Daily Ausaf:
2025-11-03@19:31:11 GMT

یومِ شہداء کشمیر

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

مقصد:
کشمیری عوام کی بے پناہ قربانیوں کو اجاگر کرنا، جو انہوں نے ظالم ڈوگرہ راج اور جابرانہ بھارتی ریاست کے خلاف اپنی مسلسل، مقامی آزادی کی جدوجہد میں دیں۔
سیاق و سباق:
بھارتی سیکیورٹی فورسز برطانوی نوآبادیاتی افواج کے مظالم کی وراثت کو جاری رکھتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) میں ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس کے باوجود، کشمیری عوام نے اپنی شناخت اور مذہب پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا؛ ان کا حوصلہ ہر دن بھارتی قبضے کے خلاف مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔
“عملیہ بنیان المرصوص” نے کشمیری آزادی کی جدوجہد کو مزید تقویت دی ہے، اور پاکستان کشمیری عوام کے جائز موقف کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
یومِ شہداء کشمیر (13 جولائی) ہر سال لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے تاکہ ان 22 کشمیریوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے جو 1931 میں سری نگر جیل کے باہر اذان دینے کی کوشش کے دوران ڈوگرہ سپاہیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
یہ المناک دن کشمیری جدوجہدِ آزادی کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ظلم و جبر کے خلاف ایک بغاوت تھی، جب کشمیری عوام نے خودسر ڈوگرہ راج کے خلاف اٹھ کھڑے ہو کر ایک مجاہدِ آزادی عبدالقادر خان غازی کے مقدمے کے خلاف احتجاج کیا۔
حقائق / کلیدی نکات:
مسلمانوں کی مزاحمت کے باوجود، برطانوی حکومت نے جموں و کشمیر کو صرف 7 لاکھ 50 ہزار روپے میں ہندو مہاراجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا۔ ان کے مسلم مخالف دورِ حکومت میں خطبۂ جمعہ پر پابندی، قرآن مجید کی بے حرمتی، مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ، اور نوجوانوں پر غداری کے مقدمات عام تھے۔
100 سالہ ڈوگرہ راج مسلمانوں کے لیے ایک سیاہ اور ظالمانہ دور تھا، جو ظلم، ناانصافی اور جبر سے بھرپور تھا۔ اس پورے عرصے میں کشمیری عوام نے آزادی کے لیے اپنی جائز جدوجہد جاری رکھی۔
13 جولائی 1931 کو، عبدالقادر کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت سری نگر جیل میں جاری تھی۔ ظہر کے وقت ایک نوجوان نے اذان دینے کی کوشش کی تو پولیس نے اسے شہید کر دیا۔ پھر دوسرا نوجوان کھڑا ہوا، اسے بھی گولی مار دی گئی۔ اس طرح اذان کی تکمیل تک 22 کشمیریوں نے جام شہادت نوش کیا۔
آزادی کے جذبے سے سرشار کشمیری عوام نے بھارتی تسلط کے خلاف اپنی زمین کو بچانے کے لیے بے شمار قربانیاں دیں۔
درج ذیل اعداد و شمار بھارت کی بڑھتی ہوئی بربریت کی عکاسی کرتے ہیں:

5اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد، مودی حکومت نے کشمیری مسلمانوں کی سیاسی شناخت کو منظم طریقے سے ختم کرنا شروع کیا، انہیں نمائندگی، خودمختاری، اور جمہوری حقوق سے محروم کر دیا گیا۔
2019 کے بعد سیاسی حقوق کی معطلی، کشمیری مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی ایک مسلسل حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں ووٹ کا حق چھینا گیا، آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے، اور اختلاف رائے کو جبراً خاموش کر دیا گیا ہے۔
بھارت کے کالے قوانین جیسے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) اور پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے ذریعے سیکیورٹی فورسز کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ کشمیریوں کو بلا جواز قتل کریں، قید کریں، اور ان کی آواز کو دبائیں — جس سے IIOJK ایک عسکری قید خانہ بن چکا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر مذمت کے باوجود، بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی جابرانہ پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے اور انسانی حقوق کی عالمی اقدار کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
کشمیری عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھے جانے نے مقامی سطح پر ایک بھرپور تحریکِ آزادی کو جنم دیا ہے جو بھارتی جبر کے خلاف ابھر رہی ہے۔
ہندو مہاراجوں کے دور کے ظلم و ستم سے لے کر آج کے غیر قانونی بھارتی قبضے تک، کشمیری شہداء کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ مقبول بٹ سے لے کر برہان وانی تک، کشمیری عوام آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے سے کبھی نہیں جھجکے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کشمیری عوام نے آزادی کی کے خلاف

پڑھیں:

یوسف تاریگامی کا بھارت میں آزادی صحافت کی سنگین صورتحال پر اظہار تشویش

ذرائع کے مطابق محمد یوسف تاریگامی نے مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں آزادی صحافت مسلسل کم ہو رہی ہے اور بھارت کی گلوبل پریس فریڈم انڈیکس میں پوزیشن 166 درجے تک گر گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے بھارت خاص طور پر غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت کی سنگین صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور قابض حکام سے جمہوریت کے چوتھے ستون یعنی صحافت کا تحفظ یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق محمد یوسف تاریگامی نے مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں آزادی صحافت مسلسل کم ہو رہی ہے اور بھارت کی گلوبل پریس فریڈم انڈیکس میں پوزیشن 166 درجے تک گر گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ جس معاشرے میں آزادی صحافت متاثر ہوتی ہے، وہاں بگاڑ اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی چار صحافی جیل میں قید ہیں۔ یوسف تاریگامی نے سوال اٹھایا کہ ایک منتخب حکومت کے برسر اقتدار ہونے کے باوجود بھارت میں آزاد اور موثر میڈیا پالیسی کیوں نہیں وضع کی جا سکی۔انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز ڈائریکٹوریٹ آج بھی اسی طرح الجھن کا شکار ہے جیسے انتخابات سے پہلے تھی۔یوسف تاریگامی نے میڈیا کو سرکاری اشتہارات نہ دینے پر بھی تشویش ظاہر کی اور کہا کہ اشتہارات کی منصفانہ تقسیم آزاد صحافت کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے میڈیا کو جمہوریت کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی شفافیت اور جواب دہی کے لیے پریس کو آزاد ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • گلگت بلتستان جرنلسٹ فورم کے زیر اہتمام جی بی کے78ویں یوم آزادی کی تقریب
  • بی جے پی حکومت کشمیری صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، حریت کانفرنس
  • مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ
  • بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر مظالم جاری ہیں، مقبوضہ کشمیر کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، صدر مملکت
  • مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی
  • حریت کانفرنس کی طرف سے دو کشمیری ملازمین کی جبری برطرفی کی شدید مذمت
  • یوسف تاریگامی کا بھارت میں آزادی صحافت کی سنگین صورتحال پر اظہار تشویش
  • وفاقی وزیر امیر مقام کی جانب سے گلگت بلتستان کے عوام کو یوم آزادی کی مبارکباد