Express News:
2025-09-18@14:53:21 GMT

صرف جمہوریت۔ورنہ کچھ نہیں

اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT

ہم جس وطن عزیز کو پاکستان کہتے ہیں، وہ ایک نظریئے ، ایک عہد اور ایک خواب کی صورت میں تعبیر ہوا۔ اس خواب کی تعبیر کو جو الفاظ عطا ہوئے وہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘ہیں۔ ان تین الفاظ میں ہماری قومی شناخت، نظریاتی بنیاد اور سیاسی منزل سموئی ہوئی ہے۔

قیامِ پاکستان کا مقصد محض جغرافیائی آزادی نہیں تھا بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جو اسلامی اقدار کی روشنی میں جمہوری اصولوں کے تحت عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے۔ جمہوریت وہ نظام ہے جو عوام کو بااختیار بناتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت ہمیشہ آزمائشوں کا شکار رہی۔سوال یہ نہیں کہ حکومت کس سیاسی پارٹی کی ہو بلکہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت سیاسی اور جمہوری ہو۔ جب بھی عدالت آئین کی بالادستی کی بات کرتی ہے یا پارلیمان آئینی حدود میں رہ کر اپنا حق مانگتی ہے تو فوراً اس پر جانبداری یا سیاسی وابستگی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اداروں کی خودمختاری اور آئین کی حکمرانی ہی کسی بھی مہذب ریاست کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔ اگر ہم ہر آئینی قدم کو سیاسی چال سمجھنے لگیں تو پھر ریاست کا وجود انتشار اور بے یقینی کی نذر ہو جائے گا۔

جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر کوئی حکومت ناکام ہو جائے تو اسے رخصت کیا جا سکتا ہے لیکن آمریت کا راستہ جب کھلتا ہے تو وہ نہ سوال کا موقع دیتی ہے نہ جواب کی گنجائش۔پاکستان کی تاریخ اس تلخ حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی جمہوریت کو سبوتاژ کیا گیا، ملک کو سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمریتوں نے قوم کو جو زخم دیے وہ آج بھی نہیں بھرے۔ آج بھی بعض مفاداتی حلقے جمہوریت کو ناکام قرار دے کر آمریت کی گود میں پناہ لینے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن شخصیات پر وہ تنقید کرتے ہیںچاہے وہ نواز شریف ہوں، شہید بینظیر بھٹویا آصف زرداری ہوں، ان سب نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ ان کی سیاسی غلطیاں اپنی جگہ مگر ان کی جمہوریت سے وابستگی اور آمریت مخالفت ان کی سب سے بڑی سیاسی پہچان ہے۔ہمیں جیسی بھی جمہوریت ملی اسی سے توانائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہماری آج کی جمہوری حکومت بھی ایک آئیڈیل جمہوری حکومت نہیں لیکن بہرحال جمہوری ہے۔

نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے جمہوریت کے گرو کہا کرتے تھے ’اگر کوئی الیکشن خراب ہو جائے تو اس کا علاج مزید الیکشن ہیں نہ کہ مارشل لا یا غیر آئینی حکومت‘ جمہوریت ہی وہ نظام ہے جس میں مسلسل انتخابی عمل سے قیادت نکھرتی ہے اور قوم اجتماعی شعور کی منازل طے کرتی ہے۔بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں بھی بہت سے مسائل ہیں مگر چونکہ جمہوریت کا تسلسل موجود ہے اس لیے وہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے ہاں کبھی فوجی مداخلت کی نوبت نہیں آئی کیونکہ ان کے ہاں جمہوریت کو محض سیاسی نظام نہیں قومی بقا کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔

اس کے برعکس ہم بار بار تجربات کی بھینٹ چڑھتے رہے اور ہر بار نقصان قوم کا ہوا۔ جمہوری معاشروں میں احتساب اداروں کا ہوتا ہے، پالیسیوں کا ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ عوام کی رائے سے ہوتا ہے مگر آمریت میں نہ رائے کی جگہ ہوتی ہے نہ رائے دہندہ کی۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے کچھ عناصر آج بھی آمریت کے مرہونِ منت ہیں۔ ان کی سیاسی تربیت مارشل لا کی نرسریوں میں ہوئی، اس لیے وہ جمہوریت کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ عوام ناسمجھ ہیں فیصلے صرف اشرافیہ کو کرنے چاہئیں۔ یہ نظریہ درحقیقت جمہوریت کی توہین ہے اور قوم کی رائے کی نفی ہے ۔

ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی خودمختاری اور عوامی رائے کے احترام کو اپنا اصول بنانا ہوگا۔ یہی وہ طریقہ ہے جو ہمیں ترقی، استحکام اور وقار کی طرف لے جا سکتا ہے۔پاکستان دولخت ہوا تو تاریخ کے ایک طالبعلم نے اپنے ہم جماعت سے کہا کہ یار چلو جغرافیہ تو آسان ہو گیا ہے، اس نے جواب دیا کہ مگر تاریخ مشکل ہوگئی ہے۔ اور واقعی اگر ہم نے تاریخ سے کچھ نہ سیکھا تو ہمارا جغرافیہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جمہوریت کو ہوتا ہے ہے اور ا مریت

پڑھیں:

اسرائیلی سفاکانہ رویہ عالمی یوم جمہوریت منانے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے، علامہ ساجد نقوی

اپنے بیان میں ایس یو سی سربراہ نے کہا کہ جمہوریت کا بنیادی اصول عوام کی حکومت عوام کے ذریعے اور عوام کیلئے ہے مگر پاکستان سمیت کئی ممالک میں یہ فقط کتابی یا دستاویزی بات تک محدود ہے، آج تک ملک میں ہونیوالے عام انتخابات زیر سوال ہی رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ عالمی یوم جمہوریت منایا جارہا ہے مگر اقوام متحدہ سمیت عالم انسانیت کے سامنے مشرق وسطیٰ میں غزہ کو روند دیا گیا، مغربی کنارے پر مظالم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، جنوبی ایشیا میں انڈیا نے جو رویہ اپنا رکھا ہے بنیادی انسانی حقوق پر جیسے ڈاکے ڈالے جارہے ہیں، افسوس اس کو صرف نظر کیا جارہا ہے، دنیا میں رائج جمہوریت دراصل سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی سسٹم ہے جس میں بہت سے ایسے عوامل ضرور ہیں جن میں ترامیم کیساتھ استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کا بنیادی اصول عوام کی حکومت عوام کے ذریعے اور عوام کیلئے ہے مگر پاکستان سمیت کئی ممالک میں یہ فقط کتابی یا دستاویزی بات تک محدود ہے، آج تک ملک میں ہونیوالے عام انتخابات زیر سوال ہی رہے ہیں، جمہوریت کے نام پر مفادات کا تحفظ تو ہوا مگر بنیادی انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے سمیت کئی مسائل آج بھی حل طلب ہیں، عالمی یوم جمہوریت منانے کا مقصد بین الاقوامی سطح پر جمہوریتوں کی حمایت کرنا اور ملکوں میں جمہوریت کے فروغ کے اقدامات کرنا ہیں جس کی ابتداء 2008ء میں ہوئی دیکھنا یہ ہوگا کہ اس سلسلہ میں عملی اقدامات ہوئے یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • 375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  • اسرائیلی سفاکانہ رویہ عالمی یوم جمہوریت منانے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے، علامہ ساجد نقوی
  • امریکی کانگریس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار پاکستانی حکام پر پابندیوں کا بل
  • امریکہ: پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا بل متعارف
  • خاموشی ‘نہیں اتحاد کٹہرے میں لانا ہوگا : اسرائیل  کیخلاف اقدامات ورنہ تاریخ معاف نہیں کریگی : وزیراعظم 
  • جمہوریت عوام کی آواز ہے اور اس کی حفاظت ہم سب پر لازم ہے‘وزیراعلیٰ