’حماس کا مثبت جواب خوش آئند، اگلے ہفتے غزہ جنگ بندی کا امکان‘ ٹرمپ کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس کی جنگ بندی تجویز پر ’مثبت جواب‘ خوش آئند ہے اور ممکنہ طور پر آئندہ ہفتے غزہ میں جنگ بندی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہمیں غزہ کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا، ہم وہاں بڑی مقدار میں امداد اور رقم بھیج رہے ہیں۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حماس نے ایک امریکی تجویز کردہ جنگ بندی منصوبے پر فوری بات چیت کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔
مزید پڑھیں: حماس نے جنگ بندی تجویز پر مثبت ردعمل دے دیا: فلسطینی عہدیدار
صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں مذاکرات کی موجودہ صورت حال پر مکمل بریفنگ نہیں دی گئی، لیکن وہ پُرامید ہیں کہ اگلے ہفتے کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے۔
حماس نے جمعہ کے روز کہا کہ وہ فوری اور سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار ہے، جبکہ اس کے اتحادی اسلامی جہاد نے بھی حمایت کا اعلان کیا، تاہم اس شرط کے ساتھ کہ اسرائیل جنگ بندی کے بعد دوبارہ حملے نہ کرے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے جاری بھرپور فوجی کارروائی میں اب تک 57 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ دو سابقہ جنگ بندیاں قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی سے ہو چکی ہیں، جن میں قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: حماس جنگ بندی مذاکرات پر تیار، غزہ میں اسرائیلی بمباری سے 18 افراد شہید
اس دوران اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر یرغمالیوں کی بازیابی کے معاملے پر شدید اندرونی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وہ پیر کے روز واشنگٹن کا دورہ کرنے والے ہیں، جس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی متوقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل ٹرمپ جنگ بندی حماس غزہ فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل فلسطین کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں جنگ بندی سے متعلق حماس کا جواب 24 گھنٹے میں آجائے گا،ٹرمپ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن /غزہ /تل ابیب (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی سے متعلق حماس کا جواب 24 گھنٹوں میں آجائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق قطر اور امریکا کی غزہ جنگ بندی کی جو نئی تجاویز حماس کو پیش کی گئی تھیں حماس اس تجویز کردہ جنگ بندی پر دیگر مزاحمتی گروپوں سے مشاورت کررہی ہے اور ممکنہ طور پر اگلے 2 دن میں جواب دے سکتی ہے۔ ترک خبر ایجنسی نے اس حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا کہ حماس نئی تجاویز قبول کرنے کا سوچ رہی ہے۔ اس کے علاوہ جمعے کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے 5 بین الاقوامی جنگیں رکوا کر دنیا میں امن قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور اسی بنیاد پر وہ نوبل امن انعام کے لیے بہترین امیدوار ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے فی الوقت سب سے بڑی ترجیح غزہ میں مستقل جنگ بندی کا حصول ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ان خیالات کا اظہار سعودی وزیر خارجہ نے روس کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی ممکنہ بحالی سے متعلق سوال کے جواب میں وزیرِخارجہ نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوجاتی‘ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی ممکن نہیں ہے۔ غزہ کے شمالی علاقے میں ایک ملٹری آپریشن کے دوران اسرائیلی فوج کا اہلکار حادثاتی طور پر مارا گیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اس کی تصدیق کی ہے۔غزہ میںجمعے کو اسرائیلی فوج کے حملوں میں کم از کم 138 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ امدادی مراکز پر خوراک کے حصول کے خواہش مند فلسطینی شہریوں کی شہادتوں کی تعداد 613 ہوچکی ہے۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق وزارت صحت کے حکام نے بتایا ہے کہ غزہ میں جمعے کو اسرائیلی فوج کے حملوں میں کم از کم 138 فلسطینی شہید اور 452 زخمی ہوئے ہیں۔ دریں اثنا اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ کی پٹی میں واقع خان یونس کے کئی علاقوں میں رہائش پذیر فلسطینیوں کو یہ علاقے خالی کرنے کے لیے انتباہ جاری کیا ہے۔ شہر کے مشرقی اور مرکزی حصوں کے لیے جاری کی گئی ان وارننگز میں وہ علاقہ بھی شامل ہے جہاں ناصر اسپتال واقع ہے۔ غزہ میں جاری تنازع کے خاتمے کے لیے امریکا، قطر اور مصر کی ثالثی میں60 روزہ جنگ بندی کا مجوزہ منصوبہ سامنے آیا ہے جس میں قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی، اسرائیلی افواج کا انخلا اور مستقل امن کے لیے مذاکرات شامل ہیں۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات سے واقف ایک اہلکار نے بتایا کہ غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کے لیے امریکی حمایت یافتہ مجوزہ منصوبے میں قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی، محصور علاقے سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور تنازع کے خاتمے کے لیے مذاکرات شامل ہیں۔یہ منصوبہ تنازع میں شامل دونوں فریقین کی منظوری سے مشروط ہے۔ امریکا، قطر اور مصر کے ثالث اس معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔