ایس ای سی پی نے کارپوریٹ سیکٹر کے لیے سنٹرلائزڈ یو بی او رجسٹری قائم کر دی
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 جولائی2025ء) سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے پورے کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ایک مرکزی الٹیمیٹ بینیفیشل اونرشپ رجسٹری قائم کرنے کے لیے کمپنیز ریگولیشنز 2024 میں ضروری ترامیم متعارف کرائی ہیں۔ایس ای سی پی میں قائم کی جانے والی یہ مرکزی UBO رجسٹری کمپنیوں کے لیے درست اور تازہ ترین بینیفیشل اونرشپ معلومات کی دستیابی کو یقینی بنائے گی۔
یہ اقدام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) اور آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (OECD) کی سفارشات کے عین مطابق ہے، جو پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر میں شفافیت اور دیانت کو مزید فروغ دے گا۔ترمیم شدہ قواعد و ضوابط کے تحت، کمپنیوں کو اپنی UBO معلومات ایس ای سی پی کو جمع کرانا ہوں گی، جو پہلے ہی شیئر ہولڈرز سے جمع کی جا رہی ہیں۔(جاری ہے)
یہ معلومات ہر مالی سال کے لیے، جو 30 جون 2025 کو یا اس کے بعد ختم ہو رہا ہو، ایس ای سی پی کے ایزی فائل (eZfile) پورٹل کے ذریعے، دیگر ریگولیٹری ریٹرنز اور فارمز کے ساتھ جمع کرانا لازمی ہوگا۔
ایک بار دستیاب ہونے کے بعد، UBO ڈیٹا مالیاتی اداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے لیے ضرورت کے مطابق قابل رسائی ہوگا۔مرکزی UBO رجسٹری کا تعارف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ وسیع مشاورت کے بعد کیا گیا ہے اور یہ پاکستان کے کارپوریٹ ریگولیٹری فریم ورک کو بین الاقوامی بہترین طریقوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایس ای سی پی کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ توقع ہے کہ ایسے اقدامات ملک کے مالیاتی اور ریگولیٹری ایکو سسٹم میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مضبوط کریں گے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایس ای سی پی کے لیے
پڑھیں:
چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
چینی صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی نگرانی کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے چین خود کو تجارت کے میدان میں امریکا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ صدر شی کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے تبصرے تھے، جسے بیجنگ نے اس سال متعارف کرایا ہے، جب کہ امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ضابطے بنانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے، جو دنیا کی نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں امریکا، چین، روس اور جاپان شامل ہیں، اس سال کا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں منعقد ہوا ہے، جس پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور جارحانہ معاشی پالیسیوں (جیسے کہ امریکی محصولات اور چین کی برآمدی پابندیاں) کے سائے چھائے رہے جنہوں نے عالمی تجارت پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔
شی جن پنگ نے کہا کہ ’ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے قیام سے نظم و نسق کے اصول طے کیے جا سکتے ہیں، اور تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کو ’بین الاقوامی برادری کے لیے عوامی مفاد‘ بنایا جا سکے۔
یہ اقدام بیجنگ کو خاص طور پر تجارتی تعاون کے میدان میں واشنگٹن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، شی نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اور اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تنظیم چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کی جا سکتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سیدھا واشنگٹن واپس چلے گئے۔
دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے نتیجے میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر ہٹائی جائیں گی، جنہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔
جہاں کیلیفورنیا کی کمپنی ’این ویڈیا‘ کے جدید چپس مصنوعی ذہانت کے عروج کی بنیاد بنے ہیں، وہیں چین کی کمپنی ’ڈیپ سِیک‘ نے کم لاگت والے ماڈلز متعارف کرائے ہیں، جنہیں بیجنگ نے ’الگورتھمک خودمختاری‘ کے فروغ کے لیے اپنایا ہے۔
شی نے ایپیک کو ’گرین ٹیکنالوجی کی آزادانہ گردش‘ کو فروغ دینے پر بھی زور دیا، ایسی صنعتیں جن میں بیٹریز سے لے کر سولر پینلز تک کے شعبے شامل ہیں، اور جن پر چین کا غلبہ ہے۔
ایپیک کے رکن ممالک نے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ آبادی کے چیلنج پر معاہدے کی منظوری دی۔
چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو شینزین میں منعقد ہو گا، یہ شہر ایک بڑا صنعتی مرکز ہے، جو روبوٹکس سے لے کر برقی گاڑیوں کی تیاری تک کے میدان میں نمایاں ہے۔
شی نے کہا کہ یہ شہر، جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، جو 1980 کی دہائی میں چین کے پہلے خصوصی اقتصادی زونز میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔