دہلی فسادات 2020ء: عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر کی ضمانت پر فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
تشار مہتا نے کہا کہ دہلی میں فسادات پہلے سے منصوبہ بند تھے اور جسطرح سے انکی منصوبہ بندی کی گئی تھی وہ کسی ضمانت کے حقدار نہیں ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی ہائی کورٹ نے فروری 2020ء میں دہلی فسادات کے بعد گرفتار شرجیل امام، عمر خالد اور دیگر ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں پر اپنا حکم محفوظ کر لیا۔ جسٹس نوین چاولہ کی سربراہی میں بنچ نے فریقین کی درخواست ضمانت پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ دہلی پولیس کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اگر ملزمان ملک کے خلاف کچھ کرتے ہیں تو ان کے لیے بہترین جگہ جیل ہے۔ تشار مہتا نے کہا کہ دہلی میں فسادات پہلے سے منصوبہ بند تھے اور جس طرح سے ان کی منصوبہ بندی کی گئی تھی وہ کسی ضمانت کے حقدار نہیں ہیں۔ یہ کوئی عام جرم نہیں ہے بلکہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ایک مذموم مقصد کے ساتھ پہلے سے ہی فسادات کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
تشار مہتا نے کہا کہ ملزمان عالمی سطح پر ملک کو بدنام کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے فسادات کے لئے ایک خاص دن کا انتخاب کیا۔ مہتا نے شرجیل امام کی اس تقریر کا حوالہ دیا جس میں مذہب کی بنیاد پر آسام کا ذکر کیا گیا تھا۔ عمر خالد اور دیگر ملزمان کے فون نمبرز جعلی دستاویزات کے ذریعے حاصل کئے گئے۔ اس سے قبل ایک ملزم عمر خالد نے ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ محض واٹس ایپ گروپ کا ممبر ہونا کسی جرم میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ خالد کی نمائندگی کرتے ہوئے تردیپ پیس نے کہا تھا کہ دہلی پولیس کی جانب سے ثبوت کے طور پر پیش کردہ واٹس ایپ گروپ چیٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ خالد تین واٹس ایپ گروپس کا حصہ تھے لیکن اس نے شاید ہی کسی گروپ میں کوئی پیغام بھیجا ہو۔ وکیل نے کہا کہ صرف واٹس ایپ گروپ کا حصہ بننا کسی جرم کی علامت نہیں ہے۔
اس کیس میں ایک اور ملزم میران حیدر کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے کہا کہ اس نے نہ تو کسی میٹنگ میں حصہ لیا تھا اور نہ ہی وہ کسی ایسے چیٹ گروپ کا حصہ تھا جہاں تشدد بھڑکانے کی سازش پر بات کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حیدر نوجوان رہنما اور جامعہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ اس نے صرف شہریت ترمیمی قانون کے خلاف منعقدہ احتجاج میں حصہ لیا تھا نہ کہ فسادات بھڑکانے کی سازش میں، انہوں نے مزید کہا کہ حیدر سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا۔
اس سے قبل دہلی پولیس نے ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرائل میں تاخیر کا مطلب مفت پاس ہونا نہیں ہے۔ دہلی پولیس کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل چیتن شرما نے کہا تھا کہ مقدمے میں تاخیر کی وجہ استغاثہ نہیں بلکہ ملزم ہے۔ شرما نے کہا کہ تیز ٹرائل ضروری ہے لیکن کسی کو زیادہ دیر تک جیل میں رکھنے کو ضمانت دینے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ فروری 2020ء میں دہلی فسادات میں کم از کم 53 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: واٹس ایپ گروپ کی نمائندگی دہلی پولیس کی گئی تھی عمر خالد نہیں ہے تھا کہ
پڑھیں:
پنجاب میں مساجد کے امام کی رجسٹریشن سے متعلق حکومتی وضاحت سامنے آگئی
لاہور:پنجاب کی حکومت نے صوبے میں مساجد کے امام کی رجسٹریشن سے متعلق زیرگردش خبروں کی تردید کرتے ہوئے وضاحت جاری کردی ہے۔
حکومت پنجاب نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جعلی پروپیگنڈا پر حکومت پنجاب نے واضح تردید کی ہے اور حکومت نے آئمہ کرام کی رجسٹریشن کے لیے کوئی قواعد و ضوابط جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
صوبائی حکومت نے کہا کہ آئمہ مساجد و علمائے کرام کی رجسٹریشن اور خطبہ جمعہ کے لیے اجازت نامہ بارے جھوٹی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔
حکومت نے وضاحت کی کہ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپوں میں چلنے والی خبر حقائق کے منافی اور گمراہ کن ہے لہٰذا عوام الناس اور علمائے کرام ایسے جھوٹے پروپیگنڈے پر توجہ نہ دیں۔