی پڑھیں:

کالم نگار بلال غوری نے سوشل پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر سوال اٹھایا: ’وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بنوں میں شہدا کی نمازِ جنازہ ادا کی، زخمیوں کی عیادت کی مگر اس موقع پر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور یا ان کی کابینہ نظر نہیں آئی، کیا تحریک انصاف کو شہدا کی بھی کوئی پروا نہیں۔‘

وی نیوز کے اس نمائندے نے اس معاملے پر صوبائی حکومت کے ترجمان اور مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف سے رابطہ کیا، لیکن حسبِ معمول نہ انہوں نے کال اٹھائی اور نہ ہی میسج کا جواب دیا، اس کے بعد وزیر اعلیٰ کے ترجمان فراز مغل سے بھی رابطے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ملی۔

خیبرپختونخوا حکومت کے محکمہ اطلاعات کے دستاویزات کے مطابق وزیر اعلیٰ علی امین نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران مشکل سے 5 یا 6 فوجی اور پولیس اہلکاروں کے جنازوں میں شرکت کی ہے۔

مزید پڑھیں:

ملک سعد شہید پولیس لائنز پشاور میں تعینات ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اس رپورٹر کو بتایا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں وزیر اعلیٰ 3 یا 4 بار ہی پشاور آئے ہیں۔

’میری یادداشت کے مطابق انہوں نے صرف 2 پولیس اہلکاروں کے جنازوں میں شرکت کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ پشاور سے تعلق رکھنے والے بیشتر اراکین صوبائی و قومی اسمبلی اور کابینہ ارکان بھی پولیس اہلکاروں کے جنازوں میں شریک نہیں ہوتے۔‘

خیبرپختونخوا کابینہ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے ذاتی طور پر کئی بار وزیر اعلیٰ کے سامنے یہ بات اٹھائی ہے لیکن وہ سنی اَن سنی کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

’بدقسمتی یہ ہے کہ نہ صرف وزیر اعلیٰ بلکہ کابینہ ارکان اور اراکین اسمبلی کا ریکارڈ بھی اس معاملے میں تسلی بخش نہیں، البتہ میں خود اپنے علاقے کے شہید فوجی اور پولیس اہلکاروں کے جنازوں اور فاتحہ خوانی میں ضرور شرکت کرتا ہوں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے پارٹی چیئرمین عمران خان بھی فوجی اور پولیس اہلکاروں کے جنازوں میں شریک نہیں ہوتے تھے اور اسی روش کو دیگر رہنماؤں نے بھی اپنایا ہے۔

ریکارڈ کے مطابق وزیر اعلیٰ علی امین نے آخری بار 25 اگست 2025 کو فرنٹیئر کانسٹیبلری کے 3 اہلکاروں کے جنازے میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے ہمراہ شرکت کی تھی۔

مزید پڑھیں:

خیبرپختونخوا پولیس کے مطابق رواں سال کے پہلے 8 ماہ میں 92 پولیس اہلکار شہید ہوئے، جن کی نمازِ جنازہ متعلقہ اضلاع کی پولیس لائنز میں ادا کی گئی، ان میں سے بہت کم جنازوں میں صوبائی وزرا یا اراکین اسمبلی شریک ہوئے۔

دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ 2008 سے 2013 کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت میں اس وقت کے صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین اور کابینہ ارکان باقاعدگی سے جنازوں اور فاتحہ خوانی میں شرکت کرتے تھے۔

رواں سال شمالی وزیرستان، خیبر، مہمند، باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں درجنوں فوجی اہلکاروں کی نمازِ جنازہ پشاور کینٹ میں ادا کی گئی جن میں تقریباً ہر بار فیلڈ مارشل عاصم منیر شریک ہوئے، لیکن صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ ان تقریبات میں موجود نہ تھا۔

مزید پڑھیں:

پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما اور رکن اسمبلی نے اس رپورٹر کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے تمام اراکین کو بخوبی معلوم ہے کہ 2024 کے انتخابات میں انہیں ووٹ ان کی ذاتی کاوش سے زیادہ عمران خان کی وجہ سے ملا۔

’اس لیے جنازوں یا سماجی تقریبات میں شرکت کو وہ اہمیت نہیں دیتے۔ بلکہ بعض اوقات ان کی شرکت مسائل بھی پیدا کر دیتی ہے کیونکہ ورکرز سوالات کرتے ہیں جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور وزیر اعلی

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کا تاریخی دفاعی معاہدہ،ایک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ، مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال سمیت اہم امور پر گفتگو
  • وزیر اعظم کی سعودی ولی عہد سے ملاقات ؛ مسئلہ فلسطین سمیت دو طرفہ تعلقات اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال
  • جامعہ اردو کا سینیٹ اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی
  • پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ
  • پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کمیٹیوں سے بھی مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ
  • نیپال: روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب
  • روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب، نیپال
  • موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ دنیا بھر کو درپیش ہے، وزیر بلدیات سندھ
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور صوبائی وزرا دہشتگردی کا مقابلہ کرنیوالے سیکیورٹی اہلکاروں کے جنازوں میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟