ہم جس وطن عزیز کو پاکستان کہتے ہیں، وہ ایک نظریئے ، ایک عہد اور ایک خواب کی صورت میں تعبیر ہوا۔ اس خواب کی تعبیر کو جو الفاظ عطا ہوئے وہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘ہیں۔ ان تین الفاظ میں ہماری قومی شناخت، نظریاتی بنیاد اور سیاسی منزل سموئی ہوئی ہے۔
قیامِ پاکستان کا مقصد محض جغرافیائی آزادی نہیں تھا بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جو اسلامی اقدار کی روشنی میں جمہوری اصولوں کے تحت عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے۔ جمہوریت وہ نظام ہے جو عوام کو بااختیار بناتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت ہمیشہ آزمائشوں کا شکار رہی۔سوال یہ نہیں کہ حکومت کس سیاسی پارٹی کی ہو بلکہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت سیاسی اور جمہوری ہو۔ جب بھی عدالت آئین کی بالادستی کی بات کرتی ہے یا پارلیمان آئینی حدود میں رہ کر اپنا حق مانگتی ہے تو فوراً اس پر جانبداری یا سیاسی وابستگی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اداروں کی خودمختاری اور آئین کی حکمرانی ہی کسی بھی مہذب ریاست کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔ اگر ہم ہر آئینی قدم کو سیاسی چال سمجھنے لگیں تو پھر ریاست کا وجود انتشار اور بے یقینی کی نذر ہو جائے گا۔
جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر کوئی حکومت ناکام ہو جائے تو اسے رخصت کیا جا سکتا ہے لیکن آمریت کا راستہ جب کھلتا ہے تو وہ نہ سوال کا موقع دیتی ہے نہ جواب کی گنجائش۔پاکستان کی تاریخ اس تلخ حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی جمہوریت کو سبوتاژ کیا گیا، ملک کو سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمریتوں نے قوم کو جو زخم دیے وہ آج بھی نہیں بھرے۔ آج بھی بعض مفاداتی حلقے جمہوریت کو ناکام قرار دے کر آمریت کی گود میں پناہ لینے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن شخصیات پر وہ تنقید کرتے ہیںچاہے وہ نواز شریف ہوں، شہید بینظیر بھٹویا آصف زرداری ہوں، ان سب نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ ان کی سیاسی غلطیاں اپنی جگہ مگر ان کی جمہوریت سے وابستگی اور آمریت مخالفت ان کی سب سے بڑی سیاسی پہچان ہے۔ہمیں جیسی بھی جمہوریت ملی اسی سے توانائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہماری آج کی جمہوری حکومت بھی ایک آئیڈیل جمہوری حکومت نہیں لیکن بہرحال جمہوری ہے۔
نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے جمہوریت کے گرو کہا کرتے تھے ’اگر کوئی الیکشن خراب ہو جائے تو اس کا علاج مزید الیکشن ہیں نہ کہ مارشل لا یا غیر آئینی حکومت‘ جمہوریت ہی وہ نظام ہے جس میں مسلسل انتخابی عمل سے قیادت نکھرتی ہے اور قوم اجتماعی شعور کی منازل طے کرتی ہے۔بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں بھی بہت سے مسائل ہیں مگر چونکہ جمہوریت کا تسلسل موجود ہے اس لیے وہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے ہاں کبھی فوجی مداخلت کی نوبت نہیں آئی کیونکہ ان کے ہاں جمہوریت کو محض سیاسی نظام نہیں قومی بقا کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔
اس کے برعکس ہم بار بار تجربات کی بھینٹ چڑھتے رہے اور ہر بار نقصان قوم کا ہوا۔ جمہوری معاشروں میں احتساب اداروں کا ہوتا ہے، پالیسیوں کا ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ عوام کی رائے سے ہوتا ہے مگر آمریت میں نہ رائے کی جگہ ہوتی ہے نہ رائے دہندہ کی۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے کچھ عناصر آج بھی آمریت کے مرہونِ منت ہیں۔ ان کی سیاسی تربیت مارشل لا کی نرسریوں میں ہوئی، اس لیے وہ جمہوریت کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ عوام ناسمجھ ہیں فیصلے صرف اشرافیہ کو کرنے چاہئیں۔ یہ نظریہ درحقیقت جمہوریت کی توہین ہے اور قوم کی رائے کی نفی ہے ۔
ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی خودمختاری اور عوامی رائے کے احترام کو اپنا اصول بنانا ہوگا۔ یہی وہ طریقہ ہے جو ہمیں ترقی، استحکام اور وقار کی طرف لے جا سکتا ہے۔پاکستان دولخت ہوا تو تاریخ کے ایک طالبعلم نے اپنے ہم جماعت سے کہا کہ یار چلو جغرافیہ تو آسان ہو گیا ہے، اس نے جواب دیا کہ مگر تاریخ مشکل ہوگئی ہے۔ اور واقعی اگر ہم نے تاریخ سے کچھ نہ سیکھا تو ہمارا جغرافیہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جمہوریت کو ہوتا ہے ہے اور ا مریت
پڑھیں:
آزادصحافت جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، قاضی اشہد عباسی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-4
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما و قائد حزبِ اختلاف کنٹونمنٹ بورڈ حیدرآباد قاضی اشہد عباسی نے صحافیوں کیخلاف جرائم میں استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آزاد اور محفوظ صحافت کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے کے دوران دھمکیوں، تشدد اور حتی کہ جان کے خطرات کا سامنا رہتا ہے، جو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک امر ہے۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث عناصر کو سزاں سے استثنی حاصل ہونا انصاف کے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر صحافت کو آزاد اور محفوظ نہ بنایا گیا تو جمہوریت کمزور پڑ جائے گی اور عوام کے حقِ معلومات پر قدغن لگ جائے گی۔قاضی اشہد عباسی نے مطالبہ کیا کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے مثر قانون سازی کرے، میڈیا ورکرز کے خلاف تشدد کے ہر واقعے کی شفاف تحقیقات کرائی جائے اور ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سخت سزائیں دجائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ آزادیِ صحافت کی علمبردار رہی ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر شہید محترمہ بینظیر بھٹو تک، پارٹی قیادت نے ہمیشہ میڈیا کے احترام اور آزادی کے تحفظ کے لیے قربانیاں دیں۔آخر میں قاضی اشہد عباسی نے تمام صحافیوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ سچ لکھنے اور سچ بولنے والوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہی اصل جمہوری جدوجہد ہے۔