ورچوئل دنیا میں حقیقی رشتوں کی تنہائی
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
دنیا سوشل میڈیا کے بعد بدل چکی یے۔ دنیا میں ترقی کا ہر نیا رخ بظاہر سہولتوں کی دنیا کو وسعت بخشتا ہے مگر ساتھ ہی انسان کی داخلی دنیا میں خلا بھی پیدا کرتا جاتا ہے۔ ورچوئل دنیا، جسے آج کے دور میں ایک متبادل حقیقت یا ’’ریئل ٹائم‘‘ دنیا کہا جاتا ہے، بلاشبہ انسانی رابطوں کو تیز اور آسان بناتی ہے، لیکن اس کی قیمت اکثر خاموشی سے چکائی جاتی ہے، حقیقی رشتوں میں تنہائی کی صورت میں۔
ورچوئل دنیا کی کشش میں، انسان ایک ایسے جال میں پھنستا رہا ہے جہاں فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اُس کی روزمرہ زندگی کے مستقل ساتھی بن چکے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم بظاہر لوگوں کو جوڑنے کے لیے بنائے گئے ہیں، مگر رفتہ رفتہ وہ ایک ایسے فریب میں بدل گئے ہیں، جہاں لوگ جُڑنے کے باوجود تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک شخص اپنے موبائل اسکرین پر سیکڑوں دوستوں کی فہرست رکھتا ہے، لیکن جب اُسے دکھ، خوف یا کسی گہرے جذباتی تجربے کا سامنا ہوتا ہے، تو وہ یہ جان کر حیران ہوتا ہے کہ اُس کے قریب کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس سے وہ حقیقتاً بات کر سکے۔ اس حالت کو ماہرین نفسیات ’’ مصنوعی قربت کا فریب‘‘ کہتے ہیں، جو انسان کو وقتی اطمینان دیتا ہے مگر طویل مدت میں جذباتی تنہائی کو بڑھاتا ہے۔
ڈاکٹر شیرل ٹراؤٹسکی، جو ایک معروف امریکی ماہرِ نفسیات ہیں،کہتی ہیں کہ ’’ سوشل میڈیا پر موجودگی انسانی دماغ میں رابطے کی تسکین کا وہم پیدا کرتی ہے، حالانکہ ہمارے دماغ کی وہی حصے جو اصل روابط کے دوران سرگرم ہوتے ہیں، ورچوئل روابط میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔‘‘ ورچوئل دنیا میں انسان اپنی مرضی کا چہرہ، لہجہ اور بات چیت کا طریقہ چنتا ہے۔
وہ دوسروں کو وہ دکھاتا ہے جو وہ چاہتا ہے، نہ کہ جو وہ حقیقتاً ہے۔ اس عمل میں نہ صرف وہ دوسروں کو گمراہ کرتا ہے بلکہ خود بھی اپنی اصلیت سے دور ہوتا جاتا ہے۔ اس تضاد کا سب سے پہلا اثر انسان کے قریبی رشتوں پر پڑتا ہے۔ چاہے وہ والدین ہوں، شریکِ حیات یا بچپن کے دوست۔ اکثر گھرانوں میں یہ منظر عام ہے کہ والدین بچوں کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو انھیں ایک خاموشی میں مگن چہرہ دکھائی دیتا ہے جو اسکرین پر تیز انگلیوں سے کچھ ٹائپ کر رہا ہوتا ہے۔
رشتے احساس کا تبادلہ چاہتے ہیں، جذباتی سہارا ان کی ضرورت ہوتا ہے، خلوص چاہتے ہیں اور جب انھیں صرف’’ آن لائن اسٹیٹس‘‘ میں محدود کردیا جائے تو وہ مرجھا جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ڈینیئل گولمین، جو ’’ ایموشنل انٹیلیجنس‘‘ کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، اس صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ جب انسان مسلسل ورچوئل تعلقات میں مشغول رہتا ہے تو اُس کی جذباتی حساسیت کمزور ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے وہ حقیقی رشتوں کے جذباتی مطالبات کو سمجھنے یا پورا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔‘‘
یہ کیفیت انسان کے اندر ایک گہری بیگانگی پیدا کرتی ہے، جہاں وہ اپنے ہی رشتوں کو بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ ورچوئل دنیا میں ملنے والی فوری توجہ اور تصدیق (likes, shares, views) انسان کو ایسی عادت میں مبتلا کردیتی ہے کہ جب حقیقی دنیا میں اسے فوراً جواب یا ردعمل نہ ملے تو وہ مایوسی اور بیزاری محسوس کرتا ہے۔
اس سے نہ صرف تعلقات خراب ہوتے ہیں بلکہ خود اعتمادی اور جذباتی استحکام بھی متزلزل ہو جاتا ہے۔ کئی لوگ ورچوئل دنیا میں اپنی شناخت کچھ اس انداز میں ترتیب دیتے ہیں کہ وہ ’’ بہترین‘‘ نظر آئیں، لیکن حقیقت اس نقاب سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ جب یہ فرق بہت زیادہ ہو جائے تو شخصیت دہری ہو جاتی ہے۔
ایک آن لائن شخصیت جو چمکتی دمکتی ہے اور ایک آف لائن شخصیت جو تنہائی، بے سکونی اور احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ یہی دوہرا پن سب سے زیادہ اثرات ازدواجی زندگی پر چھوڑتا ہے۔ جہاں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بھی مختلف اسکرینز میں مصروف ہوں، وہاں خاموشی ایک اذیت بن جاتی ہے۔ بیشمار جوڑے صرف اس وجہ سے جذباتی دوری کا شکار ہو چکے ہیں کہ اُن کے درمیان وقت اور توجہ کی تقسیم اب ڈیجیٹل دنیا کے رحم و کرم پر ہے۔ یونگ کا ایک مشہور قول ہے جو دوہرے پن کے تناظر میں بہت موزوں ہے:
''The most terrifying thing is to accept oneself completely.
ترجمہ:’’ سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ انسان خود کو پوری طرح قبول کر لے۔‘‘
اس کا مطلب ہے کہ انسان کے لیے اپنی سچی شخصیت،اپنی کمزوریوں، خامیوں اور دبائی گئی خواہشات کو قبول کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ اسی خوف سے بچنے کے لیے انسان دوہرا پن اختیار کرتا ہے۔ ظاہر کچھ اور کرتا ہے، اندرکچھ اور ہوتا ہے۔یونگ کے مطابق، سائے کا ادراک اور اس کا انضمام (integration) ہی شخصیت کی تکمیل کی طرف پہلا قدم ہے، جب تک انسان اپنے اندر کے سائے کو پہچانتا نہیں، وہ دوہرے پن کا شکار رہے گا۔اسی طرح بچوں پر بھی ورچوئل دنیا کے اثرات تیزی سے پڑ رہے ہیں۔ بچے اب دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے وڈیوگیمز یا یوٹیوب کی وڈیوز دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان کی زبان، طرزِ فکر اور احساسات سب ورچوئل انفلوئنسرز سے متاثر ہو رہے ہیں، نہ کہ اپنے والدین، دادا دادی یا اساتذہ سے۔ اس سے خاندانی رشتوں میں نہ صرف خلا پیدا ہوتا ہے بلکہ بین النسلی تعلق بھی کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ تنہائی ایک خاموش بیماری ہے۔ اس کا شور سنائی نہیں دیتا مگر یہ اندر سے انسان کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔
جب کوئی شخص دن بھر میں سیکڑوں پوسٹس دیکھے، درجنوں چیٹ کرے اور پھر بھی یہ محسوس کرے کہ اس کا کوئی ’’ اپنا‘‘ نہیں ہے جس سے وہ دل کی بات کرے، تو یہ واضح علامت ہے کہ ہم ایک شدید نفسیاتی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ورچوئل دنیا کو سہولت تک محدود رکھیں، نہ کہ اس کا غلام بن جائیں۔
سوشل میڈیا پر وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارے قریبی رشتوں کو ہماری موجودگی، توجہ اور جذباتی وابستگی کتنی حاصل ہے۔ مشترکہ وقت گزارنا، کھانے کی میز پر فون بند رکھنا اور ایک دوسرے کی باتوں کو غور سے سننا چھوٹے مگر انتہائی مؤثر اقدامات ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح بچوں کو حقیقی زندگی کے تجربات سے روشناس کرانا اور ان کے ساتھ وقت گزارنا بھی ورچوئل دنیا کے منفی اثرات کو کم کرسکتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انسانی رشتے صرف معلوماتی رابطوں سے نہیں، بلکہ جذباتی لمس، آنکھوں کی زبان اور وقت کے اشتراک سے پروان چڑھتے ہیں۔ ورچوئل دنیا ہمیں نئے دائرے ضرور فراہم کرتی ہے، لیکن ان دائرں میں جینا تبھی ممکن ہے جب ہماری بنیاد حقیقی، زندہ اور محسوس کیے جا سکنے والے رشتوں پر قائم ہو۔ ورنہ ورچوئل جگمگاہٹ کے نیچے تنہائی کا اندھیرا ہماری شخصیت کو دھیرے دھیرے نگلتا رہے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ورچوئل دنیا میں سوشل میڈیا جاتا ہے رہے ہیں ہوتا ہے کرتا ہے کے ساتھ ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
تہذیبی بحران اور سماجی تنہائی کا المیہ
ہم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا کی مصنوعی چمک، شہرت کے جھوٹے معیارات، اور ’’ٹرینڈنگ‘‘ کی دوڑ نے انسانی رشتوں کو بے وقعت بنا دیا ہے۔ آج کی نوجوان نسل ’’لائکس‘‘ اور ’’فالوورز‘‘ کے پیچھے بھاگتی ہے، لیکن حقیقی زندگی میں وہ تنہائی، بے چارگی اور احساسِ کمتری کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ المیہ صرف پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا میں جدید تہذیب کے باطن میں پنپنے والے اخلاقی زوال کی عکاسی کرتا ہے۔ کچھ ہفتے قبل عائشہ نامی ایک اداکارہ کی لاش کراچی کے ایک فلیٹ میں ہفتہ بھر پڑی رہی۔ بد بو آنے پر محلے داروں نے پولیس بلائی تو پتہ چلا کہ کروڑوں کی مالکہ اور تین بچوں کی ماں کئی دنوں سے تنہائی میں فوت ہوچکی ہے اور لاش کی بدبو فلیٹ سے باہر پھیل رہی ہے۔ پھر حال ہی میں ایک اور اداکارہ ’’حمیرہ اصغر‘‘ کے فوت ہونے کے کئی ماہ بعد ان کے بند فلیٹ سے لاش برآمد ہونے کا واقعہ بھی اسی سماجی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ صرف ایک موت نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک گہرا سوال، ایک تازیانۂ عبرت اور ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے والا سانحہ ہے۔ حمیرا اصغر، جو کبھی میڈیا کی رعنائیوں کی علامت تھیں اور شوبز کے ایوارڈز کی محفلوں کی رونق تھیں، اپنے ہی فلیٹ میں کئی ماہ تک پڑی رہی، لیکن کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ جب فلیٹ کے مالک نے کرایہ نہ ملنے پر پولیس کو بلایا، تو دروازہ کھولتے ہی اہلکاروں کو منہ پر رومال اور ماسک رکھنے پڑے۔ لاش کی بدبو بو بتا رہی تھی کہ یہاں کافی عرصہ سے کوئی نہیں آیا، نہ کوئی پوچھنے والا تھا اور نہ ہی کوئی دستک دینے والا۔ یہ وہی حمیرا اصغر تھیں جن کے لاکھوں ’’فینز‘‘ تھے، جن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ہزاروں تبصرے ہوتے تھے، جن کی تصاویر پر ’’لائکس‘‘ کی بارش ہوتی تھی۔ مگر جب زندگی کا سورج غروب ہوا تو کئی ماہ بیت جانے کے باوجود وہ کسی کو یاد آئی نہ کسی کو حال پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس ہوئی۔ یہ واقعہ صرف ایک اداکارہ کی موت نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کا سبق آموز المیہ ہے جہاں ہم “آن لائن” تو ہزاروں دوست رکھتے ہیں، لیکن حقیقت میں اتنے تنہا ہیں کہ مر بھی جائیں تو کئی ماہ تک کسی کو خبر تک نہیں ہوتی یہاں تک کہ لاش گل سڑ جاتی ہے۔
ہماری نوجوان نسل ’’آزادی‘‘ کے نام پر خاندان سے دور ہو رہی ہے، لیکن یہی آزادی آخرکار تنہائی کے گھناؤنے انجام تک لے جاتی ہے۔ شوبز انڈسٹری میں آج آپ ’’سٹار‘‘ ہیں، کل آپ کی لاش بھی کئی ماہ تک پڑی رہے کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ آج ایک ’’خاص لبرل طبقہ‘‘ مسلمان عورت کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ’’پردہ قدیم سوچ ہے، خاندان کی پابندی گھٹن ہے اور آزادی یہ ہے کہ جو دل چاہے کرو‘‘ لیکن حمیرا اصغر کی موت نے ثابت کر دیا کہ یہ ’’آزادی‘‘ درحقیقت تنہائی، بے کسی اور اجتماعی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیا یہی وہ کامیابی ہے جس کے لیے ہماری بہنیں اور بیٹیاں گھر کی چار دیواری کو ’’قید‘‘ سمجھ کر توڑنا چاہتی ہیں؟ کیا اکیلے فلیٹ میں سڑتی لاش ہی “آزاد عورت” کا مقدر ہے؟ اسلام نے عورت کو جو مقام دیا، وہ کسی بھی جدید معاشرے سے بلند تر ہے۔ پردہ عورت کے وقار کا تحفظ ہے، نہ کہ اس کی ترقی میں رکاوٹ۔ اسلام کی سماجی تعلیمات کا زیادہ زور ’’صلہ رحمی‘‘ کی صورت میں خاندان کو انسان کا سب سے مضبوط سہارا بنانے پر ہے تاکہ وہ تنہائی کی گھٹن سے بچ سکے۔ اسی طرح وہ اخلاقی پابندیاں جنہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے وہ معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کیلئے ہیں۔ اگر حمیرا اصغر اپنے خاندان کے ساتھ رہتیں، اسلامی اقدار کو اپناتیں، تو شاید آج ان کی لاش مہینوں تک بند کمرے میں سڑتی نہ رہتی۔ علامہ اقبال رح نے ایک صدی پہلے ہی جدید تہذیب کے انجام کی پیش گوئی کر دی تھی کہ
یہ تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ تہذیب اپنے ہی بنائے ہوئے جال میں پھنس چکی ہے۔ انسان اپنے مقصد تخلیق کو بھلا کر اور آخرت کی جوابدہی سے غافل ہو کر ایک مشین بن چکا ہے، رشتے کاروبار بن گئے ہیں اور زندگی ایک “سوشل میڈیا پرفارمنس” میں تبدیل ہو گئی ہے۔ مرحومہ کی موت کے اس دردناک سانحہ میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ خاندانی رشتوں کو مضبوط بنائیں، اپنے پیاروں کا خیال رکھیں، خاص طور پر بزرگوں اور تنہا رہنے والوں کی خبر گیری رکھیں۔ سوشل میڈیا ضروت کے مطابق اور مخلوق کے فائدے اور اصلاح کیلئے ضرور استعمال کریں لیکن اس کی چکا چوند کی بجائے حقیقی تعلقات پر بھرپور توجہ دیں۔ صرف “فالوورز” پر مصنوعی خوشی کی بجائےحقیقی مخلص دوست بنائیں جو زندگی میں آپ کے کام آئیں۔ مختلف میڈیا پلیٹ فارمز اور فورمز کے ذریعے نوجوان نسل کو اسلامی اقدار سے روشناس کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی یہ شہرت عارضی ہے، لیکن آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے اسلامی نظام اخلاقیات کے مطابق ہمسایوں، رشتہ داروں، اور معاشرے کے کمزور افراد کی خبر گیری کریں۔ موت تو ہر کسی کو آئے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے موت کیلئے کیا تیاری کی ہے۔ ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ ابھی اگر ہم پر موت طاری ہوجائے تو کیا ہم آخرت کی جوابدہی کیلئے تیار ہیں۔ ہمارا اللہ کی مخلوق سے کیا تعلق ہے اور کیا ہماری زندگی کے بارے میں بعد میں بھی کوئی اچھا ذکر کرے گا؟ حمیرا اصغر کا واقعہ ہمیں یہی سبق دے رہا ہے کہ ہمیں اپنی زندگیوں میں والدین اور بہن بھائیوں کو ترجیح دینا ہو گی، ورنہ خدانخواستہ کل کوئی اور لاش بھی کسی بند فلیٹ میں پڑی مل سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی تربیت کریں، انہیں سکھائیں کہ شہرت نہیں بلکہ دلی سکون اصل دولت ہے جو اللہ تعالٰی سے مضبوط تعلق اور اس کی یاد سے وابستہ ہے۔ یہ بھی ہمیں باور کرنا چاہیے کہ سکرین کا پردہ نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں سجدہ ریزی انسان کی اصل معراج ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور ہم اس عبرتناک واقعے سے سبق حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔