پشاور ہائیکورٹ میں 2016 تا 2025 سولہ ہزار سے زائد کیس زیر التوا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT
پشاور ہائیکورٹ میں برسوں سے زیر التوا مقدمات کی تعداد خطرناک حد تک پہنچتے ہوئے 16 ہزار 40 ہو گئی۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق سنگل بنچ میں زیر التوا کیسز کی تعداد 8 ہزار 404 ہے اور ڈویژن بنچ میں 7 ہزار 635 مقدمات تاحال فیصلے کے منتظر ہیں، رٹ پٹیشنز کی تعداد 5 ہزار 342 ہے جن پر تاحال سماعت نہیں ہوسکی۔سول ریویژن کے 2 ہزار 767 مقدمات التوا کا شکار ہیں، توہین عدالت کے 500 سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں، بریت کے 972 کیسز اور عمر قید کے 255 کیسز بھی ابھی تک حل طلب ہیں۔ سزائے موت کی 34 اپیلیں اور راہداری ضمانت کی 102 درخواستیں کئی سالوں سے زیر التوا ہیں، الیکشن سے متعلق 4 اپیلیں اور 14 درخواستیں بھی سماعت کی منتظر ہیں۔دستاویزات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 2015 تک زیر التوا مقدمات کی تعداد صرف 438 تھی تاہم 2016 سے 2025 کے دوران یہ تعداد بڑھ کر 15 ہزار 602 ہو گئی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔
رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔