Jasarat News:
2025-07-05@10:38:23 GMT

ٹرمپ کا غزہ میں جلد جنگ بندی کا عندیہ، حماس کی آمادگی

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن/ مقبوضہ بیت المقدس: امریکی صدر نے غزہ میں جلد جنگ بندی کا عندیہ دیا ہے جب کہ دوسری جانب حماس نے بھی اس پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق واشنگٹن اور مقبوضہ بیت المقدس سے موصولہ اطلاعات کے مطابق غزہ میں جاری خونریز جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئندہ ہفتے جنگ بندی معاہدہ طے پانے کا امکان ظاہر کیا ہے، جب کہ فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے قطر اور امریکا کی پیش کردہ تجاویز پر مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔

امریکی صدر نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی صورتحال پر سنجیدگی سے کام جاری ہے اور امریکا وہاں بڑے پیمانے پر انسانی امداد بھی بھیج رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلے ہفتے ایک معاہدہ ممکن ہے، جس سے خطے میں بہتری کی امید پیدا ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے حماس کی مذاکراتی خواہش کو خوش آئند اور مثبت اشارہ قرار دیا۔

صدر ٹرمپ نے اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم سے ایران کے مسئلے پر بات چیت کا عندیہ بھی دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کا جوہری پروگرام روک دیا گیا ہے، لیکن اب تہران ایک بار پھر اسے بحال کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، جس پر فوری بات چیت ناگزیر ہے۔

دوسری جانب حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق نئی تجاویز پر فوری طور پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ حماس نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ قطر اور مصر کی ثالثی میں پیش کردہ تجاویز پر مشاورت مکمل کر لی گئی ہے اور تنظیم نے ان تجاویز کو مثبت جواب دے دیا ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ اس معاہدے کو عملی شکل دینے کے لیے ایک نئے اور سنجیدہ مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کو تیار ہے، تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم کیا جا سکے۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کی گئی جنگ سے ایک بڑا انسانی بحران جنم لے چکا ہے اور عالمی برادری کی جانب سے جنگ بندی کے لیے فریقین پر دباؤ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

امریکا کی جانب سے ایران پر نئی پابندیاں، جنگ بندی کے بعد پہلا قدم

واشنگٹن کی حمایت سے ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے پہلی بار ایران کے توانائی کے شعبے پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

پابندیوں کا ہدف ایک عراقی تاجر سلیم احمد سعید اور ان کی متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی ہے، جس پر الزام ہے کہ اس نے ایرانی تیل کو عراقی تیل میں ملا کر غیر قانونی طریقے سے برآمد کرنے کی کوشش کی۔

امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ایران کا طرزِ عمل اسے تباہی کی جانب لے گیا ہے، اُسے امن کا انتخاب کرنے کے بے شمار مواقع ملے، لیکن اس کی قیادت نے انتہا پسندی کا راستہ چنا۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی محکمہ خزانہ تہران کے مالی وسائل کو نشانہ بناتا رہے گا تاکہ اس کے تخریبی عزائم کو روکا جا سکے۔

یاد رہے کہ 24 جون کو جنگ بندی کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا تھا کہ چین ایرانی تیل خرید سکتا ہے اور امریکا ایران پر سے توانائی کی پابندیاں اٹھانے پر غور کر رہا ہے، تاہم یہ وعدہ زیادہ دیر نہ نبھایا جاسکا۔

گزشتہ ہفتے ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے اسرائیل کے خلاف فتح کا دعویٰ سامنے آنے پر انہوں نے فوری طور پر پابندیوں میں نرمی کا ہر اقدام روک دیا ہے۔

مزید پڑھیں:

صدر ٹرمپ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے اسرائیل کو خامنہ ای کو قتل کرنے سے روکا اور انہیں ’انتہائی بدنما اور ذلت آمیز موت‘ سے بچایا۔

اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز کا کہنا تھا کہ اسرائیل سپریم ایرانی لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو نشانہ بنانا چاہتا تھا، لیکن مناسب موقع موجود نہیں تھا۔

13 جون کو اسرائیل نے بغیر کسی براہ راست اشتعال کے ایران پر فضائی حملے کیے، جن میں سینکڑوں ایرانی شہری اور اعلیٰ فوجی افسران ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں امریکا نے بھی اسرائیلی مہم کا ساتھ دیا اور ایران کی 3 جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں:

جوابی کارروائی میں ایران نے اسرائیل پر میزائل داغے اور قطر میں امریکی فوجیوں کے اڈے پر بھی حملہ کیا، صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکی فضائی حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کر دیا۔

بدھ کے روز پینٹاگون نے اعلان کیا کہ ان حملوں کے نتیجے میں ایران کا جوہری پروگرام ایک سے دو سال پیچھے چلا گیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایران کے پاس موجود افزودہ یورینیم کے ذخائر کہاں موجود ہیں۔

ایران نے گزشتہ ماہ ایک قانون منظور کیا جس کے تحت وہ اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے، آئی اے ای اے، کے ساتھ تعاون معطل کرے گا کیونکہ یہ ادارہ امریکا اور اسرائیل کے حملوں کی مذمت کرنے میں ناکام رہا۔

مزید پڑھیں:

اس فیصلے پر امریکا اور متعدد یورپی ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

جمعرات کے روز ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے انکشاف کیا کہ ایران اور امریکا کے درمیان عمان اور قطر کے ذریعے بالواسطہ سفارتی روابط موجود ہیں تاکہ موجودہ بحران کا سفارتی حل تلاش کیا جا سکے۔

’سفارت کاری کو فریب یا نفسیاتی جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے، ایران کو لگتا ہے کہ اس کی سفارتی کوششوں کو دھوکا کیا گیا ہے۔‘

مزید پڑھیں:

واضح رہے کہ جنگ کے آغاز سے چند گھنٹے قبل صدر ٹرمپ نے سفارت کاری کے عزم کا اعادہ کیا تھا، اور امریکی حملوں سے چند روز قبل کہا تھا کہ وہ دو ہفتوں میں جنگ میں شمولیت کے بارے میں فیصلہ کریں گے تاکہ ایران اور یورپی طاقتوں کے درمیان بات چیت کا موقع مل سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل اسماعیل بقائی امریکا آیت اللہ ایران پینٹاگون توانائی جنگ بندی جوہری تنصیبات خامنہ ای ڈونلڈ ٹرمپ سفارت کاری علی خامنہ ای قطر وزارت خارجہ

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کو حماس کی جنگ بندی تجاویز موصول، جائزہ شروع
  • ’حماس کا مثبت جواب خوش آئند، اگلے ہفتے غزہ جنگ بندی کا امکان‘ ٹرمپ کا عندیہ
  • غزہ جنگ بندی معاہدہ آئندہ ہفتے ہونے کا امکان، حماس کی جانب سے مثبت پیشرفت
  • غزہ جنگ بندی معاہدہ آئندہ ہفتے ہونے کا امکان، حماس کی  جانب سے مثبت پیشرفت
  • غزہ جنگ بندی معاہدہ آئندہ ہفتے ہونے کا امکان، حماس کی جانب سے مثبت پیشرفت
  • امریکا کی جانب سے ایران پر نئی پابندیاں، جنگ بندی کے بعد پہلا قدم
  • حماس غزہ میں جنگ بندی کے لیے کس بات کی ضمانت مانگ رہی ہے؟
  • قطر کا دوحہ میں موجود حماس قیادت سے ذاتی ہتھیار حوالے کرنے کا مطالبہ
  • صدر ٹرمپ کی پیش کی گئی آخری جنگ بندی تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں، حماس