مظفرآباد(نیوز ڈیسک) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری (ہلالِ امتیاز ملٹری) نے آزاد جموں و کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کا اہم دورہ کیا، جہاں انہوں نے سول سوسائٹی کے نمائندوں سے خصوصی ملاقات کی۔

تفصیلات کے مطابق دورے کے دوران ایک جامع سوال و جواب نشست کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں عوام نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پاک فوج کے ساتھ اپنی وابستگی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

اجلاس کے دوران شرکاء کی جانب سے واضح اور پُرجوش انداز میں کہا گیا ” کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا!””پاکستان اور کشمیر کو دنیا کی کوئی طاقت جدا نہیں کر سکتی۔”

کشمیری عوام نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو روایتی کشمیری ثقافتی لباس کا تحفہ پیش کیا، جسے بھرپور محبت اور عقیدت کا مظہر قرار دیا گیا۔ اس موقع پر شرکاء نے پاکستان اور کشمیر کے جھنڈے لہرائے اور یکجہتی کے نعرے لگائے۔

شرکاء نے آزاد کشمیر میں بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے پر پاک فوج کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ “کشمیری عوام کل بھی پاکستان کے ساتھ تھے، آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔”
اجتماع کے آخر میں فضا ” کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعروں سے گونج اٹھی، جو کشمیری عوام کے جذبے اور پاکستان سے غیرمتزلزل وفاداری کی علامت تھی۔

Post Views: 6.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

اظہار محبت کے خفیہ اشارے: کیا ایموجیز صدیوں پرانے کوڈ ورڈز کا تسلسل ہیں؟

جب ہم ڈیٹنگ کے بارے میں سوچتے ہیں تو عام طور پر موبائل ایپس، سوشل میڈیا یا مسیجنگ ذہن میں آتی ہے لیکن ایک وقت تھا جب رومانی تعلقات کے آغاز اور اظہار کا طریقہ کچھ مختلف تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟

فین فلرٹنگ سے لے کر کوڈڈ تحائف تک لوگوں نے کئی صدیوں سے سمجھداری سے اپنی محبت کا اشارہ دینے کا فن اختیار کیا ہے۔

200 سال پرانی ’خفیہ زبانوں‘ نے ایک نئی تحقیق میں دوبارہ سر اٹھایا ہے جو دکھاتی ہیں کہ کس طرح تاریخ میں رومانوی تعلقات، معاشرتی رواجوں اور طبقاتی تفریق کے ذریعے مختلف اشاروں، علامتوں اور کوڈز کی مدد سے بات چیت کی جاتی تھی۔

خفیہ اشاروں کا آغاز

یہ تحقیق بتاتی ہے کہ 19 ویں صدی کے دوران جب معاشرتی تعلقات اور طبقاتی تقسیم کا اثر تھا مخصوص علامتیں اور اشارے استعمال کیے جاتے تھے تاکہ لوگوں کے درمیان رومانوی تعلقات کی نوعیت کو چھپایا جا سکے۔

مزید پڑھیے: قدیم وقت کی سیر کراتا لیویز افسر کا انوکھا شوق

یہ زبانیں اکثر محنت کش طبقے یا اشرافیہ کے افراد کے لیے مخصوص ہوتی تھیں اور اس میں کوڈ اور علامتیں شامل ہوتی تھیں جنہیں صرف مخصوص گروہ سمجھ سکتے تھے۔

ایسا کیوں تھا؟

ان زبانوں کا استعمال اس وقت کی معاشرتی حقیقتوں کا عکاس تھا۔ مغربی دنیا میں، خاص طور پر برطانیہ اور فرانس میں، لوگوں کے درمیان تعلقات میں طبقاتی فرق بہت زیادہ تھا۔ ایک طرف جہاں اشرافیہ کے افراد اپنے رومانوی تعلقات کو عوامی سطح پر ظاہر کرتے تھے وہیں دوسری طرف محنت کش طبقہ اور متوسط طبقہ اپنے تعلقات کو زیادہ تر خفیہ رکھتے تھے۔ معاشرتی دباؤ، اخلاقی حدود اور خاندان کے تحفظ کے نظریات نے ان خفیہ زبانوں کو جنم دیا تھا۔

کوڈورڈز سے بھرپور پرانے دور میں ڈیزائن کردہ پنکھا

یہ خفیہ زبانیں بہت زیادہ مختلف قسم کی علامتوں پر مبنی تھیں جیسے کہ مخصوص قسم کے پھولوں یا جواہرات کو تحفے کے طور پر دینا یا مخصوص طریقوں سے کسی کی آنکھوں میں دیکھنا۔ مثلاً ایک مخصوص قسم کا پھول، جو کسی شخص کو تحفے میں دیا جاتا، اس کا مطلب ہو سکتا تھا ’مجھے تم سے محبت ہے‘ یا میرے دل میں تمہارے لیے جگہ ہے‘۔ اسی طرح مختلف قسم کی چالاکیاں، جسمانی اشارے اور حروف تہجی کی خاص ترتیب بھی استعمال ہوتی تھی۔

مزید پڑھیں: آن لائن محبت: امریکی خاتون پاکستانی نوجوان کی دُلہن بننے دیر پہنچ گئی

سنہ 1797 میں برطانوی ڈیزائنر چارلس فرانسس بینڈینی نے ایک پنکھا بنایا تھا جس پر اس نے چھوٹے آرائشی حروف میں ایک کوڈ شدہ حروف تہجی پرنٹ کیے تھے تاکہ خواتین کو بھرے مجمع میں بھی کسی کو بآسانی پیغامات بھیج سکیں۔ وہ پنکھا جسے فینولوجی یا لیڈیز کنورسیشن فین کہا جاتا تھا ہر حرف کو سیمفور سے ملتے جلتے انداز میں ظاہر کرنے کے لیے ہاتھ کی مختلف پوزیشنز متعین کرتا تھا جو زیادہ تر ملاحوں کے ذریعے رنگین جھنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے بات چیت کرنے کا ایک طریقہ تھا۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

اگرچہ یہ خفیہ زبانیں وقت کے ساتھ معدوم ہو گئیں لیکن ان کا اثر آج بھی ہمیں ڈیٹنگ کے مختلف اندازوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

ماہرین کے مطابق جدید ڈیٹنگ ایپلی کیشنز اور سوشل میڈیا نے ان قدیم روایات کو نیا روپ دے دیا ہے۔ آج کل لوگ اپنے پیغامات اور تعلقات کو خفیہ رکھنے کے لیے ایموجیز، ہیش ٹیگ اور کوڈ ورڈز کا استعمال کرتے ہیں جو دراصل ان قدیم زبانوں کا جدید ورژن ہیں۔

اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ایملی تھامس نے کہا کہ یہ خفیہ زبانیں صرف رومانوی تعلقات کی عکاسی نہیں کرتی تھیں بلکہ اس دوران کے معاشرتی اور ثقافتی حالات کو بھی سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

ان کے مطابق اس دور میں لوگوں کے لیے محبت اور تعلقات کے اظہار کے مختلف طریقے تھے جنہیں عوامی سطح پر ظاہر کرنے میں محتاط رہنا پڑتا تھا۔

ان 200 سال پرانی خفیہ زبانوں کی دریافت سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈیٹنگ اور رومانوی تعلقات کا تصور ہمیشہ سے مختلف رہا ہے۔

اگرچہ وقت بدل چکا ہے لیکن ان قدیم علامتوں اور اشاروں کا اثر اب بھی ہمارے تعلقات میں موجود ہے۔ چاہے یہ پھولوں کا تحفہ ہو یا کسی ایپ پر بھیجے گئے ایموجیز، ان زبانوں کا فلسفہ آج بھی ہمارے روزمرہ کے تعلقات کا حصہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اظہار محبت ایموجیز عاشقوں کے کوڈورڈز کوڈ ورڈز

متعلقہ مضامین

  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا مظفرآباد کا دورہ، کشمیری عوام کا والہانہ استقبال
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا مظفر آباد کا دورہ، سول سوسائٹی کیساتھ خصوصی نشست
  • پاکستان اور کشمیر کو کوئی طاقت جدا نہیں کر سکتی’، ‘ڈی جی آئی ایس پی آر کا مظفر آباد کا دورہ
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا مظفرآباد کا دورہ، کشمیری عوام کا پاک فوج سے اظہارِ یکجہتی
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا دورہ مظفر آباد، سول سوسائٹی کے ساتھ خصوصی نشست
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا دورہ مظفر آباد
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا مظفر آباد کا دورہ، کشمیری عوام کا والہانہ استقبال
  • دورہ آئرلینڈ کیلئے پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی بھرپور ٹریننگ جاری
  • اظہار محبت کے خفیہ اشارے: کیا ایموجیز صدیوں پرانے کوڈ ورڈز کا تسلسل ہیں؟