پنجاب حکومت کا ربییع سیزن میں کاشتکاروں کو ڈی اے پی فی بوری پر 3 ہزار روپے سبسڈی دینےکا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 جولائی 2025ء) صوبائی وزیر زراعت و لائیو سٹاک سید عاشق حسین کرمانی کی زیر صدارت ایگریکلچر ہاؤس لاہور میں ربیع سیزن کے لیے گندم کاشت سپورٹ پروگرام 2025-26 بارے جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری زراعت اسامہ خان لغاری اور سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو نے شرکت کی۔ صوبائی وزیر زراعت کو اجلاس کے دوران بریفنگ میں بتایا گیا کہ ربیع سیزن کے دوران 25ایکڑ تک اراضی رکھنے والے کاشتکاروں کو ڈی اے پی کی فی بوری پر 3ہزار روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز زیر غور ہے۔
سبسڈی کی حد 12ایکڑ تک زمین کے کاشتکاروں کے لیے ہے۔زیادہ سے زیادہ 12ایکڑ تک کے اراضی رکھنے والے کاشتکاروں کو 3ہزار روپے ڈی اے پی فی بوری کی شرح سے مجموعی طور پر 36ہزار روپے دئیے جائیں گے۔(جاری ہے)
اس موقع پر صوبائی وزیر زراعت و لائیو سٹاک سید عاشق حسین کرمانی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کے تحت 25ایکڑ تک اراضی رکھنے والے کاشت کار ربیع سیزن 2025کیلئے سستی ڈی اے پی خرید سکیں گے۔
یہ پروگرام یکم تا30 نومبر تک جاری رہے گا۔انھوں نے کہا کہ ڈی اے پی فروخت کرنے والے رجسٹرڈ ڈیلرز کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ وہ روزانہ کے حساب سے تمام فروخت ہونے والے کھاد کے تھیلوں کا ریکارڈ رکھے۔صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ کسان کارڈ ہولڈرز کے علاوہ دوسرے کاشتکار بھی اس پروگرام میں شامل ہوں گے۔ اس پروگرام کے تحت صوبہ پنجاب کے 98فیصد کاشت کار مستفید ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس پروگرام کے لیے 20ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔سید عاشق حسین کرمانی نے کہا کہ ویٹ سپورٹ پروگرام کے لیے نان کمپیوٹریزاڈ موضع جات کی شمولیت کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ گندم کی کاشتکاروں کی آگاہی کیلئے بروقت کاشت، مشینی و ڈرل کے ذریعے کاشت، تصدیق شدہ بیج کی دستیابی، کھادوں کا متناسب استعمال، آبپاشی اور جڑی بوٹیوں کے تدارک کیلئے موثر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ سیکرٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو نے کہا کہ پنجاب میں کسان کارڈ کے 3 ہزار نوٹیفیڈ ڈیلرز کو اس پروگرام کے تحت آن بورڈ لیا گیا ہے جو اہل کاشت کاروں کو سبسڈی پر ڈی اے پی کے بیگز فروخت کریں گے، حکومت کا ریونیو یا ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کا نمائندہ اس تمام عمل کی نگرانی کو یقینی بنائے گا۔انھوں نے ڈی اے پی کے بیگ کی فروخت کے تمام پروسس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ فروخت کے تمام عمل کو شفاف بنایا گیا ہے۔ڈیلر کسان کی ڈی اے پی کے لیے اہل ہونے کو چیک کرنے کے لیے سب سے پہلے فرٹیلائزر ایپ کھولے گا اور کسان کا شناختی کارڈ نمبر چیک کرئے گا، ریئل ٹائم ورفیکشن پی ایل آر اے کے ریکارڈ سے اور کسان کی بیومیٹرک ورفیکشن نادرا کے ذریعے کی جائے گی۔ کسان اپنی تصدیق کا عمل مکمل کرنے کے بعد ڈی اے پی کے بیگ کیلئے اپنے حصے کی رقم جمع کروائے گا جبکہ ڈیلر روزانہ کی بنیاد پر فروخت کیے جانے والے بیگز کا ریکارڈ رکھے گا،ڈیلر کو حکومت کی جانب سے دی جانے والی باقی سبسڈی کی رقم اس کے اکاؤنٹنٹ میں بینک کے ذریعے اسی روز بھیج دی جائے گی۔ اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری ٹاسک فورس شبیر احمد خان،ڈائریکٹر جنرلز ایگریکلچر نوید عصمت کاہلوں، چوہدری عبدالحمید، عبدالقیوم، پراجیکٹ ڈائریکٹر زراعت ڈاکٹر انجم علی،سیڈ کارپوریشن اور پی آئی ٹی بی کے نمائندگان کے علاوہ محکمہ زراعت کے اعلی افسران نے بھی شرکت کی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اس پروگرام کے ڈی اے پی کے نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
پنجاب میں جنگلی حیات کے غیرقانونی شکار پر جرمانے بھی بڑھا دیے گئے
لاہور:پنجاب حکومت نے صوبے میں جنگلی حیات کے تحفظ اور انسانی آبادیوں کو ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے جنگلی جانوروں کے نظم و نسق سے متعلق دو اہم اقدامات کیے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک طرف ’’پنجاب وائلڈ لائف ہیزرڈ کنٹرول رولز 2025‘‘ نافذ کیا گیا ہے، تو دوسری جانب جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین میں کئی ترامیم منظور کی گئی ہیں، جن کے ذریعے صوبے میں تحفظِ ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق نئے قواعد کا مقصد انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم یا خطرے کی صورت میں سائنسی، منظم اور فوری کارروائی کو ممکن بنانا ہے۔ اگر کوئی جنگلی جانور انسانی جان یا دیگر جانداروں کے لیے خطرہ بن جائے، یا کسی بیماری یا چوٹ کے باعث زندہ رہنے کے قابل نہ ہو، تو چیف وائلڈ لائف رینجر فیلڈ رپورٹ، سائنسی شواہد اور عوامی شکایات کی بنیاد پر کارروائی کا حکم دے سکتا ہے۔
ہنگامی حالات میں رینجر متعلقہ ماہرین سے مشورہ کرکے اس جانور کو قابو میں لانے، منتقل کرنے یا ہٹانے کا فیصلہ کر سکے گا۔
قواعد میں واضح کیا گیا ہے کہ ہر ایسی کارروائی سے قبل پنجاب کیپٹیو وائلڈ لائف مینجمنٹ کمیٹی اور ویٹرنری ماہرین سے مشاورت لازم ہوگی تاکہ تمام اقدامات انسانی اصولوں اور سائنسی معیار کے مطابق ہوں۔ اس کے ساتھ مستقبل میں ایسے خطرات سے بچاؤ کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی بھی تیار کی گئی ہے، جس کے تحت کسی نوع کو نقصان دہ یا ’’پیسٹ‘‘ قرار دیا جا سکے گا۔
بعض علاقوں میں محدود مدت کے لیے شکار کے خصوصی اجازت نامے جاری کیے جا سکیں گے، جبکہ حساس مقامات کو ’’وائلڈ لائف ہیزرڈ زون‘‘ قرار دے کر وہاں جانوروں کو کھلانے یا پالنے پر پابندی عائد کی جا سکے گی۔
نئے قواعد میں غیر ملکی انواع کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس بھیجنے اور مقامی انواع کو ان کے قدرتی مسکن میں دوبارہ متعارف کرانے کی گنجائش بھی شامل ہے۔ خطرناک جانوروں کی منتقلی یا قابو پانے میں معاونت کرنے والے افراد اور اداروں کو سرکاری شرح کے مطابق انعامات دیے جائیں گے۔
علاوہ ازیں، پنجاب حکومت نے جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے جرائم کے مالی جرمانوں میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔ شاہین سمیت نایاب اور شکاری پرندوں کے غیر قانونی شکار یا قبضے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
وائلڈ لائف کے ترمیم شدہ قانون کے تحت فرسٹ شیڈول میں شامل بعض جنگلی پرندوں کے غیرقانونی شکار یا پکڑنے کا فی جانور معاوضہ 10 ہزار روپے ہوگا۔ باز، ہریڑ، لگر اور الو کا معاوضہ ایک لاکھ روپے، شیڈول دوئم اور سوئم میں شامل ممالیہ جانوروں کے غیر قانونی شکار یا پکڑنے کا محکمانہ معاوضہ ایک لاکھ روپے ہوگا۔ گیدڑ، سور، جنگلی سور کا محکمانہ معاضہ 25 ہزار روپے ہوگی۔
اسی طرح غیرقانونی شکار میں استعمال ہونے والے اسلحے کا جرمانہ شارٹ گن 25 ہزار، غیر ملکی شارٹ گن 50 ہزار، مقامی رائفلز 50 ہزار، غیر ملکی رائفل ایک لاکھ روپے، پی سی پی ائیر گن 50 روپے۔ غیرقانونی شکار میں استعمال ہونے والی جیپ، گاڑی کا جرمانہ 5 لاکھ روپے، موٹر سائیکل کا جرمانہ ایک لاکھ، سائیکل 25 ہزار، کشتی کا 25 ہزار، ٹیپ ریکارڈ اور دیگر برقی آلات کا جرمانہ 25 ہزار روپے ہوگا۔
نئی ترامیم کے تحت اعزازی گیم وارڈن کے عہدے ختم کر دیے گئے ہیں، جبکہ کمیونٹی بیسڈ کنزروینسی کے ارکان کو اب باقاعدہ قانونی اختیار حاصل ہوگا کہ وہ غیر قانونی شکار یا تجارت کی روک تھام میں مدد دے سکیں۔
شکار، بریڈنگ اور خرید و فروخت کے اجازت ناموں کی نیلامی کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم متعارف کرایا جائے گا۔ اسی طرح کتوں کی دوڑ کے مقابلوں میں زندہ خرگوشوں کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے اور صرف مشینی چارے کی اجازت دی گئی ہے۔
نئے قانون کے مطابق صوبے بھر میں خصوصی وائلڈ لائف پروٹیکشن سینٹرز قائم کیے جائیں گے جہاں عملہ جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیس ہوگا۔ ان اہلکاروں کو وارنٹ کے بغیر تلاشی لینے اور گرفتاری کا اختیار بھی حاصل ہوگا تاکہ جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین پر مؤثر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔