شوہرکا شاپنگ سے انکار، ڈیڑھ کروڑ کی چوری کی ملزمہ گھر کی مالکن
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:پنجاب کے دارالحکومت کے علاقے شادباغ میں پیش آنے والی ڈیڑھ کروڑ روپے کی چوری کی واردات کا ڈرامائی اور حیران کن انجام سامنے آ گیا ہے، ابتدائی رپورٹ پر معلوم ہوا کہ گھر میں نامعلوم افراد نے بڑی رقم اور قیمتی زیورات چوری کر لیے ہیں، پولیس تفتیش نے معاملے کا رُخ ہی بدل دیا، واردات کسی بیرونی شخص نے نہیں بلکہ خود گھر کی مالکن نے اپنے ڈرائیور کے ساتھ مل کر کرائی تھی۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق چند روز قبل شادباغ تھانے کی حدود میں واقع ایک گھر سے نقدی اور زیورات کی چوری کی رپورٹ درج کرائی گئی تھی جس کی مالیت تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے بتائی گئی، کیس کو حساس نوعیت کا قرار دے کر تفتیش ویمن تھانہ ریس کورس کو منتقل کی گئی۔
ویمن تھانے کی تفتیشی ٹیم نے گھر کے ملازمین سے پوچھ گچھ کا آغاز کیا اور جلد ہی شواہد اور بیانات کے تضادات سامنے آنے لگے، تفتیش کے دوران کئی کڑیاں ملتے ملتے براہ راست گھر کی مالکن سے جا ملیں، مالکن نے پہلے چوری کا ڈرامہ رچایا اور اپنے ڈرائیور کے ساتھ مل کر رقم و زیورات کو چھپایا۔
پولیس نے گرفتاری کے بعد دورانِ تفتیش ملزمہ اور اس کے ساتھی ڈرائیور سے چوری کی مکمل تفصیل اور اعتراف حاصل کیا، پولیس نے کامیاب کارروائی کرتے ہوئے نقد رقم اور قیمتی زیورات برآمد کر لیے ہیں، ملزمہ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ شوہر سے شاپنگ کا کہا تھا لیکن شوہر نے انکار کردیا جس کے بعد میں نے ڈرائیور کے ساتھ مل کر چوری کا ڈرامہ رچایا۔
پولیس ذرائع کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ خاتون نے مبینہ طور پر گھریلو مالی دباؤ یا ذاتی تنازعات کے باعث یہ قدم اٹھایا، مکمل محرکات کا تعین تفتیش مکمل ہونے کے بعد کیا جائے گا۔
ویمن تھانے کی پولیس نے دونوں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں عدالت میں پیش کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے، مزید تفتیش جاری ہے اور اگر اس واردات میں کسی اور فرد کا کردار سامنے آیا تو اسے بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ بھی ایسے جعلی مقدمات اور منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی وارداتوں کے خلاف سخت کارروائی جاری رکھے گی تاکہ شہریوں کے اعتماد کو برقرار رکھا جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: چوری کی
پڑھیں:
بنوں:دہشتگردوں کا ڈرون حملہ، بم گھر پر گرنے سے خاتون جاں بحق،3 زخمی،تھانے کو بھاری نقصان
(عبدالقیوم وزیر ) بنوں میں دہشتگردوں کے 2 ڈرون حملے ، بم گھر پر گرنے سے خاتون جاں بحق, بچوں سمیت 3 زخمی جبکہ میریان پولیس سٹیشن پر ڈرون حملے سے سولر سسٹم کو نقصان پہ پہنچا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق دہشت گردوں نے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں تھانوں پر فضائی حملے کرنے کے لیے بم سے بھرے کواڈ کاپٹرز کا استعمال کیا۔
گاڑی کا چالان، وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے جنید صفدر کا ردعمل سامنے آگیا
ایک ڈرون نے غلطی سے تھانہ حدید کی حدود میں ایک شہری کے گھر پر بم گرا دیا جس کے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق اور تین بچے زخمی ہو گئے۔
دوسرے حملے میں میریان پولیس اسٹیشن کو نشانہ بنایا گیا، جہاں ایک بم براہ راست احاطے پر گرایا گیا۔ دھماکے سے پولیس اسٹیشن کے سولر پاور سسٹم کو نقصان پہنچا، تاہم اس ہڑتال میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
یہ میریان پولیس اسٹیشن پر تیسرا ڈرون حملہ ہے، جس سے علاقہ میں دہشت گرد گروپوں کی جانب سے ڈرون کے استعمال کے ذریعے حملوں پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔
ڈی جی ریسکیو خیبرپختونخوا شاہ فہد کو عہدے سے ہٹا دیا گیا
دو ہفتے قبل کے پی میں حکام نے کواڈ کاپٹروں سے متعلق ایسے ہی واقعات کے بعد ڈرون مخالف نظام کی فوری ضرورت پر زور دیا تھا۔
اگرچہ سینئر حکام نے ابتدائی طور پر ڈرون کو چھوٹا اور اپنی نوعیت کا پہلا قرار دیا، لیکن ان حملوں کی بار بار ہونے والی نوعیت عسکریت پسندوں کی حکمت عملی میں ایک خطرناک نئے رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔
سیکیورٹی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کے پی پولیس کے پاس اس وقت ڈرون مخالف صلاحیتوں کا فقدان ہے۔
لیاری سانحہ؛ گورنر سندھ کا متاثرہ مکینوں کو 80 گز کے متبادل پلاٹس دینے کا اعلان
پولیس حکام نے باضابطہ طور پر ایسے خطرات سے نمٹنے کے لیے اینٹی ڈرون ٹیکنالوجیز کی خریداری کی سفارش کی ہے۔
حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ دہشت گرد گروپوں نے شمالی وزیرستان سمیت جنوبی کے پی میں عوامی مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون کا استعمال کیا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ڈرونز کو بم دھماکوں سے لے کر نگرانی اور عسکریت پسندوں کے لیے سپلائی میں کمی کے لیے وسیع پیمانے پر بدنیتی پر مبنی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تھنڈر سٹارم کا خطرہ؛ شہریوں کو آسمانی بجلی سے بچنے کا مشورہ
حکام نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کے پی کے مقابلے میں کم خطرے کی سطح کا سامنا کرنے کے باوجود صوبہ پنجاب پہلے ہی اس طرح کے نظام کو تعینات کر چکا ہے۔