عدالتی فلاح و بہبود کے بین الاقوامی دن کے موقع کی مناسبت سے منعقدہ نیشنل سمپوزیم کے شرکاسے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت کے استعمال اور دو شفٹوں میں کام پر غور کر رہے ہیں، بطور چیف جسٹس آزاد، غیر جانبدار، ایماندار جوڈیشل افسران کے ساتھ کھڑا ہوں، میرا خواب ہے سائلین اس اعتماد کے ساتھ عدالتوں میں آئیں کہ انصاف ملے گا،انہوں نے عدالتی اصلاحات کو انسانی بنیادوں پر استوار کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے ضلعی سطح پر ججوں کو درپیش جذباتی، نفسیاتی اور ادارہ جاتی دباؤ کو تسلیم کرنے کی اہمیت اجاگر کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا جج جسے ادارہ جاتی حمایت حاصل ہو، زیادہ منصف، توجہ مرکوز رکھنے والا اور موثر انداز میں انصاف فراہم کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ انہوں نے عدلیہ کی عزت، تحفظ اور ادارہ جاتی معاونت کی فراہمی کے عزم کا اعادہ کیا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ملک میں عدالتیں بظاہرکمزور، ادارے جانبدار، اورآئین بے بس نظر آنے لگا ہے، پاکستان کے آئین کو 26ویں ترمیم کے بعد ایک موم کی ناک بنا دیا گیا ہے۔ آئین میں اس قدر تبدیلیاں کی جا رہی ہیں کہ طاقتور حلقے جو چاہیں، جب چاہیں، جیسے چاہیں، کر سکیں، آئین اور قانون محض کتابی الفاظ بن چکے ہیں۔ جو جج فیصلے سنانے کے فرائض انجام دیتے تھے، وہ خود اسی نظام کے بینیفشری بن چکے ہیں۔ جو ادارے انصاف کے رکھوالے ہونے چاہئیں، وہی بے بس نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان آج ایک ایسے بحران میں پھنسا ہوا ہے جہاں عوام میں اضطراب اور عدالتی فیصلوں پر عدم اعتماد بڑھتاجارہاہے، مہنگائی کا طوفان، بیروزگاری کی بلند شرح، اور امن و امان کی دگرگوں حالت نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ عوام کے ذہن میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کیلئے ہمارے آبا و اجداد نے قربانیاں دی تھیں۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر ملک کو اس گرداب سے نکالنا ہے تو ہمیں حقائق کا سامنا کرنا ہوگا۔فی الوقت صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ جب ایک معزز جج سے سوال کیاگیاکہ کیا عدالتیں کسی ادارے کے دباؤ میں آتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں، جج بھی عام آدمی ہوتے ہیں، ان کے پاس کیا طاقت ہوتی ہے؟یہ جملہ پاکستان کی عدلیہ کے موجودہ حالات پر ایک کھلا تبصرہ ہے۔جب قانون کسی خاص طبقے کیلئے بنایا جائے اور عدالتیں مخصوص طاقتور مفادات کا تحفظ کریں، تو انصاف کا جنازہ نکل جاتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ جب قانون ہی اس طرح تشکیل پا چکا ہے کہ فیصلے ہمیشہ طاقتوروں کے حق میں ہوں، تو پھر اپیل کس سے کی جائے؟ جب وہی جج جو اس کرپٹ نظام کا حصہ ہیں، جنہیں اسی قانون کے ذریعے عہدے دیے گئے ہوں، وہ کیسے غیرجانبدار فیصلے کر سکتے ہیں۔یہ ایک ایسا گھن چکر ہے جس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ بچتا ہے، وہ ہے انقلاب کا۔پاکستان کی سیاست میں ایک نیا منظرنامہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وہ لوگ جو کبھی ایک دوسرے کو بدعنوان اور ملک دشمن کہہ کر جھٹلایا کرتے تھے، آج ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں۔ وہ تمام کردار جو ایک دوسرے کے خلاف بلند آواز میں تنقید کرتے اور ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑکر سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے رہے، اب کرسی کی بقا کیلئے ایک دوسرے کے اتحادی بن چکے ہیں۔مختلف سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں اقتدار کی بقا کے لیے اکٹھے ہو گئی ہیں ظاہرہے کہ ان کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ ہے۔
یہی وہ صورت حال جس کے پیش نظر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن کیانی نے گزشتہ دنوں فیڈرل پبلک سروس کمشن کو سی ایس ایس کے نتائج جاری کرنے سے پہلے نئے امتحانات سے روکنے کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ عدلیہ، پارلیمنٹ، ایگزیکٹو سب زمین بوس ہو چکے ہیں، اب امیدیں صرف نوجوان نسل سے ہیں۔پاکستان میں ریاستی اداروں کے درمیان اختیارات کی کشمکش کوئی نئی بات نہیں، لیکن جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے ریمارکس میں عدلیہ، ارکان پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی بے بسی اورایک طبقے کی بالادستی اور من مانیوں کی وجہ سے اداروں کی زبوں حالی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک سنگین حقیقت کی نشاندہی کی تھی۔ ان کا یہ کہنا حقیقت حال کے عین مطابق ہے کہ، موجودہ نظام سے امیدیں وابستہ کرنا مشکل ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن کیانی نے ہمارے نظام کی جس حالت کا ذکر ہے وہ ہمارے ملک کے کسی بھی ایک ادارے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ صورتحال ہمارے پورے ادارہ جاتی نظام کی خرابیوں کو عیاں کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے، چاہے وہ عدلیہ ہو، مقننہ ہو یا انتظامیہ، سب ہی مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔جس کی وجہ سے سرکاری اداروں پر عوامی اعتماد میں نہ صرف یہ کہ کمی آئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اثر و رسوخ، اور اختیارات کی حدود میں مداخلت جیسے مسائل نے نظام کو متاثر کر رکھا ہے۔ ہر ادارہ اپنی برتری ثابت کرنے میں مصروف ہے، جبکہ آئینی اصولوں اور ریاستی امور کی بہتری پر کم ہی توجہ دی جا رہی ہے جس کا اندازہ پارلیمنٹ میں5 منٹ کے اندر کئی کئی بلوں کی منظوری کے عمل سے لگایاجاسکتاہے۔اس ادارہ جاتی تصادم کی بڑی وجہ آئین کی عدم پیروی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق پارلیمنٹ قانون سازی
کا اختیار رکھتی ہے، جو اسے عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔عدلیہ کا کام آئین و قانون کی تشریح اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے، تاکہ لوگوں کو انصاف فراہم کیا جا سکے۔انتظامیہ کو پالیسیاں نافذ کرنے اور عوامی فلاح و بہبود کے اقدامات کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ لیکن جب یہ ادارے ایک دوسرے کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرتے ہیں یا اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہیں، تو ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔اس امر میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پارلیمنٹ کی با؛ادستی کا احترام ضروری ہے، لیکن عدلیہ کی خودمختاری اور ایگزیکٹو کی فعالیت بھی اتنی ہی اہم ہے۔ اداروں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آئین ہی سب سے بڑی اتھارٹی ہے۔ جب تک تمام ریاستی ادارے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام نہیں کریں گے، تب تک یہ چپقلش جاری رہے گی۔اس صورت حال کو تبدیل کرنے اور سرکاری اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے ہر ادارے کو اپنی اصلاح خود کرنی ہوگی۔
اب دیر توبہت ہوچکی ہے مگر کبھی بہتری کی کوششیں شروع کرنے کے حوالے سے کبھی دیر نہیں ہوتی۔ ایک قانونی عدالتی ادارے کا اپنے خودمختاری کو برقرار رکھنے اور انتظامی دباؤ میں نہ آنے کا فیصلہ انتہائی خوش آئند ہے۔ انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ وہ ہوتا نظر آئے، خاص طور پر اس وقت جب حالات کشیدہ ہوں اور عدالتیں اور عدالتی افسران ایک الجھے ہوئے مقام پر ہوں، جیسا کہ 26ویں ترمیم کے بعد ہوا جس نے آئینی وقار کو کمزور کر دیا تھا۔قومی عدالتی (پالیسی سازی) کمیٹی (این جے پی ایم سی) نے اپنی 53ویں میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا کہ ایسے طریقہ کار وضع کیے جائیں جن سے عدالتی عمل کی روانی میں رکاوٹ بننے والے مسائل کی رپورٹنگ، تحقیقات اور ان کا حل ممکن ہو سکے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عدلیہ کمزور رہی ہے اور مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ ریاست کے دیگر اداروں کی مداخلت نے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔یہ حقیقت کہ چیف جسٹس کی زیر صدارت اعلیٰ ادارے نے اب یہ واضح کردیا ہے کہ عدلیہ انسانی حقوق کے تحفظ کے اپنے آئینی فرض سے سمجھوتہ نہیں کرے گی، لیکن اس پر عمل کرنا ضروری ہے ماور اب عدلیہ کی کارکردگی، فیصلوں اور نفاذ میں نمایاں تبدیلی دیکھی جانی چاہیے۔ اسی طرح، نظام کو جدید خطوط پر اپ گریڈ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال، شہری مرکزیت پر مبنی انصاف کی فراہمی کے معاملات کافی عرصے سے عدلیہ کے زیر نظر ہیں ،دراصل سیاسی اتار چڑھاؤ نے عدلیہ کی خودمختاری کا امتحان لیا ہے۔ متعدد عوامی مفاد کی درخواستیں، بشمول 2024 کے عام انتخابات، سول و عسکری الجھن اور زبردستی منظور شدہ قوانین، ابھی تک انصاف کے دروازے تک نہیں پہنچ سکیں۔ یہ ذمہ داری مقدس عدالتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ آئین کے تقاضوں کے تحت موقف اختیار کریں اور انصاف فراہم کریں، چاہے اس کے سماجی یا سیاسی نتائج کچھ بھی ہوں۔
وطن عزیز میں آج ہر ایک خواہ وہ امیر ہویا غریب بے چین اور مضطرب نظر آتاہے اور حکمرانوں کی جانب سے سب اچھا کی گردان کے باوجود ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی بے چینی اور مایوسی میں اضافہ ہو رہاہے۔آئینی و سیاسی بحران گہرا ہو رہا ہے لیکن ہمارے حکمراں اور سب اچھا کی رپورٹیں تیار کرنے والے ان کے مصاحبین یہ احساس کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ جہاز آئس برگ سے ٹکرانے کے بعد ڈوب رہاہے۔ جہاز کے مسافر لائف بوٹ سے محروم ہونے کی بنا پر چیخ و پکار کر رہے ہیں تاہم ان کی صدائیں حکمرانوں کے کانوں سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہیں۔ہمارے حکمراں غربت، افلاس ،بھوک، کرپشن، سماجی ناہمواری اور نا انصافی کی شکایات ماننے سے انکاری ہیں۔ فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ معیشت کاپہیہ جام ہے۔ حکمرانوں کے دعووں کے برعکس افراط زر خوفناک حد تک بڑھ چکاہے ہر ضروری شے کی قیمت عوام کی قوت خرید نگل چکی ہے۔ طالب علموں اور نوجوانوں کو وطن عزیز میں کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔ لیکن ہمارے حکمراں اس کے اسباب دور کرنے کے بجائے ملکی ترقی اور اپنی کامیابیوں کے ترانے گارہے ہیں،اس سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ، مسائل کے حل میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کا فیصلہ یہی صورت حال دیکھ کرکیاتھا اس وقت قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں اور پاک فوج کے سربراہ تن تنہا ان خطرات کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں جبکہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت ذاتی مفادات کے حصول میں سرگرداں نظر آتی ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ موجودہ حاکمیت کا نظام عوام کے مسائل حل کرنے میں مکمل ناکام ہے۔قیام پاکستان کے وقت ملک کے مشرقی بازو سمیت اس پوری نوزائیدہ ریاست کی آبادی تقریبا7 کروڑ تھی جو سقوط ڈھاکہ کے بعد اب 2025میں بڑھ کر اب تقریبا 25 کروڑ ہوچکی ہے۔ گورننس کا موجودہ نظام جو پاکستان میں رائج ہے اس کی ابتدا 1803سے 1857کے درمیان ترتیب پانا شروع ہوئی تھی۔موجودہ پاکستان کے علاقوں اور پوری دنیا میں بہت تبدیلیاں آچکی ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے بعد دنیا بھر میں نہ صرف امریکہ،یورپ اور آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ملکوں بلکہ ترقی پذیر ملکوں کوبھی آبادی کے بے تحاشہ اضافے کے باعث شدید مشکلات اور مسائل درپیش ہیں ،ان مسائل اور چیلنجزسے انتظامی اختیارات اور مالی وسائل کی درجہ بدرجہ صوبائی،ضلعی،اور شہری حکومتوں اور بلدیاتی اداروں تک منتقلی کے اصول’ طریقہ کار اور شہری و دیہی علاقوں کے انتظامی معاملات کے نئے اور بہتر گورننس کے ذیعے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ہمارے ارباب اختیار اب بھی اپنی خو بدلنے کو تیار نظر نہیں آتے۔
عوامی مسائل کے حل کے لیئے حاکمیت کے نظام اور ریاستی انتظام میں عام لوگوں کی وسیع تر شرکت ضروری ہے تاکہ مرکز سے صوبوں اور صوبوں سے ضلعوں اور شہروں تک حاکمیت اور انتظامی اختیارات منتقل کیے جاسکیں۔اس صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اداروں کے درمیان ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کو فروغ دیا جائے ۔اداروں خاص طورپر عدلیہ میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ کیا جائے تاک ہمارے ادارے آزادانہ اور موثر طریقے سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ اگر ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے اور آئین کو حرفِ آخر سمجھے، تو یہ مسائل خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ قومی مفاہمت کا راستہ حاکمیت کے نئے نظام میں ڈھونڈا جاسکتاہے۔ قومی سلامتی کی خاطر نئے نظام کی طرف بڑھنے کا یہ بہترین وقت ہے کیونکہ عالمی سیاست بھی کروٹ لے رہی ہے۔ عالمی سیاست امریکہ اور یورپ سے ایشیا کی طرف منتقل ہورہی ہے اور یہ بات یقینی نظر آرہی ہے کہ اب بہت جلد عالمی سیاست کا مرکزو محور چین ہوگا۔ مغرب سے مشرق کی جانب سیاست کی منتقلی کا احساس کرتے ہوئے اگر ہم نے خود کو تبدیل نہ کیا تو خدانخواستہ وطن عزیز کسی سانحہ سے دوچار ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ایک دوسرے کے نظر آتے ہیں اور عدالتی پاکستان کے ادارہ جاتی عدلیہ کی صورت حال انہوں نے یہ ہے کہ کرنے کے چکے ہیں کرنے کی رہے ہیں کے ساتھ رہی ہے کے بعد اور ان
پڑھیں:
عمران خان کی رہائی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اور نہ ہی اس کے بیٹے پاکستان آئیں گئے: ڈاکٹر انیس کنول
مدینہ منورہ۔( نمائندہ نوائے وقت) عمران خان کی رہائی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اور نہ ہی اس کے بیٹے قاسم اور سلیمان پاکستان آئیں گئے۔ عمران خان کی رہائی کی کنجی صرف میاں نواز شریف کے پاس ہے وہیں سے دروازہ کھل سکتا ہے۔ ان کی یاترہ کا دائرہ امریکہ تک محدود تھا، جمائما کو خوف ہے کہ بچوں کی پھوپھو علیمہ اور بشری بی بی کا گروپ پارٹی کو ہائی جیک کر چکا ہے۔عمران خان کو بطور قیدی تحریک انصاف کے وکلا ونگ سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ عمران خان کے جرم ایسے گھناونے ہیں جن سے عمران خان رہائی کی بجائے قوم سے جدائی پر مینج ہوں گئے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر انیس کنول صدر مسلم لیگ ن سعودی عرب شعبہ خواتین نے کیا انہوں نے مزید کہا کہ 05 اگست کی تاریخ کے اعلان سے پہلے کئی یوتھی پنچھی ممبر قومی اسمبلی ہجرت کر جائیں گئے 09 مئی کے کیس میں عمران خان پر آرٹیکل 06 کا اطلاق ہوگا سب کچھ اسی کی مشاورت اور منشا اور ہدایات پر جنرل فیض حمید سے ملکر ہوا۔ بہکائے اور بلاوے میں آئے ہوئے یوتھی 2 سے 10 سال سزا بھگتیں گئے۔ اب انصاف قانوں کی حکمرانی ہوگی۔ موجودہ حکومتکی معیشت ، صنعت، تعلیم و صحت پہلی ترجیج ہے۔ خارجہ پالیسی اپنی بلندیوں پر ہے اور ملک کے شعبے ترقی پذیر ہے مہنگائی کو مزید کم کرنے پر حکومت متفق ہے۔