شاہد حامد قتل کیس کا 28 سال بعد فیصلہ سنا دیا گیا، منہاج قاضی کو بڑا ریلیف مل گیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
انسداد دہشتگردی عدالت نے 28 سال بعد سابق ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حامد قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا،عدم شواہد کی بنا پر منہاج قاضی اور محبوب غفران کو بری کردیا گیا ہے۔
پراسیکیوشن کے مطابق مقدمے میں ملوث صولت مرزا کوعدالت نے 1999میں سزائے موت سنائی تھی، 2016 میں پولیس نے منہاج قاضی اور محبوب غفران کو گرفتار کیا تھا، صولت مرزا، منہاج قاضی اور دیگر کے خلاف ڈیفنس پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: صولت مرزا نے کبھی اعترافِ جرم نہیں کیا تھا، سزا سنانے والے جج نے مزید کیا انکشافات کیے؟
18 مارچ 2015 کو ویڈیو پیغام میں صولت مرزا نے کھا تھا کہ کس طرح انہیں استعمال کر کے ٹشو پیپرکی طرح پھینک دیا گیا، صولت مرزا نے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین پر کے ای ایس سی کے سابق سربراہ شاہد حامد کے قتل کا حکم دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
صولت مرزا نے حکام سے اپیل کی تھی کہ ان کی سزا پر عمل درآمد میں کچھ تاخیر کی جائے تاکہ وہ مزید انکشاف کرسکیں اور ان کے ’ایسے بہت سے ساتھی ہیں جو ملک کے اندر اور باہر اس بات کا اعتراف کریں گے کہ ایم کیو ایم نے ان سے کیا کروایا، وہ خوف کی وجہ سے اعتراف نہیں کرپارہے، اس بیان کے بعد ان کی سزا پر عملدر آمد روک دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وہ اعترافی بیانات جن سے براہِ راست اعلیٰ سیاسی قیادت متاثر ہوئی
پولیس کے مطابق صولت مرزا کو دسمبر 1998 میں بینکاک سے واپسی پر کراچی ایئرپورٹ پر گرفتار کیا تھا اور اُن کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ہوئی، عدالت نے 1999 میں صولت مرزا پر جرم ثابت ہونے پر انھیں پھانسی کی سزا سنائی تھی، اس سزا کے خلاف انھوں نے سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جو مسترد ہو گئیں۔
محکمہ داخلہ سندھ اور صدرِ پاکستان کے پاس اُن کی رحم کی اپیل ایک بڑے عرصے تک التوا کا شکار رہی، پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دیگر کئی اپیلوں کے ساتھ صدر پاکستان نے صولت مرزا کی بھی اپیل مسترد کردی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news انسداد دہشتگردی عدالت شاہد حامد قتل کیس کے ای ایس ای.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انسداد دہشتگردی عدالت شاہد حامد قتل کیس کے ای ایس ای صولت مرزا نے منہاج قاضی شاہد حامد کیا تھا دیا گیا
پڑھیں:
ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین
راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ کابینہ کا اجلاس یہاں نہیں کریں گے اس طرح اجلاس نہیں ہوتے، پنجاب حکومت کے بس میں کچھ نہیں وہ صرف راستہ روک سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ ملی، 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا اور عمران خان نے یہ ٹارگٹ دیا تھا۔ راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ کابینہ کا اجلاس یہاں نہیں کریں گے اس طرح اجلاس نہیں ہوتے، پنجاب حکومت کے بس میں کچھ نہیں وہ صرف راستہ روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے، 4، 5 گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کر رہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں، ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا، مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی۔ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ملاقات ہونے سے کلیئرٹی ہوتی ہے، یہ لوگ کلیئرٹی نہیں چاہتے، سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئیں، یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، ملاقات نہیں دیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں، میں چاہوں تو جیل جاسکتا ہوں لیکن جیل توڑنے سے کیا ہوگا۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پہاڑی تودے اور مٹی آئی تھی، بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا، ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے، متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے، ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، صوبے میں فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں لیکن کوئی خاطرخواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانا چاہیے تھی ،نہیں نبھائی، میں اس پر سیاست نہیں کرتا، ہمیں ان کی امداد کی ضرورت بھی نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھےاس لیے ملنے نہیں دے رہے ان کا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں، حکومت کی میں بات ہی نہیں کرتا، کیا آپ کو لگتا ہے یہ شہباز شریف کی یا مریم کی حکومت ہے، حکومت تو ان کی ہے نہیں۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے دعویٰ کیا کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ ملی، 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا اور عمران خان نے یہ ٹارگٹ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ 4 اکتوبر کو بانی پی ٹی آئی نے کہا تھا سب نے آنا ہے، 4 اکتوبر کو پشاور سے نکلا اور 5 اکتوبر کو ٹارگٹ حاصل کرکے واپس لوٹا تھا، 24 سے 26 نومبر تک لڑائی لڑنا آسان نہیں تھا، 26 نومبر کو ہمارے لوگ گولیاں کھانے نہیں آئے تھے، حکومت نے شکست تسلیم کرکے گولیاں چلائیں۔