دنیا ایک صدی کی تیز  تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، چینی وزیر اعظم WhatsAppFacebookTwitter 0 7 July, 2025 سب نیوز

ریو ڈی جنیرو :  چین کے  وزیر اعظم لی چھیانگ نے ریو ڈی جنیرو میں 17 ویں برکس سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا ایک صدی کی تیز  تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور بین الاقوامی قوانین اور نظم و نسق کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے پیش کردہ  وسیع مشاورت، مشترکہ تعمیر اور اشتراک پر مبنی عالمی حکمرانی کے تصور نے اس کی قدر اور عملی اہمیت  مزید  واضح کی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ برکس ممالک کو  گلوبل ساؤتھ کے “صف اول” دستے کی حیثیت سے خودمختاری  کی پاسداری کرتے ہوئے  ذمہ داریوں کا مظاہرہ کرنا  ہوگا اور اتفاق رائے پیدا کرنے اوریکجہتی حاصل کرنے میں مزید کوششیں کرنی ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقی پر توجہ مرکوز کرنا اور ابھرتے ہوئے شعبوں کے ترقیاتی امکانات کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔اس سلسلے میں رواں سال چین چین-برکس نیو کوالٹی پروڈکٹویٹی ریسرچ سینٹر اور نئی صنعتوں کے لئے برکس “سنہری بگلا” ایکسیلینس اسکالرشپ قائم کرے گا تاکہ برکس ممالک کو صنعت اور ٹیلی مواصلات  سمیت دیگر شعبوں میں باصلاحیت افراد کی تربیت میں مدد ملے۔

چینی وزیر اعظم  نے کہا کہ چین برکس ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہے تاکہ عالمی حکمرانی کو زیادہ منصفانہ ، معقول ، موثر اور منظم سمت میں فروغ دیا جاسکے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمارک روٹ کا’’دادا ابو والا مذاق‘‘اور “شاہی بیٹا” کی کہانی حکومت اور اسٹیٹ بینک کے سخت فیصلوں سے معیشت بحال ہوئی، گورنر اسٹیٹ بینک پاکستان سٹاک مارکیٹ میں نیا ریکارڈ، انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو گیا شی جن پھنگ کی ماحولیاتی تہذیب پر منتخب تحریریں نامی کتاب کی پہلی جلد کی اشاعت چین اور یونان نے دونوں ممالک کے عوام کو فوائد پہنچائے ہیں، چینی وزیر اعظم چین کی جانب سے سرکاری خریداری میں یورپی یونین سے درآمد شدہ طبی آلات کے حوالے سے اقدامات برکس بزنس فورم کا آغاز، ڈیجیٹل معیشت سمیت مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: چینی وزیر اعظم

پڑھیں:

اسلامی دنیا کو جوہری ٹیکنالوجی سے محروم کرنے کیلئے مغرب کی تہذیبی جنگ

اسلام ٹائمز: ان دوغلی پالیسیوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی ممالک کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی کی اجازت نہ دینے کی اصل وجہ قانونی یا سیکورٹی نوعیت کی نہیں بلکہ اس کی جڑیں مذہبی تعصب اور اسلام دشمنی میں ہیں۔ مغربی ممالک یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشرق وسطی میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اس خطے کے ناامن ہو جانے کا باعث بنے گی۔ لہذا ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سامنے آنے والے حالات و واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ ٹکراو ایک وسیع تہذیبی جنگ کا حصہ ہے جس کی بنیاد اسلام دشمنی پر استوار ہے اور اس کا مقصد اسلامی دنیا کو طاقتور ہونے سے روکنا ہے، چاہے اس کے لیے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ تحریر: محمود سلطان (مصری صحافی اور تجزیہ کار)
 
ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق گذشتہ چند ہفتوں کے دوران رونما ہونے والے حالات و واقعات نے ایک بار پھر اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ جوہری توانائی سے متعلق تنازعات دراصل ایک وسیع تر تہذیبی ٹکراو کے ذیل میں ہے اور اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ مغربی دنیا کی جانب سے ایران کو جوہری پروگرام پوری طرح ختم کر دینے پر اتفاق نے ایک بار پھر اس بنیادی سوال کو اجاگر کر دیا ہے کہ کیا مشرق وسطی کے ممالک کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ گذشتہ چند عشروں کے دوران عرب دنیا کی رائے عامہ اس بنیاد پر استوار تھی کہ کسی بھی عرب یا مسلمان ملک کی جانب سے جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کے کلب میں شمولیت کے حق کے خلاف "مغربی ویٹو" دراصل اس جنگ طلب روح کا تسلسل ہے جو 1096ء سے 1291ء تک جاری رہنے والی صلیبی جنگوں میں حکمفرما تھی۔
 
یہ سوچ ایک طرح سے مذہبی انداز میں اس محرومیت کو دیکھتی ہے اور اس کی درستگی ان شواہد پر مبنی ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف مسلمانوں کو ہی ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت جوہری ہتھیاروں سمیت ہر قسم کی جوہری ٹیکنالوجی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ "اینٹ کا جواب پتھر سے دینے" کا اصول بین الاقوامی قانون کا حصہ ہے اور اس کے تحت ہر قوم تزویراتی اور اہم ٹیکنالوجیز حاصل کرنے کا مکمل حق رکھتی ہیں۔ اسرائیل سے متعلق مغربی دنیا کا دوغلا رویہ نیز اکثر مسلمان ممالک میں وسیع پیمانے پر اسلامی قوانین کے اجرا سے ان کی لاعلمی کے باعث اس مغربی سوچ میں مزید شدت آئی ہے۔ اگرچہ اکثر عرب ممالک جوہری ٹیکنالوجی کے حقیقی حصول سے بہت دور ہیں لیکن مغربی ممالک خطے میں جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کی ہر کوشش کو بدبینی اور شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
 
اس بارے میں قوم پرست تجزیہ کار اکثر اس مسئلے کے سیاسی پہلو پر روشنی ڈالنے سے غفلت برتتے ہیں جو خطے میں حکومتوں کے ڈھانچے سیاسی نظاموں کی نوعیت پر مشتمل ہے۔ کیا اسلامی ممالک کی جانب سے ممکنہ طور پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کے بارے میں مغرب کی تشویش اس وجہ سے ہے کہ ان کے استعمال کا اختیار صرف ایک شخص کے پاس ہے اور اس پر کوئی پارلیمانی یا عدلیہ کی نگرانی نہیں پائی جاتی؟ لیکن یہ توجیہہ بھی قابل قبول نہیں ہے چونکہ چین، روس اور شمالی کوریا جیسے ممالک بھی جمہوری ڈھانچے سے برخوردار نہیں ہیں جبکہ ان کے پاس گذشتہ کئی سالوں سے جوہری ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اسی طرح انڈیا اور پاکستان جوہری ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق عالمی معاہدوں میں شامل نہ ہونے کے باوجود ان ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کے معیار دوہرے ہیں۔
 
پاکستان کے بارے میں کچھ کا خیال ہے کہ یہ مسلمان ملک ایسے وقت ایٹمی طاقت بننے میں کامیاب ہو گیا جب دیوار برلن گر جانے کے باعث جیوپولیٹیکل عدم استحکام حکمفرما تھا۔ شاید جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا دور ہونا یا اس وقت مغرب کی فضائیہ کا کمزور ہونا ان کی جانب سے پاکستان کے خلاف فوجی مداخلت نہ کرنے کا باعث بن گئے تھے۔ مغرب کی متعصبانہ مذہبی نگاہ ثابت کرنے کے لیے بہترین مثال "اسرائیل" ہے۔ یہ رژیم اگرچہ مذہبی رنگ کی حامل ہے اور اس پر دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں کا غلبہ ہے لیکن وہ بین الاقوامی نظارت کے بغیر اور مغرب کی مکمل خاموشی کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کی مالک ہے۔ غزہ کے خلاف حالیہ جنگ میں حتی صیہونی رژیم کے وزیر ثقافت عمیحای الیاہو نے غزہ پر ایٹم بم گرا دینے کی پیشکش بھی کر دی تھی۔
 
ان تمام حقائق کے باوجود مغربی ممالک اسرائیل کے پاس موجود جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو مزید مضبوط بنانے میں براہ راست کردار ادا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس نے ڈیمونا نیوکلیئر ری ایکٹر بنا کر دیا، برطانیہ اور ناروے اسرائیل کو بھاری پانی فراہم کرتے ہیں جبکہ امریکہ نے براہ راست اور بالواسطہ طور پر اسرائیل کو افزودہ یورینیم، جوہری تنصیبات کی ٹیکنالوجی اور میزائل ایئرڈیفنس سسٹم فراہم کیا ہے۔ اسی طرح جرمنی نے جوہری توانائی سے چلنے والی جدید ترین "ڈولفن" سب میرینز اسرائیل کو دی ہیں اور بیلجیئم اپنے زیر تسلط افریقی ملک زائر سے یورینیم کی کچ دھات اسرائیل کو فراہم کر رہا ہے۔ دوسری طرف عرب ممالک کے جوہری پروگرام مغربی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں۔ جیسا کہ 1979ء میں فرانس کی انٹیلی جنس ایجنسی نے موساد کی مدد سے عراق کو بیچے گئے جوہری ری ایکٹر کو ناکارہ بنا دیا تھا۔
 
یا لیبیا شدید اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بنا اور آخرکار معمر قذافی کی حکومت گرا دی گئی۔ ان دوغلی پالیسیوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی ممالک کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی کی اجازت نہ دینے کی اصل وجہ قانونی یا سیکورٹی نوعیت کی نہیں بلکہ اس کی جڑیں مذہبی تعصب اور اسلام دشمنی میں ہیں۔ مغربی ممالک یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشرق وسطی میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اس خطے کے ناامن ہو جانے کا باعث بنے گی۔ لہذا ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سامنے آنے والے حالات و واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ ٹکراو ایک وسیع تہذیبی جنگ کا حصہ ہے جس کی بنیاد اسلام دشمنی پر استوار ہے اور اس کا مقصد اسلامی دنیا کو طاقتور ہونے سے روکنا ہے، چاہے اس کے لیے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

متعلقہ مضامین

  • اسلامی دنیا کو جوہری ٹیکنالوجی سے محروم کرنے کیلئے مغرب کی تہذیبی جنگ
  • برکس گروپ کے رکن ممالک پر 10 فیصد اضافی ٹیکس عائد کریں گے.صدرٹرمپ
  • پاک بھارت تعلقات میں مشاورت سے اختلافات کو دور کرنے کے حامی ہیں ، چینی وزارت خارجہ
  • برکس میکانزم ترقی پذیر ممالک کے درمیان تعاون کا ایک اہم پلیٹ فارم ہے، چینی وزارت خارجہ
  • برکس ممالک تعاون کو مزید مضبوط بنائیں گے، برکس اعلامیہ
  • اسرائیلی حملوں کی مذمت کیوں کی؟ ٹیرف10 فیصد اضافے کیساتھ لگادوں گا،ٹرمپ کی برکس ممالک کو دھمکی
  • چین اور یونان نے دونوں ممالک کے عوام کو فوائد پہنچائے ہیں، چینی وزیر اعظم
  • چین اور برازیل کے تعلقات تاریخ کے بہترین دور میں ہیں، چینی وزیر اعظم
  • پاکستان، آذربائیجان کے 2 ارب ڈالرز سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط