Express News:
2025-07-30@10:08:27 GMT

صرف جمہوریت۔ورنہ کچھ نہیں

اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT

ہم جس وطن عزیز کو پاکستان کہتے ہیں، وہ ایک نظریئے ، ایک عہد اور ایک خواب کی صورت میں تعبیر ہوا۔ اس خواب کی تعبیر کو جو الفاظ عطا ہوئے وہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘ہیں۔ ان تین الفاظ میں ہماری قومی شناخت، نظریاتی بنیاد اور سیاسی منزل سموئی ہوئی ہے۔

قیامِ پاکستان کا مقصد محض جغرافیائی آزادی نہیں تھا بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جو اسلامی اقدار کی روشنی میں جمہوری اصولوں کے تحت عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے۔ جمہوریت وہ نظام ہے جو عوام کو بااختیار بناتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت ہمیشہ آزمائشوں کا شکار رہی۔سوال یہ نہیں کہ حکومت کس سیاسی پارٹی کی ہو بلکہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت سیاسی اور جمہوری ہو۔ جب بھی عدالت آئین کی بالادستی کی بات کرتی ہے یا پارلیمان آئینی حدود میں رہ کر اپنا حق مانگتی ہے تو فوراً اس پر جانبداری یا سیاسی وابستگی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اداروں کی خودمختاری اور آئین کی حکمرانی ہی کسی بھی مہذب ریاست کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔ اگر ہم ہر آئینی قدم کو سیاسی چال سمجھنے لگیں تو پھر ریاست کا وجود انتشار اور بے یقینی کی نذر ہو جائے گا۔

جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر کوئی حکومت ناکام ہو جائے تو اسے رخصت کیا جا سکتا ہے لیکن آمریت کا راستہ جب کھلتا ہے تو وہ نہ سوال کا موقع دیتی ہے نہ جواب کی گنجائش۔پاکستان کی تاریخ اس تلخ حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی جمہوریت کو سبوتاژ کیا گیا، ملک کو سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمریتوں نے قوم کو جو زخم دیے وہ آج بھی نہیں بھرے۔ آج بھی بعض مفاداتی حلقے جمہوریت کو ناکام قرار دے کر آمریت کی گود میں پناہ لینے کی بات کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن شخصیات پر وہ تنقید کرتے ہیںچاہے وہ نواز شریف ہوں، شہید بینظیر بھٹویا آصف زرداری ہوں، ان سب نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ ان کی سیاسی غلطیاں اپنی جگہ مگر ان کی جمہوریت سے وابستگی اور آمریت مخالفت ان کی سب سے بڑی سیاسی پہچان ہے۔ہمیں جیسی بھی جمہوریت ملی اسی سے توانائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہماری آج کی جمہوری حکومت بھی ایک آئیڈیل جمہوری حکومت نہیں لیکن بہرحال جمہوری ہے۔

نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے جمہوریت کے گرو کہا کرتے تھے ’اگر کوئی الیکشن خراب ہو جائے تو اس کا علاج مزید الیکشن ہیں نہ کہ مارشل لا یا غیر آئینی حکومت‘ جمہوریت ہی وہ نظام ہے جس میں مسلسل انتخابی عمل سے قیادت نکھرتی ہے اور قوم اجتماعی شعور کی منازل طے کرتی ہے۔بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں بھی بہت سے مسائل ہیں مگر چونکہ جمہوریت کا تسلسل موجود ہے اس لیے وہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے ہاں کبھی فوجی مداخلت کی نوبت نہیں آئی کیونکہ ان کے ہاں جمہوریت کو محض سیاسی نظام نہیں قومی بقا کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔

اس کے برعکس ہم بار بار تجربات کی بھینٹ چڑھتے رہے اور ہر بار نقصان قوم کا ہوا۔ جمہوری معاشروں میں احتساب اداروں کا ہوتا ہے، پالیسیوں کا ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ عوام کی رائے سے ہوتا ہے مگر آمریت میں نہ رائے کی جگہ ہوتی ہے نہ رائے دہندہ کی۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے کچھ عناصر آج بھی آمریت کے مرہونِ منت ہیں۔ ان کی سیاسی تربیت مارشل لا کی نرسریوں میں ہوئی، اس لیے وہ جمہوریت کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ عوام ناسمجھ ہیں فیصلے صرف اشرافیہ کو کرنے چاہئیں۔ یہ نظریہ درحقیقت جمہوریت کی توہین ہے اور قوم کی رائے کی نفی ہے ۔

ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں آئین کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی خودمختاری اور عوامی رائے کے احترام کو اپنا اصول بنانا ہوگا۔ یہی وہ طریقہ ہے جو ہمیں ترقی، استحکام اور وقار کی طرف لے جا سکتا ہے۔پاکستان دولخت ہوا تو تاریخ کے ایک طالبعلم نے اپنے ہم جماعت سے کہا کہ یار چلو جغرافیہ تو آسان ہو گیا ہے، اس نے جواب دیا کہ مگر تاریخ مشکل ہوگئی ہے۔ اور واقعی اگر ہم نے تاریخ سے کچھ نہ سیکھا تو ہمارا جغرافیہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جمہوریت کو ہوتا ہے ہے اور ا مریت

پڑھیں:

موجودہ عدالتی طرزِ عمل جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے، عمر ایوب کا چیف جسٹس کو خط

اسلام آباد:

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے درخواست کی ہے کہ عدلیہ کو ظلم کے خلاف ڈھال بننا ہوگا اور انصاف نظر آنا چاہیے، موجودہ عدالتی طرز عمل پاکستان کے جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط میں لکھا ہے کہ 9 مئی کے مقدمات انصاف کے بجائے سیاسی انتقام کا شکار ہو چکے ہیں، عدالتی کارروائیاں بدنیتی، جلد بازی اور دباؤ کے تحت کی جا رہی ہیں۔

عمر ایوب نے کہا کہ ملک میں آئین اور عالمی قوانین پامال ہو رہے ہیں، جھوٹے مقدمات، زبردستی اعتراف اور سیاسی انتقام کی فضا عدلیہ کی ساکھ کو تباہ کر رہی ہے، عدلیہ کو ظلم کے خلاف ڈھال بننا ہوگا اور انصاف نظر آنا چاہیے۔

قومی اسمبلی مں قائد حزب اختلاف نے چیف جسٹس سے 6 نکاتی اصلاحاتی اقدامات پر فوری عمل درآمد کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ موجودہ عدالتی طرزِ عمل پاکستان کے جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔

خط میں لکھا ہے کہ 9 مئی مقدمات میں انصاف کا خون ہو رہا ہے، انسداد دہشت گردی عدالتوں کی رات گئے کارروائیاں منصفانہ ٹرائل کی نفی ہیں، ملزمان کو وکیل صفائی کے حق سے محروم کرنا آئینی خلاف ورزی ہے۔

عمر ایوب خان نے کہا کہ میڈیا کو مقدمات تک رسائی نہ دینا شفافیت کے تقاضوں کی خلاف ورزی ہے، عدلیہ کا کام ظلم کا ہتھیار نہیں بلکہ انصاف کی بحالی ہے، پولیس اور پراسیکیوشن کی بے ضابطگیوں کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ ناگزیر ہے، عدالتیں تاریخ کے کٹہرے میں ہیں، فیصلہ قوم کی آنکھوں کے سامنے ہو گا۔

چیف جسٹس کو ارسال کردہ خط میں انہوں نے کہا ہے کہ PLD 1975 SC 234 اور 2012 SC 553 فیصلے عدل کی بنیاد واضح کرتے ہیں، انصاف صرف ہونا نہیں، نظر آنا بھی ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چیلنج ہے سیاسی و جمہوری طریقے سے حکومت گرا کر دکھاؤ: گنڈا پور
  • عمران خان کے بیٹوں کا پاکستان آنا ڈرامہ تھا، خواجہ آصف کا ردعمل
  • کرپٹو سٹوری میں عثمان شامی نے علی ڈار کا نام لے کر تفصیل بیان کی ہے، اسحاق ڈار کے خلاف ضرور کچھ ہونے والا ہے ورنہ ان لوگوں کا نام لے کر ٹی وی پر  خبر دینے کی اجازت نہیں تھی  ، شہباز گل
  • جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار ختم ہو تو وہ شہنشاہت ہے، بیرسٹر گوہر
  • موجودہ عدالتی طرزِ عمل جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے، عمر ایوب کا چیف جسٹس کو خط
  • چیلنج ہے سیاسی اور جمہوری طریقے سے ہماری حکومت گرا کر دکھائو، علی امین گنڈاپور
  • عدم اعتماد ہمارا جمہوری حق ہے، اب ہم پختونخوا میں عدم اعتماد کرکے دکھائیں گے:گورنر کے پی
  • بلوچستان لانگ مارچ روکنا حالات خراب کرنے کی کوشش ہے ،حافظ نعیم الرحمن
  • موضوع: پاکستان کی تازہ ترین سیاسی صورتحال