اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 جولائی 2025ء) ایک خودمختار فلسطینی ریاست اور اسرائیل کا پرامن طور سے اکٹھے رہنا فی الوقت دور کی بات لگتی ہے تاہم اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کی تازہ ترین کوشش کے طور پر اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس نیویارک میں شروع ہو گئی ہے۔

فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں اس کانفرنس کے انعقاد سے قبل اقوام متحدہ میں کینیڈا کے سفیر باب رائے نے یو این نیوز کو بتایا کہ یہ امن کانفرنس نہیں بلکہ اس کا مقصد فلسطینی مسئلے پر بات چیت کو جاری رکھنا اور رکاوٹوں کو دور کر کے مسئلے کا حل نکالنا ہے۔

امید ہے کہ کانفرنس میں ہونے والی بات چیت اس ضمن میں ٹھوس نتائج کے حصول میں مدد دے گی۔

اس کانفرنس میں تنازع کے دونوں فریق شریک نہیں ہیں اور اسرائیل کے مضبوط حمایتی امریکہ کی جانب سے بھی شرکت کی توقع نہیں ہے۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اپریل میں سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ دو ریاستی حل کا امکان سرے سے ختم ہونے کو ہے۔

اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے درکار سیاسی عزم نظر نہیں آتا۔

تاہم 5 جون کو صحافیون سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ دو ریاستی حل پر شبے کا اظہار کرتے ہیں ان کے پاس اس کا متبادل کیا ہے؟ کیا یہ ایک ریاستی حل ہو گا جس میں فلسطینیوں کو یا تو ان کے علاقوں سے نکال باہر کیا جائے گا یا وہ اپنی سرزمین پر حقوق کے بغیر رہیں گے؟

انہوں نے یاد دلایا کہ دو ریاستی حل کو زندہ رکھنا اور اسے عملی صورت دینے کے لیے حالات کو سازگار بنانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔

کینیڈا کے سفیر نے کہا کہ اگرچہ اس کانفرنس کے منتظمین اسرائیل اور فلسطین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بھی اس میں شرکت کریں لیکن انہیں اس وقت دونوں فریقین کو درپیش مشکل حالات کا احساس ہے۔ اس وقت اسرائیل کے متعدد شہری حماس کے پاس یرغمال ہیں اور غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کو انتہائی المناک حالات کا سامنا ہے۔

امن و استحکام کا واحد راستہ

اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں تولیتی کونسل کے دفتر میں اس کانفرنس کا انعقاد گزشتہ سال منظور ہونے والی جنرل اسمبلی کی قرارداد (ای ایس22/10) کے نتیجے میں ہو رہا ہے۔

کانفرنس سے قبل جاری کردہ ایک بیان میں فرانس اور سعودی عرب نے کہا ہے کہ اس مسئلے کے دو ریاستی حل کو اب بھی قریباً پوری دنیا کی حمایت حاصل ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت یہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے اپنی جائز خواہشات کی تکیمل اور علاقائی امن و استحکام کے لیے حالات سازگار بنانے کا واحد راستہ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس بین الاقوامی کانفرنس کا مقصد ایک اور لامختتم عمل کو بحال یا دوبارہ شروع کرنا نہیں بلکہ دو ریاستی حل پر ایک ہی مرتبہ اور ہمیشہ کے لیے عملدرآمد کرنا ہو گا۔

ٹھوس بات چیت کی ضرورت

اس کانفرنس کی تیاریوں کے لیے مئی میں ہونے والے ایک اجلاس میں فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں کی مشیر برائے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ این کلیئر لیجنڈرا نے کہا تھا کہ فلسطینی ریاست کے امکانات کو برقرار رہنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ناقابل واپسی اور ٹھوس اقدامات لیے جانا ضروری ہیں جبکہ غزہ میں میں پائیدار جنگ بندی، انسانی امداد کی بڑے پیمانے پر فراہمی اور تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔

سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ان کی ہم منصب اور اپنے ملک کی مذاکراتی ٹیم کی سربراہ منال بنت حسن روان نے کہا کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں و قیدیوں کی رہائی کے لیے کوششیں ایک قابل اعتماد اور ناقابل واپسی سیاسی منصوبے پر مبنی ہونی چاہئیں جس کے ذریعے تنازع کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں مدد ملے اور امن، وقار اور باہمی سلامتی کی حقیقی راہ میسر آئے۔

انہوں نے کہا کہ 1993 کے اوسلو معاہدوں کے بعد اس ضمن میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی اور اب اس مسئلے پر حقیقی بات چیت کا طریقہ کار وضع کرنا ہو گا۔

دو ریاستی حل کیا ہے؟یہودی اور فلسطینی آبادیوں کی پرامن ریاستوں کے قیام کا تصور اقوام متحدہ کی تخلیق (1945) سے بھی پہلے کا ہے۔ تب سے یہ تصور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی درجنوں قراردادوں، متعدد امن مذاکرات، اور جنرل اسمبلی کے حال ہی میں دوبارہ شروع ہونے والے دسویں ہنگامی خصوصی اجلاس کا حصہ بن چکا ہے۔

1947 میں برطانیہ نے فلسطین پر اپنا اختیار ختم کر کے 'فلسطینی مسئلہ' اقوام متحدہ میں پیش کیا جس نے اس کا منصفانہ حل تلاش کرنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو آزاد عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی جن کا مشترکہ دارالحکومت یروشلم ہوتا۔ یہی فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کا ایک بنیادی خاکہ تھا۔1991 میں میڈرڈ میں امن کانفرنس منعقد ہوئی جس کا مقصد فریقین میں براہ راست مذاکرات کے ذریعے پرامن تصفیے تک پہنچنا تھا۔

یہ مذاکرات اسرائیل اور عرب ریاستوں کے مابین اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہونا تھے اور اس عمل کی بنیاد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں 242 (1967) اور 338 (1973) پر رکھی گئی تھی۔1993 میں اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اور فلسطینی تنظیم آزادی (پی ایل او) کے چیئرمین یاسر عرفات نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے جس میں مزید مذاکرات کے اصول وضع کیے گئے اور مغربی کنارے اور غزہ میں ایک عبوری فلسطینی خودمختار حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔

1993 کے اوسلو معاہدے میں کچھ اہم امور کو بعد میں ہونے والے مذاکرات کے لیے موخر کر دیا گیا جو 2000 میں کیمپ ڈیوڈ اور 2001 میں طابا میں ہوئے لیکن یہ مذاکرات کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔اوسلو معاہدے سے تین دہائیوں کے بعد بھی اقوام متحدہ کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو اس تنازعے کے حل اور قبضے کے خاتمے کے لیے مدد فراہم کی جائے تاکہ دو ریاستوں کے تصور کو حقیقت کا روپ دیا جا سکے۔ اس تصور کے تحت اسرائیل اور ایک آزاد، جمہوری، باہم متصل، قابلِ عمل اور خودمختار فلسطینی ریاست 1967 سے پہلے کی سرحدی حدود کی بنا پر باہم امن و سلامتی سے رہیں گے اور یروشلم دونوں کا مشترکہ دارالحکومت ہو گا۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کی اور فلسطینی اور اسرائیل اسرائیل اور اس کانفرنس اور فلسطین بات چیت نے کہا میں ہو کے لیے اور اس

پڑھیں:

مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب

پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی سفارت کاروں کو لاجواب کر دیا، من گھڑت بھارتی دعوؤں کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے واضح کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے۔

جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کیے جانے پر بھارتی نمائندے کے ریمارکس کے جواب میں پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری سرفراز احمد گوہر نےجواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بھارت کے بلاجواز دعوؤں کا جواب دینے کے اپنے حقِ جواب (رائٹ آف رپلائی) کا استعمال کر رہا ہوں۔

Right of Reply by First Secretary Sarfaraz Ahmed Gohar
In Response to Remarks of the Indian Delegate
During the General Debate on Presentation of the Report of Human Rights Council
(31 October 2025)
*****

Mr. President,

I am using this right of reply to respond to the India’s… pic.twitter.com/XPO0ZJ6w6q

— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) October 31, 2025


انہوں نے کہا کہ میں بھارتی نمائندے کی جانب سے ایک بار پھر دہرائے گئے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کونسل کے سامنے صرف چند حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔
سرفراز احمد گوہر نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کی یہ متنازع حیثیت اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری دونوں تسلیم کرتے ہیں، اقوامِ متحدہ کے تمام سرکاری نقشوں میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ دکھایا گیا ہے۔

سرفراز گوہر نے کہا کہ بھارت پر اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے اور کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت استعمال کرنے کی اجازت دے۔

انہوں نے کہا کہ بارہا، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنرز، خصوصی نمائندے، سول سوسائٹی تنظیمیں، اور آزاد میڈیا نے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری نے کہا کہ آج کے انتہا پسند اور ناقابلِ برداشت بھارت میں، سیکولرازم کو ہندوتوا نظریے کے بت کے سامنے قربان کر دیا گیا ہے، وہ ہندو بنیاد پرست عناصر جو حکومت میں عہدوں، سرپرستی اور تحفظ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اس کے مرکزی کردار ہیں، انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبات کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جینو سائیڈ واچ نے خبردار کیا ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔

انہوں نے جنرل اسمبلی کے صدر کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریاں پوری کرے، اور بھارتی نمائندے کو مشورہ دیں کہ وہ توجہ ہٹانے کے حربے ترک کرے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان اور ترکیہ مل کر کام جاری رکھیں گے
  • اسحاق ڈار کی ترک ہم منصب سے ملاقات، مسئلہ فلسطین سمیت مختلف امورپر تبادلہ خیال
  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • جنگ بندی کے باوجود غزہ میں صیہونی فوج کے حملے، مزید 5 فلسطینی شہید
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان