Express News:
2025-11-03@09:56:04 GMT

ورچوئل دنیا میں حقیقی رشتوں کی تنہائی

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

دنیا سوشل میڈیا کے بعد بدل چکی یے۔ دنیا میں ترقی کا ہر نیا رخ بظاہر سہولتوں کی دنیا کو وسعت بخشتا ہے مگر ساتھ ہی انسان کی داخلی دنیا میں خلا بھی پیدا کرتا جاتا ہے۔ ورچوئل دنیا، جسے آج کے دور میں ایک متبادل حقیقت یا ’’ریئل ٹائم‘‘ دنیا کہا جاتا ہے، بلاشبہ انسانی رابطوں کو تیز اور آسان بناتی ہے، لیکن اس کی قیمت اکثر خاموشی سے چکائی جاتی ہے، حقیقی رشتوں میں تنہائی کی صورت میں۔

ورچوئل دنیا کی کشش میں، انسان ایک ایسے جال میں پھنستا رہا ہے جہاں فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اُس کی روزمرہ زندگی کے مستقل ساتھی بن چکے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم بظاہر لوگوں کو جوڑنے کے لیے بنائے گئے ہیں، مگر رفتہ رفتہ وہ ایک ایسے فریب میں بدل گئے ہیں، جہاں لوگ جُڑنے کے باوجود تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔

ایک شخص اپنے موبائل اسکرین پر سیکڑوں دوستوں کی فہرست رکھتا ہے، لیکن جب اُسے دکھ، خوف یا کسی گہرے جذباتی تجربے کا سامنا ہوتا ہے، تو وہ یہ جان کر حیران ہوتا ہے کہ اُس کے قریب کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس سے وہ حقیقتاً بات کر سکے۔ اس حالت کو ماہرین نفسیات ’’ مصنوعی قربت کا فریب‘‘ کہتے ہیں، جو انسان کو وقتی اطمینان دیتا ہے مگر طویل مدت میں جذباتی تنہائی کو بڑھاتا ہے۔

ڈاکٹر شیرل ٹراؤٹسکی، جو ایک معروف امریکی ماہرِ نفسیات ہیں،کہتی ہیں کہ ’’ سوشل میڈیا پر موجودگی انسانی دماغ میں رابطے کی تسکین کا وہم پیدا کرتی ہے، حالانکہ ہمارے دماغ کی وہی حصے جو اصل روابط کے دوران سرگرم ہوتے ہیں، ورچوئل روابط میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔‘‘ ورچوئل دنیا میں انسان اپنی مرضی کا چہرہ، لہجہ اور بات چیت کا طریقہ چنتا ہے۔

وہ دوسروں کو وہ دکھاتا ہے جو وہ چاہتا ہے، نہ کہ جو وہ حقیقتاً ہے۔ اس عمل میں نہ صرف وہ دوسروں کو گمراہ کرتا ہے بلکہ خود بھی اپنی اصلیت سے دور ہوتا جاتا ہے۔ اس تضاد کا سب سے پہلا اثر انسان کے قریبی رشتوں پر پڑتا ہے۔ چاہے وہ والدین ہوں، شریکِ حیات یا بچپن کے دوست۔ اکثر گھرانوں میں یہ منظر عام ہے کہ والدین بچوں کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو انھیں ایک خاموشی میں مگن چہرہ دکھائی دیتا ہے جو اسکرین پر تیز انگلیوں سے کچھ ٹائپ کر رہا ہوتا ہے۔

رشتے احساس کا تبادلہ چاہتے ہیں، جذباتی سہارا ان کی ضرورت ہوتا ہے، خلوص چاہتے ہیں اور جب انھیں صرف’’ آن لائن اسٹیٹس‘‘ میں محدود کردیا جائے تو وہ مرجھا جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ڈینیئل گولمین، جو ’’ ایموشنل انٹیلیجنس‘‘ کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، اس صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ جب انسان مسلسل ورچوئل تعلقات میں مشغول رہتا ہے تو اُس کی جذباتی حساسیت کمزور ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے وہ حقیقی رشتوں کے جذباتی مطالبات کو سمجھنے یا پورا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔‘‘

یہ کیفیت انسان کے اندر ایک گہری بیگانگی پیدا کرتی ہے، جہاں وہ اپنے ہی رشتوں کو بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ ورچوئل دنیا میں ملنے والی فوری توجہ اور تصدیق (likes, shares, views) انسان کو ایسی عادت میں مبتلا کردیتی ہے کہ جب حقیقی دنیا میں اسے فوراً جواب یا ردعمل نہ ملے تو وہ مایوسی اور بیزاری محسوس کرتا ہے۔

اس سے نہ صرف تعلقات خراب ہوتے ہیں بلکہ خود اعتمادی اور جذباتی استحکام بھی متزلزل ہو جاتا ہے۔ کئی لوگ ورچوئل دنیا میں اپنی شناخت کچھ اس انداز میں ترتیب دیتے ہیں کہ وہ ’’ بہترین‘‘ نظر آئیں، لیکن حقیقت اس نقاب سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ جب یہ فرق بہت زیادہ ہو جائے تو شخصیت دہری ہو جاتی ہے۔

ایک آن لائن شخصیت جو چمکتی دمکتی ہے اور ایک آف لائن شخصیت جو تنہائی، بے سکونی اور احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ یہی دوہرا پن سب سے زیادہ اثرات ازدواجی زندگی پر چھوڑتا ہے۔ جہاں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بھی مختلف اسکرینز میں مصروف ہوں، وہاں خاموشی ایک اذیت بن جاتی ہے۔ بیشمار جوڑے صرف اس وجہ سے جذباتی دوری کا شکار ہو چکے ہیں کہ اُن کے درمیان وقت اور توجہ کی تقسیم اب ڈیجیٹل دنیا کے رحم و کرم پر ہے۔ یونگ کا ایک مشہور قول ہے جو دوہرے پن کے تناظر میں بہت موزوں ہے:

''The most terrifying thing is to accept oneself completely.

''

ترجمہ:’’ سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ انسان خود کو پوری طرح قبول کر لے۔‘‘

اس کا مطلب ہے کہ انسان کے لیے اپنی سچی شخصیت،اپنی کمزوریوں، خامیوں اور دبائی گئی خواہشات کو قبول کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ اسی خوف سے بچنے کے لیے انسان دوہرا پن اختیار کرتا ہے۔ ظاہر کچھ اور کرتا ہے، اندرکچھ اور ہوتا ہے۔یونگ کے مطابق، سائے کا ادراک اور اس کا انضمام (integration) ہی شخصیت کی تکمیل کی طرف پہلا قدم ہے، جب تک انسان اپنے اندر کے سائے کو پہچانتا نہیں، وہ دوہرے پن کا شکار رہے گا۔اسی طرح بچوں پر بھی ورچوئل دنیا کے اثرات تیزی سے پڑ رہے ہیں۔ بچے اب دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے وڈیوگیمز یا یوٹیوب کی وڈیوز دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ان کی زبان، طرزِ فکر اور احساسات سب ورچوئل انفلوئنسرز سے متاثر ہو رہے ہیں، نہ کہ اپنے والدین، دادا دادی یا اساتذہ سے۔ اس سے خاندانی رشتوں میں نہ صرف خلا پیدا ہوتا ہے بلکہ بین النسلی تعلق بھی کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ تنہائی ایک خاموش بیماری ہے۔ اس کا شور سنائی نہیں دیتا مگر یہ اندر سے انسان کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔

جب کوئی شخص دن بھر میں سیکڑوں پوسٹس دیکھے، درجنوں چیٹ کرے اور پھر بھی یہ محسوس کرے کہ اس کا کوئی ’’ اپنا‘‘ نہیں ہے جس سے وہ دل کی بات کرے، تو یہ واضح علامت ہے کہ ہم ایک شدید نفسیاتی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ورچوئل دنیا کو سہولت تک محدود رکھیں، نہ کہ اس کا غلام بن جائیں۔

سوشل میڈیا پر وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارے قریبی رشتوں کو ہماری موجودگی، توجہ اور جذباتی وابستگی کتنی حاصل ہے۔ مشترکہ وقت گزارنا، کھانے کی میز پر فون بند رکھنا اور ایک دوسرے کی باتوں کو غور سے سننا چھوٹے مگر انتہائی مؤثر اقدامات ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح بچوں کو حقیقی زندگی کے تجربات سے روشناس کرانا اور ان کے ساتھ وقت گزارنا بھی ورچوئل دنیا کے منفی اثرات کو کم کرسکتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انسانی رشتے صرف معلوماتی رابطوں سے نہیں، بلکہ جذباتی لمس، آنکھوں کی زبان اور وقت کے اشتراک سے پروان چڑھتے ہیں۔ ورچوئل دنیا ہمیں نئے دائرے ضرور فراہم کرتی ہے، لیکن ان دائرں میں جینا تبھی ممکن ہے جب ہماری بنیاد حقیقی، زندہ اور محسوس کیے جا سکنے والے رشتوں پر قائم ہو۔ ورنہ ورچوئل جگمگاہٹ کے نیچے تنہائی کا اندھیرا ہماری شخصیت کو دھیرے دھیرے نگلتا رہے گا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ورچوئل دنیا میں سوشل میڈیا جاتا ہے رہے ہیں ہوتا ہے کرتا ہے کے ساتھ ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

صرف 22 سال کی عمر میں 3نوجوانوں کو دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی بننے کا اعزاز حاصل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا بھر میں نوجوانوں کے لیے یہ خبر کسی خواب کی تعبیر سے کم نہیں کہ صرف 22 سال کی عمر میں تین دوستوں نے اپنی ذہانت، محنت اور ٹیکنالوجی کے شوق سے ارب پتی بننے کا ریکارڈ قائم کر دیا۔

ان تینوں نے امریکی شہر سان فرانسسکو میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس  سے متعلق اپنی کمپنی Mercor کی بنیاد رکھی، جو چند ہی برسوں میں دنیا کی معروف اے آئی ریکروٹنگ کمپنیوں میں شمار ہونے لگی۔

فوربز کی تازہ رپورٹ کے مطابق Mercor کے شریک بانی برینڈن فوڈی، آدرش ہیرمیت اور سوریا مدھیہ اب دنیا کے کم عمر ترین سیلف میڈ بلینئرز بن چکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان تینوں کی عمر صرف 22 برس ہے، یعنی اس عمر میں جب زیادہ تر لوگ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں، یہ تینوں نوجوان اپنے خوابوں کی سلطنت قائم کر چکے ہیں۔

Mercor نے حال ہی میں 35 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے، جس کے بعد کمپنی کی مجموعی مالیت 10 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ کمپنی کی اس زبردست ترقی نے نہ صرف ٹیکنالوجی کی دنیا کو حیران کیا بلکہ ان تینوں بانیوں کو براہِ راست ارب پتیوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔

آدرش ہیرمیت اور سوریا مدھیہ کی دوستی سان فرانسسکو کے Bellarmine College Preparatory میں ہوئی تھی، جہاں دونوں نے تقریری مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔ سوریا کے والدین بھارت سے امریکا منتقل ہوئے تھے جب کہ ان کی پیدائش امریکا میں ہوئی۔ دوسری جانب آدرش تعلیم کے لیے بھارت سے امریکا گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

ان دونوں کی ملاقات بعد میں برینڈن فوڈی سے اس وقت ہوئی جب آدرش ہارورڈ یونیورسٹی اور سوریا جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری کر رہے تھے۔ تینوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر Mercor کی بنیاد رکھی اور چند ہی برسوں میں اپنی محنت سے دنیا کو حیران کر دیا۔

انہیں معروف سرمایہ کار پیٹر تھیل نے اپنی فیلوشپ کے ذریعے مالی معاونت فراہم کی، جس کا مقصد نوجوانوں کو تعلیم کے بجائے عملی اختراع کی ترغیب دینا تھا۔ آدرش کے مطابق  میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چند ماہ قبل میں محض ایک طالب علم تھا اور آج میری زندگی مکمل طور پر بدل چکی ہے۔

ان سے پہلے 27 سالہ پولی مارکیٹ کے بانی شین کوپلن دنیا کے کم عمر ترین سیلف میڈ بلینئر قرار پائے تھے جب کہ اس سے قبل اسکین اے آئی کے بانی الیگزینڈر وانگ یہ اعزاز 18 ماہ تک سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کی شریک بانی لوسی گیو 30 سال کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین سیلف میڈ خاتون ارب پتی بنی تھیں۔

کامیابیوں کی یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ تخلیقی سوچ، ٹیکنالوجی اور جرات مندانہ فیصلے نوجوان نسل کے لیے دنیا کے دروازے کھول سکتے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • صرف 22 سال کی عمر میں 3نوجوانوں کو دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی بننے کا اعزاز حاصل
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • تلاش
  • ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • دنیا کے مہنگے ترین موبائلز کی کیا خاص بات ہے؟ استعمال کون کر رہا ہے؟
  • پاکستانی فاسٹ بولر نے جیت ماں کے نام کر دی
  • دنیا کی زندگی عارضی، آخرت دائمی ہے، علامہ رانا محمد ادریس قادری